الف نظامی
لائبریرین
وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنا دل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے منہ پہ آنچل تجلی ذات بحت کے تھے
خوشی کے بادل امڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آگئے تھے
یہ جھوما میزاب زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کی حطیم کی گود میں بھرے تھے
دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین
صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آب رواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجوم تار نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش باولے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اس رہ گزر کو پائیں
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جان پرغم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے
بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ وروغن
جنہوں نے دولہا کا پائی اترن وہ پھول گلزار نور کے تھے
خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلی حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
ابھی نہ آتے تھے پشت زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اڑا رہی تھی تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
ہجوم امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے
اٹھی جو گرد رہ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل امنڈ کے جنگل ابل رہے تھے
ستم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک ان کے رہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داخ سب دیکھنا مٹے تھے
براق کے نقش سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقب الٹے وہ مہر انور جلال رخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوشش نور کا اثر تھا کہ آب گوہر کمر کمر تھا
صفائے راہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹے تھے
پڑھا یہ لہرا کے بحر وحدت کہ دھل گیا نام رنگ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے
وہ ظل رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چلا وہ سرو چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سے اک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے روح الامین کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے
روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو کا پھوٹا
خرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے
جلو میں مرغ عقل اڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش حق نے کہا مبارک ہوں تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج شرف تیرے تھے
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرش اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزم بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضور خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
یہی سماں تھا کہ پیک رحمت خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد‘ قریب آ سرور ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سراغ این و متی کہاں تھا نشان کیف و الیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے
ادھر سے پیہم تقاضے آنا ادھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا ادھر کا
تنزلوں میں ترقی افزا دنا تدلیٰ کے سلسلے تھے
ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تموج بحر ہو میں ابھرا
دنا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیئے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا
بھرا جو مثل نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
اٹھے جو قصر دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
ادھر سے تھیں نذر شہ نمازیں ادھر سے انعام خسروی میں
سلام ورحمت کے ہار گندہ کر گلوئے پر نور میں پڑے تھے
زبان کو انتظار گفتن تو گوش کو حسرت شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برج بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سرور مقدم کے روشنی تھی کہ تابشوں سے مہ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازش کہ ہاں لچکئے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکئے
یہ جوش ضدین تھا کہ پودے کشاکش ارہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
نبئ رحمت شفیع امت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
از امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
یہ وہی قصیدہ معراجیہ ہے کہ اردو کے مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے ایک بار اپنا قصیدہ سنانے کے لئے امام احمد رضا کی خدمت میں حاضری دی۔ ان کا قصیدہ بھی معراجیہ ہی تھا جس کا مطلع ہے
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
ظہر کی نماز کے بعد حضرت محسن نے اس کے اشعار سنانے شروع کئے۔ ابھی دو اشعار ہی پڑھ سکے تھے کہ حضرت رضا نے فرمایا اب بس کیجیے عصر کی نماز کے بعد بقیہ اشعار سنے جائیں گے۔ اسی ظہر و عصر کے درمیان آپ نے اپنا یہ قصیدہ معراجیہ کہا اور جب مجلس بیٹھی تو پہلے حضرت رضا نے اپنا قصیدہ سنایا۔ اسے سنکر حضرت محسن کاکوروی نے فرمایا
"مولانا اب بس کیجیے اس کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا"
محدث اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد اشرفی میاں بیان فرماتے ہیں کہ لکھنو کے ادیبوں کی ایک شاندار محفل میں حضرت رضا رحمۃ اللہ علیہ کا قصیدہ معراجیہ میں نے اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کے سنایا تو سب جھومنے لگے۔ میں نے اعلان کیا کہ اردو ادب کے نقطہ نظر سے میں ادیبوں کا فیصلہ اس قصیدہ کی زبان کے متعلق سننا چاہتا ہوں۔ تو سب نے کہا
اس کی زبان کوثر و تسنیم کی دھلی ہوئی ہے۔
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنا دل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے منہ پہ آنچل تجلی ذات بحت کے تھے
خوشی کے بادل امڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آگئے تھے
یہ جھوما میزاب زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کی حطیم کی گود میں بھرے تھے
دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین
صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آب رواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجوم تار نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش باولے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اس رہ گزر کو پائیں
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جان پرغم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے
بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ وروغن
جنہوں نے دولہا کا پائی اترن وہ پھول گلزار نور کے تھے
خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلی حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
ابھی نہ آتے تھے پشت زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دم خوردہ سا بھڑکنا
شعاعیں بکے اڑا رہی تھی تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
ہجوم امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے
اٹھی جو گرد رہ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل امنڈ کے جنگل ابل رہے تھے
ستم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک ان کے رہ گذر کی
اٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داخ سب دیکھنا مٹے تھے
براق کے نقش سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہوں معنی اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقب الٹے وہ مہر انور جلال رخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوشش نور کا اثر تھا کہ آب گوہر کمر کمر تھا
صفائے راہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹے تھے
پڑھا یہ لہرا کے بحر وحدت کہ دھل گیا نام رنگ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے
وہ ظل رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چلا وہ سرو چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سے اک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے روح الامین کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے
روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو کا پھوٹا
خرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے
جلو میں مرغ عقل اڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغان وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشہ تھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرش حق نے کہا مبارک ہوں تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج شرف تیرے تھے
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرش اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزم بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضور خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
یہی سماں تھا کہ پیک رحمت خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد‘ قریب آ سرور ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سراغ این و متی کہاں تھا نشان کیف و الیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے
ادھر سے پیہم تقاضے آنا ادھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا ادھر کا
تنزلوں میں ترقی افزا دنا تدلیٰ کے سلسلے تھے
ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تموج بحر ہو میں ابھرا
دنا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیئے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا
بھرا جو مثل نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
اٹھے جو قصر دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
ادھر سے تھیں نذر شہ نمازیں ادھر سے انعام خسروی میں
سلام ورحمت کے ہار گندہ کر گلوئے پر نور میں پڑے تھے
زبان کو انتظار گفتن تو گوش کو حسرت شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برج بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سرور مقدم کے روشنی تھی کہ تابشوں سے مہ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازش کہ ہاں لچکئے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکئے
یہ جوش ضدین تھا کہ پودے کشاکش ارہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
نبئ رحمت شفیع امت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیئے تھے
از امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
یہ وہی قصیدہ معراجیہ ہے کہ اردو کے مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی نے ایک بار اپنا قصیدہ سنانے کے لئے امام احمد رضا کی خدمت میں حاضری دی۔ ان کا قصیدہ بھی معراجیہ ہی تھا جس کا مطلع ہے
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
ظہر کی نماز کے بعد حضرت محسن نے اس کے اشعار سنانے شروع کئے۔ ابھی دو اشعار ہی پڑھ سکے تھے کہ حضرت رضا نے فرمایا اب بس کیجیے عصر کی نماز کے بعد بقیہ اشعار سنے جائیں گے۔ اسی ظہر و عصر کے درمیان آپ نے اپنا یہ قصیدہ معراجیہ کہا اور جب مجلس بیٹھی تو پہلے حضرت رضا نے اپنا قصیدہ سنایا۔ اسے سنکر حضرت محسن کاکوروی نے فرمایا
"مولانا اب بس کیجیے اس کے بعد میں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا"
محدث اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد اشرفی میاں بیان فرماتے ہیں کہ لکھنو کے ادیبوں کی ایک شاندار محفل میں حضرت رضا رحمۃ اللہ علیہ کا قصیدہ معراجیہ میں نے اپنے مخصوص انداز میں پڑھ کے سنایا تو سب جھومنے لگے۔ میں نے اعلان کیا کہ اردو ادب کے نقطہ نظر سے میں ادیبوں کا فیصلہ اس قصیدہ کی زبان کے متعلق سننا چاہتا ہوں۔ تو سب نے کہا
اس کی زبان کوثر و تسنیم کی دھلی ہوئی ہے۔