دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست
ازاں بگریختم از مکتبِ او
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست
”میں واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اِس واعظ کی ریت میں زمزم نہیں۔“
معنی شناس جانتے ہیں کہ یہ ترجمہ جامع ہے یا نہیں۔
اے معنی شناسو! کیا واعظ کے لفظ سے تم ملا کے لفظ کے پیچھے چھپے مکتبہ فکر تک پہنچ جاتے ہو؟ نہیں پہنچ پاتے؟ میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔
اے معنی شناسو! کیا کسی شخص سے بھاگنا - خواہ وہ واعظ ہو یا ملا - اُس کے مکتب سے بھاگنے کے مترادف ہے؟ نہیں ہے؟ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ نہیں ہے۔
اے معنی شناسو! جانتے ہو کہ واعظ کی ریت میں زمزم نہیں ہے۔ کیا؟ ہنستے ہو کہ مہمل بکتا ہوں؟
ہاں اے معانی ناآشنا، ہنستے ہیں! اس لئے کہ مترجم نے اولا ملا کو واعظ سے بدل کر غضب ڈھایا اور پھر ملا یعنی مولویوں کے مکتبہ فکر سے بھاگنے کے بجائے واعظ کی ذات سے بھاگا۔ اور اب آگے سنو۔ اس لئے بھی ہنستے ہیں کہ شاعر نے تو کہا کہ ان مولویوں کو حجاز کی خاکِ شفا سے نسبت تو ہے مگر ان کا حجاز وہ ہے کہ جہاں زمزم نہیں یعنی وہ ابراھیمی ایندھن جس سے چراغِ مصطفوی روشن ہوا اس کی کیمیا کی الف بے بھی یہ مولوی نہیں جانتے۔ اور دینِ ابراھیمی کو انہی نے مذہب بنا کر زمزم سے محرومی اپنے اوپر واجب کی۔
شکریہ معنی شناسو! تم صحیح ہنستے تھے۔ میں جان گیا کہ ترجمہ پست ہے اور اصل سے دور کا تعلق بھی اس کو حاصل نہیں۔ بجا ہے کہ ترجمہ اصل کا متبادل نہیں ہوتا مگر بجا تر ہے کہ اصل سے نقل (ترجمہ) کی قرابت ہی اس کے معیار کا تعین کرتی ہے کہ وہ پست ہے یا بلند۔
بہرحال معنی شناسو! آج بہت وقت لیا تمہارا۔ لیکن جاتے جاتے کچھ کہنا چاہو گے؟
ہاں اے معانی ناآشنا! یاد رکھنا،
؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست