حسان خان
لائبریرین
دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حُسن نہ ہوتا خودبیں
(محبوبِ حقیقی کے جلوۂ یکتائی سے زمانہ وجود میں آیا۔ اگر اس کا حسن یہ نمائش پسندی نہ کرتا تو ہم عالمِ وجود میں کبھی نہ آتے۔)
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
(افسوس ہے! ہم نے دنیا کی سیر ایسی بے دلی سے کی کہ نہ لطف حاصل کیا نہ عبرت حاصل کی۔ تمنا ایسی بے کسی کے عالم میں رہی کہ نہ دنیا ملی نہ دین ملا۔ لاحاصل زندگی کی طرف اشارہ ہے۔)
ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستی و عدم
لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں
(ذاتِ الٰہی کے سوا کسی اور چیز کی ہستی یا نیستی کی بحث اور اس کی خوبیوں کے راگ الاپنا بے ہودہ کام ہے۔ اور دیوانگی و ہوشمندی میں فرق بیان کرنا اور بحث کے آئینے میں یہ فرق ظاہر کرنا فضول بات ہے۔)
نقشِ معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت
سخنِ حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں
(یعنی سب اہلِ باطن درحقیقت ظاہر پرست ہیں، اور ذکرِ خدا کا مشغلہ تحسین حاصل کرنے کے لیے اختیار کر رکھا ہے۔)
لافِ دانش غلط و نفعِ عبادت معلوم
دُردِ یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
(علم و دانش کی لاف زنی اور یہ دعویٰ کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، غلط ہے۔ عبادت کا نفع بھی کچھ نہیں، کیونکہ ہماری عبادت بھی نمائشی ہے۔ نہ ہم دنیا کے قدر دان ہیں، نہ دین کے۔ یہ دونوں چیزیں ہماری غفلت کے پیالے میں تلچھٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔)
مثلِ مضمونِ وفا باد بدستِ تسلیم
صورتِ نقشِ قدم خاک بہ فرقِ تمکیں
(باد بدست ہونا سے مراد ہے حیرانی و پریشانی۔ ہر دو مصرع میں فعل محذوف ہے۔ فرماتے ہیں کہ تسلیم و رضا کو ہم اس دنیا میں وفائے محبت کی طرح حیرانی و پریشانی میں دیکھتے ہیں اور علم و دانش کی متانت کو نقشِ قدم کی طرح خاک بہ سر پاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وفا اور تمکین اور تسلیم و رضا سب یہاں بے کار ہیں۔)
عشق بے ربطیِ شیرازۂ اجزائے حواس
وصل زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں
(یعنی جس طرح بدحواسی میں ہوش و حواس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، اسی طرح عشق بھی یہاں پریشان حال ہے۔ اور وصل کا یہاں یہ حال ہے کہ سراسر ناقابلِ یقین اور اس کی امید زنگ آلودہ آئینے کی طرح بے کار ہے۔)
کوہ کن گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے ستوں آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں
(شعر میں صنعتِ تلمیح ہے۔ خسرو پرویز کوہ کن کا رقیب تھا۔ شیریں کو دیکھنے کے لیے کوہ کن نے پرویز کے محل میں معماری اختیار کی تھی۔ بے ستوں اس پہاڑ کا نام ہے جہاں سے جوئے شیر لانے کی شرط کوہ کن کے ذمے ڈالی گئی تھی۔ فرماتے ہیں یہاں کوہ کن جیسا عاشقِ صادق اپنے رقیب کے محل میں بھوکا رہ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ اور کوہِ بے ستوں شیریں کی غفلت بھری نیند کا آئینہ ہے۔ سنگ کو آئینے سے تشبیہ دی ہے۔)
کس نے دیکھا نفسِ اہلِ وفا آتش خیز
کس نے پایا اثرِ نالۂ دل ہائے حزیں
(یہاں کس نے دیکھا ہے کہ اہلِ وفا کے آتشیں نالے لوگوں کے دلوں کو آگ لگا دیں۔ وہ بیچارے اس خیال سے کہ دردمند دل کسی کے پہلو میں نہیں ہے، اپنے سوزِ محبت کو ضبط کئے بیٹھے ہیں۔ جب دل کے نالوں میں اثر ہی نہ ہو تو دل کی آگ کو بھڑکانے سے کیا فائدہ۔ شعر میں استفہامِ انکاری ہے۔)
سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن
نہ سر و برگِ ستائش نہ دماغِ نفریں
(یعنی میں اہلِ جہاں کے راگ سن رہا ہوں، لیکن نہ تعریف کرنے اور نہ داد دینے کے قابل ہوں اور نہ ملامت کر سکتا ہوں۔ ہر طرح مجبور ہوں۔ زمزمہ برائے طنز ہے۔ مقصودِ شاعر یہاں اہلِ جہاں کی ہرزہ گوئی سے ہے۔)
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں
(یعنی خدا کی پناہ، میں کس قدر بکواس کر رہا ہوں۔ اور وقار و خودداری کے آداب سے کتنا باہر ہو گیا ہوں۔)
نقشِ لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرتِ وسواس قریں
(یہ شعر گریز کا ہے۔ فرماتے ہیں اے بے ہودہ باتیں لکھنے والے قلم! ان باتوں کو لاحول کہہ کر چھوڑ دے۔ اے وہم اور وسوسہ کرنے والی طبیعت! تو یا علی کا وظیفہ کر تاکہ یہ وہم اور وسوسہ دور ہو جائے۔)
مظہرِ فیضِ خدا جان و دلِ ختمِ رسل
قبلۂ آلِ نبی کعبۂ ایجادِ یقیں
(کون علی؟ جو فیضِ خدا کا ظاہر کرنے والا ہے، جو حضرت محمد کا جان و دل ہے، جو آلِ نبی کا قبلہ اور تمام اہلِ یقین کا کعبہ ہے۔)
ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام
ہر کفِ خاک ہے واں گردۂ تصویرِ زمیں
(گردہ بہ معنی کرہ۔ فرماتے ہیں وہ عالمِ ایجاد کا سرمایہ (علی) جہاں چلتا پھرتا ہو، وہاں کی ہر کفِ خاک کرۂ زمین بن جائے۔ یعنی اس میں ایک دنیا آباد نظر آئے۔)
جلوہ پرداز ہو نقشِ قدم اُس کا جس جا
وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں
(یعنی جس جگہ اس کا نقشِ قدم اپنا جلوہ دکھا رہا ہو، وہ کفِ خاک دونوں جہان کی عزت و آبرو کی امانت دار ہے۔)
نسبتِ نام سے اس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے
ابداً پشتِ فلک خم شدۂ نازِ زمیں
(امام علی کا لقب ابوتراب ہے۔ تراب کے معنی ہیں مٹی۔ فرماتے ہیں کہ اس کے نام اور لقب کی نسبت سے زمین کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ امام علی اہلِ زمین میں شامل ہیں اور اس رتبے کی وجہ سے آسمان اتنا ناز کر رہا ہے کہ زمین کے ادب و احترام کے لیے ابد تک اس کی پیٹھ تعظیماً جھکی ہوئی ہے۔)
فیضِ خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا
بوئے گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں
(یعنی اسی کے اخلاقِ حسنہ کا فیض ہے کہ باغِ عالم میں اخلاق کی خوشبو ہر پھول میں پیدا ہوئی اور بادِ صبا اسی خوشبو سے معطر ہر کر چاروں طرف اس خوشبو کو پھیلا رہی ہے اور پھیلاتی رہے گی۔)
بُرّشِ تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو جائے نہ سررشتۂ ایجاد کہیں
(اس کی تلوار کی کاٹ کا چرچا سارے جہان میں ہے، اور اہلِ جہان کو خوف ہے کہ عالمِ ایجاد ہی کو کاٹ کر نہ رکھ دے۔ اور ہر موجود کو معدوم نہ کر دے۔ مدح کے لیے یہ مضمون مبتذل ہے۔)
کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں
(وہ سے مراد ہے ایسا۔ یہ استعمال قابلِ ترک ہے۔ کیونکہ اس سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ رونق ٹوٹنا اور رنگ ٹوٹنا بھی فارسی محاورات کا لفظی ترجمہ اور محاورۂ اردو کے خلاف ہے۔ فرماتے ہیں اس کا جلوہ ایسا کفر سوز ہے کہ جس سے رنگِ عاشق کی طرح چین کے بت خانے کی رونق اُڑ جائے۔)
جاں پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!
وصیِ ختمِ رسل تو ہے بہ فتوائے یقیں
(فرماتے ہیں اے جان کے پناہ دینے والے اور دل و جان کو فیض پہنچانے والے! حضرت محمد کا وصی تو ہی ہے، اور یقین بھی یہی فتویٰ دیتا ہے کہ تو ہی وصی ہے۔ وصی وہ ہوتا ہے جو وصیت کے مطابق قائم مقام قرار دیا جائے۔ شیعہ حضرات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت محمد نے وفات کے وقت یہ عزت حضرت علی ہی کو بخشی۔ مگر اہلِ سنت و جماعت اس قول سے اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔ دل و جاں فیض رساں کی ترکیب مقبول نہیں۔ پھر اس کو منادیٰ بنانا اور الفِ زائد ساتھ لانا اور بھی خلافِ فصاحت ہے۔)
جسمِ اطہر کو ترے دوشِ پیمبر منبر
نامِ نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
(مطلب یہ ہے کہ کعبے کا بت توڑنے کے لیے تیرے پاک جسم کو پیغمبر کے کندھوں پر جگہ ملی اور تیرا مشہور نام عرش کی پیشانی پر لکھا ہوا اور اس پیشانی کی زینت بنا ہوا ہے۔)
کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں
(یا حضرت! خدا کے سوا تیری مدح کون کر سکتا ہے۔ شمع کا شعلہ ہی شمع کے ساتھ ربط پیدا کر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے تو فنا فی اللہ ہے۔ اس لیے تری شان کو خدا تعالیٰ ہی سمجھتا ہے۔ آئین باندھنا کے معنی ہیں زینت پیدا کرنا، اور کسی کی ذات میں مل کر ربط حاصل کرنا۔ واجب سے مراد ہے خدا۔)
آستاں پر ہے ترے جوہرِ آئینہ سنگ
رقمِ بندگیِ حضرتِ جبریلِ امیں
(دوسرے مصرع میں توالیِ اضافت بارِ گوش ہے۔ فرماتے ہیں تیرے سنگِ آستاں کو آئینہ کہیں تو جبریل کے سجدوں کے نشان کو اس آئینے کا جوہر سمجھنا چاہئے۔ رقم بہ معنی تحریر یا نقش۔ امین صفت ہے جبریل کی۔)
تیرے در کے لئے اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
(یعنی انسانوں کو خدا نے جان اور دل، دین اور ایمان جو دیے ہیں، وہ سب تیرے دروازے پر قربان ہونے لیے آمادہ پائے جاتے ہیں۔ اسباب کی آمادگی اردو میں نامعتبر ہے۔)
کس سے ہو سکتی ہے مدّاحیِ ممدوحِ خدا
کس سے ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں
(مطلب یہ ہے کہ جس طرح بہشت کی آرائش خدا کے سوا اور کسی سے نہیں ہو سکتی، اسی طرح تیری مدح خدا ہی سے ہو سکتی ہے، اور تو اسی کا ممدوح ہے۔)
جنسِ بازارِ معاصی اسداللہ اسد
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخیِ عرضِ مطالب میں ہے گستاخِ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
(پہلے شعر میں اسداللہ اسد خالی از لطف نہیں۔ یہ مرزا کا نام بھی ہے، اور حضرت علی کو بھی اسداللہ کہتے ہیں۔ شیرِ خدا اسی کا ترجمہ ہے۔ اجابت کے معنی ہیں دعا کا قبول ہونا۔ فرماتے ہیں یا حضرت! اسداللہ اسد تخلص گنہ گاری کے بازار کی جنس ہے۔ تیرے سوا اس جنس کا کوئی خریدار نہیں۔ یہ اسداللہ اپنا مطلب عرض کرنے میں شوخ اور گستاخ ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ تیرے فضل و کرم کی وسعت پر اسے بہت یقین ہے۔ تو میری دعا کو حسنِ قبول کا وہ مرتبہ عطا کر کہ قبولیت میری ہر بات پر سو بار آمین کہے۔)
غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں
(یا حضرت! امام حسین کے ماتم میں میرا سینہ غم و الم سے اس قدر بھر جائے کہ جگر کا خون آنکھوں کی راہ بہنے لگے۔)
طبع کو الفتِ دلدل میں یہ سرگرمیِ شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
(دُلدُل امام حسین کے گھوڑے کا نام ہے۔ فرماتے ہیں میری طبیعت کو الفتِ دلدل میں اتنی سرگرمیِ شوق عطا کر کہ وہ گھوڑا جہاں تک چلے، میری جبیں اس کے قدموں پر جھکی رہے۔ مصرعِ اول میں فعل محذوف ہے۔ دوسرے مصرع میں فارسی محاورہ پائے او و جبینِ من کا لفظی ترجمہ اتنا خوبصورت ہے کہ اس میں اردو محاورے کا پورا رنگ بھرا ہوا ہے۔)
دلِ الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگۂ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں
(دونوں مصرعوں میں فعل محذوف ہے۔ بندش میں ترصیع کا رنگ قابلِ داد ہے۔ مگر مصرعِ اول کی ترکیبیں سراسر ناواجب اور نامقبول ہیں۔ فرماتے ہیں مجھے وہ دل عطا کر جس میں جوشِ الفت ہو۔ وہ سینہ عطا کر جو عرفان کا خزانہ ہو۔ وہ نگہ عطا کر جو جلوۂ حق کی پرستش کرے۔ وہ روح عطا کر جو صداقت پسند ہو۔ دلِ الفت نسب کی تشریح یہ ہے دلے کہ نسبِ او الفت است۔ سینۂ توحید فضا یعنی آں سینہ کہ فضائے او توحید است۔)
صرفِ اعدا اثرِ شعلہ و دودِ دوزخ
وقفِ احباب گل و سنبلِ فردوسِ بریں
(گل کو شعلے سے اور سنبل کو دود سے تشبیہ دی ہے۔ اس تقابل کے علاوہ دوزخ اور بہشت کا تقابل بھی پرلطف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دشمن دوزخ میں جلیں۔ اور میرے دوست بہشت کی نعمتیں پائیں۔)
(مرزا اسد اللہ خان غالب)
× شرح جوش ملسیانی صاحب کی ہے۔