قصص الحمرا
صفحہ ۔۔۔ 41
سند ملتے ہی مینول کی شادی غزال چشم حسینہ سے ہو جائے گی۔
خاتون انطونیہ میری ہر طرح کی آسائش کا پورا اہتمام کرتی ہیں اور جو سادہ غذا مجھے اس اہتمام کی بدولت ملتی ہے میں اس سے بےحد مطمئن ہوں۔ خصوصاً اس لئے کہ خوش شمائل اور خوش خصلت ڈولرس کھانے کے وقت میرے پاس م وجود رہتی ہے اور صبح شام میرے کمرے کی صفائی بھی کرتی ہے۔ ایک دراز قامت نوجوان جس کے باز زرد رنگ کے ہیں اور جو ہکلا ہکلا کر باتیں کرتا ہے، میری ٹہل خدمت پر مامور ہے۔ اس کا نام پپی ہے۔ پپی کا اصل کام باغ کی دیکھ بھال کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ اس کا دوسرا کام میرے احکام کی تعمیل ہے۔ حالانکہ اسے ان احکام کی تعمیل کا موقع مشکل ہی سےکبھی ملتا ہے اس لئے کہ موتیو اکسیمن "فرزندِ الحمرا" نے یہ خدمت خودبخود اپنے ذمے لے لی ہے اور اس دن کے بعد سے جب الحمرا کے پھاٹک پر میری اس کی پہلی ملاقات ہوئی اس نے بیک وقت خادم، رہنما، مشیر اور محافظ کے منصب اختیار کر کے مجھے ہر بار سے سبکدوش کر دیا ہے۔ ان بہت سی خدمات کے عوض میں نے صرف اتنا کیا ہے کہ اسے اس کے بوسیدہ لبادے سے سبکدوش کر کے اسے ہسپانوی طرز کا ایک ہیٹ اور جیکٹ خرید دی ہے۔ موتیو کا یہ نسبتاً معزز لباس اس کے لئے وجہِ سکون اور اس کے ہم سِنوں کے لئے باعث ِ رشک ہے۔ موتیو میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ اس کا واحد عیب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ کارآمد اور کارگزار بننے کی کوشش کرات ہے۔ اسے اس بات کا شدید احساس ہے کہ میری خدمت کے مختلف عہدوں اور منصبوں پر اس نے اپنے آپ کو خود ہی مامور کیا ہے اس لئے وہ ہمہ وقت اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مفید ثابت کرنے کے منصوبے بناتا اور ان پر عمل کرتا رہتا ہے اور اس طرح میں گویا اس کے حاکمانہ جذبۂ خدمت گزاری کا شکار بن کر رہ گیا ہوں۔ میں محض چہل قدمی کے خیال سے کبھی قصر کے اطراف میں جا نکلتا ہوں تو میرا یہ مستعد رہنما فوراً میری خدمت میں آ موجود ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی دیکھوں اس کی توضیح و تشریح کرتا رہے۔ اور جب کبھی میرا جی چاہا ہے کہ گرد و پیش کی پہاڑیوں پر ہوا خوری کروں تو وہ محافظ کی حیثیت سے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کرتا ہے۔ حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اگر خدانخواستہ مجھے کسی قسم کا خطرہ درپیش ہو تو وہ اپنے مضبوط بازوؤں کے بجائے اپنی لمبی ٹانگوں سے کام لے کر زیادہ خوش اور مطمئن ہو گا۔ ان کمزوریوں کے باوجود موتیو ایک دلچسپ ساتھی ہے۔ وہ طبعاً سادہ اور حد درجہ خوش مزاج ہے۔ دیہاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 42
نائیوں کی طرح اسے آس پاس کے لوگوں کے متعلق ہر طرح کی بری بھلی باتیں معلوم ہیں اور اس میں ان باتوں کو مزے لے لے کر بیان کرنے کا پورا سلیقہ ہے۔ لیکن جس بات پر خود اسے فخر ہے وہ قلعے اور اس کے گرد و نواح کے متعلق معلومات کا وہ ذخیرہ ہے جو اس کے سینےمیں محفوظ ہے۔ قلعے کے ہر برج و مینار اور ہر در و دیوار کے متعلق اس کے پاس بےشمار عجیب و غریب داستانیں محفوظ ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی صداقت پر اسے پورا ایمان ہے۔
داستانوں کا یہ ذخیرہ خود اس کےبیان کے مطابق اسے اس کے دادا سے ورثہ میں ملا ہے۔ اس کا دادا درزی تھا۔ اس نے سو برس کی عمر پائی اور اس مدت میں صرف دو مرتبہ قلعہ کے حد سے باہر نکلا۔ اس گزری ہوئی صدی کے اس بڑے حصے میں اس کی دکان داستانوں اور افسانوں کا مرکز رہی۔ لوگ یہاں جمع ہوتے اور آدھی رات تک بیٹھے قلعے کی گزری ہوئی زندگی کے حیرت انگیز افسانے سناتے اور پوشیدہ راز افشا کرتے۔ اس پستہ قامت تاریخی درزی کا فکر و عمل اور اس کے حرکات و سکنات قلعے کی دیواروں تک محصور و محدود تھے۔ وہ انہیں کے زیر سایہ پیدا ہوا، پلا برھا اور جیا۔ اس کے ہر نفس پر، اس کی پوری ہستی پر ان کا سایہ تھا۔ انہیں کے سائے میں اس نے موت کو لبیک کہا اور یہیں خاک میں دفن ہوا۔ لیکن آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی سے اس کی طلسمی داستانیں اس کے ساتھ دفن نہیں ہوئیں۔ معتبر اور مستند ماتیو بچپن ہی سے اپنے دادا کی زبان سے یہ طلسمی داستانیں سنتا اور دکان میں سنے ہوئے افسانوں کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا۔ اس طرح اس کا سینہ الحمرا کے متعلق ایسی بےشمار معلومات اور افسانوں کا بیش بہا خزینہ بن گیا جو کسی کتاب میں درج نہیں اور اس لئے ہر متجسس اور مشتاق سیاح کے لئے اس کی ذات صدگونہ دلچسپیوں کا مرکز تھی۔
یہ ہیں میرے شاہی مسکن کے مکین۔ اور مجھے یقین ہے کہ مجھ سے پہلے جتنے بادشاہ اس کے مکین رہ چکے ہیں، ان کی خدمت بھی اس سےز یادہ وفاداری سے نہیں کی گئی ہو گی جتنی مجھے حاسل ہے۔ میں اپنے شاہی مسکن میں بےحد مطمئن اور مسرور ہوں۔
جب میں صبح سویرے سو کر اٹھتا ہوں تو ہکلا پپی کھلے ہوئے خوش رنگ پھولوں کا ایک گلدستہ میری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 43
خدمت میں پیش کرتا ہے۔ ان پھولوں کو ڈولرس کے نازک اور باسلیقہ ہاتھ بعد میں گلدانوں میں سجا دیتے ہیں۔ میرے کھانے کے لئے نہ کوئی جگہ مخصوص ہے اور نہ وقت مقرر ہے۔ میں جب اور جہاں بیٹھ کر چاہتا ہوں کھانا کھاتا ہوں۔ کبھی شاہی ایوانوں میں، کبھی شیروں والے صحن کے کسی کُنج میں، پھولوں اور فواروں کی حسین صحبت اور ہم نشینی میں۔ میں جب گھر سے نکلتا ہوں تو موتیو جیسا رہنما مجھے پہاڑی کے پوشیدہ رومانی گوشوں اور وادی کی فرحت بخش تنہائیوں کی سیر کراتا اور وہ حیرت انگیز افسانے سناتا ہے جو ان گوشوں اور تنہائیوں سے وابستہ ہیں۔ گو دن کے بڑے حصے میں میں تنہا رہنا پسند کرتا ہوں لیکن شام کو کبھی کبھی خاتون انطونیہ کی گھریلو صحبتوں میں بیٹھ کر اپنا دل بہلاتا ہوں۔ عام طور پر یہ صحبتیں شاہی زمانے کے ایک وسیع ایوان میں منعقد ہوتی ہیں، جو خاتون انطونیہ کے لئے بیک وقت نشست گاہ، خواب گاہ اور باورچی خانے کا کام دیتا ہے۔ شاہی عہد میں اس ایوان کا شکوہ یقیناً قابلِ دید رہا ہو گا۔ لیکن اب اس ایوان کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ اب اس کے ایک کونے میں آتشدان بنوا ہوا ہے، جس کے دھوئیں نے دیواروں کا رنگ بدل دیا ہے اور پرانے نقش و نگار اس کی سیاہی میں چھپ کر رہے گئے ہیں۔ شہ نشین پر بنی ہوئی ایک کھڑکی وادی کے رخ کھلتی ہے اور وادی کی خنک ہوا اسی میں ہو کر کمرے میں آتی ہے۔ رات کی سادہ و بےتکلف صحبتوں میں میں یہیں بیٹھ کر کھانا کھاتا اور اپنے میزبانوں کی فرحت بخش گپ میں شریک ہوتا ہوں۔ اسپین کے باشندوں میں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، خواندہ ہوں یا ناخواندہ، فطرتاً یہ خوبی ہے کہ آدمی ان سے مل کر اور ان کے ساتھ بیٹھ کر خوش ہوتا ہے۔ ان کے اندازِ گفتگو اور رہن سہن میں ابتذال کا شائبہ تک نہیں۔ قدرت نے ان کی سیرتوں کو ایک خاص طرح کا وقار بخشا ہے۔
تائی انطونیہ اپنی کم علمی کے باوجود بڑی ذہین خاتون ہے اور چمکیلی آنکھوں والی ننھی ڈولرس نے گو تین چار کتابوں سے زیادہ نہیں پڑھیں لیکن اس کی شخصیت سادگی و شوخی کا بڑا دلکش مجموعہ ہے۔ کبھی کبھی اس کی بےلوث حاضر جوابی مجھے حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ مینول کبھی کبھی کوئی پرانا طربیہ پڑھ کر صحبت میں ادبی رنگ پیدا کر دیتا ہے، گو ایسے موقعوں پر کسی اور کو متاثر کرنے سے زیادہ ڈولرس کو خوش کرنے کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔ حالانکہ بیچارے مینول کے لئے ہمیشہ یہ بات بڑی دل شکن اور مایوس کن ہوتی ہے کہ طربیہ کا پہلا باب ختم ہونے سے پہلے ہی ڈولرس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 44
کو نیند آ جاتی ہے۔
تائی انطونیہ کے دوستوں اور جاننے والوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ ہے۔ اس حلقے میں آس پاس کےگھروں کے سیدھے سادے رہنے والے اور بوڑھے سپاہیوں کی بیویاں شامل ہیں۔ تائی انطونیہ کے گھر آنے والے اس کی بڑی عزت کرتے ہیں اور اپنی عقیدت اور محبت کے اظہار میں ہمیشہ تازہ تازہ خبریں اور افواہیں اس کی نذر کرتے ہیں۔ مجھے بھی بارہا یہ تازہ بہ تازہ خبریں اور نو بہ نو افواہیں سننے کا موقع ملا ہے اور ان میں مجھے مقامی باشندوں کے مزاج اور ان کے ماحول کا رنگین عکس نظر آیا ہے۔
ان خبروں اور افواہوں کی تفصیلات ہسپانیہ کے باشندوں کی مسرتوں اور ان کے غموں کی تفصیلات ہیں۔ مسرت اور غم کے اسی عکس نے انہیں دلچسپ بھی بنایا ہے اور اہم بھی۔
الحمرا کے ان ایوانوں میں میرے لئے ذرا بھی اجنبیت نہیں۔ میں نے بارہا تصور میں ان رومانوی فضاؤں کی سیر کی ہے۔ اپنے بچپن میں جب سے درائے ہڈسن کے ساحل پر بیٹھ کر میں نے غرناطہ کی جنگوں اور بنی سراج اور بنی زکریا کے باہمی تفرقوں کا حال پڑھا، غرناطہ اور اس کے اطراف سوتے جاگتے میرے خوابوں کا پس منظر بن گئے۔ تصور میں میں نے بارہا الحمرا کے ایوانوں کی سیر کی ہے اور اب میرے خوابوں کی تعبیر ی یہ ہے کہ میں الحمرا کے ایوانوں میں مکین ہوں۔ کبھی کبھی مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب محض خواب ہے۔ مجھے کسی طرح یقین نہیں آتا کہ ابی عبداللہ کا محل آج میرا محل ہے اور اس کی شہ نشین میں بیٹھا میں عہدِ شجاعت کے غرناطہ کا نظارہ کر رہا ہوں۔ میں جب مشرقی شکوہ کے ان ایوانوں میں چلتا پھرتا ہوں تو اس کے فواروں کی جھنکار اور بلبلوں کی چہکار مجھے دیوانہ بنا دیتی ہے۔ جب الحمرا کے گلابوں کی خوشبو میری ناک میں پہنچتی ہے اور جب یہاں کی فرحت بخش اور خوشگوار ہوا مجھے ایک حیاتِ تازہ کا احساس دلاتی ہے تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں آ گیا ہوں اور گداز جسم والی ننھی، معصوم اور شوخ ڈولرس اس جنت کی ایک حور ہے، جو میری مسرتوں کو دوام و کمال عطا کرنے کے لئے خلق ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 45
الحمرا کی داستانیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 46
صحنِ اسود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 47
مرمریں مجسموں کا راز
الحمرا کے ایک ویران کمرے میں کسی زمانے میں ایک پستہ قد اور زندہ دل آدمی رہتا تھا۔ اس کا نام لوپ سانچیز تھا۔ سانچیز باغ میں کام کرتا اور اپنے ہلکے پھلکے پھرتیلے جسم کے ساتھ سارے دن باغ میں ادھر ادھر پھدکتا پھرتا تھا۔ دن بھر ادھر سے ادھر کام کرتے پھرنا اور گانا، یہی اس کا مشغلہ اور معمول تھا۔ وہ ایک لحاظ سے قلعے کی روحِ رواں تھا۔ اپنا کام ختم کر چکنے کے بعد وہ باغ میں پتھر کی کسی بنچ پر بیٹھ جاتا اور اپنے ستار پر کسی نہ کسی ہسپانوی ہیرو کی تعریف میں کوئی شیریں نغمہ بجانے لگتا۔ قلعے کے بوڑھے سپاہی اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے اور اس کے نغمے سن کر خوش ہوتے۔ کبھی کبھی وہ زیادہ سریلی دھن شروع کر دیتا اور قلعے میں رہنے والی بچیاں اس دھن پر ناچنے لگتیں۔
سب پستہ قد آمیوں کی طرح لوپ کی بیوی بھی ایک موٹی تازی اور بھدی سی عورت تھی۔ وہ چاہتی تو لوپ کو اپنے دامن کے گھیر میں چھپا لیتی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ لوپ غریب ہونے کےباوجود ایک بات میں غریبوں سے مختلف تھا۔ دس اولادوں کے بجائے اس کے صرف ایک اولاد تھی۔ یہ اولاد کوئی بارہ برس کی ننھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 48
سنچکا تھی۔ سنچکا کی آنکھیں سیاہ تھیں۔ وہ بھی لوپ کی طرح ہنس مکھ اور خوش مزاج اور اپنے باپ کی بےحد چہیتی تھی۔ لوپ باغ میں کام کرتا تو وہ اس کے قریب ہی کھیلتی پھرتی۔ وہ کام سے فارغ ہو کر ستار بجاتا تو وہ اس کی دھن پر ناچتی اور الحمرا کے کُنجوں، روشوں اور ویران ایوانوں میں ہرنی کی طرح دوڑتی پھرتی۔
آج سینٹ جان کے تہوار کی شام تھی اور الحمرا کے تفریح پسند مرد، عورتیں اور بچے تہوار منانے کے لئے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے۔ چاندنی رات تھی اور پہاڑوں کا دامن نکھری ہوئی روپہلی چاندنی سے مالا مال تھا۔ شہر کے برج و مینار پہاڑوں کے سائے میں محوِ استراحت تھے۔ غرناطہ کی سرزمین اس دھوپ چھاؤں کے کھیل میں پرستان معلوم ہو رہی تھی، اور سایہ دار کُنجوں میں سے جھانکتے ہوئےچشمے اندھیرے میں اجالا پھیلا رہے تھے۔ پہاڑ کی سب سے اونچی چوتی پر، پرانی رسم کے مطابق لوگوں نے ایک لاؤ روشن کیا تھا۔ پہاڑ کے دامن کی چھوتی چھوٹی میدانی بستیوں میں بھی اسی طرح کے الاؤ جل رہے تھے اور چاندنی کے رنگ میں ہر طرف آگ کی زرد روشنی سونے کا رنگ گھول رہی تھی۔
لوپ سانچیز جو تہواروں اور جشنوں کے موقعے پر معمول سے زیادہ مگن ہوتا تھا، سرخوشی میں اپنا ستار بجا رہا تھا اور لڑکیاں ستار کی دھن پر رقص کر رہی تھیں۔ ناچ ہو رہا تھا کہ ننھی سنچکا نے اپنی کچھ سہیلیوں کو ساتھ لیا۔ وہ چپکے سے مسلمانوں کے زمانے کے ایک قلعے کے کھنڈر میں جا گھسی اور چکنے چکنے پتھر چننے شروع کر دئیے۔ پتھر چنتے چنتے اسے سیاہ پتھر کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا ہاتھ ملا۔ ہاتھ کی مٹھی مضبوطی سے بند تھی۔ سنچکا اپنی خوش نصیبی پر حد درجہ مسرور، دوڑی دوڑی اپنی ماں کے پاس آئی اور وہ ہاتھ اس کے ہاتھ م یں دے دیا۔ سیاہ پتھر کے اس ہاتھ کو دیکھ کر لوگوں نے اس کے متعلق طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔ اکثر نے اسے شبہ کی نظر سے دیکھا۔ ایک نے گھبرا کر کہا "اسے پھینک دو۔ یقین جانوں کہ یہ ہاتھ جادو کا ہے اور اس م یں ضرور کوئی نہ کوئی شر چھپا ہوا ہے" دوسرا بولا "نہیں! نہیں! تم اس کی قیمت کا اندازہ نہیں کر سکے۔ سقاطین کے کسی جوہری کو دکھاؤ۔ وہ تمہیں اس کی اچھی قیمت دے دے گا۔" گندمی رنگ کا ایک بوڑھا سپاہی آگے بڑھا۔ اس نے ہاتھ کو غور سے دیکھا اور تھوڑی دیر میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ "میں نے اپنے افریقہ کے قیام میں اس طرح کی چیزیں بارہا دیکھی ہیں۔ اسے ایک طرح کا تعویذ سمجھو، جو تمہیں بری نظر سے اور ہر طرح کے ٹونے ٹوٹکے اور جادو کے اثر سے محفوظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 49
رکھے گا۔ عزیز لوپ! مبارک ہو! یہ سیاہ ہاتھ تمہاری بیٹی کے لئے ایک نیک فال ہے۔"
بوڑھے سپاہی کی یہ باتیں سن کر لوپ کی بیوی نے اس ننھے سے ہاتھ کو ایک ربن میں باندھ کر اپنی بیٹی کے گلے میں ڈال دیا۔
اس تعویذ نے تہوار کی ساری فضا بدل دی۔ لوگوں کے دل میں مُوروں کے متعلق جو طرح طرح کی باتیں جمع تھیں وہ ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔ رقص و سرور بند ہو گیا، لوگ چھوتی چھوتی ٹکڑیوں میں زمین پر بیٹھ گئے اور وہ پرانی داستانیں دہرائی جانے لگیں جو لوگ اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آئے تھے۔ بعض طلسمی داستانوں کا پس منظر وہی پہاڑی تھی جہاں اس وقت سب جمع ہوئے تھے۔ ایک بڑی بوڑھی نے بڑی تفصیل سے پہاڑی کے غاروں میں بنے ہوئے ایک محل کا حال بتایا جس م یں ابی عبداللہ اور اس کے سب درباری کسی سحر کی تاثیر سے اب تک قید ہیں۔ "سامنے کے کھنڈروں میں" اس نے پہاڑ کے ایک دور افتادہ حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "ایک گہرا اور تاریک غار ہے جو پہاڑ کے سینے کو چیرتا ہوا اس کی اندرونی تہہ تک چلا گیا ہے۔ کوئی غرناطہ کے سارے خزانے بھی مجھے دے ڈالے تو میں اس غار میں نہ جھانکوں۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ الحمرا کے ایک غریب آدمی کی ایک بکری پہاڑی پر چرتے چرتے اس غار میں گھس گئی۔ بکری والا بکرے کے پیچھے پیچھے اس غار میں گھس گیا۔ لیکن جب وہ غار میں سے نکلا تو اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہوئی تھیں۔ غار کے اندر اس نے جو عجیب و غریب چیزیں دیکھی تھیِ جب وہ ان کا ذکر لوگوں سے کرتا تو لوگ سمجھتے کہ ضرور اس کا دماغ چل گیا ہے۔ وہ دو ایک دن تک لوگوں سے کہتا رہا کہ غار کے اندر مسلمان حبشیوں کے بھوت ہیں اور انہوں نے اس کا پیچھا کیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد وہ مدتوں بکریاں چرانے پہاڑی پر نہیں گیا۔ لیکن ایک دن ہمت کر کے اوپر گیا تو پھر نیچے نہیں اترا۔ لوگوں کو اس کی بکریاں کھنڈروں میں چرتی ہوئی ملیں۔ اس کی ٹوپی اور لبادہ غار کے منہ کے پاس پڑا تھا لیکن غریب چرواہے کو اس کے بعد کسی نے نہیں دیکھا۔"
ننھی سنچکا غریب چرواہے کی داستان بڑے غور سے سن رہی تھی۔ وہ دم بخود تھی۔ جب داستان ختم ہو چکی تو اس کے دل میں اس خطرناک غار کا حال معلوم کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ ابھی لوگ بوڑھے چرواہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 50
کی کہانی کے خیال میں گم تھے کہ وہ وہاں سے اٹھی اور ان کھنڈروں کی جستجو میں نکل کھڑی ہوئی جہاں حبشی حکمرانوں کی روحیں منڈلا رہی تھیَ اسے بہت جلد وہ کھنڈر اور غار کا دہانہ مل گیا اور اس نے بڑے اشتیاق سے اس کے اندر جھانکا۔ لیکن وہاں تاریکی اور اتھاہ گہرائی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ خوف سے اس کے خون کی روانی رک گئی، جسم ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ پیچھے ہٹ آئی۔ پہلے تو اس نے وہاں سے بھاگ چلنے کا ارادہ کیا لیکن پھر جیسے اسے اپنے خوف میں بھی ایک عجیب سی لذت محسوس ہوئی اور اس کے قدم ایک بار پھر غار کے دہانے کی طرف اتھ گئے۔ وہ پھر اس پر جھک کر اس کی تاریکی اور گہرائی میں جذب ہو گئی۔ بالآخر وہ وہاں اٹھی اور بڑا ساپتھر سرکا کر غار کے دہانے پر لائی۔ زور لگا کر اس پتھر کو غار کے اندر سرکا دیا۔ پتھر کچھ دیر خاموشی سے اس بھیانک تاریکی میں نیچے گرتا رہا، پھر کسی پتھریلی چیز سے ٹکرایا اور گیند کی طرح ادھر ادھر لڑھکتا اور ٹکراتا اور بادلوں کی سی گرج پیدا کرتا رہا اور آخر ایک زور دار چھپاکے کے ساتھ پانی میں گر پڑا۔۔۔۔۔ غار کی اتھاہ گہرائیوں میں سے ایک آواز سفر کرتی ہوئی باہر نکلی اور پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی۔
لیکن یہ خاموشی زیادہ دیر قائم نہیں رہی۔ ایسا معلوم ہوا کہ پتھر کے چھپاکے نے غار کی سوتی ہوئی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ غار کی تہ سے آہستہ آہستہ بھن بھناہٹ کی ایسی آوازیں باہر نکلنے لگیں جیسے کسی نے مکھیوں کے بہت سے چھتوں کو چھیڑ دیا ہو۔ بھن بھناہٹ کی آواز رفتہ رفتہ تیز ہوتی رہی اور بڑھتے بڑھتے اس نے سرسراہٹ اور بڑبڑاہٹ کی صورت اختیار کر لی۔ غار کے اندر سے بےشمار آدمیوں کے بولنے اور چلنے پھرنے کی ملی جلی آوازیں آنے لگیں، پھر ان آوازوں میں ہتھیاروں کی دھیمی جھنکار بھی شامل ہوئی اور غار کے اندر سے جلا جل کی کھنک اور دفوں کی دھمک کا ملا جلا شور باہر نکلنے لگا، جیسے غار کی طلسمی دنیا میں کوئی فوج جنگ کے لئے آراستہ و صف بستہ ہو رہی ہے۔
ننھی سنچکا پر ہیبت طاری ہو گئی اور وہ بھاگ کر اس جگہ ہنچ گئی جہاں تھوری دیر پہلے اس نے بوڑھے چرواہے کی کہانی سنی تھی۔ وہاں اب کوئی نہ تھا۔ الاؤ کی آگ ٹھنڈی ہو رہی تھی اور چاندنی کے نکھار میں دھوئیں کے آخری حلقے بل کھا رہے تھے۔ وادی اور پہاڑی کے دامن میں تھوڑی دیر پہلے تک جو الاؤ روشن تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔