عبدالقیوم چوہدری
محفلین
حاتم جنگلوں اور صحراؤں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ شہزادی حسن بانو کے تازہ سوال نے اسے دربدر کر کے رکھ دیا تھا۔ سوال اتنا مشکل تھا کہ اگر بورڈ کے امتحان میں پوچھا جاتا تو 80 فیصد طلباء یقیناً فیل ہو جاتے۔ سوال تھا۔۔۔۔ اس مولوی کی خبر لاؤ جو یہ کہتا ہے، مافی مافی مافی --- شادی ایک ہی کافی۔
پچھلے دوماہ سے وہ مختلف مکاتب فکر کے دوسو مولویان کا پلڈاٹ سروے کر چکا تھا۔ اگرچہ ان مولویان کا آپس میں چھینکنے پر بھی اختلاف تھا لیکن مسئلہء تعداد ازدواج پر سب کے سب متفق الیہ تھے۔ سو اس بار واقعی شہزادی نے حاتم کو سپلی دلانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
چلتے چلتے حاتم ایک لق و دق جنگل میں جا پہنچا، چہار سو جس کے ہو کا عالم تھا۔ اس نے ایک درخت سے مسواک توڑنے کا فیصلہ کیا۔ ناگاہ نظر اس کی ایک عبارت پر پڑی ، جو ایک درخت پر کندہ تھی۔ 'یہ چھانگا مانگا کا وہ طلسمی جنگل ہے ، جہاں کبھی ہارس ٹریڈنگ کے خفیہ میلے لگتے تھے۔ یہاں کی لکڑی سرکاری چوروں کے علاوہ کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ جو بھی ایسا کرےگا، اندھا ہو جائیگا' ۔ حاتم نے فوراً مسواک کا ارادہ ترک کیا اور دانتوں میں ماچس کی تیلی مارتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ابھی وہ سو دو سو کوس ہی چلا ہوگا کہ اس نے ایک پیرِ فرتوت کو ایک توت کے نیچے آرام کرتے دیکھا۔ حاتم اس درویش کی قدم بوسی کو جھکا ہی تھا کہ ناگاہ وہ بزرگ ہڑبڑا کر اٹھا اور عالم پریشانی سے کہا۔۔
ایتھے میری سیکل سی ... تے چمڑے دا بیگ؟؟
حاتم کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، اس نے انتہائ میسنی سی صورت بنا کر کہا۔۔ قسم ان طہارت پسند پادشاہوں کی جو مانجھ مانجھ کر سرکاری خزانے کی صفائی کرتے ہیں ۔۔۔ اس فقیر نے نہ تو آپ کی سائیکل دیکھی .۔۔۔ نہ ہی چرمی بیگ ۔۔۔ شاید مجھ سے پہلے ہی یہ اسباب کوئی لپیٹ چکا تھا ۔۔۔ فقیر ایسے شاندار مواقع پر اکثر لیٹ ہو جاتا ہے۔
یہ سن کر پیر فرتوت نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے۔۔ دنیا بے ثبات ہے اور اسباب اس کے عارضی، سو راہ للہ معاف کرتا ہوں کہ میں نے بھی یہ سامان ایک سرکاری اسکول سے ہی چُرایا تھا۔
حاتم نے کہا، بے شک یہ ملک ایک جنگل ہے اور آپ جیسے بزرگوں نے ہی اسے منگل بنا رکھا ہے، آپ ہی کی برکات سے یہاں شیر چیتے بھیڑیے ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔
وہ بزرگ اس تعریف پر پھولے نہ سمائے اور کہا۔۔۔مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔اس دلّق پوش کے پاس کونسلرز سے لیکر ایم پی اے تک سب کے فون نمبر ہیں۔
حاتم نے کہا۔۔اے بزرگِ نیک طینت ۔۔۔ مجھے تو بس اپنے کام سے غرض ہے ۔۔۔ جلال پور جٹاں کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد سیکٹر ڈی 12 کی شہزادی حسن بانو پر فریفتہ ہے۔۔۔ شہزادی نے شہزادے کی دماغی حالت جانچنے کےلئے سات سوالات کا ایک پرچہ بنوایا ہے۔ منیر شامی نے اخبارات میں اس کا ٹینڈر دیا تو قرعہ اس فقیر کے نام نکلا۔ سو بارے پہلے سوال کے تلاش ہے اس مولوی کی جو عقدِ ثانی کا مُنکر ہو اور جنگلوں جنگلوں یہ صدا لگاتا ہو ۔۔۔ کہ ایک بار گھوڑی پر چڑھا ہوں ۔۔۔ دوسری بار چڑھنے کی ہمت نہیں !!!
یہ سن کر بزرگ نے تین بار پھونک ماری اور اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے بولے۔۔ اے حاتم !!! انسان خطاء کار ہے اور چرخ، فلک، عورت اس کے ازلی دشمن۔ اگرچہ یہاں ہر شخص بیگم گزیدہ ہے لیکن میں تجھے سیاسی رستہ ہی بتاؤں گا۔ سو اگر تُو ذات کا پٹواری ہے تو داستانِ بنی گالا سنا کر شہزادی کے سامنے سرخرو ہو جا اور اگر انصافی ہے تو داستانِ صفدری سے استفادہ کر کہ اس میں بہتوں کی عبرت کا سامان ہے۔
حاتم نے کہا 'یہ بندہء پر تقصیر "منصورہ" سے بیعت ہے ، نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا- ویسے بھی شہزادی کے سامنے سیاسی جواب دینا " آ گائے مجھے مار" والی بات ہے- اگر شہزادی خود انصافی نکلی تو اس غریب کی گردن مفت میں ماری جائے گی۔
( نکالنا اس بزرگ کا جیب سے آئی فون سیون اور سمجھانا گوگل ارتھ سے اس "مولوی بیزار زوجہ ثانی" کا مکمل ایڈریس جو ضلع سرگودھا ، چک نمبر 73 جنوبی کے شمال میں رہتا تھا !!!)
پچھلے دوماہ سے وہ مختلف مکاتب فکر کے دوسو مولویان کا پلڈاٹ سروے کر چکا تھا۔ اگرچہ ان مولویان کا آپس میں چھینکنے پر بھی اختلاف تھا لیکن مسئلہء تعداد ازدواج پر سب کے سب متفق الیہ تھے۔ سو اس بار واقعی شہزادی نے حاتم کو سپلی دلانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
چلتے چلتے حاتم ایک لق و دق جنگل میں جا پہنچا، چہار سو جس کے ہو کا عالم تھا۔ اس نے ایک درخت سے مسواک توڑنے کا فیصلہ کیا۔ ناگاہ نظر اس کی ایک عبارت پر پڑی ، جو ایک درخت پر کندہ تھی۔ 'یہ چھانگا مانگا کا وہ طلسمی جنگل ہے ، جہاں کبھی ہارس ٹریڈنگ کے خفیہ میلے لگتے تھے۔ یہاں کی لکڑی سرکاری چوروں کے علاوہ کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ جو بھی ایسا کرےگا، اندھا ہو جائیگا' ۔ حاتم نے فوراً مسواک کا ارادہ ترک کیا اور دانتوں میں ماچس کی تیلی مارتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ابھی وہ سو دو سو کوس ہی چلا ہوگا کہ اس نے ایک پیرِ فرتوت کو ایک توت کے نیچے آرام کرتے دیکھا۔ حاتم اس درویش کی قدم بوسی کو جھکا ہی تھا کہ ناگاہ وہ بزرگ ہڑبڑا کر اٹھا اور عالم پریشانی سے کہا۔۔
ایتھے میری سیکل سی ... تے چمڑے دا بیگ؟؟
حاتم کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، اس نے انتہائ میسنی سی صورت بنا کر کہا۔۔ قسم ان طہارت پسند پادشاہوں کی جو مانجھ مانجھ کر سرکاری خزانے کی صفائی کرتے ہیں ۔۔۔ اس فقیر نے نہ تو آپ کی سائیکل دیکھی .۔۔۔ نہ ہی چرمی بیگ ۔۔۔ شاید مجھ سے پہلے ہی یہ اسباب کوئی لپیٹ چکا تھا ۔۔۔ فقیر ایسے شاندار مواقع پر اکثر لیٹ ہو جاتا ہے۔
یہ سن کر پیر فرتوت نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے۔۔ دنیا بے ثبات ہے اور اسباب اس کے عارضی، سو راہ للہ معاف کرتا ہوں کہ میں نے بھی یہ سامان ایک سرکاری اسکول سے ہی چُرایا تھا۔
حاتم نے کہا، بے شک یہ ملک ایک جنگل ہے اور آپ جیسے بزرگوں نے ہی اسے منگل بنا رکھا ہے، آپ ہی کی برکات سے یہاں شیر چیتے بھیڑیے ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔
وہ بزرگ اس تعریف پر پھولے نہ سمائے اور کہا۔۔۔مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔اس دلّق پوش کے پاس کونسلرز سے لیکر ایم پی اے تک سب کے فون نمبر ہیں۔
حاتم نے کہا۔۔اے بزرگِ نیک طینت ۔۔۔ مجھے تو بس اپنے کام سے غرض ہے ۔۔۔ جلال پور جٹاں کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد سیکٹر ڈی 12 کی شہزادی حسن بانو پر فریفتہ ہے۔۔۔ شہزادی نے شہزادے کی دماغی حالت جانچنے کےلئے سات سوالات کا ایک پرچہ بنوایا ہے۔ منیر شامی نے اخبارات میں اس کا ٹینڈر دیا تو قرعہ اس فقیر کے نام نکلا۔ سو بارے پہلے سوال کے تلاش ہے اس مولوی کی جو عقدِ ثانی کا مُنکر ہو اور جنگلوں جنگلوں یہ صدا لگاتا ہو ۔۔۔ کہ ایک بار گھوڑی پر چڑھا ہوں ۔۔۔ دوسری بار چڑھنے کی ہمت نہیں !!!
یہ سن کر بزرگ نے تین بار پھونک ماری اور اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے بولے۔۔ اے حاتم !!! انسان خطاء کار ہے اور چرخ، فلک، عورت اس کے ازلی دشمن۔ اگرچہ یہاں ہر شخص بیگم گزیدہ ہے لیکن میں تجھے سیاسی رستہ ہی بتاؤں گا۔ سو اگر تُو ذات کا پٹواری ہے تو داستانِ بنی گالا سنا کر شہزادی کے سامنے سرخرو ہو جا اور اگر انصافی ہے تو داستانِ صفدری سے استفادہ کر کہ اس میں بہتوں کی عبرت کا سامان ہے۔
حاتم نے کہا 'یہ بندہء پر تقصیر "منصورہ" سے بیعت ہے ، نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا- ویسے بھی شہزادی کے سامنے سیاسی جواب دینا " آ گائے مجھے مار" والی بات ہے- اگر شہزادی خود انصافی نکلی تو اس غریب کی گردن مفت میں ماری جائے گی۔
( نکالنا اس بزرگ کا جیب سے آئی فون سیون اور سمجھانا گوگل ارتھ سے اس "مولوی بیزار زوجہ ثانی" کا مکمل ایڈریس جو ضلع سرگودھا ، چک نمبر 73 جنوبی کے شمال میں رہتا تھا !!!)
۔۔۔
از ملک ظفر اقبال