Rashid Ashraf
محفلین
حصہ اول
دو جون 1936 کو بی بی پور، ضلع جہان آباد، بہار میں پیدا ہونے والے پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی خودنوشت ’قصہ بے سمت زندگی کا‘ کے عنوان سے2008میں تحریر کی تھی، دو برس کے قلیل عرصے میں 2010میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔دورہ ہندوستان کے دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن کو مصنف نے خودنوشت کی ایک کاپی اپنے دستخط کے ساتھ پیش کی، کتاب کراچی آئی اور مشفق خواجہ مرحوم کے ہم زلف پروفیسر ذوالفقار مصطفی ،جنہیں خواجہ صاحب ازراہ تفنن ’ہم زلف کار‘ کہتے تھے، اسے فاطمہ حسن سے عاریتا لے آئے۔ادھر پروفیسر صاحب سے اس کتاب کی نقل بنوانے کی درخواست کرنے میں ہمیں کوئی عار نہ تھی۔
سترہ ابواب پر مشتمل خودنوشت میں پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی زندگی کے حالات ، سیاسی واقعات، نوکری کے مسائل، واقف کاروں اور دوستوں کا احوال وغیرہ تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ البتہ پڑھنے والوں کے ساتھ یہ ستم بھی روا رکھا ہے کہ کتاب کے ابتدائی باب میں اپنے خاندان والوں کا تذکر ہ اس طور کیا ہے کہ قاری ان کے بچوں، بچوں کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کی تفصیل پڑھتے پڑھتے اکتا جاتا ہے اور اسے یہ خودنوشت سے زیادہ مصنف کا خاندانی شجرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں کے نام کیا ہے۔
قصہ بے سمت زندگی کا، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔368 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی بھارت میں قیمت 400روپے مقرر کی گئی ہے۔کتاب کے پیش لفظ کا پہلا جملہ ہے: ’’میں نے اپنی آپ بیتی کیوں قلم بند کرنا چاہی، اس کا سراغ مجھے خود نہیں ملتا۔‘‘ ۔کتاب کے حرف بہ حرف مطالعے کے بعد ہم پروفیسر صاحب کے ہم خیال ہوگئے ہیں۔پیش لفظ میں خودنوشت سوانح عمریوں کے باب میں ایک جگہ ساقی فاروقی کی خودنوشت ’پاپ بیتی ‘ کو ’ پاپ نامہ ‘ لکھا گیا ہے۔ساقی فاروقی خوش قسمت ہیںکہ ان کی ’پاپ بیتی ‘کو اس قدر شہرت مل رہی ہے کہ اب ’پاپوں ‘سے بھرپور اس آپ بیتی کے متبادل نام بھی تجویز کیے جانے لگے ہیں ۔ اسی طرح یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ’بدنام عورت کی کتھا ‘ کے عنوان سے فہمیدہ ریاض نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہے۔فہمیدہ ریاض نے شاید یہ خودنوشت ، کشور ناہید کی آپ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ کی ٹکر پر لکھی ہے اور انہیں کی طرح اسے سب سے پہلے ہندوستان سے شائع کروایا ہے ، ہم منتظر ہیں کہ فہمیدہ ریاض اسے پاکستان سے کب شائع کرواتی ہیں۔’بدنام عورت کی کتھا ‘ کے انتظار میں ا س وقت تک ہم ان کی شاعری پڑھ کر ہی کام چلا لیں گے ۔
وہاب اشرفی تقسیم ہند کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تین چار دنوں کے محاصرے کے بعد بلوائی گاؤں میں داخل ہوگئے، ایک کے مقابلے پر تین سو کا معاملہ تھا، گاؤں کی اکثر عورتیں کنویںمیں چھلانگ لگا کر جان دیتی رہیں۔ کنواں لاشوں سے پٹ گیا، بلوائی اوپر سے پتھر بھی پھینکتے رہے کہ کوئی زندہ نہ بچ جائے۔ ایک عورت نے اپنے دودھ پیتے بچے سمیت کنویں میں کود گئی، کسی نے کنویں میں ایک ٹوکری بھی پھینک دی جو اس عورت کے لیے پتھروں سے بچاؤ کا سبب بن گئی۔تین روز بعد پولیس گاؤں میں آئی اور تانک جھانک شروع ہوئی تو ماں اور اس کے بچے کو بے ہوشی کی حالت میں کنویں سے نکالا گیا۔ بعد میںماں کا انتقال ہوگیا اور بچہ پاکستان چلا گیاجہاں وہ ادھیڑ عمر ہوکر زندگی بسر کررہا ہے۔
وہاب اشرفی نے اپنے خاندان کے کئی لوگوں کے پاکستان ہجرت کرجانے کا تذکرہ تفصیلا ’’ ذکر کیا ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ گویا یہ بھی ایک فاش غلطی تھی ، پاکستان جانے والا ان کا کوئی عزیز خوش نہیں رہا۔اپنے پھوبھی زاد بھائی عبدالمنان کے بارے میں (ص94)لکھتے ہیں :
’’ وہ بیحد ذہین آدمی تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہ بھی ایک طرح سے ہجرت کرگئے، ریلوے کے ملازم تھے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہندوستان میں ملازمت کریں گے یا پاکستان میں تو انہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ ان کے لیے ایک بہت بڑی ٹریجڈی تھی۔ پاکستا ن کے طور طریق سے ہمیشہ نالاں رہے ۔اس حد تک کہ اپنے فیملی کے ممبران کو ہندوستان ہی میں رکھتے، گاہے گاہے ہندوستان آتے اور اپنے کرب کا اظہار کرتے۔‘‘
پروفیسر صاحب کے اپنے لیے ان کا ہندوستان میں رہنا کس قدر سود مند ثابت ہوا ، اس کا اندازہ ان کی خودنوشت کے پندرھویں باب ’ میری گرفتاری‘ کے مطالعے کے بعد ہوتا ہے، یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب پروفیسر شمس الرحمان فاروقی اور برطانیہ سے آئے ہوئے قیصر تمکین ان کے گھر رات کے کھانے پر مدعو تھے۔پروفیسروہاب اشرفی خوشی خوشی گھر آئے اور دھر لیے گئے۔پولیس ان کے استقبال کے لیے پہلے ہی سے موجود تھی۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بہار یونیورسٹی کے سروس کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے امیدواروںکے انتخاب میں ’مسلمانوں‘ کو اولیت دی تھی۔ اس بارے میں وہ صفحہ343 پر لکھتے ہیں :
’’ بائیس فیصد مختلف درجات کے مسلمان کامیاب ہوئے تھے، ان میں اردو، فارسی اورعربی کے بھی لوگ تھے، یہ انتخاب تاریخی تھا اور بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل قبول۔ میرے خلاف ایک خاص حلقے میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور مجھے زک دینے کے کتنے ہی پروگرام بنتے اور بگڑتے رہے ۔‘‘
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا، پروفیسر وہاب اشرفی رانچی یونیورسٹی سے پٹنہ یونیورسٹی منتقل ہوناچاہتے تھے اور اسی سلسلے میں کسی انتظامی عہدے کے حصول کی خاطر انہوں نے بہار کے وزیر اعلی لالو پرشاد یادو سے ملاقات کی ٹھانی، ابتدا میں ناکامی کے بعد لالو پرشاد کے دست راست ڈاکٹر رنجن یادو سے جا ٹکرائے جو ایک سخت متعصب انسان تھے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے اس قصے کی دردناک تفصیل اپنی خودنوشت کے نویں باب ’سیاست کی گلیاں اور نئے مصائب‘ میں بیان کی ہے۔
پروفیسر وہاب اشرف نے پاکستانی نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے متعلق کتاب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے:
’’ غالب اکیڈمی کا دہلی میں سیمینار تھا، اسلوب احمد انصاری اپنا مقالہ پیش کررہے تھے، ڈائس پر پاکستان کے نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری موجود تھے، فرمان صاحب نے انتہائی غصے اور جذبات سے ُپر اپنی رائے زنی میں اس کا انکشاف کیا کہ اسلوب صاحب کا مقالہ ان کے کسی مقالے کا چربہ اور سرقہ ہے اور انہوں نے یہ مال مسروقہ خود ان کے سامنے پیش کرنے کی جرات کی ہے۔موصوف کا انداز انتہائی جارحانہ او ر غیر علمی تھا۔سرقے کی تفصیل میں وہ نہیں گئے اور مسلسل غصے کا اظہار کرتے گئے، یہاں تک کہ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔ ایسا لگا کہ فرمان فتح پوری نشے میںہوں، حالانکہ ایسا نہیں تھا، شایدان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا ، لہذا وہ توازن کھو بیٹھے، میں نے مداخلت کی اور صاف صاف کہا کہ جب تک دونوں مقالے سامنے نہ ہوں، یہ باتیں فضول ہیں‘‘
ایک دوسرے موقع پر وہ پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے الجھ پڑے تھے، انہی کی زبانی سنیے:
’ ’ مجھے مشرق وسطی کاایک سفر یاد آرہا ہے۔، موقع ادبی انعام کی تقریب کا تھا، میں جیوری کے ممبر کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔اس تقریب میں میری ملاقات مشہور ترقی پسند پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے ہوئی لیکن کیا کیا جائے کہ ایک ادبی مسئلے میں ہم دونوں الجھ گئے، جناب محمد علی صدیقی کا حال یہ ہوا کہ ان پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی ۔میں نے محسوس کیا کہ وہ پسینے سے شرابور ہورہے ہیں ۔مجھے بعد میں بتایا گیا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض رہے ہیں اور ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباؤ لازما ’’ بڑھ جاتا ہے۔ میراحال یہ کہ میں بلڈ پریشر کا مریض تو ہوں لیکن ذیا بطیس کا مرض ایک عرصے سے مجھے شکار بنائے ہوئے ہے لیکن ایسی کوئی کیفیت مجھ پر طاری نہیں ہوتی۔‘‘
افسوس کہ پروفیسر وہاب اشرفی کو زندگی میں دو ہی پاکستانی ادیبوں سے واسطہ پڑا اور شومئی قسمت سے دونوں کے بلڈ پریشر، وہاب صاحب سے ملاقات کے بعد یا ان کی مداخلت کے باعث ، اپنی انتہا کو جاپہنچے۔محمد علی صدیقی صاحب کے باب میں ان کا یہ جملہ کہ ’’ ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباؤ لازما’’ بڑھ جاتا ہے‘‘، حد درجے معنی خیز ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب ایسے موقعوں سے اکثر دوچار ہوتے رہتے ہیں یا خدانخواستہ ان کی تنقیدی تحریروں کے یہ نتائج اکثر برآمد ہوتے ہیں۔ وہاب صاحب کا یہ دعوی کہ اس جھگڑے کے دوران دوران وہ نارمل رہے اور ایسی کوئی کیفیت ان پر طاری نہیں ہوئی، سمجھ میں آتا ہے، یقیننا ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے جھڑپ کے بعد وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اگلی جھڑپ کے لیے تیار ہوکر گئے ہوں گے۔ ہم ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے ،جو ہمارے گھر کے بالکل قریب رہتے ہیں، ملاقات کا سوچ رہے تھے ، پروفیسر وہاب کے بیان کردہ مذکورہ بالا واقعے کے بعد اپنے ارادے پر نظر ثانی کرلینا ہی ہمیں بہتر نظر آرہا ہے۔و یسے بھی اس ملاقات کا واحد مقصد ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت ’بلاجواز‘کے بارے میں اپنے ایک کرم فرما کے تبصرے(’ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت بلاجواز، بلاجواز ہی لکھی گئی ہے‘) پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے لینا مقصود تھا جو ان حالات میں خطرے سے خالی نظر نہیں آرہا ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے ہندوستانی شاعر اور نقاد وحید اختر کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ا ضطراب کے عالم میں رہتے تھے۔محمود ہاشمی نے وحید اختر کے ایک مجموعہ کلام ’ پتھروں کا مغنی ‘ پر تبصرہ کیا تھا اور اس کو گداگری کا ’ میگنا کارٹا ‘ قرار دیا تھا اور ثابت کیا کہ بھیک مانگنے والوں کے لیے یہ شاعری بے حد مفید ہوگی۔ یہ ایک انتہائی سفاک تبصرہ تھا۔ پروفیسر صاحب کے بقول، ’ اس کے بعد سے وحید اختر بجھے بجھے رہنے لگے‘۔ پروفیسر صاحب کی نظر میں شایدمحمود ہاشمی کا تبصرہ کافی نہ تھا، جناب وحید اختر کو مکمل طو ر پر’ بجھا‘ دینے کی غرض سے انہوں نے اس واقعے کے بعد الہ آباد میں فراق گورکھپوری سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’الہ آباد کے سیمینار میں وحید اختر علی گڑھ سے آئے تھے، اس وقت فراق گورکھپوری خاصے بیمار ہوچکے تھے۔ وحید اختر نے جعفر رضا اور مجھ سے کہا کہ فراق کے یہاں جانا چاہیے ، وہ جب سے علیل ہوئے ہیں فلسفے پر زیادہ باتیں کرنے لگے ہیں، میں انہیں بتاؤں گا کہ فلسفے کے عمیق مباحث کیا اور کیسے ہوسکتے ہیں۔ ہم لوگ فراق کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ وہ ایک معمولی سا کپڑا اپنے نچلے حصے پر ڈالے ہوئے تھے اور کھیرے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں رکھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کھیرا کھا رہا ہوں، نہیں، میں تو اسے محض زبان کے ایک حصے سے دوسرے تک ادھر ادھر کررہا ہوں، اس لیے کہ میں انہیں کھانے کی سکت نہیں رکھتا۔پھر نہ معلوم کیسے Finite اور Infinite کی بات آگئی۔اب کیا تھا۔ فراق شروع ہوئے تو ختم ہونے کا نام نہیں۔ فلسفیوں کے نام الگ لیتے، قرآن سے مثالیں پیش کرتے اور ہندو دیو مالا کی طرف رخ کرتے، وہ بولتے رہے اور ہم سب بس گم سم سنتے رہے ۔وحید اختر کو جیسے چپ سی لگ گئی۔‘‘
دو جون 1936 کو بی بی پور، ضلع جہان آباد، بہار میں پیدا ہونے والے پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی خودنوشت ’قصہ بے سمت زندگی کا‘ کے عنوان سے2008میں تحریر کی تھی، دو برس کے قلیل عرصے میں 2010میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔دورہ ہندوستان کے دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن کو مصنف نے خودنوشت کی ایک کاپی اپنے دستخط کے ساتھ پیش کی، کتاب کراچی آئی اور مشفق خواجہ مرحوم کے ہم زلف پروفیسر ذوالفقار مصطفی ،جنہیں خواجہ صاحب ازراہ تفنن ’ہم زلف کار‘ کہتے تھے، اسے فاطمہ حسن سے عاریتا لے آئے۔ادھر پروفیسر صاحب سے اس کتاب کی نقل بنوانے کی درخواست کرنے میں ہمیں کوئی عار نہ تھی۔
سترہ ابواب پر مشتمل خودنوشت میں پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی زندگی کے حالات ، سیاسی واقعات، نوکری کے مسائل، واقف کاروں اور دوستوں کا احوال وغیرہ تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ البتہ پڑھنے والوں کے ساتھ یہ ستم بھی روا رکھا ہے کہ کتاب کے ابتدائی باب میں اپنے خاندان والوں کا تذکر ہ اس طور کیا ہے کہ قاری ان کے بچوں، بچوں کے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کی تفصیل پڑھتے پڑھتے اکتا جاتا ہے اور اسے یہ خودنوشت سے زیادہ مصنف کا خاندانی شجرہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں کے نام کیا ہے۔
قصہ بے سمت زندگی کا، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔368 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی بھارت میں قیمت 400روپے مقرر کی گئی ہے۔کتاب کے پیش لفظ کا پہلا جملہ ہے: ’’میں نے اپنی آپ بیتی کیوں قلم بند کرنا چاہی، اس کا سراغ مجھے خود نہیں ملتا۔‘‘ ۔کتاب کے حرف بہ حرف مطالعے کے بعد ہم پروفیسر صاحب کے ہم خیال ہوگئے ہیں۔پیش لفظ میں خودنوشت سوانح عمریوں کے باب میں ایک جگہ ساقی فاروقی کی خودنوشت ’پاپ بیتی ‘ کو ’ پاپ نامہ ‘ لکھا گیا ہے۔ساقی فاروقی خوش قسمت ہیںکہ ان کی ’پاپ بیتی ‘کو اس قدر شہرت مل رہی ہے کہ اب ’پاپوں ‘سے بھرپور اس آپ بیتی کے متبادل نام بھی تجویز کیے جانے لگے ہیں ۔ اسی طرح یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ ’بدنام عورت کی کتھا ‘ کے عنوان سے فہمیدہ ریاض نے اپنی خودنوشت تحریر کی ہے۔فہمیدہ ریاض نے شاید یہ خودنوشت ، کشور ناہید کی آپ بیتی ’بری عورت کی کتھا‘ کی ٹکر پر لکھی ہے اور انہیں کی طرح اسے سب سے پہلے ہندوستان سے شائع کروایا ہے ، ہم منتظر ہیں کہ فہمیدہ ریاض اسے پاکستان سے کب شائع کرواتی ہیں۔’بدنام عورت کی کتھا ‘ کے انتظار میں ا س وقت تک ہم ان کی شاعری پڑھ کر ہی کام چلا لیں گے ۔
وہاب اشرفی تقسیم ہند کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تین چار دنوں کے محاصرے کے بعد بلوائی گاؤں میں داخل ہوگئے، ایک کے مقابلے پر تین سو کا معاملہ تھا، گاؤں کی اکثر عورتیں کنویںمیں چھلانگ لگا کر جان دیتی رہیں۔ کنواں لاشوں سے پٹ گیا، بلوائی اوپر سے پتھر بھی پھینکتے رہے کہ کوئی زندہ نہ بچ جائے۔ ایک عورت نے اپنے دودھ پیتے بچے سمیت کنویں میں کود گئی، کسی نے کنویں میں ایک ٹوکری بھی پھینک دی جو اس عورت کے لیے پتھروں سے بچاؤ کا سبب بن گئی۔تین روز بعد پولیس گاؤں میں آئی اور تانک جھانک شروع ہوئی تو ماں اور اس کے بچے کو بے ہوشی کی حالت میں کنویں سے نکالا گیا۔ بعد میںماں کا انتقال ہوگیا اور بچہ پاکستان چلا گیاجہاں وہ ادھیڑ عمر ہوکر زندگی بسر کررہا ہے۔
وہاب اشرفی نے اپنے خاندان کے کئی لوگوں کے پاکستان ہجرت کرجانے کا تذکرہ تفصیلا ’’ ذکر کیا ہے۔ لیکن اس انداز سے کہ گویا یہ بھی ایک فاش غلطی تھی ، پاکستان جانے والا ان کا کوئی عزیز خوش نہیں رہا۔اپنے پھوبھی زاد بھائی عبدالمنان کے بارے میں (ص94)لکھتے ہیں :
’’ وہ بیحد ذہین آدمی تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ وہ بھی ایک طرح سے ہجرت کرگئے، ریلوے کے ملازم تھے، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہندوستان میں ملازمت کریں گے یا پاکستان میں تو انہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ ان کے لیے ایک بہت بڑی ٹریجڈی تھی۔ پاکستا ن کے طور طریق سے ہمیشہ نالاں رہے ۔اس حد تک کہ اپنے فیملی کے ممبران کو ہندوستان ہی میں رکھتے، گاہے گاہے ہندوستان آتے اور اپنے کرب کا اظہار کرتے۔‘‘
پروفیسر صاحب کے اپنے لیے ان کا ہندوستان میں رہنا کس قدر سود مند ثابت ہوا ، اس کا اندازہ ان کی خودنوشت کے پندرھویں باب ’ میری گرفتاری‘ کے مطالعے کے بعد ہوتا ہے، یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب پروفیسر شمس الرحمان فاروقی اور برطانیہ سے آئے ہوئے قیصر تمکین ان کے گھر رات کے کھانے پر مدعو تھے۔پروفیسروہاب اشرفی خوشی خوشی گھر آئے اور دھر لیے گئے۔پولیس ان کے استقبال کے لیے پہلے ہی سے موجود تھی۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بہار یونیورسٹی کے سروس کمیشن کے چیرمین کی حیثیت سے امیدواروںکے انتخاب میں ’مسلمانوں‘ کو اولیت دی تھی۔ اس بارے میں وہ صفحہ343 پر لکھتے ہیں :
’’ بائیس فیصد مختلف درجات کے مسلمان کامیاب ہوئے تھے، ان میں اردو، فارسی اورعربی کے بھی لوگ تھے، یہ انتخاب تاریخی تھا اور بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل قبول۔ میرے خلاف ایک خاص حلقے میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور مجھے زک دینے کے کتنے ہی پروگرام بنتے اور بگڑتے رہے ۔‘‘
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا، پروفیسر وہاب اشرفی رانچی یونیورسٹی سے پٹنہ یونیورسٹی منتقل ہوناچاہتے تھے اور اسی سلسلے میں کسی انتظامی عہدے کے حصول کی خاطر انہوں نے بہار کے وزیر اعلی لالو پرشاد یادو سے ملاقات کی ٹھانی، ابتدا میں ناکامی کے بعد لالو پرشاد کے دست راست ڈاکٹر رنجن یادو سے جا ٹکرائے جو ایک سخت متعصب انسان تھے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے اس قصے کی دردناک تفصیل اپنی خودنوشت کے نویں باب ’سیاست کی گلیاں اور نئے مصائب‘ میں بیان کی ہے۔
پروفیسر وہاب اشرف نے پاکستانی نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے متعلق کتاب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے:
’’ غالب اکیڈمی کا دہلی میں سیمینار تھا، اسلوب احمد انصاری اپنا مقالہ پیش کررہے تھے، ڈائس پر پاکستان کے نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری موجود تھے، فرمان صاحب نے انتہائی غصے اور جذبات سے ُپر اپنی رائے زنی میں اس کا انکشاف کیا کہ اسلوب صاحب کا مقالہ ان کے کسی مقالے کا چربہ اور سرقہ ہے اور انہوں نے یہ مال مسروقہ خود ان کے سامنے پیش کرنے کی جرات کی ہے۔موصوف کا انداز انتہائی جارحانہ او ر غیر علمی تھا۔سرقے کی تفصیل میں وہ نہیں گئے اور مسلسل غصے کا اظہار کرتے گئے، یہاں تک کہ ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے۔ ایسا لگا کہ فرمان فتح پوری نشے میںہوں، حالانکہ ایسا نہیں تھا، شایدان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا ، لہذا وہ توازن کھو بیٹھے، میں نے مداخلت کی اور صاف صاف کہا کہ جب تک دونوں مقالے سامنے نہ ہوں، یہ باتیں فضول ہیں‘‘
ایک دوسرے موقع پر وہ پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے الجھ پڑے تھے، انہی کی زبانی سنیے:
’ ’ مجھے مشرق وسطی کاایک سفر یاد آرہا ہے۔، موقع ادبی انعام کی تقریب کا تھا، میں جیوری کے ممبر کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔اس تقریب میں میری ملاقات مشہور ترقی پسند پاکستانی نقاد محمد علی صدیقی سے ہوئی لیکن کیا کیا جائے کہ ایک ادبی مسئلے میں ہم دونوں الجھ گئے، جناب محمد علی صدیقی کا حال یہ ہوا کہ ان پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی ۔میں نے محسوس کیا کہ وہ پسینے سے شرابور ہورہے ہیں ۔مجھے بعد میں بتایا گیا کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض رہے ہیں اور ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباؤ لازما ’’ بڑھ جاتا ہے۔ میراحال یہ کہ میں بلڈ پریشر کا مریض تو ہوں لیکن ذیا بطیس کا مرض ایک عرصے سے مجھے شکار بنائے ہوئے ہے لیکن ایسی کوئی کیفیت مجھ پر طاری نہیں ہوتی۔‘‘
افسوس کہ پروفیسر وہاب اشرفی کو زندگی میں دو ہی پاکستانی ادیبوں سے واسطہ پڑا اور شومئی قسمت سے دونوں کے بلڈ پریشر، وہاب صاحب سے ملاقات کے بعد یا ان کی مداخلت کے باعث ، اپنی انتہا کو جاپہنچے۔محمد علی صدیقی صاحب کے باب میں ان کا یہ جملہ کہ ’’ ایسے موقعوں پر ان کے خون کا دباؤ لازما’’ بڑھ جاتا ہے‘‘، حد درجے معنی خیز ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدیقی صاحب ایسے موقعوں سے اکثر دوچار ہوتے رہتے ہیں یا خدانخواستہ ان کی تنقیدی تحریروں کے یہ نتائج اکثر برآمد ہوتے ہیں۔ وہاب صاحب کا یہ دعوی کہ اس جھگڑے کے دوران دوران وہ نارمل رہے اور ایسی کوئی کیفیت ان پر طاری نہیں ہوئی، سمجھ میں آتا ہے، یقیننا ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے جھڑپ کے بعد وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اگلی جھڑپ کے لیے تیار ہوکر گئے ہوں گے۔ ہم ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے ،جو ہمارے گھر کے بالکل قریب رہتے ہیں، ملاقات کا سوچ رہے تھے ، پروفیسر وہاب کے بیان کردہ مذکورہ بالا واقعے کے بعد اپنے ارادے پر نظر ثانی کرلینا ہی ہمیں بہتر نظر آرہا ہے۔و یسے بھی اس ملاقات کا واحد مقصد ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت ’بلاجواز‘کے بارے میں اپنے ایک کرم فرما کے تبصرے(’ڈاکٹر صاحب کی خودنوشت بلاجواز، بلاجواز ہی لکھی گئی ہے‘) پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے لینا مقصود تھا جو ان حالات میں خطرے سے خالی نظر نہیں آرہا ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے ہندوستانی شاعر اور نقاد وحید اختر کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ا ضطراب کے عالم میں رہتے تھے۔محمود ہاشمی نے وحید اختر کے ایک مجموعہ کلام ’ پتھروں کا مغنی ‘ پر تبصرہ کیا تھا اور اس کو گداگری کا ’ میگنا کارٹا ‘ قرار دیا تھا اور ثابت کیا کہ بھیک مانگنے والوں کے لیے یہ شاعری بے حد مفید ہوگی۔ یہ ایک انتہائی سفاک تبصرہ تھا۔ پروفیسر صاحب کے بقول، ’ اس کے بعد سے وحید اختر بجھے بجھے رہنے لگے‘۔ پروفیسر صاحب کی نظر میں شایدمحمود ہاشمی کا تبصرہ کافی نہ تھا، جناب وحید اختر کو مکمل طو ر پر’ بجھا‘ دینے کی غرض سے انہوں نے اس واقعے کے بعد الہ آباد میں فراق گورکھپوری سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’الہ آباد کے سیمینار میں وحید اختر علی گڑھ سے آئے تھے، اس وقت فراق گورکھپوری خاصے بیمار ہوچکے تھے۔ وحید اختر نے جعفر رضا اور مجھ سے کہا کہ فراق کے یہاں جانا چاہیے ، وہ جب سے علیل ہوئے ہیں فلسفے پر زیادہ باتیں کرنے لگے ہیں، میں انہیں بتاؤں گا کہ فلسفے کے عمیق مباحث کیا اور کیسے ہوسکتے ہیں۔ ہم لوگ فراق کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ وہ ایک معمولی سا کپڑا اپنے نچلے حصے پر ڈالے ہوئے تھے اور کھیرے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں رکھے ہوئے تھے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کھیرا کھا رہا ہوں، نہیں، میں تو اسے محض زبان کے ایک حصے سے دوسرے تک ادھر ادھر کررہا ہوں، اس لیے کہ میں انہیں کھانے کی سکت نہیں رکھتا۔پھر نہ معلوم کیسے Finite اور Infinite کی بات آگئی۔اب کیا تھا۔ فراق شروع ہوئے تو ختم ہونے کا نام نہیں۔ فلسفیوں کے نام الگ لیتے، قرآن سے مثالیں پیش کرتے اور ہندو دیو مالا کی طرف رخ کرتے، وہ بولتے رہے اور ہم سب بس گم سم سنتے رہے ۔وحید اختر کو جیسے چپ سی لگ گئی۔‘‘