عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یہ اس زمانے کی بات ہے جب دکھ اور سکھ سانجھے ہوتے تھے۔ گلی محلے میں کسی پرآئی افتاد سب کو اپنے اوپر آئی لگتی تھی اور ہرخوشی میں یوں ہی شامل ہوا جاتا تھا جیسے سو فیصد اپنی ہی ہو۔ ان وقتوں میں حقیقتاً بندہ بندے کا دارو ہوتا تھا لیکن اس قصے میں ایک دکھوں کی ماری لڑکی کی عجیب داستان ہے جو شاید آپ نے پہلے کبھی نا پڑھی سنی ہو۔ انسانی ہمدردی، مثبت جذبات، غم اورخوشی کے ملے جلے اثرات لیے اس کہانی کو لکھنے کا خیال سوشل سائیٹ پر پرسوں آئے ایک میسج کو دیکھ کر اور پھر اپنے ایک نہایت ہی درد دل رکھنے والے محفلین کی 'ھل من مزید' کی فرمائش پر آیا اور خوش قسمتی سے آج ہی وقت بھی مل گیا۔
ہو سکتا ہے کچھ حساس محفلین اس قصے کو پڑھتے ہوئے اپنے آنسو نا روک پائیں، اس لیے احتیاطاً پانی کا گلاس اور ٹشو رومال وغیرہ لیکر بیٹھیں۔ اب کیونکہ یہ قصہ میرا سنا ہوا بھی ہے اور کسی زمانے میں پڑھا بھی تھا سو بہت سی تفصیلات شاید بھول بھال بھی گئی ہوں، اس لیے لکھت پڑھت میں اونچ نیچ کو درگزر فرمائیے گا۔ اب آپ لوگوں کا وقت مزید برباد نہیں کرتا ہوں اور اصل مدعے کی طرف آتا ہوں۔
1980-81 کی بات ہے، صبح کے لگ بھگ آٹھ بجے لاہور کے بادامی باغ سٹینڈ سے نیو خان کمپنی کی نیم کھٹارا سی بس راولپنڈی جانے کے لیے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ اس وقت نا تو اتنی بسیں ہوتی تھی اور نا بے تحاشہ مسافر۔ گھنٹے دو گھنٹے بھر بعد لانگ روٹ کا ایک ٹائم نکلتا تھا اور اگر ایک گاڑی نکل گئی تو پھر اگلی بس پر سوار ہونے کے لیے اچھا خاصا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کچھ نا کچھ محفلین جو اس زمانے میں سفر کرتے رہے ہوں گے وہ یقیناً اس صورتحال سے باخوبی واقف ہوں گے۔ تو جناب یہ بس تقریباً سیٹر ہوئے اپنے وقت سے تھوڑا آگے پیچھے سفر کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ راولپنڈی جانے کے لیے واحد راستہ جرنیلی سڑک تھی جس کی حالت اس وقت کافی دگرگوں تھی اور گاڑیاں چالیس پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار نا پکڑ سکتیں تھی۔
بس نے راوی کا پل پار کیا اور شاہدرہ جا رکی۔ دو تین اور مسافر سوار ہو گئے، جن میں ایک باریش بزرگ بھی تھے۔ ان کے پاس درمیانے سے حجم کا ایک گھٹڑی نما تھیلا بھی تھا۔ کنڈیکٹر نے سب سے آخری چھ والی سیٹ پر سے ایک نوجوان کو اٹھا کر بزرگ کو بیٹھا دیا۔ اچھے وقت تھے، نوجوان ہنستے مسکراتے بزرگوں کو جگہ دے دیا کرتے تھے، اب سیٹ تو دور کی بات کوئی کسی کو ایک سمائیل بھی نہیں دیتا۔ خیر۔۔۔وقت وقت کی بات ہے۔ بس پھر خراماں خراماں اپنے سفر پر روانہ ہوگئی۔
مریدکے نامی قصبے پہنچنے پر آٹھ نو مسافر اتر گئے اور دو تین مسافر سوار ہو گئے جن میں ایک برقع پوش خاتون بھی تھی۔ برقع زیب تن ہونے کی وجہ سے اس کی عمر کا صحیح سے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا علاوہ ازیں اس نے نقاب بھی پہن رکھا تھا۔ بس کچھ دیر رکنے کے بعد پھر چل پڑی۔ کچھ دیر بعد کنڈیکٹر کرایہ لیتے لیتے برقع پوش خاتون کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ میں نے گجرات جانا ہے لیکن میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔ جواب سن کر کنڈیکٹر کو غصہ آ گیا اور اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا کہ اگر کرایہ نہیں ہے تو بس میں سوار کیوں ہوئی ہو، چلو اترو۔ خاتون نے کہا بھائی تمھاری بڑی مہربانی مجھے گجرات تک لے چلو میں آگے ہی بہت پریشان ہوں۔ کنڈیکٹر اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے اونچی آواز میں بولا ' استاد جی گڈی روکو، سواری لانی اے'۔ ڈرائیور نے شیشے میں پیچھے دیکھتے ہوئے کہا کہ 'ایتھے کہیڑا سٹاپ اے، اگے کامونکی لاواں گا' ۔ کنڈیکٹر پھر باآواز بلند بولا۔۔ 'سواری بغیر کرائے تُو اے، ایتھے ای لاؤ'۔ ڈرائیور نے یہ سن کر رفتار آہستہ کرنا شروع کی اور بلآخر گاڑی رک گئی۔ کنڈیکٹر نے کہا چل بی بی تھلے لے۔ برقع پوش نے بیٹھے بیٹھے باہر دیکھا، باکل ویران جگہ تھی اور دور دور تک کوئی آبادی یا ذی روح نظر نہیں آتا تھا۔ وہ چلا اٹھی اللہ کا نام ہے کسی آبادی میں تو اتارو یہاں میں کہاں جاؤں گی!
یہ ساری گفتگو پاس بیٹھے مسافروں کو تو سنائی دے رہی تھی لیکن پیچھے بیٹھے مسافروں کو سمجھ نا آ سکی۔ اب کنڈیکٹر کہہ رہا کہ یہیں اترو اور برقع پوش دہائی دے رہی کہ کسی آبادی میں اتارو۔ اتنے میں پیچھے بیٹھا پتلون شرٹ میں ملبوس ایک خوش شکل سا نوجوان مسافر ان دونوں کے نزدیک آیا اور بولا؛ گاڑی کیوں روکی ہے، کیا مسئلہ ہے ؟ کنڈیکٹر نے اسے ساری بات بتائی، پھر پتلون شرٹ والے بابو نے نرم سے لہجے میں برقع پوش سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دینے کے بجائے رونے لگی اور پھر ہچکیاں لیتے ہوئے بولی، میری ماں کافی سال پہلے فوت ہو چکی ہے اور دو ماہ پہلے میرا باپ بھی فوت ہو گیا ہے۔ میں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتی تھی اور آج میری سوتیلی ماں نے بھی مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میرا کوئی بہن بھائی بھی نہیں ہے، اب سر چھپانے کو گجرات اپنی خالہ کے پاس جا رہی ہوں لیکن میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔ میں نے اس کنڈیکٹر کی بڑی منت کی ہے لیکن یہ بغیر کرایہ لیے نہیں مان رہا اور اب مجھے یہاں ویرانے میں اتار رہا ہے۔ میں اترنے کو تیار ہوں لیکن میں اسے کہہ رہی ہوں کہ مجھے کسی آبادی میں تو اتارے۔ نوجوان نے بات سنی اور کنڈیکٹر اور برقع پوش کو بغیر کچھ کہے سنے واپس اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ پیچھے بیٹھے مسافروں نے نوجوان سے سوال و جواب شروع کر دئیے اور وہ انھیں ساری بات سمجھانے لگ گیا۔
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد برقع پوش نے امداد طلب نظروں سے اردگرد دیکھا اور پھر روتے روتے اترنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ایک اور مسافر کنڈیکٹر کو متوجہ کرتے ہوئے بولا؛ کرایہ مجھ سے لے لو اور لڑکی کو نا اتارو۔ لڑکی سنی ان سنی کرتے ہوئے دروازے کے پاس جا کھڑی ہوئی اور اونچی آواز میں بڑبڑانے لگی ' اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے، ماں باپ مر گئے، سوتیلی ماں نے نکال دیا، اب یہ بس والے بھی نکال رہے ہیں۔ پتا نہیں، خالہ کے پاس پہنچ کر بھی میرے ساتھ کیا بنے گا۔ چھوڑو بھائی۔۔۔ مجھے اترنے دو۔ آج تو کرایہ دے دو گے، آگے کیا کروں گی، مجھے خود ہی کچھ کرنے دو۔
سب مسافروں نے یہ بات سنی اور ان میں اس برقع پوش اکیلی یتیم، مسکین اور دکھوں کی ماری لڑکی کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے۔ پتلون شرٹ والے نوجوان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے یہ ساری بات سنی تو ایک دم اپنی سیٹ پر کھڑا ہو گیا اور سب مسافروں کو متوجہ کرتے ہوئے بلند آواز میں بولا؛ بیٹا، مجھے نہیں پتا کہ تم کون ہو، سچ بول رہی یا جھوٹ۔ لیکن میں تمھاری بات کا اعتبار کرتا ہوں۔ بات کو مزید بڑھاتے ہوئے بولا، بھائیو، میں سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں، یہ میرے ساتھ میرا بیٹا ہے اور ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہے۔ پھر اس نے بیٹے سے اس کا کارڈ مانگا اور اسے دائیں بائیں دکھاتے ہوئے ہوا میں لہرایا۔ پھر یوں گویا ہوا، یہ نئی پوسٹنگ پر گوجرانولا جا رہا ہے اور میں اسے چھوڑنے جا رہا ہوں اور یہ بھی بتا دوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے اور اس کا کہیں بھی رشتہ طے نہیں کیا ہوا۔ اگر اس خاتون کو منظور ہو تو میں اپنے بیٹے کا نکاح اس سے کرنے کو تیار ہوں۔ کوٹ پتلون والے نوجوان نے کھڑے ہو کر اپنے والد کی بات کی توثیق کر دی۔
نوجوان اور اس کے والد کی یہ باتیں سن کر سب مسافر ہکا بکا رہ گئے۔ اتنے میں پچاس پچپن سال کا ایک اور مسافر کھڑا ہوا اور لڑکی سے کہا؛ کیوں بیٹا تمھیں منظور ہے ؟ لڑکی یہ ساری گفتگو سن کر حیران پریشان ہوگئی۔ نوجوان کی پیشکش اور پھر ادھیڑ عمر کی ترغیب نے اسے تذبذب میں ڈال دیا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہی آدمی پھر بولا کہ ' دیکھو تمھارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے، اس خوبصورت، پڑھے لکھے اور پکی سرکاری نوکری پر لگے نوجوان اور اس کے والد نے تمھیں دیکھے جانے بغیر اتنی بڑی پیشکش کر دی ہے، تم اس وقت مشکل میں ہو، اس پیشکش کو قبول کر لو' ۔ لڑکی نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے، آپ سب تو کچھ دیر میں اپنی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے اگر میں ان کے ساتھ چلی گئی تو یہ ناجانے میرے ساتھ کیا سلوک کریں۔ یہ سب کیسے ہو گا؟ اتنے میں ایک اور باریش مسافر کھڑا ہوا اور کہنے لگا؛ نکاح تو کہیں بھی ہو سکتا ہے، دو بول ہی تو پڑھنے ہیں، یہیں پڑھا لیتے ہیں۔ مجھے نکاح پڑھانا آتا ہے، کیوں بھائیو ؟ سب مسافر ایک سحر کی سی کیفیت میں تھے، اس بات کو سن کر ان کے چہرے کھل اٹھے، اور بیک وقت بول پڑے 'کیوں نہیں، ادھر ہی نکاح پڑھا دیں'
لڑکی نے یہ سب سن کر حامی بھر لی کہ وہ راضی ہے۔ لڑکی کا جواب سن کر سب مسافر خوش ہو گئے کہ چلو اس دکھیاری کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوا۔ ڈرائیور سے کہا گیا کہ وہ گاڑی کو مزید سائیڈ پر کھڑا کرے اور بس میں موجود تین چار خواتین کو بس کے اگلے حصے میں اکٹھا کر کے برقع پوش کو ان کے ساتھ بیٹھا دیا۔ پھر اسی باریش بزرگ نے نوجوان اور برقع پوش کا ایجاب قبول کروایا اور نکاح کی رسم ادا ہو گئی۔ ایک مسافر آگے بڑھا، دلہا کو مبارکباد دی اور دلہن کو دس روپے بطور سلامی پیش کر دیے۔ اسی اثنا میں سب سے پچھلی سیٹ پر شاہدرہ سے بیٹھنے والے تھیلا بردار بزرگ مسافر نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھنے جا رہا ہوں اور یہ میرے پاس مٹھائی کا ٹوکرا ہے۔ اللہ نے خوشی کا ایک موقع یہیں بنا دیا ہے، میں گوجرانوالا اتر کر اور لے لوں گا۔ پھر اپنے تھیلے سے مٹھائی کا ایک ٹکڑا نکال کر اس سلامی دینے والے کو پیش کر دیا۔ پھر تو جیسے لائین ہی لگ گئی سب مسافر باری باری آنا شروع ہوئے، دلہا اور اس کے والد کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ دلہن کو روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حسب توفیق سلامی دیتے۔ باریش بابا جی پاس ہی کھڑے تھے، ان سب کا منہ میٹھا کرواتے جاتے اور یوں یہ قضیہ اختتام پذیر ہوا۔
کچھ دیر بعد بس پھر چل پڑی لیکن ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ڈرائیور نے پھر گاڑی روک دی کیونکہ اسے نیند آ رہی تھی اور صرف اسے ہی نہیں کنڈیکٹر اور باقی سب مسافروں کو بھی نیند آ رہی تھی۔
ہو سکتا ہے کچھ حساس محفلین اس قصے کو پڑھتے ہوئے اپنے آنسو نا روک پائیں، اس لیے احتیاطاً پانی کا گلاس اور ٹشو رومال وغیرہ لیکر بیٹھیں۔ اب کیونکہ یہ قصہ میرا سنا ہوا بھی ہے اور کسی زمانے میں پڑھا بھی تھا سو بہت سی تفصیلات شاید بھول بھال بھی گئی ہوں، اس لیے لکھت پڑھت میں اونچ نیچ کو درگزر فرمائیے گا۔ اب آپ لوگوں کا وقت مزید برباد نہیں کرتا ہوں اور اصل مدعے کی طرف آتا ہوں۔
1980-81 کی بات ہے، صبح کے لگ بھگ آٹھ بجے لاہور کے بادامی باغ سٹینڈ سے نیو خان کمپنی کی نیم کھٹارا سی بس راولپنڈی جانے کے لیے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ اس وقت نا تو اتنی بسیں ہوتی تھی اور نا بے تحاشہ مسافر۔ گھنٹے دو گھنٹے بھر بعد لانگ روٹ کا ایک ٹائم نکلتا تھا اور اگر ایک گاڑی نکل گئی تو پھر اگلی بس پر سوار ہونے کے لیے اچھا خاصا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کچھ نا کچھ محفلین جو اس زمانے میں سفر کرتے رہے ہوں گے وہ یقیناً اس صورتحال سے باخوبی واقف ہوں گے۔ تو جناب یہ بس تقریباً سیٹر ہوئے اپنے وقت سے تھوڑا آگے پیچھے سفر کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ راولپنڈی جانے کے لیے واحد راستہ جرنیلی سڑک تھی جس کی حالت اس وقت کافی دگرگوں تھی اور گاڑیاں چالیس پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار نا پکڑ سکتیں تھی۔
بس نے راوی کا پل پار کیا اور شاہدرہ جا رکی۔ دو تین اور مسافر سوار ہو گئے، جن میں ایک باریش بزرگ بھی تھے۔ ان کے پاس درمیانے سے حجم کا ایک گھٹڑی نما تھیلا بھی تھا۔ کنڈیکٹر نے سب سے آخری چھ والی سیٹ پر سے ایک نوجوان کو اٹھا کر بزرگ کو بیٹھا دیا۔ اچھے وقت تھے، نوجوان ہنستے مسکراتے بزرگوں کو جگہ دے دیا کرتے تھے، اب سیٹ تو دور کی بات کوئی کسی کو ایک سمائیل بھی نہیں دیتا۔ خیر۔۔۔وقت وقت کی بات ہے۔ بس پھر خراماں خراماں اپنے سفر پر روانہ ہوگئی۔
مریدکے نامی قصبے پہنچنے پر آٹھ نو مسافر اتر گئے اور دو تین مسافر سوار ہو گئے جن میں ایک برقع پوش خاتون بھی تھی۔ برقع زیب تن ہونے کی وجہ سے اس کی عمر کا صحیح سے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا علاوہ ازیں اس نے نقاب بھی پہن رکھا تھا۔ بس کچھ دیر رکنے کے بعد پھر چل پڑی۔ کچھ دیر بعد کنڈیکٹر کرایہ لیتے لیتے برقع پوش خاتون کے پاس پہنچا تو اس نے بتایا کہ میں نے گجرات جانا ہے لیکن میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔ جواب سن کر کنڈیکٹر کو غصہ آ گیا اور اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا کہ اگر کرایہ نہیں ہے تو بس میں سوار کیوں ہوئی ہو، چلو اترو۔ خاتون نے کہا بھائی تمھاری بڑی مہربانی مجھے گجرات تک لے چلو میں آگے ہی بہت پریشان ہوں۔ کنڈیکٹر اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے اونچی آواز میں بولا ' استاد جی گڈی روکو، سواری لانی اے'۔ ڈرائیور نے شیشے میں پیچھے دیکھتے ہوئے کہا کہ 'ایتھے کہیڑا سٹاپ اے، اگے کامونکی لاواں گا' ۔ کنڈیکٹر پھر باآواز بلند بولا۔۔ 'سواری بغیر کرائے تُو اے، ایتھے ای لاؤ'۔ ڈرائیور نے یہ سن کر رفتار آہستہ کرنا شروع کی اور بلآخر گاڑی رک گئی۔ کنڈیکٹر نے کہا چل بی بی تھلے لے۔ برقع پوش نے بیٹھے بیٹھے باہر دیکھا، باکل ویران جگہ تھی اور دور دور تک کوئی آبادی یا ذی روح نظر نہیں آتا تھا۔ وہ چلا اٹھی اللہ کا نام ہے کسی آبادی میں تو اتارو یہاں میں کہاں جاؤں گی!
یہ ساری گفتگو پاس بیٹھے مسافروں کو تو سنائی دے رہی تھی لیکن پیچھے بیٹھے مسافروں کو سمجھ نا آ سکی۔ اب کنڈیکٹر کہہ رہا کہ یہیں اترو اور برقع پوش دہائی دے رہی کہ کسی آبادی میں اتارو۔ اتنے میں پیچھے بیٹھا پتلون شرٹ میں ملبوس ایک خوش شکل سا نوجوان مسافر ان دونوں کے نزدیک آیا اور بولا؛ گاڑی کیوں روکی ہے، کیا مسئلہ ہے ؟ کنڈیکٹر نے اسے ساری بات بتائی، پھر پتلون شرٹ والے بابو نے نرم سے لہجے میں برقع پوش سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دینے کے بجائے رونے لگی اور پھر ہچکیاں لیتے ہوئے بولی، میری ماں کافی سال پہلے فوت ہو چکی ہے اور دو ماہ پہلے میرا باپ بھی فوت ہو گیا ہے۔ میں اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتی تھی اور آج میری سوتیلی ماں نے بھی مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میرا کوئی بہن بھائی بھی نہیں ہے، اب سر چھپانے کو گجرات اپنی خالہ کے پاس جا رہی ہوں لیکن میرے پاس کرایہ نہیں ہے۔ میں نے اس کنڈیکٹر کی بڑی منت کی ہے لیکن یہ بغیر کرایہ لیے نہیں مان رہا اور اب مجھے یہاں ویرانے میں اتار رہا ہے۔ میں اترنے کو تیار ہوں لیکن میں اسے کہہ رہی ہوں کہ مجھے کسی آبادی میں تو اتارے۔ نوجوان نے بات سنی اور کنڈیکٹر اور برقع پوش کو بغیر کچھ کہے سنے واپس اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا۔ پیچھے بیٹھے مسافروں نے نوجوان سے سوال و جواب شروع کر دئیے اور وہ انھیں ساری بات سمجھانے لگ گیا۔
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد برقع پوش نے امداد طلب نظروں سے اردگرد دیکھا اور پھر روتے روتے اترنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ایک اور مسافر کنڈیکٹر کو متوجہ کرتے ہوئے بولا؛ کرایہ مجھ سے لے لو اور لڑکی کو نا اتارو۔ لڑکی سنی ان سنی کرتے ہوئے دروازے کے پاس جا کھڑی ہوئی اور اونچی آواز میں بڑبڑانے لگی ' اس دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے، ماں باپ مر گئے، سوتیلی ماں نے نکال دیا، اب یہ بس والے بھی نکال رہے ہیں۔ پتا نہیں، خالہ کے پاس پہنچ کر بھی میرے ساتھ کیا بنے گا۔ چھوڑو بھائی۔۔۔ مجھے اترنے دو۔ آج تو کرایہ دے دو گے، آگے کیا کروں گی، مجھے خود ہی کچھ کرنے دو۔
سب مسافروں نے یہ بات سنی اور ان میں اس برقع پوش اکیلی یتیم، مسکین اور دکھوں کی ماری لڑکی کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے۔ پتلون شرٹ والے نوجوان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے یہ ساری بات سنی تو ایک دم اپنی سیٹ پر کھڑا ہو گیا اور سب مسافروں کو متوجہ کرتے ہوئے بلند آواز میں بولا؛ بیٹا، مجھے نہیں پتا کہ تم کون ہو، سچ بول رہی یا جھوٹ۔ لیکن میں تمھاری بات کا اعتبار کرتا ہوں۔ بات کو مزید بڑھاتے ہوئے بولا، بھائیو، میں سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں، یہ میرے ساتھ میرا بیٹا ہے اور ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہے۔ پھر اس نے بیٹے سے اس کا کارڈ مانگا اور اسے دائیں بائیں دکھاتے ہوئے ہوا میں لہرایا۔ پھر یوں گویا ہوا، یہ نئی پوسٹنگ پر گوجرانولا جا رہا ہے اور میں اسے چھوڑنے جا رہا ہوں اور یہ بھی بتا دوں کہ یہ غیر شادی شدہ ہے اور اس کا کہیں بھی رشتہ طے نہیں کیا ہوا۔ اگر اس خاتون کو منظور ہو تو میں اپنے بیٹے کا نکاح اس سے کرنے کو تیار ہوں۔ کوٹ پتلون والے نوجوان نے کھڑے ہو کر اپنے والد کی بات کی توثیق کر دی۔
نوجوان اور اس کے والد کی یہ باتیں سن کر سب مسافر ہکا بکا رہ گئے۔ اتنے میں پچاس پچپن سال کا ایک اور مسافر کھڑا ہوا اور لڑکی سے کہا؛ کیوں بیٹا تمھیں منظور ہے ؟ لڑکی یہ ساری گفتگو سن کر حیران پریشان ہوگئی۔ نوجوان کی پیشکش اور پھر ادھیڑ عمر کی ترغیب نے اسے تذبذب میں ڈال دیا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہی آدمی پھر بولا کہ ' دیکھو تمھارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے، اس خوبصورت، پڑھے لکھے اور پکی سرکاری نوکری پر لگے نوجوان اور اس کے والد نے تمھیں دیکھے جانے بغیر اتنی بڑی پیشکش کر دی ہے، تم اس وقت مشکل میں ہو، اس پیشکش کو قبول کر لو' ۔ لڑکی نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے، آپ سب تو کچھ دیر میں اپنی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے اگر میں ان کے ساتھ چلی گئی تو یہ ناجانے میرے ساتھ کیا سلوک کریں۔ یہ سب کیسے ہو گا؟ اتنے میں ایک اور باریش مسافر کھڑا ہوا اور کہنے لگا؛ نکاح تو کہیں بھی ہو سکتا ہے، دو بول ہی تو پڑھنے ہیں، یہیں پڑھا لیتے ہیں۔ مجھے نکاح پڑھانا آتا ہے، کیوں بھائیو ؟ سب مسافر ایک سحر کی سی کیفیت میں تھے، اس بات کو سن کر ان کے چہرے کھل اٹھے، اور بیک وقت بول پڑے 'کیوں نہیں، ادھر ہی نکاح پڑھا دیں'
لڑکی نے یہ سب سن کر حامی بھر لی کہ وہ راضی ہے۔ لڑکی کا جواب سن کر سب مسافر خوش ہو گئے کہ چلو اس دکھیاری کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوا۔ ڈرائیور سے کہا گیا کہ وہ گاڑی کو مزید سائیڈ پر کھڑا کرے اور بس میں موجود تین چار خواتین کو بس کے اگلے حصے میں اکٹھا کر کے برقع پوش کو ان کے ساتھ بیٹھا دیا۔ پھر اسی باریش بزرگ نے نوجوان اور برقع پوش کا ایجاب قبول کروایا اور نکاح کی رسم ادا ہو گئی۔ ایک مسافر آگے بڑھا، دلہا کو مبارکباد دی اور دلہن کو دس روپے بطور سلامی پیش کر دیے۔ اسی اثنا میں سب سے پچھلی سیٹ پر شاہدرہ سے بیٹھنے والے تھیلا بردار بزرگ مسافر نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھنے جا رہا ہوں اور یہ میرے پاس مٹھائی کا ٹوکرا ہے۔ اللہ نے خوشی کا ایک موقع یہیں بنا دیا ہے، میں گوجرانوالا اتر کر اور لے لوں گا۔ پھر اپنے تھیلے سے مٹھائی کا ایک ٹکڑا نکال کر اس سلامی دینے والے کو پیش کر دیا۔ پھر تو جیسے لائین ہی لگ گئی سب مسافر باری باری آنا شروع ہوئے، دلہا اور اس کے والد کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ دلہن کو روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حسب توفیق سلامی دیتے۔ باریش بابا جی پاس ہی کھڑے تھے، ان سب کا منہ میٹھا کرواتے جاتے اور یوں یہ قضیہ اختتام پذیر ہوا۔
کچھ دیر بعد بس پھر چل پڑی لیکن ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ڈرائیور نے پھر گاڑی روک دی کیونکہ اسے نیند آ رہی تھی اور صرف اسے ہی نہیں کنڈیکٹر اور باقی سب مسافروں کو بھی نیند آ رہی تھی۔
آگے مزید کچھ لکھنا ضروری نہیں ہے، محفلین خاصے عقلمند ہیں۔