قدیر احمد نے کہا:کسی زمانے میں محفل پر ایک کہانی لکھی گئی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی ۔ درج ذیل کہانی اسی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب قدیر احمد نے محفل سے طویل عرصے کے لیے رخصت لے لی تھی ۔ اس کے جانے کے بعد محفل میں اُلو بولنے لگے تھے ، یعنی ویرانی ہو گئی تھی ۔ منہاجین ، نبیل اور زکریا بولائے بولائے سے پھرنے لگے تھے ۔ مسلسل بوریت سے تنگ آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ عرصے کے لیے کوئی اور شغل اختیار کیا جائے ۔ چنانچہ اس مسئلہ پر گفت و شنید شروع ہو گئی ۔
انہی دنوں منہاجین کی تنظیم نے ایک تقریب منعقد کرنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں ، جس میں محفلِ سماع بھی ہونی تھی ۔ ”اندھا کیا چاہے دو آنکھیں“ نبیل اور زکریا نے منہاجین کی منت سماجت شروع کردی کہ بھائی ہمیں چانس دلا دو ، تمہیں بھی اپنے گروپ میں شامل کر کے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیں گے ۔ اس طرح انہیں ایک قوال پارٹی بنانے کا موقع مل گیا جس میں طبلہ نوازی زکریا کے سپرد کی گئی ، ہارمونیم منہاجین کے ہاتھ میں اور نبیل کو اصل کام یعنی لمبی لمبی تانیں لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ شاکر اور محب علوی چونکہ نئے نئے آئے تھے اس لیے انہیں تالیاں بجانے کا فن سونپا گیا ۔
جب یہ قوال پارٹی محفل سے نکلی تو سامنے ہی ایک چاند گاڑی کھڑی نظر آئی ۔ اب قوال رکشے والے سے تانیں لڑانے لگے ۔ نبیل صاحب تو ہاتھ نچا نچا کر بھاؤ بتانے لگے ۔ کئی منٹ تک چونچیں لڑانے کے بعد سودا طے پاگیا جس پر محب اور شاکر نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا ۔ ان کی خوشی جلد ہی ماند پڑ گئی جب معلوم ہوا کہ رکشے کے اندر صرف تین افراد کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ نبیل ، زکریا اور منہاجین رکشے کے اندر بیٹھ گئے اور محب اور علوی رکشے کے دائیں بائیں مڈ گارڈز پر پاؤں ٹکا کر کھڑے ہو گئے ۔ اس پر رکشے نے ایک زور دار احتجاج کیا اور حرکت میں آگیا ۔
گرتے پڑتے قوال محفلِ اردو سے نکل کر محفلِ سماع میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ابھی تک مہمانِ خصوصی کی آمد نہیں ہوئی ۔ لیکن چونکہ پنڈال میں مجمع لگ چکا تھا اس لیے منتظمین نے قوالی شروع کرنے کا حکم دیا ۔ قوال پارٹی جم کر بیٹھ گئی تو منہاجین نے ہارمونیم کی ریں ریں شروع کرتے ہوئے زکریا سے کہا
”چل استاد دے ٹھِیکا“
اب زکریا نے طبلے پر دونوں ہاتھ جو جمائے تو نبیل نے زور دار جمائی لی جو ایک لمبی تان میں بدل گئی ، اور ساتھ ہی محب اور شاکر نے تڑاخ تڑاخ تالیاں بجانی شروع کردیں ۔ قوالی بڑھتی گئی اور محب نے اپنا کام جاری رکھا مگر شاکر کی حالت غیر ہونے لگی ۔ ابھی اس پر ”حال“ طاری ہونے ہی لگا تھا کہ دفعتاً سٹیج سیکریٹری نے مہمانِ خصوصی کی آمد کا اعلان کیا ۔ سب کی نظریں سٹیج کے داخلی دروازے پر لگ گئیں ۔ دروازے پر لگے پردے میں حرکت ہوئی اور قدیر احمد بطورِ مہمانِ خصوصی برآمد ہوا ۔
(میں نے کہانی کو بڑے نازک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے ، اب یہاں سے کہانی بڑھانا آپ کا کام ہے)
قدیر احمد نے کہا:دوست: مجھے تمہاری جوابی کاروائی کا انتظار رہے گا ۔ یاد رکھو کہ اب میں کسی بات کا برا نہیں مناتا ۔ مگر اوپر جو کچھ تم نے قدیر احمد جیسے شریف النفس بندے کے ساتھ کیا ہے ، ویسا ہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے ، انشاءاللہ ۔
رنجہ دریں کوچہ ہوا بعد ورود خیال کہ قصہ چہار درویش کی ہوگی کوئی مثال۔ دیکھ سن کر مزہ بھی آیا اور چھایا رنج و ملال۔ نہ وہ چاشنی، زبان و بیان یہ ہی ویسا قیل و قال۔