تیسرا درویش دو زانو ہو بیٹھا - جیب سے ایک نقرئی ڈبیاکہ جس پر زرنگار جڑے تھے , نکالی , اس سے ایک کامل چٹکی نسوار کی ڈالی اور ایک باریک پچکاری مار یوں گویا ہوا :
یہ سرگزشت مری ذرا کان دھر سنو
مجھ کو فلک نے کردیا زیروزبر سنو
اے یاران آوارہ گرد ! یہ فقیر آزاد منش ایک ماہ سے کچھ اوپر اس دھرنے میں موجود ہے -میری پیدائش اور ملک اس درویش کا میراں شاہ شمالی وزیرستان ہے- والد اس عاجز کا سرخیل مجاہد تھا - چنانچہ زار روس کی جنگ میں کام آیا- بہادر ایسا تھا کہ وقت شہادت بھی ایک سفید ریچھ کا ٹینٹوا اس کے دست فولاد میں تھا - باپ کے مرنے پر ترکے میں اس فقیر کے ایک پیوند لگا باغ امرود کا کہ جس پر سیب لگتے تھے، ایک کھیت اخروٹ کا اور ایک نقرئی ڈبیا نسوار کی گماشتوں میں ہاتھ آئی - جس میں سے نصف بیچ بٹا کے بندوبست ایک زوجہ کا کیا کہ کچھ خاطر جمع ہووے اور کسب اولاد کا ذریعہ بنے-اور باقی جو بچا اس سے قصد روزگار کا کیا کہ پیٹ کی آگ بہت ظالم ہے-
مصاحبو ! وطن کا احول کچھ نہ پوچھو.. یہاں کی بنجر زمین پر ملاں مذہب کا ہل چلاتے ہیں - فولادی اڑن طشتریاں کہ جنہیں ڈرون کہتے ہیں فلک سے نفرت کا بیج پھینکتی ہیں پھر جب طالبانی پودے اگتے ہیں تو ملاں اسے عصبیت کی کھاد دیتے ہیں- یوں کڑی محنت سے خود کش فصل پک کر تیار ہوتی ہے-اعلی قسم کی جنس ملک افغانستان بھیجی جاتی ہے تاکہ عالم کفر کے دانت کھٹے کیے جاویں اور جنت ابدی کا حصول ہو،, ادنی قسم کی خودرو بوٹیاں کہ جن پر ہندوستانی اسپرے کیا ہوتا ہے ملک خداداد پاکستان بھیجی جاتیں ہیں تاکہ بوقت ضرورت پھٹ کر خلق خدا کو تسکین پہنچاویں - کبھی کبھی یہ جڑی بوٹیاں اتنی کثیر ہو جاتی ہیں کہ ان کی سرکوبی کےلیے افواج پاکستان آ دھمکتی ہیں - تب ان کا احوال جو ہو سو ہو لیکن ہم جیسے فقیروں پر جو گزرتی ہے , بقول بھگت کبیر...
چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کو
اس سال چرخ فلک نے... عجب ستم یہ ڈھایا کہ دونوں فصلیں ایک ساتھ پک کر تیار ہوئیں ... فصل طالبانی اور فصل اخروٹ- یکبارگی جی میں ارادہ کیا کہ قبل اس کے کہ طالبان کا طوطی بولے اور افواج سرکاری ان پر فائر کھولے فصل اتار لی جائے مگر صد افسوس کہ تدبیر پر تقدیر غالب آئی اور فرمان امروز کوچ کا ملا چنانچہ ایک نگاہ تاسف فصل پر ڈالتا ، زوجہ طفلان گریہ زارکو سنبھالتا پہلے قافلے کے ساتھ ہی میران شاہ سے روانہ ہوا- احباب محفل سے اگلی منزل کی نسبت استفسار کیا تو معلوم پڑا کہ میر علی منزل گاہ ہے صوبہ جس کا "کے پی کے" ہے وہاں خٹک نامی ایک مرد صالح کی حکومت ہے - نظام اس مملکت کا کچھ یوں ہے کہ گاہ گاہ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں- کوتوال شہر خلق خدا کا صبح شام پانی بھرتے ہیں اور شاہراہوں پر جڑاؤ زرنگار پتھر نصب ہیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے- اشتیاق ہوا کہ جلد از جلد اس جنت ارضی کا دیدار پاویں تا کہ رنج سفر کا کچھ کم ہو وے اور طبیعت آرام پاوے -
قصہ کوتاہ کہ جب اس وطن پہنچا تو پتا چلا کہ نہ دودھ و شہد کی نہریں ہیں اور نہ ہی زرنگاری سڑکیں اور کوتوالی ہیں کہ خلق خدا کو بھیڑ بکریوں کی طرع ہانک رہے ہیں- بارے ایک خیمہ نصیب ہوا جس میں ہمراہ پانچ طفل صغیر اور زوجہ باپردہ ٹھکانہ کیا-
ایک دن جب یہ درویش واسطے نان نفقہ کے ایک لنگر کی طویل لائن میں کھڑا تھا.. ایک خواجہ سرا صورت منادی کو سنا کہ گلے میں جسکے تین رنگ کا دوپٹہ تھا اور صدا لگاتا تھا "چلو چلو اسلام آباد چلو"- قریب جاکر اصلاح احوال کی چاہی تو معلوم پڑا کہ ملک خداداد میں نواز شریف نامی ایک ظالم پادشاہ کا دور دورہ ہے کہ خلق جس کی اذیت کا شکار ہے- اس ظالم نے "کے پی کے" کی ساری بھینسوں کو بیچ کر اور شہد کی مکھیوں کو قید کر کے اس صوبہ کی دودھ اور شہد کی نہریں سکھا دی ہیں- اور یہاں کی سڑکوں سے سونے کی اینٹیں لوٹ کر فرنگیوں سے اپنے سر پر سونے کے بال لگوالئے ہیں -خود تو جڑاؤ محل میں رہتا ہے اور آئ ڈی پیز کو رہن کے واسطے خیمے بھیجتا ہے - سو یہی وقت جہاد ہے ہر مجاہدکو500 روپے سکہ رائج الوقت ملے گا- دریافت کیا کہ کرنا کیا ہوگا وہ گویا ہوا کہ ایک مرد صالح جو اس ظالم پادشاہ کا ازلی دشمن ہے اور نام کا کپتان ہے اس کا خطاب سننا ہوگا اور سمجھ آوے یا نہ آوے تالیاں بحرحال پیٹنی ہونگی- استفسار کیا کہ بال بچے کا کیا ہو گا - منادی بولا چھوٹا 250 بڑا 300 اشرفیاں نقد بمع تین وقت کا کھانا..صبح کو شربت چائے و حلوہء سوہن پستہ، دوپہر کو پلاؤ زردہ ران بکرے کا اور شام میں مرغ مسلم و نان قندھاری-
سننا اس منادی کا تھا کہ فقیر کھانے کا تھال وہیں چھوڑ خیمہ کی جانب بھاگا کہ احوال زوجہ کو بیان ہو اور تیاری سفر کی پکڑی جاوے-وہ اللہ کی بندی بھی جھٹ تیار ہوئی اور کپڑا لتا اور دیگر زاد راہ ہمراہ لیا- علی الصبح مرغ کی اذان کے ساتھ پہلا قافلہ پکڑ شام کو اسلام آباد آن پہنچا- کیا دیکھتا ہوں کہ خلق خدا کا ایک اژدھام ہے- جو بھانت بھانت کے نعرے لگاتا ہے- یوں ایک قید خانے سے نکل کر دوسرے زندان میں آن پھنسا- بارش ہوتی تو پیڑ کے نیچے پناہ لیتا- بھوک گھیرتی تو تلاش رزق میں نکلتا اور بعد از خرابیء بسیار کبھی تو دال ہمراہ نان خشک ملتا اور کبھی ابلے چاول- سو کبھی تو قبض ہو جاتی اور کبھی جلاب کا عارضہ آن لاحق ہوتا ہر روز یہ طلاع ملتی کہ ظالم پادشاہ نے 100 زردے کی دیگیں چھین کر بحق سرکار ضبط کر لی ہیں جونہی اس پادشاہ کا تختہ الٹے گا بمعہ سود واپس لی جاویں گی- رات کو جشن طرب شروع ہوتا اور زرق برق کنیزیں کہ حسن جن کا آنکھوں کو خیرہ کرتا تھا رقص آزادی پیش کرتیں- زوجہ اس درویش کی چونکہ پردے دار فقیرنی تھی سر نہواڑے توبہ توبہ کر کے سو جاتی- رات دیر تک خطبات چلتے اور یہ درویش تالیاں بجا بجا کر حق اشرفیاں ادا کرتا- پھر چرس اور تاش کی محفلیں سجتیں- غرض کہ رات گئے تک ایک ہنگام برپا رہتا-
مصاحبو اسی طرح دن گزرتے گئے- ہر رات لوہے کے تابوت سے ایک خواجہ سرا صورت طویل قامت گلے میں سہہ رنگا ریشمی دوپٹہ پہنے , کہ اپنے تائیں کپتان کہتا تھا، باہر آتا- ایک لمبی تقریر کرتا اور آخر میں اعلان کرتا کہ کل اس ظالم پادشاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جا وے گی--ایک دن کسی جاننے والے سے پوچھا کہ اس ظالم پادشاہ کی کیا خبر ہے- اس نے جواب دیا کہ ملک خداداد میں سیلاب کی آمد آمد ہے اور وہ ظالم صبح سے شام خلق خدا کے ساتھ جتا ہوا ہے- یہ سن کر جی ہی جی میں شرمندہ ہوا کہ یہ مسخرے تو شب بھر محو رقص رہتے ہیں اور وہ ظالم خلق خدا کی خدمت گاری میں جتا ہے- چنانچہ اگلے ہی دن اس محفل نشاط پر تین حرف بھیج کر نکلنے کا ارادہ کیا تو ڈنڈا برداروں نے آن گھیرا اور یہ کہہ کر دوبارہ بٹھا دیا کہ باہر اس ظالم پادشاہ کے کوتوالی سونگھتے پھرتے ہیں مبادہ پکڑے گئے تو پس زنداں چلے جاؤ گے بہتری اسی میں ہے کہ رات بھر ہمارے ساتھ ناچو......اور دن کو کسی جھاڑی کے نیچے ہو کر سوئے رہو....بس کچھ دن اور باقی ہیں- آزادی کا سورج طلوع ہونے کو ہے-
سو دوستو وہ دن اور آج کا دن اسی ہنگام ۔۔۔ خانہ میں پڑا ہوں..آزادی کا سورج تو اب قیامت کو طلوع ہوگا...فی الحال تو..رات بھر پی ٹی آئی نچاتی ہے ...اور دن کو بھوک!!!!!
لکڑی جل کوئلہ ہوئی کوئلہ جل بنی راکھ
ہم پاپی تو یوں جلے نہ کوئلہ بنے نہ راکھ
اتنا کہہ کر درویش زارو قطار رونے لگا