ش زاد
محفلین
جی درست فرمایا مغل صاحب کہ طبع اور درد ہم وزن الفاظ ہیں لیکن نفی کے سلسلے میں اساتذہ کے کلام سے فی الحال کوئی حوالہ نہیں ملا کہ اسے بر وزن فعُو باندھیں یا بر وزن فعل۔ شاید آپ ہی درست کہتے ہوں۔
دراصل مجھ ایسوں پر اور ہماری نسل پر ایک بڑا ظلم یہ ڈھایا گیا کہ ہمارے دور تک آتے آتے اردو املا سے اعراب طوطوں کی طرح اڑا دیے گئے اور اردو الفاظ کا تلفظ ہماری صوابدید کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کسی زمانے میں ہمارے اردو کے ایک قابل استاد جناب رحمت علی مسلم صاحب مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین) خصوصاً سہ حرفی الفاظ کی دو فہرستیں رٹا لگانے کی غرض سے دیا کرتے تھے کہ کن الفاظ کا درمیانی حرف ساکن ہے اور کن کا متحرک۔ اس کے علاوہ ایسے الفاظ کی درست ادائیگی کا دوسرا ذریعہ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے کس لفظ کو کس طور باندھا ہے۔
اسی قسم کا ایک لفظ "سعی" ہے جس کا درست تلفظ ہمیں حضرت غالب کا مصرع "دوست غمواری میں میری سعی فرماویں گے کیا" پڑھ کر معلوم ہوا جب کہ "سعی" کا ع عموماً متحرک پڑھا اور باندھا جاتا ہے لیکن یہ بہر طور غلط ہے۔ "سعی" کو صرف بر وزن فعل یعنی ع ساکن پڑھنا اور نظم کرنا ہی جائز ہے۔
اسی طرح صحّت کو ہم عموماً "فعل" کے وزن پر باندھ دیتے ہیں جب کہ "صحّت" کو "فعلن" کے وزن پر باندھنا ہی جائز ہے۔ ایسا ہی حال "طبع" اور صبح کا ہے جن کے درمیانی حروف یعنی ب ساکن ہیں اور بر وزن فعل ہیں لیکن ہم انہیں عموماً متحرک ب کے ساتھ نظم کر دیتے ہیں۔
بہرحال آپ کا بے حد شکریہ کہ "نفی" پر تحقیق کی ایک راہ دکھا دی۔ انشاء اللہ ایک آدھ روز اس لفظ کا درست تلفظ کسی فارسی یا عربی شعر کے حوالہ سے یہیں اسی دھاگے میں (ش زاد صاحب سے معذرت کے ساتھ) پیش کرتا ہوں۔
فاتح بھائی داد تو آپ بھی قبول کیجیے اتنی زبردست تحقیق پر