بسم اللہ الرحمن الرحیم
پروف ریڈنگ، بار اول
[font="]صفحہ 56[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں، یکم اور 15 جولائی 1921ء کو۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "کیا یہی سینکشن تمھیں ملا تھا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "کیا اسی کے ذریعہ سے تمھیں مولانا ابوالکلام آزاد کو گرفتار کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "کیا اس پر گورنمنٹ آف بنگال کے چیف سیکرٹری کا دستخط ثبت ہے؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں، میں ان کے دستخط کو پہچانتا ہوں۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "سینکشن کس تاریخ کو دیا گیا تھا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "22 دسمبر 1921ء کو۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "کیا سینکشن ملنے کے بعد تم نے چیف پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی خدمت میں کوئی درخواست پیش کی تھی؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں[/font][font="]"[/font]
[font="]
[/font][font="]سوال۔ "تو پھر کیا تمھیں کوئی وارنٹ ملا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں، میں نے پریذیڈنسی جیل میں سرو کیا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "عام طور پر جب تمھیں کسی جلسہ کی اطلاع ملتی ہے تو کیا تم کوئی رپورٹر وہاں بھیجتے ہو؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں[/font][font="]"[/font]
[font="]سوال۔ "کیا یہی وہ رپورٹ اور اسکی نقل ہے جو تمھیں دکھائی گئی تھی؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "ہاں[/font][font="]"[/font]
[font="]ابواللّیث محمد[/font][font="]:[/font]
[font="]
[/font][font="]اسکے بعد سرکاری شارٹ ہینڈ رپورٹر ابواللّیث محمد پیش ہوا، اس نے بیان میں کہا، "میں گورنمنٹ آف بنگال کا شارٹ ہینڈ رپورٹر ہوں۔[/font][font="]"[/font]
[font="]صفحہ 57[/font]
[font="]یہاں مجسٹریٹ نے مولانا کو مخاطب کر کے کہا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لیے گواہی کا ترجمہ کرایا جائے؟[/font][font="]"[/font]
[font="]
[/font][font="]جواب میں مولانا نے فرمایا۔ "مجھے کسی ترجمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر عدالت کو ضرورت ہو تو وہ خود ایسا کر سکتی ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]مجسٹریٹ۔ "تو کیا آپ انگریزی سمجھتے ہیں۔[/font][font="]"[/font]
[font="]مولانا۔ "نہیں[/font][font="]"[/font]
[font="]مجسٹریٹ۔ "مترجم، بہتر ہے کہ تم ترجمہ کرتے جاؤ۔[/font][font="]"[/font]
[font="]گواہ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا[/font][font="]:[/font]
[font="]"[/font][font="]میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں، تقریباً 18 مہینے تک لکھنؤ کرسچین کالج میں رہ چکا ہوں، وہاں میں نے اردو مختصر نویسی میں ایک آنر سرٹیفیکیٹ اور سند حاصل کی۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"160 [/font][font="]حروف فی منٹ میری رفتار ہے، میں اردو سمجھتا ہوں، اردو مختصر نویسی میں نے لکھنؤ میں سیکھی ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"[/font][font="]یکم جولائی مجھے یاد ہے، اس روز میں مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں مقرر ہوا تھا، اردو میں وہاں جو تقریریں ہوئیں ان کے میں نے نوٹ لیے تھے، ملزم نے وہاں اردو میں تقریر کی تھی اور وہی اس جلسہ کے صدر تھے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"[/font][font="]حتی الامکان میں نے بہتر نوٹ لیے اور حسبِ معمول مسٹر گولڈی کمشنر کے پاس بھیج دیا، مسٹر گولڈی نے اس پر 25 تاریخ کو دستخط کیا، اسکے بعد میں نے اسی تقریر کی نقل اردو لانگ ہینڈ میں لی اور مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کیا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"[/font][font="]اس پر مسٹر گولڈی کا 14 دسمبر 1921ء کا دستخط موجود ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]بابو باما چرن چٹر جی[/font][font="]:[/font]
[font="]اسکے بعد مسٹر باما چرن چٹر جی سرکاری مترجم پیش ہوا، اس نے بیان کیا "وہ اردو [/font]
[font="]صفحہ 58[/font]
[font="]اور ہندی کا مترجم ہے اور الہ آباد یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سرکاری وکیل۔ "پہلی جولائی کی اردو تقریر ذرا دیکھو؟[/font][font="]"[/font]
[font="]گواہ۔ "میں نے ہی اسکا ترجمہ کیا تھا، اس پر میرا دستخط موجود ہے، میں نے حتی الامکان اسکا بہتر ترجمہ کیا ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سرکاری وکیل۔ "دوسری تقریر کو بھی دیکھو جو 15 جولائی کی ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]گواہ۔ "میں نے اسکا بھی صحیح ترجمہ کیا ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]انسپکٹر محمد اسماعیل[/font][font="]:[/font]
[font="]اسکے بعد محمد اسماعیل انسپکٹر اسپیشل برانچ بلوایا گیا۔ اس نے بیان کیا: "میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا۔ وہاں میں نے ملزم کو دیکھا، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی۔ میں نے لانگ ہینڈ میں پہلی جولائی کی تقریر کا نوٹ لیا تھا۔ ملزم اس جلسہ کے صدر تھے اور اسی حیثیت سے تقریر کی تھی۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]گواہ۔ "مبلغینِ خلافت: حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے متعلق۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"[/font][font="]جلسہ میں تقریباً [/font][font="]12 [/font][font="]ہزار آدمیوں کا مجمع تھا۔ ہر قسم کے لوگ جلسہ میں موجود تھے، لیکن پچاس فیصدی مسلمان تھے۔ میں نے صحیح نوٹ لیے تھے۔ انسپکٹر کے-ایس گھوسال اور دوسرے افسر میرے ہمراہ تھے اور یہ (مولانا ابوالکلام آزاد) صدر جلسہ کی اردو تقریر کا نوٹ ہے۔ اس کے بعد بابو پچکوری بنر جی نے تقریر کی تھی۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"[/font][font="]بابو پچکوری بنر جی کی تقریر صدر جلسہ کی تقریر کے ساتھ شامل ہے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]"15 [/font][font="]جولائی کو بھی میں مرزا پور پارک میں متعین کیا گیا تھا، میں وہاں گیا تھا، میں نے وہاں کی تقریر کے نوٹ لیے۔ انسپکٹر مکر جی اور مسٹر کر بھی میرے ہمراہ تھے۔ مولوی نجم الدین اور[/font]
[font="]صفحہ 59[/font][font="]
[/font]
[font="]ملزم نے اس جلسہ میں تقریر کی تھی، میں نے ان تقریروں کا نوٹ لانگ ہینڈ میں لیا۔ میں نے تقریر کے صرف انہی حصوں کا صحیح نوٹ لیا جنہیں میں نے ضروری سمجھا تھا۔ میں کلکتہ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ اور بی-ایس-سی ہوں۔ میں اردو سمجھتا ہوں۔ تقریباً 10 اور 12 ہزار کے درمیان جلسہ میں لوگوں کا مجمع تھا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]یہاں سرکاری وکیل نے گواہ سے کہا۔ "نوٹ دیکھ کر ذرا اپنے حافظہ کو درست کرو۔[/font][font="]"[/font]
[font="]گواہ نے نوٹ دیکھ کر بتایا۔ "10 ہزار کا مجمع تھا اور ہم نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]پولیس انسپکٹر کے-ایس گھوسال[/font][font="]:[/font]
[font="]اسکے بعد کے-ایس گھوسال، انسپکٹر اسپیشل برانچ کی شہادت لی گئی، اس نے بیان کیا[/font][font="]:[/font]
[font="]"[/font][font="]میں کلکتہ یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہوں، یکم جولائی 1921ء کو مرزا پور پارک اسکوائر کے جلسہ میں میں گیا تھا، ملزم اس جلسہ کے صدر تھے۔ میں نے تقریروں کے نوٹ شارٹ ہینڈ میں لیے تھے۔ میں تقریر کے صرف انہی حصوں کا نوٹ لیا کرتا ہوں جنہیں میں ضروری سمجھتا ہوں۔ میں نے ان کے صحیح نوٹ لیے تھے، (نوٹ پیش کرتے ہوئے) یہ پہلی جولائی کی متفقہ رپورٹ ہے۔ اس میں صدر (ملزم) کی تقریر بھی شامل ہے۔ یہ نوٹ مسٹر گولڈی کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے تھے، جن پر انہوں نے اپنا دستخط کر دیا تھا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]سرکاری وکیل۔ "جلسہ کس غرض سے ہوا تھا؟[/font][font="]"[/font]
[font="]جواب۔ "سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے۔ تقریباً 12 ہزار آدمیوں کا مجمع تھا، ہر قسم کے لوگ اس میں شریک تھے، لیکن نصف کے قریب ہندوستانی مسلمان تھے، بقیہ نصف ہندوستانی ہندو اور بنگالی تھے۔[/font][font="]"[/font]
[font="]انسپکٹر بی-بی مکر جی[/font][font="]:[/font]
[font="]اسکے بعد بی-بی مکر جی انسپکٹر سی-آئی-ڈی پیش ہوا۔ اس نے بیان کیا[/font][font="]:[/font]
[font="]صفحہ 60[/font][font="]
[/font][font="]"[/font][font="]مرزا پور پارک کے ایک جلسہ میں نوٹ لینے کے لیے مقرر ہوا تھا، میں نے نوٹ لیے اور پندرہ جولائی 1921ء کو ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں پیش کر دیئے۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font][font="]"[/font][font="]ملزم اس جلسہ کے صدر تھے، انہوں نے وہاں ایک تقریر کی تھی، میں نے اسکے صحیح نوٹ لیے تھے۔ یہ نوٹ اسی روز شام کو مسٹر گولڈی کے سامنے پیش کر دیئے گئے تھے۔ اس پر ان کا دستخط موجود ہے۔ محمد اسماعیل اور میں، دونوں نے ایک مشترکہ نوٹ داخل کیا تھا، ملزم نے اردو میں تقریر کی تھی، میں کچھ کچھ اس زبان کو سمجھتا ہوں۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font][font="]یہ جلسہ تین مبلغینِ خلافت، حکیم سعید الرحمٰن، جگدمبا پرشاد اور اجودھیا پرشاد کی گرفتاری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور لوگوں کو جیل جانے کی ترغیب دینے اور شوق دلانے کی غرض سے ہوا تھا۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font][font="]"[/font][font="]تقریباً دس ہزار کا مجمع تھا، مسلمان، ہندو اور ہوڑا اور للوا کے ملوں کے بہت سے مزدور اس میں شریک تھے، تقریباً 50 والنٹیر بیج لگائے ہوئے تھے، جس پر یہ لکھا تھا۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font][font="]"[/font][font="]جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font]
[font="]
[/font][font="]مسٹر گولڈی (دوبارہ):[/font][font="]
[/font][font="]مسٹر گولڈی پھر بلوائے گئے، انہوں نے رپورٹ اور نوٹ پر، جو وہاں پیش کئے گئے تھے، اپنے دستخط ہونے کی تصدیق کی۔[/font][font="]
[/font][font="]اسکے بعد سرکاری وکیل نے پہلی جولائی کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا اور کہا۔ "15 جولائی کو بھی اس قسم کی تقریر ہوئی تھی۔[/font][font="]"[/font][font="]
[/font][font="]پھر اس نے چارج مجسٹریٹ کے حوالے کر دیا۔ اسکے بعد لنچ کے لیے کاروائی ملتوی کی گئی۔[/font][font="]
[/font][font="]لنچ کے بعد کی کاروائی[/font][font="]:[/font][font="]
[/font][font="]3 [/font][font="] بج کر 20 منٹ پر مجسٹریٹ عدالت میں داخل ہوا، مولانا کو بلوایا گیا۔ جس وقت[/font]
[font="]صفحہ 61[/font][font="]
[/font][font="]مولانا صحن سے ہو کر عدالت کے کمرے میں جا رہے تھے تو باہر کے عظیم الشان مجمع نے جو سڑک پر کھڑا تھا، مولانا کی ایک ذرا سی جھلک دیکھ پائی اور اللہ اکبر کی گونج سے در و دیوار ہلنے لگے۔[/font]
[font="]جب مولانا کمرے میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین سرو قد اٹھ کھڑے ہوئے اور بلا قصد انکی زبان سے بھی اللہ اکبر کا نعرہ نکل گیا۔ اگرچہ خود مولانا ہاتھ کے اشارے سے روکتے رہے۔ مجسٹریٹ نے گھبرا کر فوراً سارجنٹ کو کمرہ خالی کرا دینے کا حکم دیا، جس پر فوراً عمل کیا گیا، صرف چند آدمی جو کرسیوں پر بیتھے ہوئے تھے اندر رہ گئے۔[/font]
[font="]شارٹ ہینڈ اردو رپورٹر نے ان دونوں تقریروں کو جن کی بنا پر دعویٰ کیا گیا ہے، پڑھ کر سنایا۔[/font]
[font="]اسکے بعد 124-الف کے ماتحت فرد قرارداد جرم لگا دی گئی۔[/font]
[font="]مجسٹریٹ (مولانا سے)۔ "کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟[/font][font="]"[/font]
[font="]مولانا۔ "نہیں[/font][font="]"[/font]
[font="]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کوئی گواہ پیش کرنا چاہتے ہیں؟[/font][font="]"[/font]
[font="]مولانا۔ "نہیں، اگر میں نے ضرورت دیکھی تو آخر میں اپنا تحریری بیان پیش کر دوں گا۔[/font][font="]"[/font]
[font="]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو کاغذ کی ضرورت ہے؟[/font][font="]"[/font]
[font="]مولانا۔ "نہیں[/font][font="]"[/font]
[font="]مجسٹریٹ۔ "کیا آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟[/font][font="]"[/font]
[font="]مولانا۔ "میں اپنی تقریروں کی نقل چاہتا ہوں۔" (جو انہیں دے دی گئی)۔[/font]
[font="]یہاں سرکاری وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ عرضی دعویٰ کی ایک نقل ملزم کو دے دی جائے۔[/font]
[font="]اس کے بعد مقدمہ 11 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا، مقدمہ کے تمام دوران میں[/font]
[font="]صفحہ 62[/font]
[font="]عدالت کے احاطہ اور سڑک پر عظیم الشان مظاہرہ جاری تھا۔ قومی نعروں کی آوازیں برابر بلند ہو رہی تھیں۔ جونہی مولانا جیل کی گاڑی میں سوار ہونے لگے، ابوالکلام کی جے، بندے ماترم، مہاتما گاندھی کی جے، ہندو مسلمان کی جے اور اللہ اکبر کے پر شکوہ نعروں سے تمام فضا گونج اٹھی[/font][font="]![/font][font="] لوگوں کی اس قدر کثرت تھی کہ کچھ عرصہ تک گاڑیوں کی آمد و رفت بھی رک گئی تھی۔[/font]
[font="]
[/font]