ایک دن بغرض سیرگاہی کھیتوں کی طرف جا نکلا- سبزے کو دیکھ کر طبیعت کو شاداں و فرحاں کر رہا تھا کہ ساگ توڑتی شاداں نظر آ گئی۔ شاداں ایک بیوہ عورت تھی۔ خاوند اس کا دو برس پہلے ٹریکٹر سے گر کر مرا تھا۔ چالیس پچاس کا سن تھا، لیکن تھی بڑی باہمّت۔ اوپر سے نہ تو اولاد کا جھنجھٹ، نہ ہی فکرِ معاش، سو ڈیڑھ ایکٹر زمین پر مہارانی بنی پھرتی تھی۔
شاداں نے مجھے دیکھتے ہی مترنم آواز سے پوچھا۔۔۔ مولبی صاب ۔۔۔ اج کھیتاں دی سیر کردے او !!!
میں نے کہا۔۔ ہاں شاد بی بی ۔۔۔ گھر بیٹھے بیٹھے کچھ اکتاہٹ سی ہو چلی تھی سوچا سبزہ دیکھ کر ہی جی بہلایا جاوے۔
شام ہو چلی تھی، میں نے کھیت سے ایک گنّا توڑا اور واپس گاؤں کی طرف چل دیا۔ شاداں نے لکڑیوں کا گٹّھا سر پر رکھا اور گندلوں کا ساگ ہاتھ میں لئے میرے پیچھے پیچھے چل دی۔
راستے میں اس نے کہا، مولبی صاب ۔۔۔ ہک مسئلہ پوچھنا ہے۔ میں نے کہا، ضرور پُچھّو ۔۔ وہ کہنے لگی، میں نے دو دیسی کُکّڑ پال رکھے تھے، اک رب سائیں واسطے دوجا پیر سائیں دے عرس واسطے۔۔۔ دو دن پہلے کوئی جانور آکے اِک کُکّڑ مار گیا ہے، اب سمجھ نہیں آ رہا کہ پیر والا کُکّڑ گیا ہے یا رب سائیں والا ۔۔۔ دونوں ایک جیسے تھے۔
میں نے کہا۔۔۔ شاد بی بی، یہ تو بالکل سیدھا سادھا مسئلہ ہے ۔۔۔ جو بچ گیا ہے اسے بسم اللہ پڑھ کے ذبح کر دو ۔۔۔ دونوں کُکّڑ اوپر جائیں گے تو رب سائیں خود فیصلہ کر لیں گے کہ کون سا رکھنا ہے اور کون سا پیر سائیں کے متّھے مارنا ہے۔
یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئی اور دیر تک میری زود فہمی اور علمی تبحّر پر سر دھنتی رہی۔ اس طرح ہم باتیں کرتے کرتے گاؤں پہنچ گئے۔
شام کو میں نے اپنی زوجہء منکوحہ کو شاد بی بی والی حکایت سنائی تو وہ بھی جی بھر کر ہنسی۔ زوجہ نے کہا ہائے بے چاری۔۔۔ عورت ہو کر سو مردوں کے برابر کام کرتی ہے۔ دن کو بیل کی طرح کھیت میں جُتی رہتی ہے اور ماگھ پوہ کی کالی راتوں میں خود ہی پانی لگاتی پھرتی ہے۔
میں نے کہا۔۔۔ بے شک خاوند کے دم سے ہی گرہستی کا کھیت آباد ہے اور جو بیوہ ہو گئی وہ شاد ہو کر بھی ناشاد ہے۔
اس رات نجانے کیوں میں دیر تلک شاد بی بی کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ شاید بے خیالی میں کچھ زیادہ ہی سوچ بیٹھا اور خواب میں بھی شاداں ہی نظر آئی، یوں کہ میرے سر پر لکڑیوں کا گٹّھا تھا اور شاداں کے ہاتھ میں ساگ کا تھبّہ۔
اگلے دن ظہر کی نماز پڑھا کر نکلا تو بے ساختہ قدم شاد بی بی کے محلّے کی طرف اٹھ گئے، سوچا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری حکم خداوندی ہے، اور جو ایسا نہ کرے، نرا سنگ دل ہے۔
شاداں کے گھر کی کنڈی کھٹکائی تو وہ جھٹ سے سامنے آگئی، رب جانے دنداسہ کیا ہوا تھا کہ آلو بخارا کھا رکھا تھا، نظر پڑتے ہی وسوسہءِ شیطانی سر اٹھانے لگا۔ میں نے دل ہی دل میں لاحول پڑھی اور نظر جھکا کر کہا۔۔ " شاد بی بی ۔۔۔ کل جو آپ نے مسئلہء مرغِ مقتول دریافت کیا تھا اس کی ایک عجب توجیہ ذہن میں آئی ہے ۔۔۔ سوچا عرض کرتا چلوں۔
وہ سمجھی نا سمجھی کی کیفیّت میں چادر سمیٹتی ہوئی واپس مڑی، صحن میں چوکڑیاں بھرتی بکری کو کلے پر باندھا، چارپائی گھسیٹ کر دھریک کے نیچے رکھی اور مجھے اندر آنے کا کہا۔
میں بڑے اعتماد سے چارپائی پر جا بیٹھا، اس نے ایک بالٹی کھٹّی لسّی کی میرے سامنے دھری، اپنے ہاتھوں سے گھول گھول کر اس میں نمک ملایا اور میرے سامنے پیڑھا کھینچ کر بیٹھ گئی-
" ہاں مولبی صاب ---- میرا کُکّڑ قبول ہوسی کہ کوئی ناں ؟
میں نے جان چھڑانے کےلئے کہا۔۔۔ کافی گنجلک مسئلہ ہے، اس کےلئے مجھے رسالہ "تحقیق کوّا حلال حرام" دیکھنا پڑے گا۔ پھر خود ہی موضوع بدلتے ہوئے کہا۔۔۔ بخدا بیوگی سے بڑی کوئی مصیبت نہیں۔ خاوند کی چھاؤں میں ہی عورت کا رنگ روپ ہے اور بنا مجازی خدا کے ہر طرف کڑی دھوپ ہے۔
وہ لہجے میں دنیا جہان کا درد سمیٹ کر بولی۔۔۔ سچ آکھیا جے مولبی صاب ۔۔۔ ہم زندہ ہی کب ہیں۔۔۔ مرنے والا ہمیں بھی مار گیا ۔۔۔ نہ بچّہ اے نہ کاکی ۔۔۔ بس سانس کا رشتہ ہی باقی ہے۔
میں نے کہا رب ہمارے لئے آسانی چاہتا ہے شاد بی بی، اس نے بیوہ کو عدّت کے بعد شادی کی اجازت دی ہے۔
وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی۔۔۔ مولبی صاب بیوہ کو کون پوچھتا ہے ۔۔۔۔، سر کا سائیں چلا گیا ۔۔۔ اب تو یہ مرغِ مقتول ہی اس تک پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔
میں نے بے ساختہ کہا۔۔شاداں !!! تمہارا مرغِ مقتول تمہارے سامنے بیٹھا ہے۔۔۔ عقد کی چھری سے اسے حلال کر دے۔۔
وہ پریشان سی ہو کر بولی۔۔۔ کی مطبل مولبی صاب ؟؟
میں نے سیدھ سبھاؤ کہا۔۔۔ مجھ سے نکاح کر لو شاداں، دنیا و آخرت سنور جائے گی۔۔۔ کھیت میں بیل کی طرح جت جاؤں گا اور تجھے رانی بنا کر رکھوں گا۔
یہ سنتے ہی وہ خاموشی سے اُٹھی، میرے سامنے سے لسّی کی بالٹی اُٹھا کر بکری کے سامنے جا دھری اور کہا ۔۔۔ کیوں جی ؟؟؟ مینوں پھوڑا نکلیا اے یا کالے کُتّے نے وڈھیا اے ؟؟ ڈیڑھ ایکڑ زمین ویکھ کے تیرا وی عشق جاگ گیا اے ۔۔۔ چل پھُٹ ایتھوں !!!!