فارسی شاعری قطعاتِ اقبال مع ترجمہء انور

عاطف بٹ

محفلین
علامہ اقبال کے دو فارسی قطعات جنہیں انور مسعود نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔​
دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست​
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست​
ازاں بگریختم از مکتبِ او​
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست​
ترجمہ
دلِ واعظ میں کوئی غم نہیں ہے​
نظر رکھتا ہے، چشمِ نم نہیں ہے​
میں اس کی گفتگو سے بھاگتا ہوں​
کہ اس کی ریت میں زمزم نہیں ہے​
نہ نیروے خودی را آموزدے​
نہ بند از دست و پائے خود گشودے​
خرد زنجیر بودے آدمی را​
اگر در سینہء او دل نبودے​
ترجمہ
نہ یوں اس کی خودی بیدار ہوتی​
یہ زورِ دست و پا حاصل نہ ہوتا​
خرد زنجیر ہوتی آدمی کی​
اگر سینے میں اس کے دل نہ ہوتا​
 
علامہ اقبال کے دو فارسی قطعات جنہیں انور مسعود نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔​
دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست​
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست​
ازاں بگریختم از مکتبِ او​
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست​
ترجمہ
دلِ واعظ میں کوئی غم نہیں ہے​
نظر رکھتا ہے، چشمِ نم نہیں ہے​
میں اس کی گفتگو سے بھاگتا ہوں​
کہ اس کی ریت میں زمزم نہیں ہے​
نہ نیروے خودی را آموزدے
نہ بند از دست و پائے خود گشودے​
خرد زنجیر بودے آدمی را​
اگر در سینہء او دل نبودے​
ترجمہ
نہ یوں اس کی خودی بیدار ہوتی​
یہ زورِ دست و پا حاصل نہ ہوتا​
خرد زنجیر ہوتی آدمی کی​
اگر سینے میں اس کے دل نہ ہوتا​

نہایت ادب کے ساتھ!
پہلے قطعے کا ترجمہ تو ہرگز جامع نہیں۔ مترجم نے مکتب اور حجاز کے دو نہایت اہم الفاظ کو سراسر نظرانداز کر دیا۔ اور یہ کہنا کہ میں اس لئے واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اس کی ریت میں زمزم نہیں مہمل اور نہایت پست ہے۔
اور دوسرے قطعے کا پہلا مصرع کیا صحیح لکھا ہے آپ نے؟
 

عاطف بٹ

محفلین
نہایت ادب کے ساتھ!
پہلے قطعے کا ترجمہ تو ہرگز جامع نہیں۔ مترجم نے مکتب اور حجاز کے دو نہایت اہم الفاظ کو سراسر نظرانداز کر دیا۔ اور یہ کہنا کہ میں اس لئے واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اس کی ریت میں زمزم نہیں مہمل اور نہایت پست ہے۔
اور دوسرے قطعے کا پہلا مصرع کیا صحیح لکھا ہے آپ نے؟
مجھے اندازہ نہیں کہ آپ بالعموم ترجمے اور بالخصوص منظوم ترجمے کے فن اور روایت سے کس حد تک واقف ہیں۔ متن کا تقدس اپنی جگہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی مترجم کسی مصنف/شاعر کے تمام تر الفاظ کے متبادلات کو ایک خاص ترتیب سے لکھ دے تو اس تحریر کو ترجمہ کہہ دیا جائے گا۔
پہلے قطعے کے ترجمے میں ’مکتب‘ اور ’حجاز‘ کے الفاظ کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ شاعر کی بات کا پورا مفہوم ترجمے میں ان دو الفاظ کے استعمال کے بغیر بھی ادا ہوگیا ہے۔ ترجمے میں ان دو الفاظ کو کھپانے کے چکر میں مفہوم اگر ایک الجھی ہوئی گتھی بن جاتا تو وہ مترجم کی ناکامی ہوتی۔ جسے آپ مہمل اور نہایت پست کہہ رہے ہیں، وہ مترجم کا ذاتی خیال نہیں بلکہ اقبال کے پہلے قطعے کے آخری دو مصرعوں کا مفہوم ہے۔ آپ نے اتنا بڑا اعتراض کیا ہے تو میں آپ سے گزارش کروں گا کہ ان دونوں مصرعوں کا آسان اردو ترجمہ بتادیجئے۔
دوسرے قطعے کا پہلا مصرع بالکل صحیح لکھا گیا ہے۔ ثبوت کے طور پر شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور کی شائع کردہ کلیاتِ اقبال (فارسی) میں موجود مذکورہ قطعے کا عکس پیشِ خدمت ہے:
770crWv.jpg
 
مجھے اندازہ نہیں کہ آپ بالعموم ترجمے اور بالخصوص منظوم ترجمے کے فن اور روایت سے کس حد تک واقف ہیں۔ متن کا تقدس اپنی جگہ ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی مترجم کسی مصنف/شاعر کے تمام تر الفاظ کے متبادلات کو ایک خاص ترتیب سے لکھ دے تو اس تحریر کو ترجمہ کہہ دیا جائے گا۔
پہلے قطعے کے ترجمے میں ’مکتب‘ اور ’حجاز‘ کے الفاظ کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ شاعر کی بات کا پورا مفہوم ترجمے میں ان دو الفاظ کے استعمال کے بغیر بھی ادا ہوگیا ہے۔ ترجمے میں ان دو الفاظ کو کھپانے کے چکر میں مفہوم اگر ایک الجھی ہوئی گتھی بن جاتا تو وہ مترجم کی ناکامی ہوتی۔ جسے آپ مہمل اور نہایت پست کہہ رہے ہیں، وہ مترجم کا ذاتی خیال نہیں بلکہ اقبال کے پہلے قطعے کے آخری دو مصرعوں کا مفہوم ہے۔ آپ نے اتنا بڑا اعتراض کیا ہے تو میں آپ سے گزارش کروں گا کہ ان دونوں مصرعوں کا آسان اردو ترجمہ بتادیجئے۔

مجھ سے بطورِ ثبوت مصرع کی سند میں عکس پیش کرنے پر شکرگزاری اور باقی بحث کے لئے بےزاری قبول فرمائیے۔
 
اتفاق سے میرا بھی (فارسی اور اردو سے پنجابی) شعر سے شعر میں ترجمہ کرنے کا کچھ تجربہ ہے برائے نام ہی سہی۔ شعر کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس کے مفاہیم متن کے محض لفظی معانی نہیں ہوتے۔ الفاظ اور ان کے مجموعے، تراکیب وغیرہ کہیں استعارہ ہوتے ہیں تو کہیں علامت، کہیں تشبیہ تو کہیں تلمیح اور کہیں اس کے قریب کے معانی ہوتے ہیں کہیں بعید کے؛ اوزان، ردائف اور قوافی اس کے علاوہ ہیں جو لفظیات کے چناؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترجمہ کی غرض سے شعر کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس کے مطالبِ مقصود تک پہنچنا ہوتا ہے، پھر وہ مطالب ہم اپنی فکر یا شعور میں سموتے ہیں اور وہاں سے ترجمے کی زبان کے مطابق ان مطالب کو نیا متن دیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی عوامل کارفرما ہوتے ہیں یعنی شعری ترجمہ کے ’’ مفاہیم متن کے محض لفظی معانی نہیں ہوتے۔ الفاظ اور ان کے مجموعے، تراکیب وغیرہ کہیں استعارہ ہوتے ہیں تو کہیں علامت، کہیں تشبیہ تو کہیں تلمیح اور کہیں اس کے قریب کے معانی ہوتے ہیں کہیں بعید کے؛ اوزان، ردائف اور قوافی اس کے علاوہ ہیں جو لفظیات کے چناؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘‘۔
 
گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔


متن اصل اور ترجمہ دونوں میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہم اس سے کلی طورپر آزاد نہیں ہوتے حسبِ موقع لفظی ترجمہ کی بجائے اسی مفہوم کو ادا کرتےہوئے کسی قدر مختلف الفاظ، تراکیب، محاورے، استعارات، کنائے وغیرہ لاتےہیں۔ ترجمہ میں ایک بہت اہم تبدیلی وہاں واقع ہوتی ہے جہاں ردیف قافیہ یااوزان بدل جائیں۔ ایسے میں لفظی ترجمے کی پابندی کرتے ہوئے اگر ہم شعر کےحقیقی مطالب کو گم کر بیٹھیں تو ترجمہ اگرچہ علمی طور پر کچھ افادیت رکھتاہوں، فنی افادہ سے محروم ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ’’مترجم شاعر‘‘ کو کچھ نہ کچھ لفظی آزادی لینی پڑتی ہے تاکہ شعر کی معنوی، فکری اور محسوساتی فضا ترجمےمیں سموئی جا سکے۔​
 
Top