قصہ ایک نمازی کا ۔۔۔۔یس فضیلت

عندلیب

محفلین
ایس فضیلت کی طنزیہ تحریر"قصہ ایک نمازی کا" سے لیا ہوا اقتباس پیش خدمت ہے ۔
ہمارے ایک ملنے والے ہیں ، نام تو ہم ان کا نہیں بتا ئیں گے ، ہاں کام چلانے کے لئے آپ انھیں غنی بھائی کہہ سکتے ہیں ۔ غنی بھائی بڑے پکے نمازی ہیں ۔ پانچوں وقت کی نمازمسجد میں جاکر بڑی دھوم دھام سے پڑھتے ہیں ۔ ویسے یہ ایک مسئلہ ہے کہ کبھی گھر میں تنہا ہوں یا شہر سے باہر گئے ہوں تو نہیں پڑھتے ۔ نماز ان کے لئے عبادت نہیں بلکہ رعب جھاڑنے کا ذریعہ ہے ۔ دنیاوی عزت، وقاراور مراعات حاصل کرنے کے لئے ، بقول غنی بھائی کے نماز جیسا کوئی دوسرا طریقہ اتنا موثر نہیں ہے۔ نماز کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو ! انتہائی مظلوم بھی ثابت کر دیتے ہیں اور موقع ملے تو اچھے اچھوں کو ڈرا بھی دیتے ہیں ۔
گھر میں اگر مہمان آجائیں توغنی بھائی کانمازاہتمام قابل دید ہوتا ہے ۔ آدھے محلہ کو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ غنی بھائی اب وضو کرنے جا رہے ہیں ۔ پوری قوت سے مہمانوں کی طرف دیکھتے ہیں چیختے ہیں ۔ " لوٹا کہاں ہے ؟ ارے بھائی کوئی سن بھی رہا ہے یا سب بہرے ہوگئے ہیں ۔ میں پوچھتا ہوں لوٹا کہاں ہے مجھے نماز کے لئے دیر ہو رہی ہے اور لوٹا ندارد، اس گھر میں کبھی کوئی چیز کبھی جگہ پر بھی ملی ہے ۔ "
کوئی نہ کوئی دوڑ کےان کے لئے لوٹے اور پانی کا انتظام کرتا ہے ۔ دونوں آستینیں چڑھا کر وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے نہایت برہمی سے وضو شروع کر دیتے ہیں ۔ بڑبڑاتے بھی جاتے ہیں اور بڑبڑاہٹ اتنی واضح ہوتی ہے کہ
حاضریں با آسانی سن سکیں ۔ فجر کی اذان کے وقت آنکھ کھلی تھی اس وقت بھی وضو کے لئے لوٹا ہاتھ نہیں آرہا تھا ۔ ویسے تو فجر کا وضو مسجد میں ہی کر لیتا ہوں مگر آج غلطی ہوگئی اس کا خمیازہ بھگتا۔"
وضو کرتے ہوئے چیخیں گے " تولیہ کہاں ہیں " ۔ ان کو تولیہ مہیا کردی جاتی ہے تو وہ اس سے پونچھتے ہوئے گھر سے باہر آجاتے ہیں ۔ گلی میں کھڑے ہوکر ادھر ادھر دیکھتے ہیں اگر کوئی موجود نہ ہو تو خیر، ورنہ اگر کوئی بھی نظر آگیا تو وہیں سے آواز دینگے " ارے بھائی دیکھنا ذرا نماز کو تو کھڑے نہیں ہوگئے "
اگر گلی میں تین چار لوگ ہوئے اور ان میں سے کسی نے درمیان میں روک کر کوئی بات کرنی چاہی تو بھڑک اٹھیں گے " دیکھ نہیں رہے ہوں نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔ بڑا برا زمانہ آگیا ہے لوگ نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے، نمازیوں کا وقت خراب کرتے ہیں سروں پرشیطان سوار ہے توبہ توبہ ۔"
مسجد سے نماز پڑھ کر نکلتے ہیں تو فاتحانہ شان سے چاروں طرف دیکھتے ہیں کہ آس پاس کے دوکان داروں نے خوب اچھی طرح دیکھ لیا یا نہیں ۔
غنی بھائی محلے میں ہر ایک سے الجھتے ہیں ، بے نمازی کی تو انھیں صورت بری لگتی ہے ۔ ایک بار غلطی سے ایک پنچ وقتہ نمازی کو پکڑکر پوچھ لیا " آپ نماز نہیں پڑھتے"۔
وہ صاحب بڑے اطمینان سے بولے پڑھتا ہوں ، لیکن آپ کی طرح شور نہیں مچاتا"۔
پس تحریر: ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔
اس اقتباس کو پیش کرنے کامقصد کسی کو تذلیل کرنا یا دکھ پہچانا نہیں ہے ۔
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے عندلیبِ‌ہند جیتی رہیں بھئی ، سلامت رہیں ۔ یہ اقتباس مکمل انشائیہ ہے ،واہ
 

nadir sargiroh

محفلین

'
اپنا بھی یہ حال ہے کہ ۔۔۔
ہفتوں میں کبھی مرغے کی بانگ( ہماری گھڑی میں مرغے کی آواز میں الارم بجتا ہے) پر
آنکھ کھُلتی ہے تو آنکھیں مَلتے مَلتے فجر پڑھنے مسجد جاتے ہیں۔
وہاں آدھی صف بھری دیکھ کر ۔۔۔ہماری ادھ کھُلی آنکھ بھر آتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے اور سب سونے والے بُرے لگتے ہیں۔
'
پھِر کئی روز تک۔۔۔ " عروج ِ آفتاب " تک دونوں آنکھیں بند کئےہم " کفِ بِستر" مَلتے رہتے ہیں۔

'
نادر خان سَر گِروہ
'​
 
Top