محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 56

جواب۔ "ہاں، یکم اور 15 جولائی 1921ء کو۔"

سوال۔ "کیا یہی سینکشن تمھیں ملا تھا؟"

جواب۔ "ہاں"

سوال۔ "کیا اسی کے ذریعہ سے تمھیں مولانا ابوالکلام آزاد کو گرفتار کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا؟"

جواب۔ "ہاں"

سوال۔ "کیا اس پر گورنمنٹ آف بنگال کے چیف سیکرٹری کا دستخط ثبت ہے؟"

جواب۔ "ہاں، میں ان کے دستخط کو پہچانتا ہوں۔"

سوال۔ "سینکشن کس تاریخ کو دیا گیا تھا؟"

جواب۔ "22 دسمبر 1921ء کو۔"

سوال۔ "کیا سینکشن ملنے کے بعد تم نے چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی خدمت میں کوئی درخواست پیش کی تھی؟"

جواب۔ "ہاں"

سوال۔ "تو پھر کیا تمھیں کوئی وارنٹ ملا؟"

جواب۔ "ہاں، میں نے پریذیڈنسی جیل میں سرو کیا۔"

سوال۔ "عام طور پر جب تمھیں کسی جلسہ کی اطلاع ملتی ہے تو کیا تم کوئی رپورٹر وہاں بھیجتے ہو؟"

جواب۔ "ہاں"

سوال۔ "کیا یہی وہ رپورٹ اور اسکی نقل ہے جو تمھیں دکھائی گئی تھی؟"

جواب۔ "ہاں"


ابواللّیث محمد:

اسکے بعد سرکاری شارٹ ہینڈ رپورٹر ابواللّیث محمد پیش ہوا، اس نے بیان میں کہا، "میں گورنمنٹ آف بنگال کا شارٹ ہینڈ رپورٹر ہوں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 57


یہاں مجسٹریٹ نے مولانا کو مخاطب کر کے کہا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لیے گواہی کا ترجمہ کرایا جائے؟"

جواب میں مولانا نے فرمایا۔ "مجھے کسی ترجمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر عدالت کو ضرورت ہو تو وہ خود ایسا کر سکتی ہے۔"

مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ انگریزی سمجھتے ہیں۔"

مولانا۔ "نہیں"

مجسٹریٹ۔ "مترجم، بہتر ہے کہ تم ترجمہ کرتے جاؤ۔"

گواہ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا:

"میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں، تقریباً 18 مہینے تک لکھنؤ کرسچین کالج میں رہ چکا ہوں، وہاں میں نے اردو مختصر نویسی میں ایک آنر سرٹیفیکیٹ اور سند حاصل کی۔"

"160 حروف فی منٹ میری رفتار ہے، میں اردو سمجھتا ہوں، اردو مختصر نویسی میں نے لکھنؤ میں سیکھی ہے۔"

"یکم جولائی مجھے یاد ہے، اس روز میں مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں مقرر ہوا تھا، اردو میں وہاں جو تقریریں ہوئیں ان کے میں نے نوٹ لیے تھے، ملزم نے وہاں اردو میں تقریر کی تھی اور وہی اس جلسہ کے صدر تھے۔"

"حتی الامکان میں نے بہتر نوٹ لیے اور حسبِ معمول مسٹر گولڈی کمشنر کے پاس بھیج دیا، مسٹر گولڈی نے اس پر 25 تاریخ کو دستخط کیا، اسکے بعد میں نے اسی تقریر کی نقل اردو لانگ ہینڈ میں لی اور مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کیا۔"

"اس پر مسٹر گولڈی کا 14 دسمبر 1921ء کا دستخط موجود ہے۔"


بابو باما چرن چٹر جی:

اسکے بعد مسٹر باما چرن چٹر جی سرکاری مترجم پیش ہوا، اس نے بیان کیا "وہ اردو
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 58


اور ہندی کا مترجم ہے اور الہ آباد یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔"

سرکاری وکیل۔ "پہلی جولائی کی اردو تقریر ذرا دیکھو؟"

گواہ۔ "میں نے ہی اسکا ترجمہ کیا تھا، اس پر میرا دستخط موجود ہے، میں نے حتی الامکان اسکا بہتر ترجمہ کیا ہے۔"

سرکاری وکیل۔ "دوسری تقریر کو بھی دیکھو جو 15 جولائی کی ہے۔"

گواہ۔ "میں نے اسکا بھی صحیح ترجمہ کیا ہے۔"


انسپکٹر محمد اسماعیل:

اسکے بعد محمد اسماعیل انسپکٹر اسپیشل برانچ بلوایا گیا۔ اس نے بیان کیا: "میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، وہاں میں نے ملزم کو دیکھا، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے لانگ ہینڈ میں پہلی جولائی کی تقریر کا نوٹ لیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے اور اسی حیثیت سے تقریر کی تھی۔"

سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟"

گواہ۔ "مبلغینِ خلافت حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے متعلق۔"

"جلسہ میں تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ جلسہ میں موجود تھے لیکن پچاس فیصدی مسلمان تھے، میں نے صحیح نوٹ لیے تھے۔ انسپکٹر کے-ایس گھوسال اور دوسرے افسر میرے ہمراہ تھے اور یہ (مولانا ابوالکلام آزاد) صدر جلسہ کی اردو تقریر کا نوٹ ہے۔ اس کے بعد بابو پچکوری بنر جی نے تقریر کی تھی۔"

"بابو پچکوری بنر جی کی تقریر صدر جلسہ کی تقریر کے ساتھ شامل ہے۔"

"15 جولائی کو بھی میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، میں وہاں گیا تھا، میں نے وہاں کی تقریر کے نوٹ لیے۔ انسپکٹر مکر جی اور مسٹر کر بھی میرے ہمراہ تھے۔ مولوی نجم الدین اور
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 59


ملزم نے اس جلسہ میں تقریر کی تھی، میں نے ان تقریروں کا نوٹ لانگ ہینڈ میں لیا۔ میں نے تقریر کے صرف انہی حصوں کا صحیح نوٹ لیا جنہیں میں نے ضروری سمجھا تھا۔ میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ اور بی-ایس-سی ہوں۔ میں اردو سمجھتا ہوں۔ تقریباً 10 اور 12 ہزار کے درمیان جلسہ میں لوگوں کا مجمع تھا۔"

یہاں سرکاری وکیل نے گواہ سے کہا۔ "نوٹ دیکھ کر ذرا اپنے حافظہ کو درست کرو۔"

گواہ نے نوٹ دیکھ کر بتایا۔ "10 ہزار کا مجمع تھا اور ہم نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا۔"


پولیس انسپکٹر کے-ایس گھوسال:

اسکے بعد کے-ایس گھوسال، انسپکٹر اسپیشل برانچ کی شہادت لی گئی، اس نے بیان کیا:

"میں کلکتہ یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہوں، یکم جولائی 1921ء کو مرزا پور پارک اسکوائر کے جلسہ میں میں گیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے۔ میں نے تقریروں کے نوٹ شارٹ ہینڈ میں لیے تھے۔ میں تقریر کے صرف انہی حصوں کا نوٹ لیا کرتا ہوں جنہیں میں ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے ان کے صحیح نوٹ لیے تھے، (نوٹ پیش کرتے ہوئے) یہ پہلی جولائی کی متفقہ رپورٹ ہے۔ اس میں صدر (ملزم) کی تقریر بھی شامل ہے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے تھے، جن پر انہوں نے اپنا دستخط کر دیا تھا۔"

سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟"

جواب۔ "سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے۔ تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ اس میں شریک تھے، لیکن نصف کے قریب ہندوستانی مسلمان تھے، بقیہ نصف ہندوستانی ہندو اور بنگالی تھے۔"


انسپکٹر بی-بی مکر جی:

اسکے بعد بی-بی مکر جی انسپکٹر سی-آئی-ڈی پیش ہوا، اس نے بیان کیا:
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 60


"مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں نوٹ لینے کے لیے مقرر ہوا تھا، میں نے نوٹ لیے اور پندرہ جولائی 1921ء کو ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں پیش کر دیئے۔"

"ملزم اس جلسہ کے صدر تھے، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے اسکے صحیح نوٹ لیے تھے۔ یہ نوٹ اسی روز شام کو مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دیئے گئے تھے۔ اس پر ان کا دستخط موجود ہے۔ محمد اسماعیل اور میں، دونوں نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا، ملزم نے اردو میں تقریر کی تھی، میں کچھ کچھ اس زبان کو سمجھتا ہوں۔"

یہ جلسہ تین مبلغینِ خلافت، حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور لوگوں کو جیل جانے کی ترغیب دینے اور شوق دلانے کی غرض سے ہوا تھا۔"

"تقریباً دس ہزار کا مجمع تھا، مسلمان، ہندو اور ہوڑا اور للوا کے ملوں کے بہت سے مزدور اس میں شریک تھے، تقریباً 50 والنٹیر بیج لگائے ہوئے تھے، جس پر یہ لکھا تھا۔"

"جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔"


مسٹر گولڈی (دوبارہ):

مسٹر گولڈی پھر بلوائے گئے، انہوں نے رپورٹ اور نوٹ پر، جو وہاں پیش کئے گئے تھے، اپنے دستخط ہونے کی تصدیق کی۔

اسکے بعد سرکاری وکیل نے پہلی جولائی کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا اور کہا۔ "15 جولائی کو بھی اس قسم کی تقریر ہوئی تھی۔"

پھر اس نے چارج مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا۔ اسکے بعد لنچ کے لیے کاروائی ملتوی کی گئی۔


لنچ کے بعد کی کاروائی:

3 بج کر 20 منٹ پر مجسٹریٹ عدالت میں داخل ہوا، مولانا کو بلوایا گیا۔ جس وقت
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 61

مولانا صحن سے ہو کر عدالت کے کمرے میں جا رہے تھے تو باہر کے عظیم الشان مجمع نے جو سڑک پر کھڑا تھا، مولانا کی ایک ذرا سی جھلک دیکھ پائی اور اللہ اکبر کی گونج سے در و دیوار ہلنے لگے۔

جب مولانا کمرے میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین سرو قد اٹھ کھڑے ہوئے اور بلا قصد انکی زبان سے بھی اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اگرچہ خود مولانا ہاتھ کے اشارے سے روکتے رہے۔ مجسٹریٹ نے گھبرا کر فوراً سارجنٹ کو کمرہ خالی کرا دینے کا حکم دیا، جس پر فوراً عمل کیا گیا، صرف چند آدمی جو کرسیوں پر بیتھے ہوئے تھے اندر رہ گئے۔

شارٹ ہینڈ اردو رپورٹر نے ان دونوں تقریروں کو جن کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے، پڑھ کر سنایا۔

اسکے بعد 124-الف کے ماتحت فرد قرارداد جرم لگا دی گئی۔

مجسٹریٹ (مولانا سے)۔ "کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟"

مولانا۔ "نہیں"

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کوئی گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں؟"

مولانا۔ "نہیں، اگر میں نے ضرورت دیکھی تو آخر میں اپنا تحریری بیان پیش کر دوں گا۔"

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو کاغذ کی ضرورت ہے؟"

مولانا۔ "نہیں"

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟"

مولانا۔ "میں اپنی تقریروں کی نقل چاہتا ہوں۔" (جو انہیں دے دی گئی)۔

یہاں سرکاری وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ عرضی دعویٰ کی ایک نقل ملزم کو دے دی جائے۔

اس کے بعد مقدمہ 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا، مقدمہ کے تمام دوران میں
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 62


عدالت کے احاطہ اور سڑک پر عظیم الشان مظاہرہ جاری تھا۔ قومی نعروں کی آوازیں برابر بلند ہو رہی تھیں۔ جونہی مولانا جیل کی گاڑی میں سوار ہونے لگے، ابوالکلام کی جے، بندے ماترم، مہاتما گاندھی کی جے، ہندو مسلمان کی جے اور اللہ اکبر کے پر شکوہ نعروں سے تمام فضا گونج اٹھی۔ لوگوں کی اس قدر کثرت تھی کہ کچھ عرصہ تک گاڑیوں کی آمد و رفت بھی رک گئی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 63

نقل استغاثہ

بعدالت چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کلکتہ
"برائے گرفتاری زیر دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند"
جے۔ اے۔ ایم گولڈی، ڈپٹی کمشنر آف پولیس
اسپیشل برانچ، کلکتہ، مدعی
مولانا ابوالکلام آزاد، مدعا علیہ

مذکورہ بالا مدعی کا بیان حسبِ ذیل ہے۔

1- یکم جولائی 1921ء کو مدعا علیہ نے مرزا پور پارک میں نان کواپریشن اور بائیکاٹ کے مضمون پر اردو میں ایک تقریر کی تھی۔

ایک اردو مختصر نویس نے انکی پوری تقریر کے نوٹ اردو میں لیے، مذکورہ بالا نوٹ کے نقل کی ایک اردو کاپی جس پر انگریزی حرف "اے" کا نشان بنا ہے، منسلک درخواستِ ہذا ہے۔ مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ نوٹ کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے، جسے گورنمنٹ آف بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا ہے، اس پر انگریزی حرف "بی" کا نشان ہے۔

2- پھر 15 جولائی 1921ء کو ملزم مذکور نے اردو میں ایک دوسری تقریر اسی جگہ اور اسی مضمون پر کی اور ایک اردو رپورٹر نے انکی پوری تقریر کا اردو شارٹ ہینڈ میں نوٹ لیا، اس
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 64


نوٹ کی ایک نقل جس پر انگریزی حرف "سی" کا نشان منسلک ہے اور دوسرا کاغذ جس پر حرف "ڈی" کا نشان ہے مذکورہ بالا شارٹ ہینڈ کا انگریزی ترجمہ ہے، جسے گورنمنٹ بنگال کے ایک بنگالی مترجم نے کیا۔

3- دونوں موقعوں پر اسپیشل برانچ کے تین اور افسروں نے بھی لانگ ہینڈ میں نوٹ لیے تھے اور وہ اس شارٹ ہینڈ رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں۔

4- تقریروں کے دیکھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ مقرر نے اپنی ان تقریروں سے گورنمنٹ قائم شدہ بروئے قانون کے خلاف لوگوں میں حقارت و نفرت پھیلانے کی کوشش کی اور اسطرح ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا جسکی وجہ سے 124-الف تعزیزاتِ ہند کے ماتحت سزا کا مستوجب قرار پا سکتا ہے۔

5- گورنرانِ کونسل نے مدعی کو یہ حکم و اختیار دیا ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کو مذکورہ بالا جرم کی بنا پر زیرِ دفعہ 124-الف تعزیزاتِ ہند گرفتار کرے اور انکے خلاف چارہ جوئی کرے۔ سینکشن کی اصل کاپی منسلک ہے اور اس پر حرف "ای" کا نشان ہے۔

لہذا مدعی یہ درخواست کرتا ہے کہ ملزم کے خلاف حکم نامہ جاری کیا جائے کہ وہ مذکورہ بالا الزامات کی جوابدہی کرے اور اسکے حاضر ہونے پر مقدمہ چلایا جائے نیز قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 65

چوتھی پیشی:


11 جنوری کو مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی عدالت میں چوتھی پیشی ہوئی۔ حسبِ ممعمول کمرہ اور احاطۂ عدالت لوگوں سے پر تھا، لیکن قبل اسکے کہ کاروائی شروع ہو، سارجنٹ نے کمرہ لوگوں سے خالی کرا لیا، حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی نہ رہنے دیا جو کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسکے بعد مولانا لائے گئے، جونہی انہوں نے کٹہرے میں قدم رکھا، تمام وکلاء جو وہاں موجود تھے ، تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

مجسٹریٹ نے مولانا سے دریافت کیا:

"کیا آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں؟"

مولانا۔ "ہاں، اگر عدالت کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں ایک تحریری بیان پیش کرونگا"

مجسٹریٹ۔ "کیا وہ آپکے ساتھ ہے؟"

مولانا۔ "ہاں یہ اردو میں ہے لیکن میں چاہتا ہوں اسکا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کروں۔"

مجسٹریٹ۔ :تو کیا آپ خود اسکا ترجمہ کرا لیں گے؟"

مولانا۔ "ہاں اگر عدالت کو اس میں کوئی اعتراض نہ ہو۔"

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟"

مولانا۔ "اگر کوئی حرج نہ ہو تو میں اپنی اس تقریر کا جسے مغویانہ (باغیانہ؟) بتایا گیا ہے، انگریزی ترجمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔"

مجسٹریٹ۔ "کیا بیان کے لیے اسکی ضرورت ہے؟"

مولانا۔ "میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔"

مجسٹریٹ نے عدالت سے دریافت کیا کہ انگریزی ترجمہ ملزم کو پہلے ہی کیوں نہ دیا
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 66


گیا؟ اب انہیں فوراً دے دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے ایک پولیس افسر سے کہا، اس نے بیان کیا کہ اس وقت وہ وہاں موجود نہیں ہے، جیل میں بھیج دیا جائے گا۔

اسکے بعد مقدمہ 17 جنوری 1922ء تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

سابق کی طرح آج بھی ایک بہت بڑا مجمع سڑک پر موجود تھا اور برابر قومی نعرے لگا رہا تھا۔


پانچویں پیشی:

17 جنوری کو مولانا کے مقدمہ کی سماعت پریذیڈنسی سول جیل میں ہوئی۔ حسبِ معمول ہزاروں آدمی وقتِ مقرر پر پریذیڈنسی کورٹ پہنچ گئے تھے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ مقدمہ کورٹ کی بجائے جیل میں ہوگا تو اپنے اپنے گھروں کو مایوس واپس گئے۔ پھر بھی ایک معقول تعداد ہندو مسلمانوں کی فوراً ٹیکسیوں میں سوار ہو کر جیل پہنچ گئی مگر وہاں انہیں احاطۂ جیل کے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ مولانا کے اعزاء اور اخبارات کے نمائندوں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ عدالت کے اندر مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ اور چند سی آئی ڈی پولیس آفیسر موجود تھے۔ بارہ بجے مسٹر سونیہو چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ بمعیت رائے بہادر تارک ناتھ سادھو سرکاری وکیل آئے۔

اخبارات کے نمائندوں نے اندر جانے کی پھر کوشش کی لیکن عدالت کے پیش کار نے کہا کہ حکام جیل سے اسکی درخواست کرنی چاہیے، وہی اسکی اجازت دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اسکی تعمیل کے لیے جیلر سے کہا گیا، اس نے کہا وہ کمرہ اب عدالت کو دے دیا گیا ہے، انکا اس میں کوئی اختیار باقی نہیں، چنانچہ مجسٹریٹ کو اسکی اطلاع دی گئی لیکن جواب ملا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کے پاس درخواست دی جائے۔

سپرنٹنڈنٹ اس وقت موجود نہ تھا اس لیے ملاقات نہ ہو سکی لیکن بعد کو سپرنٹنڈنٹ نے مولانا سے کہا کہ نہ تو اسکی طرف سے کوئی روک تھی اور نہ وہ روکنے کا مجاز تھا۔ اسکا اختیار تو صرف مجسٹریٹ کو تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 67


ٹھیک پونے بارہ بجے جیلر کے ہمراہ مولانا آئے، مولانا نے کمرہ عدالت کے اندر قدم رکھتے ہی دریافت کیا: "یہ کاروائی پبلک ہے یا پرائیویٹ؟"۔

مجسٹریٹ۔ "پرائیویٹ، آپ تشریف رکھیں۔"

مولانا۔ "کیا آپ نے یہ مجھ سے کہا ہے؟ غالباً آپ کو یاد نہیں رہا کہ پہلے بھی میں دو مرتبہ آپ کے سامنے پیش ہو چکا ہوں۔"

مجسٹریٹ۔ "مجھے یاد ہے۔"

مولانا۔ "گذشتہ موقعوں پر جب میں دو تین گھنٹے تک مسلسل کھڑا رہ سکا تو آج بھی کھڑا رہنے میں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔"

مجسٹریٹ۔ "افسوس ہے کہ مجھے ان موقعوں پر یاد نہ رہا۔"

مولانا۔ "(آپ کے اس اعتراف کا) شکریہ۔"

مجسٹریٹ۔ "کیا آپ اپنا بیان لائے ہیں۔"

مولانا نے اپنا اردو بیان پیش کر دیا اور کہا کہ ان کے سیکرٹری کی عدم موجودگی کی وجہ سے انگریزی ترجمہ مکمل نہ ہو سکا۔

مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ اسکے ترجمے کے لیے اور مہلت چاہتے ہیں؟"

مولانا۔ "نہیں، میں نہیں چاہتا کہ محض ترجمہ کے لیے مقدمہ میں تاخیر ہو۔"

مجسٹریٹ۔ "لیکن اگر اسکا انگریزی ترجمہ ہو جاتا تو عدالت کے لیے اس میں بڑی آسانی ہوتی۔"

اسکے بعد مقدمہ 19 تاریخ کے لیے ملتوی کر دیا گیا لیکن بعد کو خود بخود 19 کی بجائے 24 تاریخ کر دی گئی۔


چھٹی پیشی:

24 جنوری کو مولانا کا مقدمہ سول جیل میں چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا، آج خلافِ معمول پبلک کی ایک معقول تعداد کو اندر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 68


ایک بجے کے قریب مولانا تشریف لائے اور صرف یہ کاروائی ہوئی کہ مولانا کا بیان عدالت نے لے لیا اور 31 جنوری آئندہ پیشی کے لیے قرار پائی۔


ساتویں پیشی:

مولانا کی طبیعت کئی دن سے علیل تھی۔ جگر کا فعل ناقص ہو جانے کی وجہ سے اسہال کی شکایت لاحق ہو گئی تھی۔ 31 کو ایک مرتبہ استفراغ بھی ہوا، جیل کے ڈاکٹر نے کہا، ایسی حالت میں انکا عدالت جانا نہایت مضر ہوگا۔ سپرنٹنڈنٹ تیار ہے کہ عدالت کو اطلاع دے کر پیشی ملتوی کرا دی جائے لیکن مولانا نے پسند نہ کیا کہ انکی وجہ سے کاروائی میں کسی طرح کا التواء یا تاخیر ہو۔ انہوں نے کہا:

"جب کاروائی جیل ہی کے احاطہ میں ہوتی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے چند قدم چلا جانا کچھ دشوار نہ ہوگا، جیل سے کوئی اطلاع عدالت کو نہ دی جائے۔"

لیکن تھوڑی دیر کے بعد سپرنٹنڈنٹ جیل، مسٹر سونیہو پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی چٹھی لیکر آئے جو 30 کی لکھی ہوئی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ مولانا کا مقدمہ 9 فروری پر ملتوی کر دیا گیا۔

5 جنوری کی کاروائی کے مقابلہ میں یہ کاروائی غنیمت تھی، کم از کم اطلاع تو دے دی گئی مگر سوال یہ کہ کیا اسطرح کی چٹھی مجسٹریٹ کی موجودگی اور ملزم کی حاضری کے قائم مقام ہو سکتی ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو یہ گویا قانونی مسئلہ عدالت میں ایک نئے قاعدہ کا اضافہ ہوگا۔ ہم اسے "ترمیم" بھی کہہ سکتے تھے مگر جہاں تک معلوم ہے، 1908ء میں صرف ضابطہ فوجداری ہی کی "ترمیم" ہوئی تھی، ضابطہ عدالت کی نہیں ہوئی تھی!

اب ہم پہلے مولانا کا بیان درج کرتے ہیں، اسکے بعد آخری پیشی کی روداد اور عدالت کا فیصلہ نقل کریں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 69


مولانا ابوالکلام آزاد کا تحریری بیان

بہ بدمستی سزد گر مہتم سازد مرا ساقی
ہنوز از بادۂ پارینہ ام پیمانہ بردارد

الحمدللہ وحدہ


عارضی وقفہ:

میرا ارادہ نہ تھا کہ کوئی تحریری یا تقریری بیان یہاں پیش کروں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہمارے لیے نہ تو کسی طرح کی امید ہے، نہ طلب ہے، نہ شکایت ہے۔ یہ ایک موڑ ہے جس سے گزرے بغیر ہم منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے تھوڑی دیر کے لیے اپنی مرضی کے خلاف یہاں دم لینا پڑتا ہے، یہ نہ ہوتی تو ہم سیدھے جیل چلے جاتے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو سال کے اندر میں نے ہمیشہ اسکی مخالفت کی کہ کوئی نان کواپریٹر کسی طرح کا بھی حصہ عدالت کی کاروائی میں لے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی، سنٹرل خلافت کمیٹی اور جمعیۃ العلماء ہند نے اگرچہ اس کی اجازت دے دی ہے کہ پبلک کی واقفیت کے لیے تحریری بیان دیا جا سکتا ہے، لیکن ذاتی طور پر میں لوگوں کو یہی مشورہ دیتا رہا کہ خاموشی کو ترجیح ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس لیے بیان دیتا ہے کہ مجرم نہیں، اگرچہ اسکا مقصد پبلک کی واقفیت ہو، تاہم وہ اشتباہ سے محفوظ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے بچاؤ کی ایک ہلکی سی خواہش اور سماعتِ حق کی ایک کمزور سی توقع اسکے اندر کام کر
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 70


رہی ہو، حالانکہ نان کوآپریشن کی راہ بالکل قطعی اور یک سو ہے۔ وہ اس بارے میں اشتباہ بھی گوارہ نہیں کر سکتی۔


کامل مایوسی، اس لیے کامل تبدیلی کا عزم:

"نان کوآپریشن" موجودہ حالت سے کامل مایوسی کا نتیجہ ہے اور اسی مایوسی سے کامل تبدیلی کا عزم پیدا ہوا ہے۔ ایک شخص جب گورنمنٹ سے نان کوآپریشن کرتا ہے تو گویا اعلان کرتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کے انصاف اور حق پسندی سے مایوس ہو چکا ہے۔ وہ اسکی غیر منصف طاقت کے جواز سے منکر ہے اور اس لیے تبدیلی کا خواہشمند ہے، پس جس چیز سے وہ اس درجہ مایوس ہو چکا کہ تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا، اس سے کیونکر امید کر سکتا ہے کہ ایک منصف اور قابلِ بقا طاقت کی طرح اسکے ساتھ انصاف کرے گی؟

اس اصولی حقیقت سے اگر قطع نظر کر لیا جائے جب بھی موجودہ حالت میں بریت کی امید رکھنا ایک بے سود زحمت سے زیادہ نہیں ہے یہ گویا اپنی معلومات سے انکار ہوگا۔ گورنمنٹ کے سوا کوئی ذی حواس اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ بحالتِ موجودہ سرکاری عدالتوں سے انصاف کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایسے اشخاص سے مرکب ہیں جو انصاف کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ ایسے نظام (سسٹم) پر مبنی ہیں جن میں رہ کر کوئی مجسٹریٹ ان ملزموں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا جن کے ساتھ خود گورنمنٹ انصاف کرنا پسند نہ کرتی ہو۔

میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ "نان کوآپریشن" کا خطاب صرف گورنمنٹ، گورنمنٹ کے سسٹم اور موجودہ حکومتی اور قومی اصولوں سے ہے، افراد اور اشخاص سے نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 71


عدالت گاہ ناانصافی کا قدیم ترین ذریعہ ہے:

ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی، دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔

تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لیکر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک، کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔ بلاشبہ زمانے کے کے انقلاب سے عہدِ قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ متوسط (مڈل ایجز) کی پراسرار "انکویزیشن" وجود نہیں رکھتیں، لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور ناانصاف کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں؟


ایک عجیب مگر عظیم الشان جگہ:

عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 72


آتا ہے، جس کو صرف اس لیے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے، جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لیے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک انکا اظہار جرم تھا۔ میں نے حضرت مسیح کو انسان کہا، کیونکہ میرے اعتقاد میں وہ ایک مقدس انسان تھے جو نیکی اور محبت کا آسمانی پیام لیکر آئے تھے، لیکن کروڑوں انسانوں کے اعتقاد میں تو وہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں؟ تاہم یہ مجرموں کا کٹہرا کیسی عجیب مگر عظیم الشان جگہ ہے جہاں سب سے اچھے اور سب سے بُرے، دونوں طرح کے آدمی کھڑے کئے جاتے ہیں؟ اتنی بڑی ہستی کے لیے بھی یہ ناموزوں جگہ نہیں!


حمد و شکر:

اس جگہ کی عظیم الشان اور عمیق تاریخ پر جب میں غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اسی جگہ کھڑے ہونے کی عزت آج میرے حصہ میں آئی ہے، تو بے اختیار میری روح خدا کے حمد و شکر میں ڈوب جاتی ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے کہ میرے دل کے سرور و نشاط کا کیا عالم ہوتا ہے؟ میں مجرموں کے اس کٹہرے میں محسوس کرتا ہوں کہ بادشاہوں کے لیے قابلِ رشک ہوں۔ ان کو اپنی خواب گاہِ عیش میں وہ خوشی اور راحت کہاں نصیب جس سے میرے دل کا ایک ایک ریشہ معمور ہو رہا ہے؟ کاش غافل اور نفس پرست انسان اسکی ایک جھلک ہی دیکھ پائے! اگر ایسا ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ لوگ اس جگہ کے لیے دعائیں مانگتے!


میں بیان کیوں دیتا ہوں؟

بہرحال میرا ارادہ نہ تھا کہ بیان دوں، لیکن 6 جنوری کو جب میرا مقدمہ پیش ہوا تو میں نے دیکھا کہ گورنمنٹ مجھے سزا دلانے کے معاملہ میں نہایت عاجز اور پریشان
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 73


ہو رہی ہے حالانکہ میں ایسا شخص ہوں جس کو اسکی خواہش اور خیال کے مطابق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سزا ملنی چاہئے۔

پہلے میرے خلاف دفعہ 17-2 ترمیم ضابطہ فوجداری کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن جب اسکا ثبوت بھی بہم نہ ہو سکا، جیسا آج کل اثباتِ جرم کے لیے کافی تصور کیا جاتا ہے، تو مجبوراً واپس لے لی گئی۔ اب 124-الف کا مقدمہ چلایا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ بھی مقصد براری کے لیے کافی نہیں، کیونکہ جو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں وہ ان بہت سی باتوں سے بالکل خالی ہیں جو اپنی بے شمار تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں اور جو شاید گورنمنٹ کے لیے زیادہ کارآمد ہوتیں۔

یہ دیکھ کر میری رائے بدل گئی، میں نے محسوس کیا کہ جو سبب بیان نہ دینے کا تھا وہی اب متقاضی ہے کہ خاموش نہ رہوں اور جس بات کو گورنمنٹ باوجود جاننے کے دکھلا نہیں سکتی اسے خود کامل اقرار کے ساتھ اپنے قلم سے لکھ دوں۔ میں جانتا ہوں کہ قانونِ عدالت کی رو سے یہ میرے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ میری جانب سے پراسیکوشن کے لیے یہی بہت بڑی مدد ہے کہ میں نے ڈیفنس نہیں کیا لیکن حقیقت کا قانون عدالتی قواعد کی حیلہ جوئیوں کا پابند نہیں ہے۔ یقیناً یہ سچائی کے خلاف ہوگا کہ ایک بات صرف اس لیے پوشیدہ رہنے دی جائے کہ مخالف اپنی عاجزی کی وجہ سے ثابت نہ کر سکا۔


اقرارِ "جرم"

1) ہندوستان کی موجودہ بیوروکریسی ایک ویسا ہی حاکمانہ اقتدار ہے جیسا اقتدار ملک و قوم کی کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور انسان حاصل کرتے رہے ہیں۔ قدرتی طور پر یہ اقتدار قومی بیداری کے نشو و نما اور آزادی و انصاف کی جد و جہد کو مبغوض رکھتا ہے، کیونکہ اسکا لازمی نتیجہ اسکی غیر منصفانہ طاقت کا زوال ہے اور کوئی وجود اپنا زوال پسند نہیں کر سکتا اگرچہ از روئے انصاف کتنا ہی ضروری ہو۔ یہ گویا تنازع للبقا (Struggle for Existance) کی
 

محمد وارث

لائبریرین
صفحہ 74


ایک جنگ ہوتی ہے جس میں دونوں فریق اپنے اپنے فوائد کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ قومی بیداری چاہتی ہے کہ اپنا حق حاصل کرے، قابض طاقت چاہتی ہے کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے فریق کی طرح آخر الذکر بھی قابلِ ملامت نہیں کیونکہ وہ بھی اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اسکا وجود انصاف کے خلاف واقع ہوا ہو۔ ہم طبعیت کے مقتضیات سے تو انکار نہیں کر سکتے؟ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں نیکی کی طرح برائی بھی زندہ رہنا چاہتی ہے، وہ خود کتنی ہی قابلِ ملامت ہو لیکن زندگی کی خواہش کو قابلِ ملامت نہیں۔

ہندوستان میں بھی یہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے، اس لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اگر بیوروکریسی کے نزدیک آزادی اور حق طلبی کی جدوجہد جرم ہو اور وہ ان لوگوں کو سخت سزاؤں کا مستحق خیال کرے جو انصاف کے نام سے اسکی غیر منصفانہ ہستی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نہ صرف اسکا مجرم ہوں بلکہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اس جرم کی اپنی قوم کے دلوں میں تخم ریزی کی ہے اور اس کی آبیاری کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہے۔ میں مسلمانانِ ہند میں پہلا شخص ہوں جس نے 1912ء میں اپنی قوم کو اس جرم کی عام دعوت دی اور تین سال کے اندر اس غلامانہ روش سے انکا رخ پھیر دیا جس میں گورنمنٹ کے پر پیچ فریب نے مبتلا کر رکھا تھا۔ پس اگر گورنمنٹ مجھے اپنے خیال میں مجرم سمجھتی ہے اور اس لیے سزا دلانا چاہتی ہے تو میں پوری صاف دلی کے ساتھ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں ہے جس کے لیے مجھے شکایت ہو۔

میں جانتا ہوں کہ گورنمنٹ فرشتہ کی طرح معصوم ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے کیونکہ اس نے خطاؤں کے اقرار سے ہمیشہ انکار کیا، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے مسیح ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ پھر میں کیوں امید کروں کہ وہ اپنے مخالفوں کو پیار کرے گی؟
 
Top