قطعات

الف عین

لائبریرین
طائرَ دل

اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوشِ وحشت میں
پھر آ اسمیہ سر گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "اے گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
پڑا ہے کام کا تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے"
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے
 

الف عین

لائبریرین
منظوم خط علائی

خط منظوم بنام علائی

خوشی تو ہے آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغازَ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں
سو ناج کے جو ہے مطلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں
ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں
وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں
فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار
کہو اس کو کیا کھا کے ہم حِظ اُٹھائیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قطعۂ تاریخ

اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی

فکرِ تاریخِ سال میں ، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی

ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی

اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا
با ہزاراں ہزار زیبائی

سالِ ہجری تو ہوگیا معلوم
بے شمولِ عبارت آرائی

مگر اب ذوقِ بذلہ سنجی کو
ہے جداگانہ کار فرمائی

سات اور سات ہوتے ہیں چودہ
بہ اُمیدِ سعادت افزائی

غرض اِس سے ہیں چاردہ معصُوم
جس سے ہے چشمِ جاں کو زیبائی

اور بارہ امام ہیں بارہ
جس سے ایماں کو ہے توانائی

اُن کو غالب یہ سال اچھا ہے
جو ائِمّہ کے ہیں تولّائی​

-----------------------------------------------------
چاردہ معصُوم : چہاردہ معصُوم
 

الف عین

لائبریرین
در مدح ڈلی

ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے فس قدر اچھّا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے
مِسی آلود سر انگشتِ حسیناں لکھیے
داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے
خاتمِ دستِ سلیماں کے مشابہ لکھیے
سرِ پستانِ پریزاد سے مانا لکھیے
اخترِ سوختۂ قیس سے نسبت دیجے
کالِ مسنینِ رُخِ دل کشِ لیلیٰ لکیے
حجر الاسود ِ دیوارِ حرم کیجے فرض
نافہ آہوئے بیابانِ خُتن کا کہیے
وضع میں اس کو اگر سمجھیے قافِ تریاق
رنگ میں سبزۂ نوخیزِ مسیحا کہیے
صَومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
مے کدے میں اسے خشتِ خُمِ صہبا کہیے
کیوں اسے قُفلِ درِ گنجِ محبّت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پرکارِ تمنّا کہیے
کیوں اسے گوہرِ نایاب تصوّر کیجے
کیوں اسے مردُمکِ دیدۂ عَنقا کہیے
کیوں اسے تکمئے پیراہنِ لیلیٰ لکھیے
کیوں اسے نقشِ پئے ناقۂ سلمیٰ کہیے
بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجے فرض
اور اِس چِکنی سُپاری کو سُویدا کہیے
 
Top