شمشاد
لائبریرین
صفحہ 136 - 137
بڑھایا، لیکن تحریک کی طاقت اور ترقی کے لیے بھی تو ہم اسی بات کے طلب گار تھے؟ حتٰی کہ گرفتاریوں کے لیے گورنمنٹ کو بلاوے دیتے دیتے تھک گئے تھے؟ وہ زیادہ مقابلے میں سرگرم ہوئی تو والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئیں، لیکن یہ تو عین ہماری دستگیری ہے اور سچ مچ کو ہمیں کام پر لگا دینا ہے کیونکہ سول ڈس او بیڈینس کے لیے ہمیں کسی ایسی ہی بات کی تلاش تھی۔ ہم کب سے اس موقعہ کے انتظار میں راہ تک رہے تھے؟ پھر یہ کیسی مخالفت ہے جو عین موافقت کا کام دے رہی ہے اور کیسا مقابلہ ہے جس کا ہر وار ہمیں ایک نیا ہتھیار بخش دیتا ہے؟ فی الحقیقت یہی ایمان و صبر کی راہ کا معجزہ ہے اور یہی وہ راز ہے ایمان اور قربانی کے مقابلہ میں ہتھیار ہیں، ان میں سے کوئی ہتھیار بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا۔
گورنمنٹ کی رہنمائی :
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت ہماری تحریک کی طاقت اور فتح کے لیے ہمارا بڑے سے بڑا دوست اور رہنما بھی ہم پر وہ احسان نہیں کر سکتا تھا جو گورنمنٹ نے خلافت اور کانگریس والنٹیرز کو توڑ کر ہم پر کر دیا ہے۔ اس نے عین وقت پر ہماری مدد کی۔ وہ ہماری مدد کیوں کرتی؟ لیکن اسی کا سازِ قدرت نے اس کے ہاتھوں کرائی جو ہمیشہ اپنی نیرنگیوں کے اچنبے دنیا کو دکھلاتا رہتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہ اسی وقت ہوا جب کہ ہم میں ہر دل بڑی بے قراری کے ساتھ اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ یہ گویا آسمان کی فیاض اور وقت شناس بارش ہے جو نہ تو پہلے آئی اور نہ دیر کر کے آئی۔ ٹھیک اسی وقت آئی جبکہ تمام کھیت اس کی راہ تک رہے تھے :
[ayah]وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا[/ayah] ۔(سورۃ الروم۔ آیت 24) (کتاب میں آیت نمبر 23 لکھا ہوا ہے جبکہ یہ آیت نمبر 24 کا ایک حصہ ہے)
اس وقت تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر عمل " سول ڈس اوبیڈینس" کا تھا۔ یعنی اس بات کا تھا کہ سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائےاور قید خانے بھر کر گورنمنٹ کے تشدد کو تھکا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے کامل نظم و امن اور صبر و استقامت کی ضرورت تھی اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وقت پر اس کی شرطیں پوری ہو سکیں گی یا نہیں؟
سول ڈس اوبیڈینس کی دو صورتیں ہیں :
ایک یہ کہ کوئی خاص معین قانون ہو جو ہماری تحریک کے جائز اور باامن کاموں کو جبراً روکتا ہو اور صرف اسی کی عدمِ تعمیل سے کام شروع کیا جائے۔ یہ صورت محض دفاعی ہے اور اس لیے سب سے زیادہ محفوظ اور کامیاب ہے۔ کیونکہ اس میں میدان عمل محدود رہتا ہے اور صرف وہی لوگ اس میں آ سکتے ہیں جو اچھی طرح اس کے لیے تیار ہوں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون تو سامنے نہ ہو، مگر عام طور پر تمام سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائے۔ اس میں زیادہ الوالعزمی اور دلیری ہے کیونکہ یہ دفاعی عمل نہیں ہے۔ جارحانہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت نازک اور کٹھن بھی ہے۔ اس کو صرف دو چار آدمی کرکے نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے، جب تک پوری بڑی جماعت اور پاری آبادی نہ کرے اور ظاہر ہے کہ پوری آبادی کا اس کی مشکلات پر غالب آنا، اور تمام شرطوں میں پورا اترنا آسان نہیں ہے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے جب کوئی پہلی صورت سامنے نہ دیکھی تو دوسری صورت اختیار کی۔ لیکن اس کے لیے ضروری شرطیں بھی ٹھہرا دیں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں کہ جو اس وقت صرف چند خاص مقامات ہی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کو مایوسی ہوئی اور تمام کارکن حلقے کام میں شریک نہ ہو سکے۔
گورنمنٹ نے کراچی کا مقدمہ کر کے فوج اور پولیس کا مسئلہ ہمارے لیے پیدا کر دیا تھا۔ ہم تیار ہو گئے کہ اسی سے سول ڈس اوبیڈینس کے مقاصد حاصل کریں۔ ہم نے پوری کوشش کی اور کوئی دقیقہ اس مسئلہ کے اعلان اور اعتراف میں اُٹھا نہ رکھا، لیکن گورنمنٹ بہت جلد چونک اُٹھی اور سمجھ گئی کہ وہ ہم پر وار نہیں کر رہی ہے، بلکہ ہمارے وار کے لیے خود اپنے کو پیش کر رہی ہے۔ اس نے فوراً پینتر بدلا اور ایک شخص کو بھی کراچی ریزولیوشن کے تکرار و تصدییق کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا۔
بڑھایا، لیکن تحریک کی طاقت اور ترقی کے لیے بھی تو ہم اسی بات کے طلب گار تھے؟ حتٰی کہ گرفتاریوں کے لیے گورنمنٹ کو بلاوے دیتے دیتے تھک گئے تھے؟ وہ زیادہ مقابلے میں سرگرم ہوئی تو والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئیں، لیکن یہ تو عین ہماری دستگیری ہے اور سچ مچ کو ہمیں کام پر لگا دینا ہے کیونکہ سول ڈس او بیڈینس کے لیے ہمیں کسی ایسی ہی بات کی تلاش تھی۔ ہم کب سے اس موقعہ کے انتظار میں راہ تک رہے تھے؟ پھر یہ کیسی مخالفت ہے جو عین موافقت کا کام دے رہی ہے اور کیسا مقابلہ ہے جس کا ہر وار ہمیں ایک نیا ہتھیار بخش دیتا ہے؟ فی الحقیقت یہی ایمان و صبر کی راہ کا معجزہ ہے اور یہی وہ راز ہے ایمان اور قربانی کے مقابلہ میں ہتھیار ہیں، ان میں سے کوئی ہتھیار بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا۔
گورنمنٹ کی رہنمائی :
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت ہماری تحریک کی طاقت اور فتح کے لیے ہمارا بڑے سے بڑا دوست اور رہنما بھی ہم پر وہ احسان نہیں کر سکتا تھا جو گورنمنٹ نے خلافت اور کانگریس والنٹیرز کو توڑ کر ہم پر کر دیا ہے۔ اس نے عین وقت پر ہماری مدد کی۔ وہ ہماری مدد کیوں کرتی؟ لیکن اسی کا سازِ قدرت نے اس کے ہاتھوں کرائی جو ہمیشہ اپنی نیرنگیوں کے اچنبے دنیا کو دکھلاتا رہتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہ اسی وقت ہوا جب کہ ہم میں ہر دل بڑی بے قراری کے ساتھ اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ یہ گویا آسمان کی فیاض اور وقت شناس بارش ہے جو نہ تو پہلے آئی اور نہ دیر کر کے آئی۔ ٹھیک اسی وقت آئی جبکہ تمام کھیت اس کی راہ تک رہے تھے :
[ayah]وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا[/ayah] ۔(سورۃ الروم۔ آیت 24) (کتاب میں آیت نمبر 23 لکھا ہوا ہے جبکہ یہ آیت نمبر 24 کا ایک حصہ ہے)
اس وقت تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر عمل " سول ڈس اوبیڈینس" کا تھا۔ یعنی اس بات کا تھا کہ سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائےاور قید خانے بھر کر گورنمنٹ کے تشدد کو تھکا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے کامل نظم و امن اور صبر و استقامت کی ضرورت تھی اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وقت پر اس کی شرطیں پوری ہو سکیں گی یا نہیں؟
سول ڈس اوبیڈینس کی دو صورتیں ہیں :
ایک یہ کہ کوئی خاص معین قانون ہو جو ہماری تحریک کے جائز اور باامن کاموں کو جبراً روکتا ہو اور صرف اسی کی عدمِ تعمیل سے کام شروع کیا جائے۔ یہ صورت محض دفاعی ہے اور اس لیے سب سے زیادہ محفوظ اور کامیاب ہے۔ کیونکہ اس میں میدان عمل محدود رہتا ہے اور صرف وہی لوگ اس میں آ سکتے ہیں جو اچھی طرح اس کے لیے تیار ہوں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون تو سامنے نہ ہو، مگر عام طور پر تمام سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائے۔ اس میں زیادہ الوالعزمی اور دلیری ہے کیونکہ یہ دفاعی عمل نہیں ہے۔ جارحانہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت نازک اور کٹھن بھی ہے۔ اس کو صرف دو چار آدمی کرکے نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے، جب تک پوری بڑی جماعت اور پاری آبادی نہ کرے اور ظاہر ہے کہ پوری آبادی کا اس کی مشکلات پر غالب آنا، اور تمام شرطوں میں پورا اترنا آسان نہیں ہے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے جب کوئی پہلی صورت سامنے نہ دیکھی تو دوسری صورت اختیار کی۔ لیکن اس کے لیے ضروری شرطیں بھی ٹھہرا دیں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں کہ جو اس وقت صرف چند خاص مقامات ہی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کو مایوسی ہوئی اور تمام کارکن حلقے کام میں شریک نہ ہو سکے۔
گورنمنٹ نے کراچی کا مقدمہ کر کے فوج اور پولیس کا مسئلہ ہمارے لیے پیدا کر دیا تھا۔ ہم تیار ہو گئے کہ اسی سے سول ڈس اوبیڈینس کے مقاصد حاصل کریں۔ ہم نے پوری کوشش کی اور کوئی دقیقہ اس مسئلہ کے اعلان اور اعتراف میں اُٹھا نہ رکھا، لیکن گورنمنٹ بہت جلد چونک اُٹھی اور سمجھ گئی کہ وہ ہم پر وار نہیں کر رہی ہے، بلکہ ہمارے وار کے لیے خود اپنے کو پیش کر رہی ہے۔ اس نے فوراً پینتر بدلا اور ایک شخص کو بھی کراچی ریزولیوشن کے تکرار و تصدییق کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا۔