مزمل شیخ بسمل
محفلین
جی صحیح سمجھے آپ۔زحاف۔۔۔ ۔ شاید یہ ایک وزن سے دوسرے میں سوئچ کرجانے کے کام کا کوئی اوزار ہے۔۔۔ شاید۔۔۔
جی صحیح سمجھے آپ۔زحاف۔۔۔ ۔ شاید یہ ایک وزن سے دوسرے میں سوئچ کرجانے کے کام کا کوئی اوزار ہے۔۔۔ شاید۔۔۔
وارث بھائی اب آپ وضاحت فرما دیں تو ممنون ہونگا۔
بحر الفصاحت صفحہ 133 سے آگے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کے حشو میں مفعولن بجائے فعلاتن لایا جائے
مثال اس کی
انشاء:
کیا فقط ان کے نچھاور کے لئے اے انشا
اپنی مٹی میں ہر ایک غنچہ زر لےتا
دوسرے میں تیسرا رکن مفعولن۔
منیر:
گل فشاں ہو گئے یوں عیسوی و ہجری سال
خلد روح افزا مضمون و چمن پیرا نظم
دوسرے مصرعے میں پھر حشو مفعولن آیا۔
جب کے مفعولن لانا جائز ٹھہرا اور اساتذہ نے اسکا استعمال بھی کیا تو ہم بکشادہ پیشانی کہہ سکتے ہیں کہ بیچارے امانت سے ہرگز خطا نہ ہوئی۔ بلکہ جن لوگوں نے اعتراض کیا ان کی نا فہمی تھی۔
اس پہ راضی ہو تو قران اٹھا لاؤں میں
رکھ تو اے مصحف رو ہاتھ قسم کھاؤں میں۔
جو صاحب امانت کے اس شعر پر اعتراض کرتے ہیں وہ حضرت سعدی علیہ الرحمۃ کے اس شعر پر بھی اعتراض کریں
زر بدہ مرد سپاہی را تا سر بدہد
وگرش زر ندہی سر بنہد درعالم
شکریہ مزمل صاحب، اس سے میرے علم میں بھی اضافہ ہوا۔ اور یہ بھی علم ہوا کہ اس طرح کے اعتراض ضرور وارد ہوتے ہیں۔
وارث بھائی میرا اعتراض اعتراض برائے اعتراض نہیں بلکہ تعمیری غرض سے تھا۔ اور میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے اس میں اب تک یہی سمجھ پایا ہوں کہ عروض ہر جگہ نہیں تقریباً 90 فیصد تو اجازت دیتا ہے کے تین مسلسل متحرک ہوں تو ان میں سے بیچ والے کو ساکن کر لیا جائے۔
آج کا آخری سوال۔۔۔
اگر یہ اجتماع درست ہے، تو سب سے پہلا جو مصرع مجھے بسمل صاحب نے عطا کیا، میں اسے صحیح طرح پڑھ کیوں نہیں پا رہا؟ اس کی درست طرز کیا ہے۔۔۔ میری مراد ۔۔۔ احمقوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے ہیں۔۔۔ سے ہے۔۔
بہت شکریہ وارث بھائی آپ کا اتنا وقت لیا۔ آج آپ خاصے فارغ اور سکون میں لگ رہے ہیں۔ ورنہ تو آپ کو دیکھنے کو ترس جاتے ہیں یہاں۔درست ہے مزمل صاحب، تسکین اوسط والی بات درست ہے اور قریب قریب ہر جگہ ہی ممکن ہے لیکن جیسے اس بحر کیلیے یہ بات میری آنکھوں سے اوجھل تھی، اسی لیے کہا کہ علم میں اضافہ ہوا۔
بہت شکریہ وارث بھائی آپ کا اتنا وقت لیا۔ آج آپ خاصے فارغ اور سکون میں لگ رہے ہیں۔ ورنہ تو آپ کو دیکھنے کو ترس جاتے ہیں یہاں۔
یہ سرخ ”نہ“ سبب خفیف یعنی دو حرفی باندھا ہے۔ اس کے علاوہ مصرعہ وزن میں ہے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں۔ اس کو ”نا“ بھی تو کردیا جاسکتا تھا۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ میری یہ بحر کمزور ہے۔۔ اس میں جو بھی غزل لکھتا ہوں کچھ نہ کچھ غلطیاں ضرور ہوتی ہیں۔۔۔ ۔ مثال کے طور پر۔۔۔ جب کھلا تھا مرا کردار مری موت کے بعد۔۔۔ یاد کرتے تھے مجھے یار مری موت کے بعد۔۔۔ نہ وہ ہنسنا نہ وہ رونا نہ وہ دل ہے نہ جنوں۔۔۔ نہ وہ باتیں نہ وہ افکار مری موت کے بعد
زندگی دھول سا چہرہ لیے دم توڑ گئی۔۔۔ موت روئی مجھے سو بار مری موت کے بعد۔۔۔ ۔
اس میں جو مصرع ہے نہ وہ ہنسنا نہ وہ رونا نہ وہ دل ہے نہ جنوں۔۔۔ میں نے لکھا تھا:
نہ وہ ہنسنا نہ وہ رونا نہ وہ دل نہ وہ جنوں۔۔۔
اس پر کہا گیا کہ یہ وزن سے گر گیا ہے۔۔۔ میں پڑھتا ہوں تو مجھے نہیں لگتا۔۔۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟؟
درست کہا مزمل صاحب، آج سارا دن دفتر میں بہت مصروف گزرا اور اب تھکن اتار رہا ہوں
یہ مقولہ میری نظر سے گزرا ہے "بے وقوف کے سر پر کیا سینگ ہوتے ہیں"کافی بحث ہو چکی تب میں وارد ہوا ہوں، اور عروض کے معاملے میں جاہل مطلق ہوں، یہ بھی سبھی جانتے ہیں۔
لیکن ایک بات پر غور نہیں کیا گیا۔ محاورہ بیوقوفوں کے سروں پہ سینگ کا نہیں، گدھوں کے سر پہ سینگ کا ہوتا ہے۔ گدھے تو بآسانی یہاں ’باندھے‘ جا سکتے ہیں۔