عاطف بٹ
محفلین
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دہشت گرد مسلم اکثریتی آبادی کے ملک ملائشیا کا ایک مسافر بردار طیارہ یوکرین نامی امن کے گہوارے کے اوپر سے ہلکورے لیتا ہوا گزر رہا تھا۔ طیارہ چونکہ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتا ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور مسلمان چونکہ ہوتے ہی دہشت گرد ہیں لہٰذا طیارے میں سوار مسافر خواہ کسی بھی ملک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ سب اگر خود دہشت گرد نہیں بھی تو دہشت گردوں کے ہمدرد اور حامی ضرور تھے۔ طیارہ جس جگہ سے گزر رہا تھا وہاں اتفاق سے روس نواز پیارے پیارے سے باغی اور امریکہ نواز نرم دل فوجی ایک دوسرے کے ساتھ کچھ کھیل ویل میں مصروف تھے۔ دہشت گرد مسلمانوں کا طیارہ ان کے کھیل میں حائل ہوگیا۔ روس اور امریکہ کی آنکھوں کے تاروں نے طیارے کو پہلے تو کچھ نہیں کہا اور اس کی اٹکھیلیاں دیکھتے رہے۔ لیکن جب وہ اٹکھیلیاں خرمستیوں میں تبدیل ہونا شروع ہوئیں تو روس اور امریکہ کے پیاروں نے طیارے پر پھول پھینکنا شروع کردیئے تاکہ طیارہ ان کے کھیل کے میدان کو چھوڑ کر چلا جائے۔ لیکن دہشت گردوں کا طیارہ بھی دہشت گرد ہی نکلا اور ان معصوم کھلاڑیوں کے پھولوں کے بوجھ تلے دب کر زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ طیارے کے زمین پر گرنے سے روس اور امریکہ کے حمایت یافتہ امن پسندوں پر کیا گزری اس کا اندازہ آپ اس لئے نہیں لگا سکتے کہ نہ تو آپ روس نواز باغی ہیں اور نہ ہی امریکہ نواز یوکرینی فوجی۔ خیر، اس طیارے میں 80 بچوں سمیت 298 افراد سوار تھے۔ ظاہر ہے جب طیارہ زمین پر گرا تو اس کے پرزوں کے ساتھ اس میں سوار تمام لوگوں کے اجسام بھی ٹکڑوں کی صورت میں ادھر ادھر دور دور تک بکھر گئے جس کی وجہ سے ان اخلاص و محبت کے پتلوں کے کھیل کا میدان خراب ہوگیا۔ چچا بان کی مون کو جب اس بارے میں اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا کہ اصولاً تو ملائشیا کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے کہ اس کے طیارے نے روس اور امریکہ کے شریف کھلاڑیوں کا نہ صرف کھیل خراب کیا بلکہ زمین پر گر کر ان کے لئے کوفت کا باعث بھی بنا لیکن اس بار ہم صرف ہلکی پھلکی سرزنش کر کے معاملے کو رفع دفع کردیتے ہیں، تاہم یہ یاد رہے کہ اگر آئندہ کسی دہشت گرد مسلم ملک کا طیارہ ایسی کسی حرکت میں ملوث پایا گیا تو اس ملک کو اس بات کی سزا بھگتنا ہوگی۔ یوں یہ قصہ اپنے اختتام کو پہنچا اور روس نواز باغی اور امریکہ نواز فوجی پھر سے اپنے امن و آشتی پھیلانے کے کھیل میں مصروف ہوگئے۔