ٹھیک ہے جی لیکن ویلنٹائین کا قصہ بھی آنا چاہیے۔
اتفاقات تو اشارے ہے پردہ غیب سے!
قصہ حاتم جدید کی اقساط تو ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہورہی ہیں جبکہ ویلنٹائن کی جدید ترین قسط تو بالکل ہی فلاپ ثابت ہوئی
ٹھیک ہے جی لیکن ویلنٹائین کا قصہ بھی آنا چاہیے۔
اتفاقات تو اشارے ہے پردہ غیب سے!
عرب کا سرمہ سرگودھا میں بیچنے کی کوشش کی
جس شخص کو "مالٹے اور کھجور" کا طبیعاتی فرق معلوم نہ ہو اسے مولوی کیا مالی بھی نہیں ہونا چاہیے۔
معلوماتی وغیرہاے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں، معاشرہ جس حال پہ راضی ہو، یہ مذہب کو اسی رنگ میں ڈھال کر مال سے غرض رکھتے ہیں، انہیں عوامی مولوی کہا جاتا ہے۔
دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا 'کافر' اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے گھسّن مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انہیں ضِدّی مولوی کہا جاتا ہے۔
تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں صالحین کہا جاتا ہے مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔
حالانکہ انگو ٹھا کاٹ کر بھی لایا جا سکتا تھا کہ شہزادی حُسن بانو سے عقد کے وقت جہاں ضرورت پڑتی وہاں لگایا جا سکتا۔ مولوی مقصود کا اس پر انگوٹھا لگوایا
اینج تے فیر ہونا سیقصہ حاتم جدید کی اقساط تو ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہورہی ہیں جبکہ ویلنٹائن کی جدید ترین قسط تو بالکل ہی فلاپ ثابت ہوئی
او کیوں ؟اینج تے فیر ہونا سی
کاش جدید حاتم طائی کی معروف اینکر معید پیرزادہ سے رسم و راہ ہوتی۔حالانکہ انگو ٹھا کاٹ کر بھی لایا جا سکتا تھا کہ شہزادی حُسن بانو سے عقد کے وقت جہاں ضرورت پڑتی وہاں لگایا جا سکتا
اج مویا کل دوسرا دن۔او کیوں ؟
وہ آپ سنا دیں!!!نہیں یہ قصّہ تمام نہیں ہوا..اسکے آگے بھی قسطیں ہیں
شیئر کر کے ثواب دارین حاصل کریں ۔۔۔۔ شکریہنہیں یہ قصّہ تمام نہیں ہوا..اسکے آگے بھی قسطیں ہیں
نہایت پر لطف اور پر مزاح ...حاتم پیر ودھائ اڈّے پر سر پکڑے بیٹھا تھا کہ “ھاتف” نے صدا دی
“وے سب توں سوھنیاں
ہائے وے من موہنیاں
میں تیری ھووووووووو
اس نے جھٹ جیب سے موبیل نکالا- دوسری طرف شہزادی کا پرسنل سیکرٹری “استاد بشیر ” تھا
” پہلے سوال دا جواب مینوں ای میل کر تے دوجے دی تیّاری پھڑ
حاتم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
“آپ کے ملائے ہوئے صارف نے اپنا موبیل بند کر رکھا ہے ، براہ کرم کچھ دیر بعد رابطہ کریں
وجہء بے فکری کچھ یوں تھی کہ ہفتہ پہلے ہی شہزادی نے دوسرا سوال حاتم کو ٹویٹ کر دیا تھا اور اب وہی سوال کالے مچھر کی طرح اسکے کانوں میں بھنبھنا رہا تھا
“اس شخص کا “اسٹیٹس” بیان کرو جو کہتا ہے
“شادی کر دریا میں ڈال”
اس مختصر مگر جامع گُتھی کو سلجھانے کےلئے وہ ستلج تا بیاس ، ہر اس کھائ میں گھس چکا تھا جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے
اوپر سے پیرِ فرتوت بھی غائب تھے
کسی متبادل بزرگ کی تلاش میں وہ بے شمار “النّ” قسم کے فقیروں سے ملا ، اور جی بھر کے مایوس ہوا- کوئ گُرگِ باراں دیدہ اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہ تھا جسے شادی سمجھ کر دریا میں پھینکنا تھا
ایک بنی گالوی قسم کے بزرگ تو سوال سنتے ہی بھڑک اٹھے ، فرمایا
” نا اھل حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ دریاؤں کا بیڑا بھی غرق کر رکھا ہے ، اوّل تو بہتے نہیں اور بہنے پہ اتر آئیں تو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں- جملہ یوں ہونا چاھئے
شادی کر تندُور میں ڈال
حاتم نے پوچھا
یا للعجب وہ کیسے ؟؟
وہ گویا ہوئے
” اگر شادی کو دریا میں پھینکا گیا تو یہ سیلابی پانی میں ناچتی ہوئ دوبارہ آبادی میں آن گھُسے گی- اس پھٹیچر کو تندور میں پھینکنا چاھئے … نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
نالہ لئ والے سرخ پوش نے نقطہ اٹھایا کہ جملے کی ترکیبِ نحوی میں “شادی کر” حرفِ اضافی ہے- اگر بدمست حکومت دریا میں کچھ نہ کچھ ڈالنے پر بضد ہی ہے تو دو چار منسٹر ہی پھینک دے … کم از کم خشک سالی تو دور ہو گی
حاتم ان جعلی درویشوں سے بچتا بچاتا رجانہ سے کمالیہ پہنچا اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی
گھنٹہ بھر دھول مٹی اڑانے کے بعد وہ بمشکل دوسرے کنارے پر آن لگا
اس نے ایک سبزپوش کو دیکھا جو بیری کے پتے جسم پر لپیٹ کر چت سویا پڑا تھا اور کووّں کا ایک غول اس کے اوپر منڈلاتا تھا
حاتم نے پاس آ کر سلام کیا اور کہا
” اے سبز پوش ، اگر آپ فوت ہو چکے ہیں تو کوّوں کو اطلاع کر دوں ؟؟
اس پر وہ پیر مرد پانسا پرت کے بولا
” مرا نہیں ، فی الحال اکڑا ہوں ، اور یہ اکڑ دائمی نہیں ، سردی کی وجہ سے ہے
حاتم نے کہا
” خدا آپ کو حیات خضر عطا کرے ، مجھے تو طائران لاہوتی کی پرواز سے بدگمانی ہوئ جو آپ کے سراقدس پر برابر منڈلا رہے ہیں
بزرگ نے کہا
“یہ دیسی کوّے ہیں ، سرکاری نہیں جو زندہ مردہ میں تمیز نہ کر سکیں
اس کے بعد وہ بزرگ ایک طویل جماہی لیکر بولے
” ٹائم کی ہویا”
حاتم نے کہا ” وہی جو کل اس وقت ہوا تھا ….. اے بزرگِ نیک طینت !!! قصّہ یہ ہے کہ بھائ پھیرو کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد کی شہزادی
بزرگ بات کاٹ کے بولے
” بس کرو … سن چکا ہوں یہ بیکار قصّہ پہلے میری کہانی سنو … کوئ زمانے کی بات ہے کہ ایک کوّا پیاسا تھا … اس نے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ
حاتم بات کاٹ کر بولا
“اے سخن ور !! میں بھی یہ گھٹیا کہانی بارہا سن چکا ہوں ، کچھ تازہ ہو تو ارشاد فرمائیے
اس پر وہ بزرگ دیر تک کھانسے ، پھر یکایک بریک لگا کر بولے
بے شک کم فہموں کے نزدیک یہ بیکار کا قصہ ہے ، مگر دور اندیش حکمرانوں کےلئے اس میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں- چنانچہ جس نگری سے انہیں اپنا امیدوار ہارتا نظر آئے ، وہاں راتوں رات ایک ٹرک کنکریوں کا پھینکوا دیتے ہیں- پکی سڑک کے آثار دیکھ کر عوام کی ذھنی سطح بلند ہو جاتی ہے ، اور نا اھل امیدوار ووٹ لیکر کائیں کائیں کرتا اڑ جاتا ہے
قسم ان طہارت پسند پادشاہوں کی جو مانجھ مانجھ کر سرکاری خزانے کی صفائی کرتے ہیں
قبلہ ظفر صاحب نے ایک کو نہ چھوڑا۔۔۔ نہ زمین نہ ہی آسمان۔۔تم نے سر اٹھا کر دیکھا تو فضاؤں میں اڑتے ہوئے شاہین بھی مالٹے کھا رہے تھے۔
ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ہے۔بہرحال تین دن اور تین رات کی مسافت کے بعد لوکل بس ایک شہر میں داخل ہوئی جہاں ہر طرف یہ صدا تھی۔ "سٹھ روپئے درجن سٹھ روپئے درجن !!!"
حاتم کی جمہوری سسک مزہ دے گئی۔حاتم سسک کر بولا۔۔چرخ و فلک اس فراڈ پر قہقہہ فغاں ہیں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہے۔
جواب آیا۔۔۔ غم نہ کر بیٹا ۔۔۔ فراڈ جمہوریت کا حسن ہے اور اسی میں قوم خوش رہتی ہے، بتا کیا مسئلہ ہے ؟؟
حاتم خدا کا نام لیکر اٹھ کھڑا ہوا، ابھی نو قدم ہی چلا تھا کہ اسے ایک مرغ اصیل ابیض دکھائی دیا۔۔۔ ادھر حاتم نے آستین چڑھائی ادھر اس کُکّڑ نے دوڑ لگائی۔ ابھی دونوں نو کوس ہی بھاگے تھے کہ اچانک مرغ نے بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر گویا ہوا۔۔۔
اے حرص و ہوّس کے پجاری، اگر تیرا مقصود محض ایک انڈہ ہے، تو کسی مرغی کا دروازہ کھٹکٹا، کیوں میرے پیچھے خوار ہوتا ہے؟؟
مولوی مقصود کے گھر تشکیل کر کے جو آئے تھے۔عقدِ ثانی کے نقد ارادے فرما لیے۔
ہاہاہااس پر وہ زوجہ پرست بولا
مولوی گلے تے لبیئا گیا۔لیکن وہ احمق بھی میرے ہی تربیت یافتہ تھے میری ہی گھڑی ہوئی دلیلیں مجھ پر چسپاں کرنے لگے ، کہنے لگے رزق دینے والی ذاتِ بابرکت اللہ تعالی کی ہے، حوصلہ رکھیے
ظفر اقبال صاحب مسلمان رہے یا نہیں۔اگلے دن ظہر کی نماز پڑھا کر نکلا تو بے ساختہ قدم شاد بی بی کے محلّے کی طرف اٹھ گئے، سوچا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری حکم خداوندی ہے، اور جو ایسا نہ کرے، نرا سنگ دل ہے۔
مسئلہء مرغِ مقتول
مجھ لگ رہا ہے ظفر اقبال صاحب بریلوی ہیں۔شعلہ بیان خطیبوں نے مجھے معاف رکھا البتہ میرے مسلک کو دھو دھو کر نچوڑا اور سکھا سکھا کر دھویا
مولوی صاحب کی زوجہ درس نظامی پڑھی نہ ہو لیکن پابندی سے جلسہ دستار بندی میں شرکت کرتی تھی۔ ظفر اقبال صاحب دیو بندی ہیں۔مانا گرمیء شوق دستارِ فضیلت سے اونچی ہو گئی ہے
اے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں، معاشرہ جس حال پہ راضی ہو، یہ مذہب کو اسی رنگ میں ڈھال کر مال سے غرض رکھتے ہیں، انہیں عوامی مولوی کہا جاتا ہے۔
دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا 'کافر' اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے گھسّن مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انہیں ضِدّی مولوی کہا جاتا ہے۔
تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں صالحین کہا جاتا ہے مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔
مجھ لگ رہا ہے ظفر اقبال صاحب بریلوی ہیں۔
مسلک کا ذکر نا کرنا ہی بہتر تھا لیکن ملک صاحب سلفی یا اہلحدیث ہیں۔مولوی صاحب کی زوجہ درس نظامی پڑھی نہ ہو لیکن پابندی سے جلسہ دستار بندی میں شرکت کرتی تھی۔ ظفر اقبال صاحب دیو بندی ہیں۔