قصہ چار محفلین کی ملاقات کا (اندر کی خبر)

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی بالکل آپ صحیح سمجھے۔۔۔ وہی چار محفلین جو فیصل مسجد کے سبزہ زار میں بیٹھے گپ لگاتے رہے۔ ان کی تصاویر یہاں اور خیالات یہاں آپ تمام احباب پہلے ہی دیکھ چکے۔۔ لیکن یہ جو روداد میں لایا ہوں۔۔ یہ روداد اس ملاقات کی خفیہ نگرانی کے بعد تحریر کی گئی ہے۔۔ دراصل ان احباب نے وہاں لگا بورڈ نہیں پڑھا۔۔۔ کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے۔۔۔ :p

==================​
جب سید ناصر شہزاد کے آنے کی اطلاع ملی۔ ملاقات کی جگہ اور وقت کا تعین ہوگیا۔ تو شرارت سوجھی۔ کیوں نہ چھپ کر قصہ چہار درویش دیکھا جائے۔ وقت سے پہلے جگہ مقررہ پر پہنچ گیا۔ کیوں کہ صرف سر زبیر مجھے پہچانتے تھے۔۔۔ لہذا ایسا کوئی دھر لیے جانے کا ایسا کوئی خدشہ نہ تھا۔ میں نے اک پودے کے ساتھ کرسی پر قبضہ کیا۔ چائے کا حکم جاری کیا۔ اور اخبار منگوا کر منہ کے سامنے دھر لیا۔ تھوڑی دیر بعد سر زبیر تشریف لے آئے۔ساری میزوں کو چھوڑ کر اک ٹوٹی کونے والی میز کا انتخاب کیا۔ سگریٹ اور موبائل نکال کر میز پر رکھا۔ اور یوں نشست جما لی۔ جیسے جی-الیون سے آنے کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا۔ پھر کچھ یاد آیا تو موبائل نکال لیا۔ اور پھر واپس رکھ دیا۔ میں نے ان کے ساتھ کوئی میز تاڑا اور وہاں منتقل ہوگیا۔ کافی دیر بعد امجد علی راجہ صاحب آئے۔ میں تو ان کو بالکل نہیں پہچان پایا۔ دونوں احباب بڑی گرمجوشی سے ملے۔ اک دوسرے کی تعریف کی۔ اور پھر کرسی پر بیٹھ گئے۔ امجد بھائی تھوڑے سے مؤدبانہ انداز میں بیٹھ گئے۔ گویا درس شروع ہونے والا ہے۔سر زبیر کسی کام سے اٹھ کر گئے تو پھولوں کی حفاظت کا ذمہ امجد بھائی کو سونپ گئے۔ امجد بھائی اپنی شوخ طبیعت کے باعث ان کے جاتے ہی پھول کی پتیاں توڑ توڑ کر کچھ منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگے۔ آخری پتہ پتا نہیں کس پر آیا کہ امجد بھائی کا منہ بن گیا۔ اور انہوں نے وہ گلدستہ وہیں میز پر رکھ دیا۔ اتنی دیر میں سرزبیر کی بھی واپسی ہوگئی۔ لیکن ان سے چند قدم آگے شاہ جی چلتے آرہے تھے۔ امجد میاں اٹھ کر شا ہ جی سے ملے۔ خیر سگالی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اور پھر تینوں بیٹھ گئے۔ شاہ جی کے ساتھ موجود بچوں نے اس بزرگانہ محفل کو دیکھ کر راہِ فرار میں عافیت سمجھی۔ اور نکل لیے۔ اب یہ تینوں احباب دبے دبے الفاظ میں کچھ گپیں لگانا شروع ہوئے ہی تھے کہ امجد میانداد آن ٹپکے۔ پھر وہی منظر
احباب کا اٹھنا۔اک دوسرے سے ملنا اور بیٹھنا۔اللہ اللہ کر کے چاروں آرام سے بیٹھے اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم نے ارتکازِ سماعت کی جو جو مشقیں کر رکھی تھیں۔ سب کو بروئے کار لا کر سننے کی کوشش کی کہ موضوع کیا چل رہا ہے۔
سید زبیر: شاہ جی آپ کی شخصیت اتنی زبردست ہے کہ مل کر دل باغ باغ ہوگیا۔
شاہ جی: آپ بھی کم نہیں۔ ماشاءاللہ کیا کیا چرکے لگے ہیں۔ کندن بن چکے ہیں آپ۔۔۔
سید زبیر: اک شرمیلی مسکراہٹ سے۔۔۔ قبلہ جانے بھی دیجیے۔۔۔
شاہ جی: اور امجد میاں۔۔ بھئی تمہاری خوش کن مسکراہٹ بڑی ظالم ہے۔ دل موہ لیتے ہو۔۔ ۔۔
امجد میاں: شرماتے ہوئے۔۔۔ سر بس آپ بزرگوں کا فیض ہے۔۔۔ اسی بات پر اک شعر سنیے۔۔۔ ابھی ابھی آمد ہوئی ہے۔
میانداد: یکلخت مڑ کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے۔۔ کس کی آمد ہوئی ہے
امجد میاں: اوہ نوجوان (انگلش والا نو)۔۔۔ ادھر شعر کی آمد ہوئی ہے۔۔۔ اور ساتھ ہی انتظار کیے بناء شعر جڑ دیا۔۔۔
ڈاکٹر سے میں نے پوچھا، یہ جو دو پاگل ہیں کون
ڈاکٹر بولا ہوئے پاگل یہ بربادی کے بعد

ایک کو تو کر گئی پاگل جدائی "شین" کی
دوسرا پاگل ہوا ہے "شین" سے شادی کے بعد

حقیقت پر مبنی یہ شعر احباب کے دل پر سیدھا اثر کر گیا۔۔ اور تینوں احباب شعر پر سر دھننے میں مصروف ہوگئے۔ میانداد نے ہنستے ہنستے کہا۔۔۔ ہے تو بدتمیزی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاگل چار ہیں۔۔۔ اس پر دوبارہ ہنسی کا دورہ شروع ہوا۔
ہوش تب آیا جب بیرے نے آ کر پوچھا کہ کچھ کھانے پینے کا بھی منصوبہ ہے۔ بیرے کے سامنے واللہ آپ بتائیں واللہ آپ بتائیں والی گفتگو طوالت کے پیش نظر حذف کر رہا ہوں۔۔۔
بیرے کے جانے کے بعد دوبارہ سلسلہ گفتگو جڑا۔۔۔
شاہ جی: بھئی میانداد تم تو غضب کے فوٹو گرافر ہو۔ یہ تصویریں بنانا کہاں سے سیکھا۔۔۔
میانداد: اک دھیمی مسکراہٹ سے۔۔۔ بس آپ احباب کا جب فیض نہیں تھا۔ تو سڑکوں پر یونہی کیمرہ لیے آوارہ نکل جاتا تھا۔ وقت بڑا استاد ہے۔۔۔
زبیر سر اور شاہ جی اس جملے میں ربط تلاش کرنے لگے۔۔ پھر اک دوسرے کی طرف دیکھ کر معنی خیز نظروں سے مسکرائے۔۔۔ میانداد نے فورا کیمرہ نکالا اور تصاویر کھینچنے میں مشغول ہوگئے۔ بقیہ احباب علمی و ادبی گفتگو میں مشغول ہوگئے۔ ۔۔۔ میانداد بھائی بھی اس گفتگو میں وقتاً فوقتاً لقمے دیتے رہے ۔
یہ ادبی گفتگو چونکہ عام قارئین کے لیے چونکہ دلچسپی کا باعث نہیں۔۔ سو اس کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں۔۔۔ لیکن ایسے میں امجد میاں کے جملے لطف دے جاتے تو دونوں بزرگ داد دینے میں کوئی کمی نہ چھوڑتے۔۔۔
اک دوسرے کی خوب تعریفیں کی گئیں۔۔۔ :) اور یہ شعر بار بار پڑھا گیا۔۔۔ غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں۔۔۔ :p

اب میانداد نے فون نکالا اور خاکسار کا نمبر ملا دیا۔۔۔ میری عقابی نظروں نے دیکھ لیا کہ میرا ہی نمبر ڈائل ہو رہا ہے۔۔ تو پہلے ہی بہانے سے اٹھ کر وہاں سے دور گیا۔ بات کی۔۔ اور پھر واپس آ کر بیٹھ گیا۔۔ خاص خیال رکھا کہ سر زبیر کی نظر نہ پڑنے پائے۔۔۔

اس طرح کی باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔۔۔ دل تو بہت کیا کہ سب کے سامنے جا کر دھماکہ کر دوں۔۔۔ لیکن پھر اس جاسوسی کا مزا جاتا رہتا۔۔۔​
 

عینی شاہ

محفلین
یہ تو بہت مزے کی لکھی ہے آپ نے :thumbsup: پر اپکو افسوس نہی ہوا کہ اپ وہان جا کر ان سے مل لیتے یا اک دم اینڈ پر انکے سامنے جا کر انکو سرپرائز دیتے تو زیادہ مزا اتا نا خیال بھائی:p
 
ماشاءاللہ :)
پروازِ تخیل کے کیا کہنے
کیا موتی پروئے ہیں وہ بھی چشم تصورسے
گویا ستارے گوندھ کر جھولی میں ڈال دئے ہوں
شاد و آباد رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماشاءاللہ :)
پروازِ تخیل کے کیا کہنے
کیا موتی پروئے ہیں وہ بھی چشم تصورسے
گویا ستارے گوندھ کر جھولی میں ڈال دئے ہوں
شاد و آباد رہیں
آپ کی طرف سے اسے شرف قبولیت ملا۔۔ گویا محنت ٹھکانے لگ گئی۔۔۔ :)
شاہ جی اس ملاقات سے رہ جانے کا بہت قلق تھا :)
 
کیا کہنے نیرنگ، خوب کمی پوری کی ہے اپنی غیر حاضری کی۔ اب تو لگتا ہے اسلام آباد آمد پر تمہاری موجودگی کو لازمی بنانا لازم ٹھہرا ورنہ ایسی ہی جاسوسی ہماری بھی ہو سکتی ہے۔ :)
 
Top