اوشو
لائبریرین
قصص الحمرا
صفحہ ۔۔۔ 180
ایک خواب آور موسیقی بکھر جاتی تھی۔ ایوان کے چاروں طرف طلائی اور نقرئی پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں رنگ برنگے پروں والی چڑیاں ہر وقت نغمہ سنج رہتی تھیں۔
بادشاہ برابر سنتا رہتا تھا کہ شہزادیاں شلوبینہ کے محل میں شاداں و فرحاں رہتی ہیں اس لئے اسے یقین تھا کہ الحمرا کا قیام انہیں اور بھی زیادہ شادماں و مسرور کرے گا۔ لیکن اسے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ اس ماحول میں غمگین اور یہاں کی ہر چیز سے غیر مطمئن ہیں۔ یہاں کے پھولوں میں انہیں خوشبو محسوس نہ ہوتی۔ یہاں کی بلبل کے نغمے ان کی نیندوں میں خلل انداز ہوتے اور سنگِ موسیٰ کا فوارہ تو اپنے کبھی نہ تھمنے والے اور شب و روز چلنے والے آتش باز کی جھنکار سے ان پر دیوانگی کی کیفیت طاری کر دیتا۔
بادشاہ کی بےتحملی اور سخت مزاجی پر شہزادیوں کا یہ رویہ سخت گراں گزرا۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شہزادیاں اب اس عمر کو پہنچ گئی ہیں جب ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور دل فضا میں کشادگی کا طالب و خواستگار ہوتا ہے۔ "وہ اب بچیاں نہیں ہیں۔" وہ اپنے دل میں سوچتا "وہ جوان ہیں اور انہیں اپنے آس پاس اپنی دلچسپی کی چیزیں چاہئیں۔" یہ سوچ کر اس نے غرناطہ کے سقاطین کے سب درزیوں، سناروں اور جوہریوں کو طلب کیا اور دیکھتے دیکھتے شہزادیوں کے آگے ریشم و کمخواب کے بیش بہا زردوزی ملبوسات، موتیوں اور ہیرے جواہرات کے گلوبندوں، کنگنوں اور کرن پھولوں اور بیش قیمت سامانِ آرائش کا انبار لگ گیا۔۔۔۔ لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ اس سارے ساز و سامان کے باوجود شہزادیوں کا غم انہیں گھلاتا رہا۔ ان کے چہروں کی زردی بڑھتی رہی۔ وہ تینوں گلاب کی کلیوں کی طرح مرجھاتی اور کمھلاتی رہیں۔ اور بےچارہ باپ! اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے! دوسرے سے مشورہ لینے کا وہ عادی نہ تھا اور اس کی عقل نے جیسے جواب دے دیا تھا۔ اس نے سوچا "تین جوان شہزادیوں کے خبط اور الجھنیں شاید ایک آدمی کے بس کی نہیں" اور بالآخر اس نے مشورہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلے میں اس کی نظر سب سے پہلے تجربہ کار خدیجہ کی طرف گئی۔
"خدیجہ!" بادشاہ نے اعتماد کے لہجے میں کہا "میرے نزدیک دنیا میں تم سے زیادہ عقلمند کوئی اور عورت نہیں۔۔۔۔ اور پھر تم پر بھروسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیٹیوں کا نگران و نگہبان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 181
مقرر کیا تھا۔ اور یہ خدمت تمہارے سپرد کر کے مجھے بڑا اطمینان تھا۔ اب میں ایک اور خدمت تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ کسی طرح معلوم کرو کہ شہزادیوں کو کیا غم ستا رہا ہے۔ ان کی صحت اور خوشی کو بحال کرنے کی کوئی تدبیر سوچو۔"
خدیجہ نے تعمیل کا وعدہ کیا۔ شہزادیوں کا غم کیا ہے!۔۔۔۔ یہ بات اسے شہزادیوں سے بھی زیادہ معلوم تھی۔ لیکن ان تینوں کا مکمل اعتماد حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دن تخلیے میں ان سے ان کے دل کی بات پوچھنے بیٹھی!
"پیاری بچیو! ایسے اچھے محل میں رہ کر، جہاں تمہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے، تم افسردہ و غمگین کیوں ہو؟"
شہزادیوں نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک آہ بھر کر چپ ہو رہیں۔
"تمہیں آخر کیا چاہیےی؟ کیا میں تمہارے لئے غرناطہ کا بولنے والا طوطا منگا دوں؟
"لعنت ہو اس پر!" شہزادی زاہدہ نے چلا کر کہا "مجھے تو اس کی آواز سے وحشت ہوتی ہے۔ بےسوچے سمجھے بکواس کرتے رہنے کے سوا اسے اور کیا آتا ہے۔ صرف بےعقلے ہی اس عذاب کو گوارا کر سکتے ہیں۔"
"اگر چاہو تو تمہیں جبل الطارق سے ایک بندر منگوا دوں جو ہر وقت اپنی شرارتوں سے تمہارا جی بہلاتا رہے؟"
"بندر!" زبیدہ نے حقارت سے جواب دیا "مجھے تو سخت نفرت ہے اس سے۔ دوسروں سے نقلیں کرنے کے سوا اسے آتا ہی کیا ہے ؟"
"تو پھر تمہیں مراکش کے شاہی حرم سے مشہور حبشی مغنی قاسم کو بلوا دوں؟ کہتے ہیں کہ اس کے لحن میں عورتوں کے لحن کی شیرینی و نزاکت ہے۔"
"مجھے ان وحشی غلاموں کی صورت سے ڈر لگتا ہے۔" سریتہ نے کانپتے ہوئے کہا "اور پھر اب مجھے رقص و سرود میں کوئی لطف بھی نہیں آتا۔"
"میری بیٹی" بوڑھی خدیجہ نے مکاری سے منہ بنا کر کہا "ایسا مت کہو! اگر کہیں تم ان تین سرداروں کا گانا سن پاتیں جو ہمیں اس دن راستے میں ملے تھے تو تم موسیقی کو کبھی برا نہ کہتیں۔۔۔۔ مگر میری بچیو! یہ کیا ہوا؟ ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 182
سرداروں کا نام آتے ہی تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا؟ تم اتنی پریشان کیوں نظر آنے لگیں؟"
"کچھ نہیں، کوئی بات نہیں! امی جان! آپ اپنی بات کہیے" سب ہم زبان ہو کر بولیں۔
"بیٹیو! بات یہ ہے کہ کل رات میں قرمزی بُرج کے پاس سے گزر رہی تھی کہ تینوں سردار مجھے حوالات میں بیٹھے نظر آئے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد وہ آرام کر رہے تھے اور اپنا جی بہلا رہے تھے۔ ایک گٹار بجا رہا تھا اور باقی دونوں باری باری گا رہے تھے۔ ان کے گانے میں کچھ ایسی کشش تھی کہ پہرے کے سپاہی بھی بت بنے کھڑے تھے، جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ اللہ میرا گناہ معاف کرے۔ میں نے اپنے وطن کے نغمے سنے تو مجھ سے بھی نہ رہا گیا۔ کھڑی ہو کر ان کا گانا سننے لگی۔ دل پر بڑا اثر ہوا اور ایسے شریف اور حسین نوجوانوں کو قید اور غلامی میں دیکھ کر بےحد کُڑھا۔"
باتیں کرتے کرتے بوڑھی خدیجہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگی۔
زاہدہ نے اس کے آنسوؤں سے فائدہ اٹھایا "خدیجہ اماں! کیا ہمیں بھی ان سرداروں کی ایک جھلک دکھا سکتی ہو؟"
زبیدہ بولی "ان کا گانا سن کر ضرور جی خوش ہو گا۔"
شرمیلی سریتہ کچھ نہ بولی۔ اس نے اپنے ہاتھ خدیجہ کی گردن میں حمائل کر دئیے۔
"اللہ مجھ پر رحم کرے!" خدیجہ نے جیسے ڈر کر کہا "میری بچیو! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ اگر بادشاہ کے کان میں اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو مجھے اور تمہیں سب کو مروا ڈالے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ تینوں سردار بڑے شریف اور نیک معلوم ہوتے ہیں لیکن اس سے کیا؟ وہ ہمارے دین کے دشمن ہیں اور تمہیں ان کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔"
عورت کے ارادے میں ایک قابلِ تحسین جرأت ہوتی ہے، خصوصاً عہدِ شباب میں اور اس ارادے کے سامنے وہ خطروں اور رکاوٹوں کی قطعی پرواہ نہیں کرتی۔ شہزادیاں اپنی بوڑھی خادمہ سے چمٹ گئیں اور دُرشتی سے، نرمی سے، التجاؤں سے، ہر طرح سے یہ ظاہر کیا کہ انکار سے ان کے دل ٹوٹ جائیں گے۔
لیکن سوال یہ تھا کہ خدیجہ آخر کیا کرے؟ یہ صحیح ہے کہ بادشاہ کے نزدیک دنیا میں خدیجہ سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 183
عقل مند کوئی اور عورت نہیں تھی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بادشاہ کو اس کی وفاداری پر پورا بھروسا تھا لیکن کیا وہ شہزادیوں کو گٹار کے ایک نغمے سے محروم کر کے ان کا دل توڑ دے؟ علاوہ بریں، گو وہ اتنی مدت تک عربوں میں رہی تھی اور اپنی مالکہ کی تقلید میں ایک وفادار خادمہ کی طرح اپنا دین چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا تھا لیکن اصلاً وہ ہسپانوی تھی اور اب بھی اس کے دل میں عیسائیت کی چنگاری روشن تھی، اور اس لئے اس نے شہزادیوں کی آرزو پوری کرنے کی ترکیبیں سوچنی شروع کر دیں۔
عیسائی قیدی قُرمزی بُرج میں قید تھے اور ان کی نگہبانی لمبی مونچھوں اور چوڑے کندھوں والے ایک حبشی کے سپرد تھی۔ حبشی کا نام حسین بابا تھا اور وہ ہر طرف اپنی کھجلاتی ہوئی ہتھیلی کے لئے مشہور تھا۔ خدیجہ اس کے پاس گئی اور سونے کا ایک سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بولی "حسین بابا! میری آقازادیوں، یعنی ان تینوں شہزادیوں نے جنہیں بادشاہ نے الحمرا میں لا کر رکھا ہے ہسپانوی سرداروں کے گانے کی تعریف سنی ہے اور کسی وقت اسے سننے کی مشتاق ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم جیسا نرم دل انسان ان کی اس معصوم آرزو کو رَد نہیں کرے گا۔"
"کیا کہا؟ آرزو پوری کر کے اسی بُرج قرمزی پر سُولی چڑھوں؟ اس لئے کہ اگر بادشاہ کو اس بات کی خبر ہو گئی تو سمجھ لو کہ سُولی ہی میرا انعام ہے۔"
اس طرح کا اندیشہ جی میں نہ لاؤ۔ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے انجام دیا جا سکتا ہے کہ شہزادیوں کی خواہش بھی پوری ہو جائے اور بادشاہ کو بھی خبر نہ ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ الحمرا کی بیرونی دیوار کے نیچے ایک ندی بہتی ہے۔ تینوں قیدیوں کو وہاں کسی کام پر لگا دو اور انہیں اجازت دو کہ کام کے وقفوں میں اپنا جی بہلانے کے لئے خوب گائیں بجائیں۔ اس طرح شہزادیاں اپنے بُرج کے دریچوں سے ان کا گانا سن سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ کہ انعام سے تمہارا جی خوش ہو جائے گا۔"
بوڑھی خدیجہ نے اپنی تجویز پیش کی اور حسین بابا کے منتظر ہاتھوں میں چپکے سے ایک طلائی سکہ اور سرکا دیا۔ اس کی فصاحت اور طلائی سکوں کی گرمی نے حسین بابا کا دل پگھلا دیا اور تجویز پر عمل شروع ہو گیا۔
نوجوان سرداروں کو ندی کے کنارے کام پر لگا دیا گیا۔ دوپہر کی تیز گرمی میں جب دوسرے مزدور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 184
درختوں کے سائے میں لیٹ کر خراٹے لینے لگے اور پہرے کا سنتری ایک جگہ بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ تینوں بُرج کے نیچے آرام سے سبزے پر بیٹھ گئے اور گٹار کی ہم نوائی میں ایک ہسپانوی نغمہ شروع کیا۔
وادی عمیق تھی اور بُرج بلند لیکن گرم دوپہر کے سکوت میں نغمہ کی آوازیں دور تک گونجیں اور شہزادیوں نے اپنی شہ نشین میں بیٹھ کر قیدیوں کے گیت سنے۔ انہیں ہسپانوی زبان آتی تھی اس لئے نغمے کی شیرینی اور گھلاوٹ نے ان کے دلوں میں جگہ کی۔ لیکن دانش مند خدیجہ کو یہ نغمہ سن کر غصہ آنے لگا۔ "اللہ ہمیں محفوظ رکھے!" اس نے چلا کر کہا "وہ تو محبت کا گیت گا رہے ہیں اور ان کا تخاطب شہزادیوں سے ہے! اتنی بےادبی! اتنی گستاخی! میں ابھی حسین بابا کے پاس جاتی ہوں اور اس گستاخی کے عوض ان کے ڈنڈے لگواتی ہوں۔"
"کیا؟ ایسے بہادر آدمیوں کے ڈنڈے؟ اور اتنے میٹھے گیت کی سزا میں؟ تینوں حسین شہزادیاں اس ہولناک تصور سے کانپ گئیں۔ بوڑھی خدیجہ کو غصہ تو بہت تھا لیکن فطرتاً اس کے مزاج میں نرمی تھی۔۔۔۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہی تھی کہ قیدی سرداروں کے نغمے نے شہزادیوں پر خوشگوار اثر کیا ہے۔ ان کے زرد رخساروں پر سرخی کی جھلک اور سوگوار آنکھوں میں چمک نمایاں تھی۔ اس لئے اس نے آسانی سے سرداروں کا قصور معاف کر دیا۔
گیت ختم ہو گیا اور شہزادیوں پر کچھ دیر سکوت طاری رہا۔ لیکن اس کے بعد شوخ زبیدہ نے اپنی بانسری اٹھائی اور دھیمی، کانپتی لیکن میٹھی لَے میں ایک عربی نغمہ بجانے لگی۔ نغمے کی تان اس بول پر ٹوٹتی تھی:
"پھول پتیوں کی آڑ میں چھپا ہوا ہے لیکن وہ خاموشی اور مسرت سے بلبل کے نغمے سن رہا ہے۔"
اسی دن سے نوجوان قیدی ہر روز ندی کے کنارے کام کرنے لگے۔ حسین بابا ہر روز اپنی معمولی سخت گیری میں کمی کرتا رہا اور محبت کرنے والوں کے درمیان گیتوں اور نغموں کے ذریعے محبت کے پیام آتے جاتے رہے۔ دونوں طرف کے گیتوں میں دل کی دھڑکنوں کا شور ہر روز بڑھتا رہا۔۔۔۔ اور بالآخر شہزادیوں نے بند دریچوں کے پٹ کھول دئیے اور محافظ سپاہیوں کی نظر بچا کر وہ کبھی کبھی اپنے عاشقوں کو اپنے حسن کی جھلک دکھانے لگیں۔ انہوں نے پھولوں کی زبانی، جن کی شاعرانہ زبان سے عاشق و معشوق دونوں واقف تھے، ایک دوسرے سے گفتگو بھی شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 185
محبت کرنے والوں کی راہ میں سنگِ گراں حائل ہوں تو حسن کی کشش زیادہ بڑھتی اور آتشِ شوق زیادہ بھڑکتی ہے۔ محبت کا پھول کانٹوں میں الجھ کر زیادہ شگفتہ اور آتشِ فراق میں تپ کر زیادہ رنگین ہوتا ہے۔
شہزادیوں کے کمھلائے ہوئے چہروں کو پھر شگفتہ اور افسردہ دلوں کو پھر شادماں دیکھ کر بادشاہ متحیر بھی ہوا اور مسرور بھی اور تجربہ کار خدیجہ اس تصور پر نازاں کہ یہ شگفتگی اس کی چلائی ہوئی ہواؤں کا نتیجہ ہے۔
لیکن ایک دن محبت کے باہمی پیاموں کا یہ سلسلہ ایکا ایکی ختم ہو گیا۔ قیدی سرداروں کے ندی کے کنارے آنے کا سلسلہ نہ جانے کیوں منقطع ہو گیا۔ شہزادیاں بُرج کے نیچے نظریں لے جاتیں لیکن بےسود اور وہ اپنی ہنس کی سی گردنیں شہ نشین کے نیچے جھکا جھکا کر ادھر ادھر تکتیں لیکن بےنتیجہ۔ بُرج کے نہاں خانوں سے وہ اسیر بلبلون کی طرح غم کے گیت گاتیں لیکن کوئی انہیں سننے والا نہ تھا۔ کُنجوں سے ان گیتوں کا جواب نہ ملتا اور کوئی قیدی سرداروں کی خبر نہ سناتا۔۔۔۔ آخر خدیجہ خبر کی جستجو میں نکلی اور بہت جلد یہ غم ناک پیام سنایا "افسوس میری بچیو! میں جانتی تھی کہ اس کا انجام یہی ہو گا، لیکن تم کسی طرح نہ مانیں، اور اب تمہیں اپنی بانسریاں ہمیشہ کے لئے بند رکھنی پڑیں گی۔ ہسپانوی سرداروں کے عزیز کثیر رقمیں لے کر انہیں رہائی دلانے کے لئے آ گئے ہیں اور سردار اپنے وطن جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔"
اس غم ناک خبر نے شہزادیوں پر بجلی گرا دی۔ زاہدہ اس بات پر سخت ناراض تھی کہ ان کے عاشق انہیں کوئی رخصتی پیغام دئیے بغیر یوں اپنے وطن جا رہے ہیں۔ اسے وہ اپنی محبت کی توہین سمجھتی تھی۔ زبیدہ یہ خبر سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ ملتی، آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی اور پھر زاروقطار رونے لگتی۔ نرم و نازک سریتہ شہ نشین کی آڑ میں کھڑی ہوتی اور خاموشی سے آنسو بہاتی۔ اس کے آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح پھولوں کے اس کُنج میں گرتے جہاں بیٹھ کر قیدی سردار زادے محبت کے گیت گاتے تھے۔
بےچاری خدیجہ جس طرح ممکن ہوتا ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتی۔ وہ ان سے برابر کہتی "میری بچیو! صبر کرو۔ غم کی عادت پڑ جائے تو وہ تکلیف نہیں دیتا۔ دنیا کا دستور یہی ہے۔ جب تم بھی میری عمر کو پہنچو گی تو تمہاری سمجھ میں آئے گا کہ مرد کیا ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تینوں سردار قرطبہ یا اشبیلیہ کی کسی نہ کسی ہسپانوی دوشیزہ کی زلفوں کے اسیر ہیں۔ وہ بہت جلد اپنی شہ نشینوں میں رقص و سرود کی بزمیں آراستہ کریں گے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 186
الحمرا کی حسین شہزادیوں کو ہمیشہ کے لئے بھلا دیں گے۔۔۔۔ اس لئے میری بچیو! صبر سے کام لو اور ان کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔"
دانش مند خدیجہ کے سکون آمیز لفظوں سے شہزادیوں کا غم اور بڑھتا۔ دو دن تک ان کے دلوں کو ذرا قرار نہ آیا۔ تیسرے دن علی الصبح بوڑھی خدیجہ ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور غصے سے چلائی "کوئی سوچ سکتا ہے کہ انسان اتنا گستاخ بھی ہو سکتا ہے؟"
وہ غصے سے بےقابو ہو کر کہتی رہی "مجھے اس بےوفائی کی یہی سزا ملنی چاہیے تھی، جو میں نے تمہارے باپ کے ساتھ کی۔۔۔۔ خبردار جو اب تم میں سے کسی نے اپنے ہسپانوی چہیتوں کا نام بھی لیا۔"
شہزادیاں اس کا غصہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگیں "لیکن اچھی خدیجہ! بتاؤ تو سہی کہ کیا بات ہوئی؟"
"کیا بات ہوئی؟۔۔۔۔ بغاوت کی گئی، یا بغاوت کی سازش کی گئی۔۔۔۔ اور مجھ سے کی گئی، جو اپنے بادشاہ کی سب سے وفادار رعیت اور اپنی شہزادیوں کی سب سے باوفا خادمہ ہے۔۔۔۔ ہاں! میری بچیو! یقین جانو کہ ان گستاخ ہسپانوی سرداروں نے مجھے بغاوت کی سازش میں الجھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں یہاں سے فرار ہو کر قرطبہ جانے اور ہسپانوی سرداروں سے شادی کرنے کی سازش میں مدد دوں۔"
اتنا کہہ کر بوڑھی وفا پرست خادمہ نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھک لیا اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ تینوں حسین شہزادیوں کے چہرے زرد پڑ گئے، پھر ان پر سرخی دوڑ گئی، پھر وہ زرد ہوئے اور پھر سرخ۔ وہ تھر تھر کانپنے لگیں۔ شرمیلی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور منہ سے کچھ نہ بولیں۔۔۔۔ اور بوڑھی خادمہ اپنی جگہ بیٹھی غصے سے ہچکولے کھاتی رہی۔۔۔۔ کبھی آگے کو جھکتی، کبھی پیچھے کو ہٹ جاتی اور پھر غصے سے چلا اٹھتی:
"کیا میں اب تک یہی ذلت سہنے کے لئے زندہ رہی تھی۔۔۔۔ میں، جو نوکروں میں سب سے زیادہ وفادار ہوں!"
آخر بڑی شہزادی، جو تینوں میں زیادہ جری تھی اور ہر کام میں پیش قدمی کرتی تھی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی "اماں خدیجہ! فرض کرو ہم عیسائی سرداروں کے ساتھ جانے پر راضی ہوں۔۔۔۔ تو کیا یہ ممکن ہے؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 187
بوڑھی خادمہ کے غصے کو تھوڑا سا وقفہ ملا۔ شہزادی کی بات سن کر اس نے گردن اٹھائی اور تیزی سے بولی "ممکن!۔۔۔۔ ممکن کیوں نہیں؟ یقیناً ممکن ہے، اس لئے کہ قیدی سرداروں نے حسین بابا کو رشوت دے کر اس سازش میں شریک کر لیا ہے، اور سارا منصوبہ تیار ہے۔۔۔۔ لیکن ذرا سوچو کہ بادشاہ کو دھوکہ دینا کس طرح ممکن ہے۔۔۔۔ بادشاہ کو، جو مجھ پر اتنا بھروسہ کرتا ہے۔"
اتنا کہہ کر بوڑھی خادمہ پر غم کا ایک اور دورہ پڑا۔ وہ پھر ہچکولے لے لے کر اپنے ہاتھوں کو ملنے لگی۔
بڑی شہزادی نے متانت سے جواب دیا "لیکن ہمارے باپ نے ہم پر تو کبھی بھروسا نہیں کیا۔ اس نے صرف مضبوط دروازوں اور آہنی سلاخوں پر بھروسا کیا ہے اور ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہے۔"
بوڑھی خادمہ اپنے غم کو ایک اور وقفہ دیتے ہوئے بولی "ہاں! یہ تو بالکل درست ہے۔ اس نے یقیناً تمہارے ساتھ معقول برتاؤ نہیں کیا۔ تمہیں اس طرح قید میں رکھ کر اس نے تمہارے شباب پر ظلم کیا ہے۔ گلاب کے پھولوں کو گلدانوں میں سجا کر شگفتہ نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔۔ لیکن پھر؟ کیا تم اپنا وطن چھوڑ کر بھاگ جانے کے لئے تیار ہو؟"
"لیکن بھاگ کر جس سرزمین میں ہم جا رہے ہیں کیا وہ ہماری ماں کا وطن نہیں، جہاں ہم قیدی بن کر نہیں آزاد رہ کر زندگی بسر کریں گے اور کیا وہاں جا کر ہمیں ایک ظالم اور سخت گیر باپ کے عوض ایک محبت کرنے والا شوہر نہیں ملے گا؟"
اس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہی ہو لفظ بہ لفظ صحیح ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ تمہارا باپ ظالم ہے۔۔۔۔ لیکن اس سے کیا؟" غم کا دورہ پھر شروع ہوا۔ "کیا تم مجھے اس کے انتقام کی آگ میں جلنے کے لئے یہیں چھوڑ جاؤ گی؟"
"بالکل نہیں، اچھی خدیجہ! کیا تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتیں؟"
"بالکل ٹھیک ہے، میری بچی!۔۔۔۔ اگر سچ پوچھو تو حسین بابا نے اس معاملے پر گفتگو کرتے وقت مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے تمہارے ساتھ جانے میں مدد دے گا۔۔۔۔ لیکن پیاری! ایک بات اور سوچ لو۔ کیا تم اپنے باپ کا دین چھوڑنے کے لئے تیار ہو؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 188
ہماری ماں عیسائی تھی۔۔۔۔ میں بھی عیسائی بننے کو تیار ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں میرا ساتھ دیں گی۔"
"چلو، یہ بھی ٹھیک رہا" بوڑھی عورت اطمینان کے لہجے میں بولی۔ "تمہاری ماں کا اصلی دین عیسائیت تھا اور اسے مرتے دم تک اس کا غم رہا کہ اس نے اسے کیوں چھوڑا۔ مرتے وقت میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری روحوں کی حفاظت کروں گی۔ اس وقت مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمہاری روحیں مردہ نہیں ہوئیں۔ میری بچیو! میں بھی عیسائی پیدا ہوئی تھی اور دل سے اب بھی عیسائی ہوں۔ میں نے تہیہ کیا ہے کہ عیسائی ہو کر مروں گی۔ میں نے حسین بابا سے سب باتیں طے کر لی ہیں۔ وہ اصلاً ہسپانوی ہے اور اس کا گاؤں میرے گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ہے۔ وہ بھی اپنے وطن جانے کے لئے تڑپ رہا ہے اور دوبارہ عیسائی ہونے کے لئے بےقرار ہے۔ سرداروں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم دونوں نے آپس میں شادی کر لی تو وہ ہمارے رہنے سہنے کا معقول انتظام کر دیں گے۔"
مختصر یہ کہ اس انتہائی دانش مند بڑھیا نے ہسپانوی سرداروں اور حسین بابا سے سازش کر کے فرار ہونے کا سارا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ بڑی شہزادی فوراً اس پر عمل کرنے پر راضی ہو گئی اور اس کے طرزِ عمل نے حسبِ معمول چھوٹی بہنوں کے ارادے میں بھی پختگی پیدا کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ سب سے چھوٹی نے پہلے بہت پس و پیش کیا اس لئے کہ اس کا دل نازک اور کمزور تھا۔۔۔۔ وہ دیر تک کشمکش کی آماجگاہ بنا رہا۔ پدرانہ محبت اور احساسِ شباب میں جنگ ہوتی رہی اور بالآخر حسبِ معمول شباب کے احساس نے فتح پائی اور ننھی شہزادی خاموش آنسوؤں اور دبی ہوئی آہوں کے ساتھ فرار کے منصوبے میں شریک ہو گئی۔
الحمرا کی سنگین پہاڑی میں شاہی زمانے میں بہت سرنگیں کھودی گئی تھیں اور قلعے اور شہر کے مختلف حصوں کے درمیان آمد و رفت کا کام دیتی تھیں۔ انہیں سرنگوں میں سے ہو کر حد رہ و شنیل کے دور افتادہ ساحلی بندرگاہوں تک پہنچنا بھی آسان تھا۔ ان سرنگوں میں سے بعض اب باقی نہیں رہیں، کچھ اب بھی اسی طرح قائم ہیں اور عرب حکمرانوں کی دور اندیشی اور حکمتِ عملی کی شہادت دے رہی ہیں۔ حسین بابا نے شہزادیوں کو انہیں سرنگوں میں سے ایک کے راستے باہر دریا کے ایک بندرگاہ تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ طے تھا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 189
ہسپانوی سرداری یہیں اپنی حسین محبوباؤں کے منتظر رہیں گے اور فوراً صبا رفتار گھوڑوں کے ذریعے انہیں ایک مملکت سے دوسری مملکت میں پہنچا دیں گے۔
مقررہ رات آ گئی۔ شہزادیوں کے مسکن کو حسبِ معمول ہر طرف سے مقفل کر دیا گیا اور الحمرا نیند کی خاموشیوں میں ڈوب گیا۔ آدھی رات کے قریب دانش مند خدیجہ نے شہ نشین کے دریچے سے باغ میں جھانکا۔ حسین بابا پہلے سے وہاں موجود تھا۔ اس نے مقررہ اشارہ کیا۔ خدیجہ نے شہ نشین سے ایک کمند باغ میں لٹکائی اور اس کے ذریعے نیچے اتر گئی۔ بڑی اور منجھلی شہزادی نے دھڑکتے ہوئے دلوں سے کمند میں پاؤں رکھا اور آہستہ آہستہ نیچے اتر گئیں۔ لیکن جب سریتہ کی باری آئی تو وہ جھجکی اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔ کئی بار اس نے اپنے نازک قدم کمند کی طرف بڑھائے اور کھینچ لئے۔ وہ کسی طرح اپنے دل کو مضبوط نہ کر سکی۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اس کے طائرِ دل کی پھڑپھڑاہٹ تیز ہوتی جاتی۔ اس نے اس ایوان پر حسرت بھری نظر ڈالی جس میں اس نے بہت سے شب و روز بسر کئے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ اس ایوان کی حیثیت ایک قفس کی تھی۔ اس قفس میں وہ آزاد تو نہیں تھی لیکن محفوظ ضرور تھی، اور کسے خبر قفس سے پھڑپھڑا کر نکلنے جانے والے طائر کے لئے دنیا میں کیسے جال بچھے ہوئے ہیں! دنیا کے خطروں کے ساتھ اسے اپنے بہادر عاشق کا خیال آیا اور اس نے فوراً کمند پر پیر رکھ دیا، لیکن فوراً ہی باپ کی شفقت یاد آئی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ ایک نازک، بےتجربہ اور محبت کرنے والے دل میں پیدا ہونے والی کشمکش کی مصوری کتنی دشوار ہے۔
سریتہ کی بہنیں نیچے کھڑی التجا کر رہی تھیں، خادمہ برا بھلا کہہ رہی تھی اور حسین بابا پیچ و تاب کھا رہا تھا، لیکن نازک، ناتواں اور معصوم حسینہ امید و بیم کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ گناہ کی لذت اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی، لیکن اس کے خطرے پیروں میں بیڑیاں ڈال رہے تھے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ افشائے راز کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ کہیں دور سے آتی ہوئی ٹاپوں کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ حسین بابا نے گھبرا کر کہا "سپاہی گشت کے لئے نکل آئے۔ ہم نے ذرا بھی دیر کی تو ہماری جانوں کی خیر نہیں۔۔۔۔ شہزادی نیچے اترو، ورنہ ہم تمہیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔"
سریتہ کے دل میں ایک طوفان اٹھا۔ اس نے کمند کی رسی کھولی اور ایک آہنی عزم کے ساتھ اسے نیچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 180
ایک خواب آور موسیقی بکھر جاتی تھی۔ ایوان کے چاروں طرف طلائی اور نقرئی پنجرے لٹکے ہوئے تھے جن میں رنگ برنگے پروں والی چڑیاں ہر وقت نغمہ سنج رہتی تھیں۔
بادشاہ برابر سنتا رہتا تھا کہ شہزادیاں شلوبینہ کے محل میں شاداں و فرحاں رہتی ہیں اس لئے اسے یقین تھا کہ الحمرا کا قیام انہیں اور بھی زیادہ شادماں و مسرور کرے گا۔ لیکن اسے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ اس ماحول میں غمگین اور یہاں کی ہر چیز سے غیر مطمئن ہیں۔ یہاں کے پھولوں میں انہیں خوشبو محسوس نہ ہوتی۔ یہاں کی بلبل کے نغمے ان کی نیندوں میں خلل انداز ہوتے اور سنگِ موسیٰ کا فوارہ تو اپنے کبھی نہ تھمنے والے اور شب و روز چلنے والے آتش باز کی جھنکار سے ان پر دیوانگی کی کیفیت طاری کر دیتا۔
بادشاہ کی بےتحملی اور سخت مزاجی پر شہزادیوں کا یہ رویہ سخت گراں گزرا۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شہزادیاں اب اس عمر کو پہنچ گئی ہیں جب ذہن میں کشادگی پیدا ہوتی ہے اور دل فضا میں کشادگی کا طالب و خواستگار ہوتا ہے۔ "وہ اب بچیاں نہیں ہیں۔" وہ اپنے دل میں سوچتا "وہ جوان ہیں اور انہیں اپنے آس پاس اپنی دلچسپی کی چیزیں چاہئیں۔" یہ سوچ کر اس نے غرناطہ کے سقاطین کے سب درزیوں، سناروں اور جوہریوں کو طلب کیا اور دیکھتے دیکھتے شہزادیوں کے آگے ریشم و کمخواب کے بیش بہا زردوزی ملبوسات، موتیوں اور ہیرے جواہرات کے گلوبندوں، کنگنوں اور کرن پھولوں اور بیش قیمت سامانِ آرائش کا انبار لگ گیا۔۔۔۔ لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ اس سارے ساز و سامان کے باوجود شہزادیوں کا غم انہیں گھلاتا رہا۔ ان کے چہروں کی زردی بڑھتی رہی۔ وہ تینوں گلاب کی کلیوں کی طرح مرجھاتی اور کمھلاتی رہیں۔ اور بےچارہ باپ! اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے! دوسرے سے مشورہ لینے کا وہ عادی نہ تھا اور اس کی عقل نے جیسے جواب دے دیا تھا۔ اس نے سوچا "تین جوان شہزادیوں کے خبط اور الجھنیں شاید ایک آدمی کے بس کی نہیں" اور بالآخر اس نے مشورہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلے میں اس کی نظر سب سے پہلے تجربہ کار خدیجہ کی طرف گئی۔
"خدیجہ!" بادشاہ نے اعتماد کے لہجے میں کہا "میرے نزدیک دنیا میں تم سے زیادہ عقلمند کوئی اور عورت نہیں۔۔۔۔ اور پھر تم پر بھروسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیٹیوں کا نگران و نگہبان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 181
مقرر کیا تھا۔ اور یہ خدمت تمہارے سپرد کر کے مجھے بڑا اطمینان تھا۔ اب میں ایک اور خدمت تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ کسی طرح معلوم کرو کہ شہزادیوں کو کیا غم ستا رہا ہے۔ ان کی صحت اور خوشی کو بحال کرنے کی کوئی تدبیر سوچو۔"
خدیجہ نے تعمیل کا وعدہ کیا۔ شہزادیوں کا غم کیا ہے!۔۔۔۔ یہ بات اسے شہزادیوں سے بھی زیادہ معلوم تھی۔ لیکن ان تینوں کا مکمل اعتماد حاصل کرنے کے لئے وہ ایک دن تخلیے میں ان سے ان کے دل کی بات پوچھنے بیٹھی!
"پیاری بچیو! ایسے اچھے محل میں رہ کر، جہاں تمہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے، تم افسردہ و غمگین کیوں ہو؟"
شہزادیوں نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک آہ بھر کر چپ ہو رہیں۔
"تمہیں آخر کیا چاہیےی؟ کیا میں تمہارے لئے غرناطہ کا بولنے والا طوطا منگا دوں؟
"لعنت ہو اس پر!" شہزادی زاہدہ نے چلا کر کہا "مجھے تو اس کی آواز سے وحشت ہوتی ہے۔ بےسوچے سمجھے بکواس کرتے رہنے کے سوا اسے اور کیا آتا ہے۔ صرف بےعقلے ہی اس عذاب کو گوارا کر سکتے ہیں۔"
"اگر چاہو تو تمہیں جبل الطارق سے ایک بندر منگوا دوں جو ہر وقت اپنی شرارتوں سے تمہارا جی بہلاتا رہے؟"
"بندر!" زبیدہ نے حقارت سے جواب دیا "مجھے تو سخت نفرت ہے اس سے۔ دوسروں سے نقلیں کرنے کے سوا اسے آتا ہی کیا ہے ؟"
"تو پھر تمہیں مراکش کے شاہی حرم سے مشہور حبشی مغنی قاسم کو بلوا دوں؟ کہتے ہیں کہ اس کے لحن میں عورتوں کے لحن کی شیرینی و نزاکت ہے۔"
"مجھے ان وحشی غلاموں کی صورت سے ڈر لگتا ہے۔" سریتہ نے کانپتے ہوئے کہا "اور پھر اب مجھے رقص و سرود میں کوئی لطف بھی نہیں آتا۔"
"میری بیٹی" بوڑھی خدیجہ نے مکاری سے منہ بنا کر کہا "ایسا مت کہو! اگر کہیں تم ان تین سرداروں کا گانا سن پاتیں جو ہمیں اس دن راستے میں ملے تھے تو تم موسیقی کو کبھی برا نہ کہتیں۔۔۔۔ مگر میری بچیو! یہ کیا ہوا؟ ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 182
سرداروں کا نام آتے ہی تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا؟ تم اتنی پریشان کیوں نظر آنے لگیں؟"
"کچھ نہیں، کوئی بات نہیں! امی جان! آپ اپنی بات کہیے" سب ہم زبان ہو کر بولیں۔
"بیٹیو! بات یہ ہے کہ کل رات میں قرمزی بُرج کے پاس سے گزر رہی تھی کہ تینوں سردار مجھے حوالات میں بیٹھے نظر آئے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد وہ آرام کر رہے تھے اور اپنا جی بہلا رہے تھے۔ ایک گٹار بجا رہا تھا اور باقی دونوں باری باری گا رہے تھے۔ ان کے گانے میں کچھ ایسی کشش تھی کہ پہرے کے سپاہی بھی بت بنے کھڑے تھے، جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ اللہ میرا گناہ معاف کرے۔ میں نے اپنے وطن کے نغمے سنے تو مجھ سے بھی نہ رہا گیا۔ کھڑی ہو کر ان کا گانا سننے لگی۔ دل پر بڑا اثر ہوا اور ایسے شریف اور حسین نوجوانوں کو قید اور غلامی میں دیکھ کر بےحد کُڑھا۔"
باتیں کرتے کرتے بوڑھی خدیجہ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگی۔
زاہدہ نے اس کے آنسوؤں سے فائدہ اٹھایا "خدیجہ اماں! کیا ہمیں بھی ان سرداروں کی ایک جھلک دکھا سکتی ہو؟"
زبیدہ بولی "ان کا گانا سن کر ضرور جی خوش ہو گا۔"
شرمیلی سریتہ کچھ نہ بولی۔ اس نے اپنے ہاتھ خدیجہ کی گردن میں حمائل کر دئیے۔
"اللہ مجھ پر رحم کرے!" خدیجہ نے جیسے ڈر کر کہا "میری بچیو! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ اگر بادشاہ کے کان میں اس کی بھنک بھی پڑ گئی تو مجھے اور تمہیں سب کو مروا ڈالے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ تینوں سردار بڑے شریف اور نیک معلوم ہوتے ہیں لیکن اس سے کیا؟ وہ ہمارے دین کے دشمن ہیں اور تمہیں ان کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔"
عورت کے ارادے میں ایک قابلِ تحسین جرأت ہوتی ہے، خصوصاً عہدِ شباب میں اور اس ارادے کے سامنے وہ خطروں اور رکاوٹوں کی قطعی پرواہ نہیں کرتی۔ شہزادیاں اپنی بوڑھی خادمہ سے چمٹ گئیں اور دُرشتی سے، نرمی سے، التجاؤں سے، ہر طرح سے یہ ظاہر کیا کہ انکار سے ان کے دل ٹوٹ جائیں گے۔
لیکن سوال یہ تھا کہ خدیجہ آخر کیا کرے؟ یہ صحیح ہے کہ بادشاہ کے نزدیک دنیا میں خدیجہ سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 183
عقل مند کوئی اور عورت نہیں تھی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بادشاہ کو اس کی وفاداری پر پورا بھروسا تھا لیکن کیا وہ شہزادیوں کو گٹار کے ایک نغمے سے محروم کر کے ان کا دل توڑ دے؟ علاوہ بریں، گو وہ اتنی مدت تک عربوں میں رہی تھی اور اپنی مالکہ کی تقلید میں ایک وفادار خادمہ کی طرح اپنا دین چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا تھا لیکن اصلاً وہ ہسپانوی تھی اور اب بھی اس کے دل میں عیسائیت کی چنگاری روشن تھی، اور اس لئے اس نے شہزادیوں کی آرزو پوری کرنے کی ترکیبیں سوچنی شروع کر دیں۔
عیسائی قیدی قُرمزی بُرج میں قید تھے اور ان کی نگہبانی لمبی مونچھوں اور چوڑے کندھوں والے ایک حبشی کے سپرد تھی۔ حبشی کا نام حسین بابا تھا اور وہ ہر طرف اپنی کھجلاتی ہوئی ہتھیلی کے لئے مشہور تھا۔ خدیجہ اس کے پاس گئی اور سونے کا ایک سکہ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بولی "حسین بابا! میری آقازادیوں، یعنی ان تینوں شہزادیوں نے جنہیں بادشاہ نے الحمرا میں لا کر رکھا ہے ہسپانوی سرداروں کے گانے کی تعریف سنی ہے اور کسی وقت اسے سننے کی مشتاق ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم جیسا نرم دل انسان ان کی اس معصوم آرزو کو رَد نہیں کرے گا۔"
"کیا کہا؟ آرزو پوری کر کے اسی بُرج قرمزی پر سُولی چڑھوں؟ اس لئے کہ اگر بادشاہ کو اس بات کی خبر ہو گئی تو سمجھ لو کہ سُولی ہی میرا انعام ہے۔"
اس طرح کا اندیشہ جی میں نہ لاؤ۔ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے انجام دیا جا سکتا ہے کہ شہزادیوں کی خواہش بھی پوری ہو جائے اور بادشاہ کو بھی خبر نہ ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ الحمرا کی بیرونی دیوار کے نیچے ایک ندی بہتی ہے۔ تینوں قیدیوں کو وہاں کسی کام پر لگا دو اور انہیں اجازت دو کہ کام کے وقفوں میں اپنا جی بہلانے کے لئے خوب گائیں بجائیں۔ اس طرح شہزادیاں اپنے بُرج کے دریچوں سے ان کا گانا سن سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ کہ انعام سے تمہارا جی خوش ہو جائے گا۔"
بوڑھی خدیجہ نے اپنی تجویز پیش کی اور حسین بابا کے منتظر ہاتھوں میں چپکے سے ایک طلائی سکہ اور سرکا دیا۔ اس کی فصاحت اور طلائی سکوں کی گرمی نے حسین بابا کا دل پگھلا دیا اور تجویز پر عمل شروع ہو گیا۔
نوجوان سرداروں کو ندی کے کنارے کام پر لگا دیا گیا۔ دوپہر کی تیز گرمی میں جب دوسرے مزدور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 184
درختوں کے سائے میں لیٹ کر خراٹے لینے لگے اور پہرے کا سنتری ایک جگہ بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ تینوں بُرج کے نیچے آرام سے سبزے پر بیٹھ گئے اور گٹار کی ہم نوائی میں ایک ہسپانوی نغمہ شروع کیا۔
وادی عمیق تھی اور بُرج بلند لیکن گرم دوپہر کے سکوت میں نغمہ کی آوازیں دور تک گونجیں اور شہزادیوں نے اپنی شہ نشین میں بیٹھ کر قیدیوں کے گیت سنے۔ انہیں ہسپانوی زبان آتی تھی اس لئے نغمے کی شیرینی اور گھلاوٹ نے ان کے دلوں میں جگہ کی۔ لیکن دانش مند خدیجہ کو یہ نغمہ سن کر غصہ آنے لگا۔ "اللہ ہمیں محفوظ رکھے!" اس نے چلا کر کہا "وہ تو محبت کا گیت گا رہے ہیں اور ان کا تخاطب شہزادیوں سے ہے! اتنی بےادبی! اتنی گستاخی! میں ابھی حسین بابا کے پاس جاتی ہوں اور اس گستاخی کے عوض ان کے ڈنڈے لگواتی ہوں۔"
"کیا؟ ایسے بہادر آدمیوں کے ڈنڈے؟ اور اتنے میٹھے گیت کی سزا میں؟ تینوں حسین شہزادیاں اس ہولناک تصور سے کانپ گئیں۔ بوڑھی خدیجہ کو غصہ تو بہت تھا لیکن فطرتاً اس کے مزاج میں نرمی تھی۔۔۔۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہی تھی کہ قیدی سرداروں کے نغمے نے شہزادیوں پر خوشگوار اثر کیا ہے۔ ان کے زرد رخساروں پر سرخی کی جھلک اور سوگوار آنکھوں میں چمک نمایاں تھی۔ اس لئے اس نے آسانی سے سرداروں کا قصور معاف کر دیا۔
گیت ختم ہو گیا اور شہزادیوں پر کچھ دیر سکوت طاری رہا۔ لیکن اس کے بعد شوخ زبیدہ نے اپنی بانسری اٹھائی اور دھیمی، کانپتی لیکن میٹھی لَے میں ایک عربی نغمہ بجانے لگی۔ نغمے کی تان اس بول پر ٹوٹتی تھی:
"پھول پتیوں کی آڑ میں چھپا ہوا ہے لیکن وہ خاموشی اور مسرت سے بلبل کے نغمے سن رہا ہے۔"
اسی دن سے نوجوان قیدی ہر روز ندی کے کنارے کام کرنے لگے۔ حسین بابا ہر روز اپنی معمولی سخت گیری میں کمی کرتا رہا اور محبت کرنے والوں کے درمیان گیتوں اور نغموں کے ذریعے محبت کے پیام آتے جاتے رہے۔ دونوں طرف کے گیتوں میں دل کی دھڑکنوں کا شور ہر روز بڑھتا رہا۔۔۔۔ اور بالآخر شہزادیوں نے بند دریچوں کے پٹ کھول دئیے اور محافظ سپاہیوں کی نظر بچا کر وہ کبھی کبھی اپنے عاشقوں کو اپنے حسن کی جھلک دکھانے لگیں۔ انہوں نے پھولوں کی زبانی، جن کی شاعرانہ زبان سے عاشق و معشوق دونوں واقف تھے، ایک دوسرے سے گفتگو بھی شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 185
محبت کرنے والوں کی راہ میں سنگِ گراں حائل ہوں تو حسن کی کشش زیادہ بڑھتی اور آتشِ شوق زیادہ بھڑکتی ہے۔ محبت کا پھول کانٹوں میں الجھ کر زیادہ شگفتہ اور آتشِ فراق میں تپ کر زیادہ رنگین ہوتا ہے۔
شہزادیوں کے کمھلائے ہوئے چہروں کو پھر شگفتہ اور افسردہ دلوں کو پھر شادماں دیکھ کر بادشاہ متحیر بھی ہوا اور مسرور بھی اور تجربہ کار خدیجہ اس تصور پر نازاں کہ یہ شگفتگی اس کی چلائی ہوئی ہواؤں کا نتیجہ ہے۔
لیکن ایک دن محبت کے باہمی پیاموں کا یہ سلسلہ ایکا ایکی ختم ہو گیا۔ قیدی سرداروں کے ندی کے کنارے آنے کا سلسلہ نہ جانے کیوں منقطع ہو گیا۔ شہزادیاں بُرج کے نیچے نظریں لے جاتیں لیکن بےسود اور وہ اپنی ہنس کی سی گردنیں شہ نشین کے نیچے جھکا جھکا کر ادھر ادھر تکتیں لیکن بےنتیجہ۔ بُرج کے نہاں خانوں سے وہ اسیر بلبلون کی طرح غم کے گیت گاتیں لیکن کوئی انہیں سننے والا نہ تھا۔ کُنجوں سے ان گیتوں کا جواب نہ ملتا اور کوئی قیدی سرداروں کی خبر نہ سناتا۔۔۔۔ آخر خدیجہ خبر کی جستجو میں نکلی اور بہت جلد یہ غم ناک پیام سنایا "افسوس میری بچیو! میں جانتی تھی کہ اس کا انجام یہی ہو گا، لیکن تم کسی طرح نہ مانیں، اور اب تمہیں اپنی بانسریاں ہمیشہ کے لئے بند رکھنی پڑیں گی۔ ہسپانوی سرداروں کے عزیز کثیر رقمیں لے کر انہیں رہائی دلانے کے لئے آ گئے ہیں اور سردار اپنے وطن جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔"
اس غم ناک خبر نے شہزادیوں پر بجلی گرا دی۔ زاہدہ اس بات پر سخت ناراض تھی کہ ان کے عاشق انہیں کوئی رخصتی پیغام دئیے بغیر یوں اپنے وطن جا رہے ہیں۔ اسے وہ اپنی محبت کی توہین سمجھتی تھی۔ زبیدہ یہ خبر سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ ملتی، آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہوتی اور پھر زاروقطار رونے لگتی۔ نرم و نازک سریتہ شہ نشین کی آڑ میں کھڑی ہوتی اور خاموشی سے آنسو بہاتی۔ اس کے آنسوؤں کے قطرے شبنم کی طرح پھولوں کے اس کُنج میں گرتے جہاں بیٹھ کر قیدی سردار زادے محبت کے گیت گاتے تھے۔
بےچاری خدیجہ جس طرح ممکن ہوتا ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتی۔ وہ ان سے برابر کہتی "میری بچیو! صبر کرو۔ غم کی عادت پڑ جائے تو وہ تکلیف نہیں دیتا۔ دنیا کا دستور یہی ہے۔ جب تم بھی میری عمر کو پہنچو گی تو تمہاری سمجھ میں آئے گا کہ مرد کیا ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تینوں سردار قرطبہ یا اشبیلیہ کی کسی نہ کسی ہسپانوی دوشیزہ کی زلفوں کے اسیر ہیں۔ وہ بہت جلد اپنی شہ نشینوں میں رقص و سرود کی بزمیں آراستہ کریں گے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 186
الحمرا کی حسین شہزادیوں کو ہمیشہ کے لئے بھلا دیں گے۔۔۔۔ اس لئے میری بچیو! صبر سے کام لو اور ان کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔"
دانش مند خدیجہ کے سکون آمیز لفظوں سے شہزادیوں کا غم اور بڑھتا۔ دو دن تک ان کے دلوں کو ذرا قرار نہ آیا۔ تیسرے دن علی الصبح بوڑھی خدیجہ ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور غصے سے چلائی "کوئی سوچ سکتا ہے کہ انسان اتنا گستاخ بھی ہو سکتا ہے؟"
وہ غصے سے بےقابو ہو کر کہتی رہی "مجھے اس بےوفائی کی یہی سزا ملنی چاہیے تھی، جو میں نے تمہارے باپ کے ساتھ کی۔۔۔۔ خبردار جو اب تم میں سے کسی نے اپنے ہسپانوی چہیتوں کا نام بھی لیا۔"
شہزادیاں اس کا غصہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگیں "لیکن اچھی خدیجہ! بتاؤ تو سہی کہ کیا بات ہوئی؟"
"کیا بات ہوئی؟۔۔۔۔ بغاوت کی گئی، یا بغاوت کی سازش کی گئی۔۔۔۔ اور مجھ سے کی گئی، جو اپنے بادشاہ کی سب سے وفادار رعیت اور اپنی شہزادیوں کی سب سے باوفا خادمہ ہے۔۔۔۔ ہاں! میری بچیو! یقین جانو کہ ان گستاخ ہسپانوی سرداروں نے مجھے بغاوت کی سازش میں الجھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تمہیں یہاں سے فرار ہو کر قرطبہ جانے اور ہسپانوی سرداروں سے شادی کرنے کی سازش میں مدد دوں۔"
اتنا کہہ کر بوڑھی وفا پرست خادمہ نے اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈھک لیا اور پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگی۔ تینوں حسین شہزادیوں کے چہرے زرد پڑ گئے، پھر ان پر سرخی دوڑ گئی، پھر وہ زرد ہوئے اور پھر سرخ۔ وہ تھر تھر کانپنے لگیں۔ شرمیلی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور منہ سے کچھ نہ بولیں۔۔۔۔ اور بوڑھی خادمہ اپنی جگہ بیٹھی غصے سے ہچکولے کھاتی رہی۔۔۔۔ کبھی آگے کو جھکتی، کبھی پیچھے کو ہٹ جاتی اور پھر غصے سے چلا اٹھتی:
"کیا میں اب تک یہی ذلت سہنے کے لئے زندہ رہی تھی۔۔۔۔ میں، جو نوکروں میں سب سے زیادہ وفادار ہوں!"
آخر بڑی شہزادی، جو تینوں میں زیادہ جری تھی اور ہر کام میں پیش قدمی کرتی تھی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی "اماں خدیجہ! فرض کرو ہم عیسائی سرداروں کے ساتھ جانے پر راضی ہوں۔۔۔۔ تو کیا یہ ممکن ہے؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 187
بوڑھی خادمہ کے غصے کو تھوڑا سا وقفہ ملا۔ شہزادی کی بات سن کر اس نے گردن اٹھائی اور تیزی سے بولی "ممکن!۔۔۔۔ ممکن کیوں نہیں؟ یقیناً ممکن ہے، اس لئے کہ قیدی سرداروں نے حسین بابا کو رشوت دے کر اس سازش میں شریک کر لیا ہے، اور سارا منصوبہ تیار ہے۔۔۔۔ لیکن ذرا سوچو کہ بادشاہ کو دھوکہ دینا کس طرح ممکن ہے۔۔۔۔ بادشاہ کو، جو مجھ پر اتنا بھروسہ کرتا ہے۔"
اتنا کہہ کر بوڑھی خادمہ پر غم کا ایک اور دورہ پڑا۔ وہ پھر ہچکولے لے لے کر اپنے ہاتھوں کو ملنے لگی۔
بڑی شہزادی نے متانت سے جواب دیا "لیکن ہمارے باپ نے ہم پر تو کبھی بھروسا نہیں کیا۔ اس نے صرف مضبوط دروازوں اور آہنی سلاخوں پر بھروسا کیا ہے اور ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہے۔"
بوڑھی خادمہ اپنے غم کو ایک اور وقفہ دیتے ہوئے بولی "ہاں! یہ تو بالکل درست ہے۔ اس نے یقیناً تمہارے ساتھ معقول برتاؤ نہیں کیا۔ تمہیں اس طرح قید میں رکھ کر اس نے تمہارے شباب پر ظلم کیا ہے۔ گلاب کے پھولوں کو گلدانوں میں سجا کر شگفتہ نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔۔ لیکن پھر؟ کیا تم اپنا وطن چھوڑ کر بھاگ جانے کے لئے تیار ہو؟"
"لیکن بھاگ کر جس سرزمین میں ہم جا رہے ہیں کیا وہ ہماری ماں کا وطن نہیں، جہاں ہم قیدی بن کر نہیں آزاد رہ کر زندگی بسر کریں گے اور کیا وہاں جا کر ہمیں ایک ظالم اور سخت گیر باپ کے عوض ایک محبت کرنے والا شوہر نہیں ملے گا؟"
اس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کہہ رہی ہو لفظ بہ لفظ صحیح ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ تمہارا باپ ظالم ہے۔۔۔۔ لیکن اس سے کیا؟" غم کا دورہ پھر شروع ہوا۔ "کیا تم مجھے اس کے انتقام کی آگ میں جلنے کے لئے یہیں چھوڑ جاؤ گی؟"
"بالکل نہیں، اچھی خدیجہ! کیا تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتیں؟"
"بالکل ٹھیک ہے، میری بچی!۔۔۔۔ اگر سچ پوچھو تو حسین بابا نے اس معاملے پر گفتگو کرتے وقت مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے تمہارے ساتھ جانے میں مدد دے گا۔۔۔۔ لیکن پیاری! ایک بات اور سوچ لو۔ کیا تم اپنے باپ کا دین چھوڑنے کے لئے تیار ہو؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 188
ہماری ماں عیسائی تھی۔۔۔۔ میں بھی عیسائی بننے کو تیار ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میری بہنیں میرا ساتھ دیں گی۔"
"چلو، یہ بھی ٹھیک رہا" بوڑھی عورت اطمینان کے لہجے میں بولی۔ "تمہاری ماں کا اصلی دین عیسائیت تھا اور اسے مرتے دم تک اس کا غم رہا کہ اس نے اسے کیوں چھوڑا۔ مرتے وقت میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ تمہاری روحوں کی حفاظت کروں گی۔ اس وقت مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمہاری روحیں مردہ نہیں ہوئیں۔ میری بچیو! میں بھی عیسائی پیدا ہوئی تھی اور دل سے اب بھی عیسائی ہوں۔ میں نے تہیہ کیا ہے کہ عیسائی ہو کر مروں گی۔ میں نے حسین بابا سے سب باتیں طے کر لی ہیں۔ وہ اصلاً ہسپانوی ہے اور اس کا گاؤں میرے گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ہے۔ وہ بھی اپنے وطن جانے کے لئے تڑپ رہا ہے اور دوبارہ عیسائی ہونے کے لئے بےقرار ہے۔ سرداروں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم دونوں نے آپس میں شادی کر لی تو وہ ہمارے رہنے سہنے کا معقول انتظام کر دیں گے۔"
مختصر یہ کہ اس انتہائی دانش مند بڑھیا نے ہسپانوی سرداروں اور حسین بابا سے سازش کر کے فرار ہونے کا سارا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ بڑی شہزادی فوراً اس پر عمل کرنے پر راضی ہو گئی اور اس کے طرزِ عمل نے حسبِ معمول چھوٹی بہنوں کے ارادے میں بھی پختگی پیدا کر دی۔ یہ صحیح ہے کہ سب سے چھوٹی نے پہلے بہت پس و پیش کیا اس لئے کہ اس کا دل نازک اور کمزور تھا۔۔۔۔ وہ دیر تک کشمکش کی آماجگاہ بنا رہا۔ پدرانہ محبت اور احساسِ شباب میں جنگ ہوتی رہی اور بالآخر حسبِ معمول شباب کے احساس نے فتح پائی اور ننھی شہزادی خاموش آنسوؤں اور دبی ہوئی آہوں کے ساتھ فرار کے منصوبے میں شریک ہو گئی۔
الحمرا کی سنگین پہاڑی میں شاہی زمانے میں بہت سرنگیں کھودی گئی تھیں اور قلعے اور شہر کے مختلف حصوں کے درمیان آمد و رفت کا کام دیتی تھیں۔ انہیں سرنگوں میں سے ہو کر حد رہ و شنیل کے دور افتادہ ساحلی بندرگاہوں تک پہنچنا بھی آسان تھا۔ ان سرنگوں میں سے بعض اب باقی نہیں رہیں، کچھ اب بھی اسی طرح قائم ہیں اور عرب حکمرانوں کی دور اندیشی اور حکمتِ عملی کی شہادت دے رہی ہیں۔ حسین بابا نے شہزادیوں کو انہیں سرنگوں میں سے ایک کے راستے باہر دریا کے ایک بندرگاہ تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ طے تھا کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۔۔۔ 189
ہسپانوی سرداری یہیں اپنی حسین محبوباؤں کے منتظر رہیں گے اور فوراً صبا رفتار گھوڑوں کے ذریعے انہیں ایک مملکت سے دوسری مملکت میں پہنچا دیں گے۔
مقررہ رات آ گئی۔ شہزادیوں کے مسکن کو حسبِ معمول ہر طرف سے مقفل کر دیا گیا اور الحمرا نیند کی خاموشیوں میں ڈوب گیا۔ آدھی رات کے قریب دانش مند خدیجہ نے شہ نشین کے دریچے سے باغ میں جھانکا۔ حسین بابا پہلے سے وہاں موجود تھا۔ اس نے مقررہ اشارہ کیا۔ خدیجہ نے شہ نشین سے ایک کمند باغ میں لٹکائی اور اس کے ذریعے نیچے اتر گئی۔ بڑی اور منجھلی شہزادی نے دھڑکتے ہوئے دلوں سے کمند میں پاؤں رکھا اور آہستہ آہستہ نیچے اتر گئیں۔ لیکن جب سریتہ کی باری آئی تو وہ جھجکی اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔ کئی بار اس نے اپنے نازک قدم کمند کی طرف بڑھائے اور کھینچ لئے۔ وہ کسی طرح اپنے دل کو مضبوط نہ کر سکی۔ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ اس کے طائرِ دل کی پھڑپھڑاہٹ تیز ہوتی جاتی۔ اس نے اس ایوان پر حسرت بھری نظر ڈالی جس میں اس نے بہت سے شب و روز بسر کئے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ اس ایوان کی حیثیت ایک قفس کی تھی۔ اس قفس میں وہ آزاد تو نہیں تھی لیکن محفوظ ضرور تھی، اور کسے خبر قفس سے پھڑپھڑا کر نکلنے جانے والے طائر کے لئے دنیا میں کیسے جال بچھے ہوئے ہیں! دنیا کے خطروں کے ساتھ اسے اپنے بہادر عاشق کا خیال آیا اور اس نے فوراً کمند پر پیر رکھ دیا، لیکن فوراً ہی باپ کی شفقت یاد آئی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ ایک نازک، بےتجربہ اور محبت کرنے والے دل میں پیدا ہونے والی کشمکش کی مصوری کتنی دشوار ہے۔
سریتہ کی بہنیں نیچے کھڑی التجا کر رہی تھیں، خادمہ برا بھلا کہہ رہی تھی اور حسین بابا پیچ و تاب کھا رہا تھا، لیکن نازک، ناتواں اور معصوم حسینہ امید و بیم کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ گناہ کی لذت اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی، لیکن اس کے خطرے پیروں میں بیڑیاں ڈال رہے تھے۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ افشائے راز کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ کہیں دور سے آتی ہوئی ٹاپوں کی آوازیں کانوں میں گونجنے لگیں۔ حسین بابا نے گھبرا کر کہا "سپاہی گشت کے لئے نکل آئے۔ ہم نے ذرا بھی دیر کی تو ہماری جانوں کی خیر نہیں۔۔۔۔ شہزادی نیچے اترو، ورنہ ہم تمہیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔"
سریتہ کے دل میں ایک طوفان اٹھا۔ اس نے کمند کی رسی کھولی اور ایک آہنی عزم کے ساتھ اسے نیچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔