قصہ آدم علیہ السلام و ابلیس

دنیا کی حالت قبل از رسول ﷺ [*]
آدم علیہ السلام کی پیدائش :
اللہ رب العزت کی بابرکت ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں ،وہی عرش و فرش کا مالک ہے،زمین و آسماں کا خالق ہے، تمام مخلوقات کا رازق ہے،وہی لافانی و لا محدودہے ۔وہ عظیم ہستی اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے اور اس کے فیصلے کبھی تبدیل نہیں ہوتے ۔ اسی کا حکم اس کائنات کے ذرے ذرے پر چلتا ہے اور صرف اسی کی مرضی و منشا سے اس کائنات میں پتّا ہلتا ہے ‘چشمہ پھوٹتا ہے ‘ بیج اگتاہے ‘پھولوں میں مہک آتی ہے ‘دریا وسمندر بہتے ہیں اور درخت پھل پھول دیتے ہیں۔یہ کائنات نہ تھی تو صرف رب تعالیٰ کی ذات عالی تھی اور یہ کائنات نہ ہوگی تب بھی رب تعالیٰ ہی باقی رہے گا۔اسی کی مرضی کے مطابق دن رات چلتے ہیں اور صبح ‘شام میں تبدیل ہوتی ہے ۔جب اس کائنات کی تخلیق ہوئی تو رب تعالیٰ نے اپنی عبادت کیلئے فرشتوں کو نور سے پیدا فرمایا تا کہ وہ اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کریں ۔اللہ تعالیٰ نے آگ سے ایک اور مخلوق "جنات"پیدا کی جن کا مقصد تخلیق بھی عبادت خداوندی ہی تھا۔
اللہ رب العزت نے زمین پر اپنا خلیفہ (نائب) بنانے کا فیصلہ فرمایا۔رب تعالیٰ نے اس فیصلے کے بارے میں فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں“ (البقرہ :۳۰) تو انہوں نے حیرت سے کہا” کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں‘جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کیلئے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں “( ایضاً)۔اللہ رب العزت نے ان کے استفہام پر فرمایا " میں جانتا ہوں ' جو کچھ تم نہیں جانتے "۔اللہ رب العزت نے مٹی سے سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا اور ان کوبہت سی چیزوں کے نام سکھائے اور فرشتوں کے ان شبہات کو رفع کرنے کیلئے جو انہوں نے تخلیق آدم کے حوالے سے کیے تھے ‘ فرمایا "اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ"۔فرشتے چونکہ صرف وہی کرتے اور جانتے تھے جس کی انھیں تعلیم دی جاتی تھی لہذا انھوں نے کہا " نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے ،ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں ‘جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے " (البقرہ:۲۳)۔اللہ رب العزت نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم ان چیزوں کے نام بتاؤ ،آدم علیہ السلام کے نام بتانے پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا "میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو' وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ،اسے بھی میں جانتا ہوں "۔
ابلیس کی نافرمانی اور چیلنج :
اللہ تعالی نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ۔فرشتوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور سجدے میں جھک گئے۔سب نے اطاعت و تابعداری کا مظاہر ہ کیالیکن جنات کے گروہ سے تعلق رکھنے والا ایک جن جو دربار الہٰی میں اونچے مقام کا حامل تھا ' سجدے میں نہ جھکا۔اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور بغاوت کرتے ہوئے سجدے سے صاف انکار کر دیا۔اللہ رب العزت نے فرمایا ” تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھ کو حکم دیا تھا ؟“(الاعراف: ۲۱)۔ابلیس (لفظی معنی :انتہائی مایوس )نے ڈھٹائی سے کہا ” میں اس سے بہتر ہوں‘ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے "(الاعراف)۔شیطان (لفظی معنی :سرکش و نافرمان)نے اپنے آپ پر آگ سے پیداہونے کی وجہ سے غرور کیا اور آدم علیہ السلام کو حقیر سمجھتے ہوئے کہا کہ آدم مٹی سے بنے ہیں اور میں ان کو کسی طرح سجدہ نہیں کر سکتا۔بد بخت نے یہ نہ سوچا کہ مجھے تو صرف اپنے رب کا مطیع و فرمانبردار بننا ہے اور اس کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔جس طرح وہ پہلے اپنے رب کی اطاعت کرتا تھا،اس معاملے میں بھی اسے اللہ کے حکم کو ماننا چاہیے تھامگر اس کاغرور وتکبر آڑے آیا اور ا س نے خود کونافرمانوں کی فہرست میں شامل کروالیا۔اللہ تعالیٰ نے اس کی نافرمانی اور غرور خاک میں ملانے کیلئے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا اور اسے زلیل قرار دیا اور حکم دیا کہ ” نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں “۔(الاعراف:۳۱)نیز فرمایا"اور تیرے اوپر یوم الجزا ءتک میری لعنت ہے "( ص:۸۷( ۔
اللہ تعالیٰ نے ابلیس لعین کو اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لعنت کا مستحق ٹھرا ۔جو اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرے گا 'اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوگا۔غرور تکبر نے ابلیس کو بڑے مقام سے ذلت کے مقام کی طرف دھکیل دیا اور اپنے آ پ کو اندھیروں میں دھکیل دیا نتیجتاً خدا تعالیٰ کے عذاب کامستحق ٹھہرا۔

ابلیس کا منصوبہ ؛ انسان کی گمراہی :
شیطان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق تو بن گیالیکن اس شریر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آدم علیہ السلام کی نسل کو گمراہ کرے گا۔چنانچہ اس نے رب تعالیٰ سے کہا’’ اے میرے رب،یہ بات ہے تو پھر مجھے اس وقت تک کیلئے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے" (ص:۹۷) ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول فرمائی اور مہلت دیتے ہوئے فرمایا ” اچھا،تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے ''۔مہلت مل جانے پر ابلیس کہنے لگا ” اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا،آگے اور پیچھے،دائیں اور بائیں ،ہر طرف سے ان کو گھیروں گااور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا“(الاعراف: ۷۱)۔یہ شیطان کی طرف سے ایک کھلا چیلنج تھا کہ میں تیری مخلوق کو برائی کے راستے پر چلاؤں گا ۔احمق سمجھ رہا تھا کہ مجھ سے جو نافرمانی ہوئی ہے ،وہ اللہ ہی کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اس نے ہی مجھے فتنے میں مبتلا کیا گویا وہ اپنی نافرمانی کو بھی اللہ تعالیٰ کے سر تھوم رہاتھا اور چاہتا تھا کہ اس کے نفس کے اندر جو چوری ہے 'اس پر پردہ ہی پڑا رہتا (تفہیم القرآن ) ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی اس بے باکانہ جسارت پر انجام کار بتاتے ہوئے فرمایا ” تو حق یہ ہے، اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں ،کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے “( سورۃص: ۵۸)۔اللہ رب العزت نے صاف صاف اس کے دردناک انجام کی خبر دے دی کہ جو برائی کے افعال تو ،تیری ذریت اور تیرے پیروی کرنے والے انسان کریں گے ،ان سب کا ٹھکانہ جہنم کی دھکتی آگ ہوگی ۔کیونکہ خدا کے نافرمان رحمت الٰہی کے مستحق ہر گز نہیں ۔خالق کی نافرمانی میں ہلاکت و بربادی ہے اور جب مخلوق خالق ہی کی اطاعت نہ کرے تو اس سے زیادہ ظالم اور بے عقل کوئی نہیں ۔
ابلیس کے دربار خداوندی سے دھتکار دیے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی رفاقت کیلئے حضرت حوا علیھا السلام کو پیدا فرمایا جو سب سے پہلی عورت تھیں۔دونوں کو جنت میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ۔ارشاد باری ہوا" تم اور تمہاری بیوی ،دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ،مگر اُس درخت کا رخ نہ کرنا ،ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے“(البقرہ:۵۳)۔ابلیس لعین اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق ان کے پاس خیر خواہ بن کر آیا اور ان کو بہکانے لگا کہ " تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ،یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے" (الاعراف :۰۲)اپنی بات کا یقین دلانے کیلئے "اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں" (الاعراف :۱۲)۔
اس کے اس بہلاوے سے آدم و حوا علیھما السلام اس کے جال میں آگئے اور انھوں نے اس شجر ممنوعہ کا پھل بھولے سے کھا لیا۔درخت کا پھل کھاتے ہی دونوں کے ستر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانکنے لگے (الاعراف) ،اسی وقت اللہ رب العزت کی ندا آئی "کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہ تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ؟" (الاعراف: ۲۲)۔رب کریم کے اس عتاب سے آدم و حوا بہت پشیمان ہوئے لیکن ابلیس کی طرح نافرمانی کرنے کی بجائے رب تعالیٰ سے معافی کے طلبگار ہوئے ۔آدم و حواعلیھما السلام نے رب تعالیٰ سے التجا کہ ''اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا،اباگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہوجائیں گے " ( الاعراف: ۳۲)۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی کیونکہ وہ ذات بہت ہی رحم والی اور مہربان ہے ۔جو بھی اپنے کاموں پر شرمند ہ ہو کر اس سے سچے دل سے معافی مانگےٗوہ اسے ضرور معاف کرتا ہے اور اسے اپنی رحمتوں اور انعام سے نوازتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نےتینوں (آدم ؑو حوا ؑ اور ابلیس ) کو زمین پر بھیج دیا اور فرمایا کہ "تم ایک دوسرے کے دشمن ہواور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے "( البقرہ:۶۳)۔آدم و حوا ؑ کو زمین پر بھیجنا بطور سزا نہیں تھا بلکہ یہ منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا کیونکہ آدم ؑ کی تخلیق کا مقصد ہی زمین پر اپنا نائب بنانا تھا۔ آدم علیہ السلام کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا گیا تاکہ وہ اپنی نسل کو ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی کریں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ"جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے،ان کیلئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ،وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے "(البقرہ : ۹۳)۔یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل اور حتمی فیصلہ ہے جو اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو بتایا گیا ہے ۔انسان کو راستہ بتا دیا گیاہے،اسکے ذمے راستہ تلاش کرنا نہیں لگایا گیا۔وہ حاکم کی حیثیت میں نہیں بندہ اور نائب کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔اس کیلئے لازم ہے کہ وہ انکی پیروی کرے جن کو اللہ نے اسکی رہنمائی کیلئے منتخب فرمایا ہے۔
(جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ ) شیطان کا روز اول سے ہی یہ منصوبہ ہے کہ وہ انسان کو خدا تعالیٰ کی راہ سے ہٹائے اور اسے رب تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت پر آمادہ کرے۔کیونکہ وہ خود بھی نافرمان نکلا تھا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروںمیں سے ہوگیا "(ص:۴۷)۔اس کے انکار کی وجہ"تکبر" اور "گھمنڈ "تھا اور وہ خود کو بالاتر ذات سمجھنے لگا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتے ہوئے کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے :
” شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔وہ تمہارا کھلا دشمن ہے" (البقرة: ۸۶۱)(آیت:۸۰۲ ایضاً)
” کھاﺅ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے " ( الانعام : ۲۴۱)
” سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی " ( النساء: ۸۳)
”اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سر پرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا ۔وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے،او ر انھیں امیدیں دلاتا ہے ،مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں" ( النساء: ۹۱۱،۰۲۱)
”شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نمازسے روکدے " (المائدہ : ۱۹(
” اگر تم نے ان (شیاطین) کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو"( الانعام : ۱۲۱(
”اور شیطان اپنے رب کا ناشکر ا ہے " ( بنی اسرائیل : ۷۲)
”حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے " ( یوسف : ۵)
”اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ؟"(الکھف : ۵۰)
”شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے "(مریم ؛ ۴۴)
” شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا "(الفرقان: ۹۲)
” وہ تو اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہوجائیں "(فاطر: ۶)
”اے لوگو ‘جو ایمان لائے ہو ‘شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ‘اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا"(النور:۱۲)
یہ کلام الٰہی کی چند آیات ہیں جن میں شیطان کا اصل چہرہ بے نقاب کی گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو ہمیشہ برائی،نافرمانی،حرام کاموں اور حدود اللہ کو توڑنے ہی کی ترغیب دیتا ہے ۔چونکہ شیطان کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس نے ضرور ضرور جہنم میں جانا ہے لہٰذا اس کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو خدا کی راہ سے ہٹائے ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے " پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کراور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں "(الحشر: ۶۱) ۔قیامت کے دن وہ خود اقرار کرے گا کہ " حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا ۔میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں' میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا " اور اپنے انسان پیروؤں سے کہے گا کہ " اب مجھے ملامت نہ کرو ٗاپنے آپ ہی کو ملامت کروٗ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری" ( ابراہیم :۲۰ تا ۲۲)۔اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی پیروی کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں کیونکہ" اسے ان لوگوں پر تسلط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ٗاس کا زور تو انھی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے ہیں اور اس کے بہکانے سے شر ک کرتے ہیں "(النحل : ۹۹،۰۰۱)۔اسی لیے پروردگار نے ہمیں حکم دیا ہے کہ " اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو " ( حم السجدہ : ۶۳)نیز فرمایا " اور دعا کرو کہ پروردگار ٗ میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، بلکہ اے میرے ربٗ میں تواس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں" (المومنون : ۷۹،۸۹)۔اللہ رب العزت نے خود انسان کو اس کے ازلی دشمن کے ارادوں سے آگاہ فرما دیا اور اس کے شر سے بچنے کیلئے بھی راستہ بتا دیا کہ ہمیشہ اللہ رب العزت سے اس کے شر سے پناہ مانگی جائے اور اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اسی پر بھروسہ کیا جائے۔کیونکہ اللہ رب العزت ہی اپنی مخلوق کا سچا خیر خواہ ہے ،وہ ظالم نہیں کہ خوامخواہ اپنی مخلوق کو جہنم کا ایندھن بنائے ۔(جاری ہے(




[*] یہ فصل میری کتاب " حیات رسول ﷺ" کے پہلے باب "دنیا کی حالت قبل از رسول ﷺ " کا حصہ ہے۔​
 

نایاب

لائبریرین
دنیا کی حالت قبل از رسول ﷺ [*]
آدم علیہ السلام کی پیدائش :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیطان (لفظی معنی :سرکش و نافرمان)نے اپنے آپ پر آگ سے پیداہونے کی وجہ سے غرور کیا اور آدم علیہ السلام کو حقیر سمجھتے ہوئے کہا کہ آدم مٹی سے بنے ہیں اور میں ان کو کسی طرح سجدہ نہیں کر سکتا۔بد بخت نے یہ نہ سوچا کہ مجھے تو صرف اپنے رب کا مطیع و فرمانبردار بننا ہے اور اس کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔جس طرح وہ پہلے اپنے رب کی اطاعت کرتا تھا،اس معاملے میں بھی اسے اللہ کے حکم کو ماننا چاہیے تھامگر اس کاغرور وتکبر آڑے آیا اور ا س نے خود کونافرمانوں کی فہرست میں شامل کروالیا۔اللہ تعالیٰ نے اس کی نافرمانی اور غرور خاک میں ملانے کیلئے اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا اور اسے زلیل قرار دیا اور حکم دیا کہ ” نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں “۔(الاعراف:۳۱)نیز فرمایا"اور تیرے اوپر یوم الجزا ءتک میری لعنت ہے "( ص:۸۷( ۔


ابلیس کا منصوبہ ؛ انسان کی گمراہی :
شیطان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق تو بن گیالیکن اس شریر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آدم علیہ السلام کی نسل کو گمراہ کرے گا۔چنانچہ اس نے رب تعالیٰ سے کہا’’ اے میرے رب،یہ بات ہے تو پھر مجھے اس وقت تک کیلئے مہلت دے دے جب یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے" (ص:۹۷) ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول فرمائی اور مہلت دیتے ہوئے فرمایا ” اچھا،تجھے اس روز تک کی مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے ''۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ ) شیطان کا روز اول سے ہی یہ منصوبہ ہے کہ وہ انسان کو خدا تعالیٰ کی راہ سے ہٹائے اور اسے رب تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت پر آمادہ کرے۔کیونکہ وہ خود بھی نافرمان نکلا تھا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروںمیں سے ہوگیا "(ص:۴۷)۔اس کے انکار کی وجہ"تکبر" اور "گھمنڈ "تھا اور وہ خود کو بالاتر ذات سمجھنے لگا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتے ہوئے کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[*] یہ فصل میری کتاب " حیات رسول ﷺ" کے پہلے باب "دنیا کی حالت قبل از رسول ﷺ " کا حصہ ہے۔​



"(ص:۴۷)

"( ص:۸۷( ۔
" (ص:۹۷)


محترم کفایت ہاشمی صاحب
السلام علیکم
جزاک اللہ خیراء
آپ نے اپنی کتاب کے باب اول کے مندرجات کو شریک محفل کرتے آگہی کی شمع روشن کی ۔
کیا یہ ص47 ۔ ص 87 ۔ ص97 ۔ سے مراد سورہ الحجر کی آیات مبارکہ میں بیان شدہ مضامین ہیں ۔ ؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،


(15)
سورہ الحجر
آیت نمبر 26 تا 49
ترجمہ طاہر القادری

اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر
طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا

اور اِس سے پہلے ہم نے جنّوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا جس میں دھواں نہیں تھا

اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں

پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا

پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا

سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا

(اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا

(ابلیس نے) کہا: میں ہر گز ایسا نہیں (ہو سکتا) کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے تخلیق کیا ہے

(اللہ نے) فرمایا: تو یہاں سے نکل جا پس بیشک تو مردود (راندۂ درگاہ) ہے

اور بیشک تجھ پر روزِ جزا تک لعنت (پڑتی) رہے گی

اُس نے کہا: اے پروردگار! پس تو مجھے اُس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے

اللہ نے فرمایا: سو بیشک تو مہلت یافتہ لوگوں میں سے ہے

وقتِ مقررہ کے دن (قیامت) تک

ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا

سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں

اللہ نے ارشاد فرمایا: یہ (اخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے در پر آتا ہے

بیشک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کی

اور بیشک ان سب کے لئے وعدہ کی جگہ جہنم ہے

جس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان میں سے الگ حصہ مخصوص کیا گیا ہے

بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے

(ان سے کہا جائے گا۔ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ

اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے

انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے

(اے حبیب!) آپ میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں ہی بیشک بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں ۔
 
"(ص:۴۷)

"( ص:۸۷( ۔
" (ص:۹۷)


محترم کفایت ہاشمی صاحب
السلام علیکم
جزاک اللہ خیراء
آپ نے اپنی کتاب کے باب اول کے مندرجات کو شریک محفل کرتے آگہی کی شمع روشن کی ۔
کیا یہ ص47 ۔ ص 87 ۔ ص97 ۔ سے مراد سورہ الحجر کی آیات مبارکہ میں بیان شدہ مضامین ہیں ۔ ؟
آپ کی توجہ کا شکریہ۔ دراصل یہ سورۃ ص کی آیات ہیں جو پارہ نمبر 23 میں ہے۔ درج شدہ آیت نمبر 47، ،87 ،97، اصل میں آیت نمبر 74، 78 اور 79 ہے جو غلطی سے47، 87 اور 97 ہوگئی۔اوپر ایک اور جگہ سورۃ ص کا حوالہ ( سورۃص: ۵۸) ہے ، اس کا صحیح نمبر 85 ہے۔ انپیج سے ورڈ پر منتقل کرتے ہوئے اس کے اعداد الٹے ہو گئے ہیں۔ جس پر میں سب حضرات سے معذرت خواہ ہوں۔ براہ مہربانی یہاں سے حوالہ لیتے ہوئے آیت نمبر خود بھی چیک کرلیجئے گا۔تدوین کا اختیار اب ختم ہوگیا ورنہ اسے خود ٹھیک کرتا۔
 
Top