قول فیصل صفحہ 96 تا 141

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 136 - 137

بڑھایا، لیکن تحریک کی طاقت اور ترقی کے لیے بھی تو ہم اسی بات کے طلب گار تھے؟ حتٰی کہ گرفتاریوں کے لیے گورنمنٹ کو بلاوے دیتے دیتے تھک گئے تھے؟ وہ زیادہ مقابلے میں سرگرم ہوئی تو والنٹیر کورز توڑ ڈالی گئیں، لیکن یہ تو عین ہماری دستگیری ہے اور سچ مچ کو ہمیں کام پر لگا دینا ہے کیونکہ سول ڈس او بیڈینس کے لیے ہمیں کسی ایسی ہی بات کی تلاش تھی۔ ہم کب سے اس موقعہ کے انتظار میں راہ تک رہے تھے؟ پھر یہ کیسی مخالفت ہے جو عین موافقت کا کام دے رہی ہے اور کیسا مقابلہ ہے جس کا ہر وار ہمیں ایک نیا ہتھیار بخش دیتا ہے؟ فی الحقیقت یہی ایمان و صبر کی راہ کا معجزہ ہے اور یہی وہ راز ہے ایمان اور قربانی کے مقابلہ میں ہتھیار ہیں، ان میں سے کوئی ہتھیار بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا۔

گورنمنٹ کی رہنمائی :

میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت ہماری تحریک کی طاقت اور فتح کے لیے ہمارا بڑے سے بڑا دوست اور رہنما بھی ہم پر وہ احسان نہیں کر سکتا تھا جو گورنمنٹ نے خلافت اور کانگریس والنٹیرز کو توڑ کر ہم پر کر دیا ہے۔ اس نے عین وقت پر ہماری مدد کی۔ وہ ہماری مدد کیوں کرتی؟ لیکن اسی کا سازِ قدرت نے اس کے ہاتھوں کرائی جو ہمیشہ اپنی نیرنگیوں کے اچنبے دنیا کو دکھلاتا رہتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک یہ اسی وقت ہوا جب کہ ہم میں ہر دل بڑی بے قراری کے ساتھ اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ یہ گویا آسمان کی فیاض اور وقت شناس بارش ہے جو نہ تو پہلے آئی اور نہ دیر کر کے آئی۔ ٹھیک اسی وقت آئی جبکہ تمام کھیت اس کی راہ تک رہے تھے :

[ayah]وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا[/ayah] ۔(سورۃ الروم۔ آیت 24) (کتاب میں آیت نمبر 23 لکھا ہوا ہے جبکہ یہ آیت نمبر 24 کا ایک حصہ ہے)

اس وقت تحریک کی کامیابی کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر عمل " سول ڈس اوبیڈینس" کا تھا۔ یعنی اس بات کا تھا کہ سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائےاور قید خانے بھر کر گورنمنٹ کے تشدد کو تھکا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے کامل نظم و امن اور صبر و استقامت کی ضرورت تھی اور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وقت پر اس کی شرطیں پوری ہو سکیں گی یا نہیں؟

سول ڈس اوبیڈینس کی دو صورتیں ہیں :

ایک یہ کہ کوئی خاص معین قانون ہو جو ہماری تحریک کے جائز اور باامن کاموں کو جبراً روکتا ہو اور صرف اسی کی عدمِ تعمیل سے کام شروع کیا جائے۔ یہ صورت محض دفاعی ہے اور اس لیے سب سے زیادہ محفوظ اور کامیاب ہے۔ کیونکہ اس میں میدان عمل محدود رہتا ہے اور صرف وہی لوگ اس میں آ سکتے ہیں جو اچھی طرح اس کے لیے تیار ہوں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون تو سامنے نہ ہو، مگر عام طور پر تمام سول قوانین کی تعمیل سے انکار کر دیا جائے۔ اس میں زیادہ الوالعزمی اور دلیری ہے کیونکہ یہ دفاعی عمل نہیں ہے۔ جارحانہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی بہت نازک اور کٹھن بھی ہے۔ اس کو صرف دو چار آدمی کرکے نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے، جب تک پوری بڑی جماعت اور پاری آبادی نہ کرے اور ظاہر ہے کہ پوری آبادی کا اس کی مشکلات پر غالب آنا، اور تمام شرطوں میں پورا اترنا آسان نہیں ہے۔

آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے جب کوئی پہلی صورت سامنے نہ دیکھی تو دوسری صورت اختیار کی۔ لیکن اس کے لیے ضروری شرطیں بھی ٹھہرا دیں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں کہ جو اس وقت صرف چند خاص مقامات ہی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کو مایوسی ہوئی اور تمام کارکن حلقے کام میں شریک نہ ہو سکے۔

گورنمنٹ نے کراچی کا مقدمہ کر کے فوج اور پولیس کا مسئلہ ہمارے لیے پیدا کر دیا تھا۔ ہم تیار ہو گئے کہ اسی سے سول ڈس اوبیڈینس کے مقاصد حاصل کریں۔ ہم نے پوری کوشش کی اور کوئی دقیقہ اس مسئلہ کے اعلان اور اعتراف میں اُٹھا نہ رکھا، لیکن گورنمنٹ بہت جلد چونک اُٹھی اور سمجھ گئی کہ وہ ہم پر وار نہیں کر رہی ہے، بلکہ ہمارے وار کے لیے خود اپنے کو پیش کر رہی ہے۔ اس نے فوراً پینتر بدلا اور ایک شخص کو بھی کراچی ریزولیوشن کے تکرار و تصدییق کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 138 - 139

لیکن اب والنٹیر کورز کو خلاف قانون ٹھہرا کر اس نے نعم البدل دے دیا ہے۔ ہر اعتبار اور حیثیت سے یہ سول ڈس اوبیڈینس کے لیے بہترین راہ کھلی۔ ہم گورنمنٹ سے اگر کوئی چیز مانگتے تو یہی مانگتے، جو اس نے خود بخود دے دی۔ اس راہ کی ساری دقتیں دور ہو گئیں اور ساری خوبیاں مل گئیں۔ اب کامیاب اور بے خطر سول ڈس او بیدینس یہی ہے کہ والنٹیرز کی جماعتیں از سرِ نو بھرتی کی جائیں اور گورنمنٹ کو چھوڑ دیا جائے کہ جہاں تک گرفتار کر سکتی ہے، گرفتار کرتی جائے۔

سب سے بڑا کام :

اب خلافت اور کانگریس کمیٹیوں کے لیے صرف یہی ایک کام بڑا سے بڑا کام ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو اسلام اور ملک کی محبت کا دعویدار ہے، راہ عمل کھل گئی ہے کہ فوراً اٹھے اور سارے کام چھوڑ کر قومی والنٹیرز میں اپنا نام لکھوا دے۔ اب وقت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہو گی۔ کل تک ہمارے لیے بہت سے کام تھے اور ہر کام خلافت اور سوراج کی خدمت تھا۔ ہم تقریریں کرتے تھے، جلسے کرتے تھے، دوروں میں نکلتے تھے، خلافت اور کانگرس کمیٹیوں کے عہدوں پر مامور ہوتے تھے، لیکن آج وہ تمام کام غیر ضروری ہو گئے۔ صرف یہی ایک کام خلافت اور سوراج کا اصلی کام ہے۔ اب سب سے بڑا خادم اسلام و ملک وہی ہے جو والنٹیر بن جائے اور پورے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پر کام کر کے جیل خانے چلا جائے۔

تین شرطیں :

البتہ تمام کارکنوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کامیابی کے لیے تین شرطیں اٹل ہیں۔ جب تک وہ ان شرطوں کی طرف سے مفمئن نہ ہو جائیں، ہرگز ہرگز اس راہ میں قدم نہ اٹھائیں۔ کام کا کم ہونا بُرا نہیں ہے، مگر کام کا بگاڑ دینا ناقابل معافی ہے۔ اگر اس نازک گھڑی میں ہم نے ذرا بھی غفلت کی، تو ہم سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی مجرم نہ ہو گا۔

پہلی شرط " نظم " ہے۔ جو خلافت یا کانگریس کمیٹی یہ کام شروع کرے، چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی انتظامی قوت کو اچھی طرح دیکھ بھال لے۔ انتظام کے لیے تین باتوں کی طرف سے اطمینان ہونا چاہیے :

1 - تمام مقامی کارکن کسی ایک شخص کے حکموں پر چلتے ہوں اور پوری طرح اس کی اطاعت کرتے ہوں۔ اگر خلافت اور کانگریس کمیٹی کے صدر کو ایسی طاقت حاصل ہے تو یہ منصب اسی کا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جو شخص ایسا اثر رکھتا ہو، عارضی طور پر والنٹیر کور کا نظام اس کے ماتحت کر دینا چاہیے اور تمام کارکنوں کو پوری اطاعت کے ساتھ اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

2 – مقامی آبادی پر کمیٹی کا پورا پورا اثر ہونا چاہیے۔ اس کو یقین ہونا چاہیے کہ وہ وقت پر سب کو اپنے قابو میں رکھ سکے گی۔

3 – انتظام کے قائم رکھنے کے لیے کافی اور ہوشیار کارکن ہونے چاہئیں، تا کہ ہر وقت کام دے سکیں۔ ان کو والنٹیرز میں شامل نہ ہونا چاہیے۔

دوسری شرط "امن" ہے اور یقین کرنا چاہیے کہ اگر ہم امن قائم نہ رکھ سکے تو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ کام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم امن کو گورنمنٹ کے لیے نہیں چاہتے، خود اپنی کامیابی کے لیے چاہتے ہیں۔ گورنمنٹ تاک میں ہے کہ کوئی بات بھی بلوے اور بدنظمی کی ہو جائے اور پھر اس کو قابو پانے کا موقع مل جائے۔ بمبئی کے واقعہ نے بتلا دیا کہ انتظام کی غفلت اور غیر ذمہ دار لوگوں کی شرارتوں نے کیسی خوفناک صورت اختیار کر لی؟ پس چاہیے کہ ہم سچے دل سے اس شرط پر یقین رکھیں اور خدمتِ دین و ملت کے پاک کام کو بدمعاش اور شریروں کی شرکت سے گندہ نہ ہانے دیں۔ ہم کو پوری ہوشیاری اور نگہبانی کے ساتھ اس کا اطمینان کر لینا چاہیے اور جب تک اطمینان نہ ہو والنٹیرز کا نیا کام شروع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اطمینان دونوں جماعتوں کی طرف سے ہونا چاہیے۔ ان کی طرف سے بھی جو والنٹیر بنیں اور ان کی طرف سے بھی جو والنٹیرز کی قربانیوں اور گرفتاریوں کا نظارہ کریں۔ دونوں کے دلوں کو ٹٹول لینا چاہیے۔ دونوں کے دلوں پر امن کی ظرورت نقش کر دینی چاہیے۔ والینٹر وہی بنے گا جو گرفتار ہو جانے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 140 - 141

اور پھر بلا جرمانہ دے، بلا معافی مانگے، بلا پیشانی پر بل لائے، سزا جھیل لینے کے لیے تیار ہو۔ اسی طرح والنٹیرز کا کام صرف اسی آبادی میں شروع کیا جائے جو ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کی گرفتاری دیکھے، لیکن نہ تو اسے خوف و ہراس ہو۔ نہ بے جا جوش اور بھڑک۔ اگر ولولہ اٹھے تو ان کی ریس کا۔ جوش پیدا ہوتو انہی کی طرح خوش خوش قید ہو جانے کا!

تیسری شرط "استقامت" ہے، یعنی قربانی اور جانبازی کی راہ میں قدم اٹھا کر پھر اس طرح جم جانا کہ نہ تو کوئی طمع ہلا سکے۔ نہ کوئی خود ڈرا سکے۔ سمندر کی طرح پرجوش، پہاڑ کی طرح مضبوط!

تزول الجبال الراسیات و قلبھم علی العھد لا یلوی ولا یتغیر!

اس شرط کے لیے اور زیادہ کیا کہوں؟ کامیابی کی جڑ فتح و مراد کا سرچشمہ، ایمان کا خلاصہ، عمل کی روح، خدا کی رحمت کا وسیلہ اگر ہے تو صرف یہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

[ayah]إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۔[/ayah]
جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے، تو پھر ان کے لیے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم!

بیگم صاحبہ مولانا کا تار بنام گاندھی جی :

ہم ذیل میں بیگم مولانا کا وہ تار درج کرتے ہیں، جو اُنہوں نے مولانا کی سزا یابی کے بعد مہاتما گاندھی کو احمد آباد اور بردولی کے پتوں پر دیا تھا۔ لیکن سنٹرل ٹیلیگراف آفس کلکتہ نے اسے روک لیا۔

"میرے شوہر مولانا ابوالکلام آزاد کے مقدمہ کا فیصلہ آج سنا دیا گیا، انہیں صرف ایک سال قید سخت کی سزا دی گئی۔ یہ نہایت تعجب انگیز طور پر اس سے بدرجہ کم ہے جس کے سننے کے لیے ہم تیار تھے۔ اگر سزا اور قید قومی خدمات کا معاوضہ ہے تو اپ تسلیم کریں گے کہ اس معاملہ میں بھی ان کے ساتھ ناانصافی برتی گئی۔ یہ تو کم سے کم بھی نہیں ہے، جسکے وہ مستحق تھے۔ میں آپ کو اطلاع دینے کی جرات کرتی ہوں کہ بنگال میں جو جگہ ان کی خدمات کی خالی ہوئی ہے، ان کے لیے میں نے اپنی ناچیز خدمات پیش کر دیں ہیں اور وہ تمام کام بدستور جاری رہیں گے جو اِن کی موجودگی میں انجام پاتے تھے۔ میرے لیے یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے لیکن میں خدا سے مدد کی پوری اُمید رکھتی ہوں۔ البتہ ان کی جگہ صرف بنگال ہی میں خالی نہیں ہے بلکہ تمام ملک میں اور اس کے لیے سعی کرنا میرے دسترس سے بالکل باہر ہے۔"

"میں پہلے چار سال تک ان کی نظر بندی کے زمانے میں اپنی ایک ابتدائی آزمائش کر چکی ہوں، اور میں کہہ سکتی ہوں کہ اس دوسری آزمائش مین بھی پوری اتروں گی۔ گزشتہ پانچ سال سے میری صحت نہایت کمزور ہو گئی ہے، دماغی محنت سے بالکل مجبور ہوں۔ اس لیے باوجود میری خواہش کے مولانا ہمیشہ اس سے مانع رہے کہ میں کسی طرح کی محنت اور مشغولیت کے کام میں حصہ لوں۔ لیکن میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ ان کی سزا یابی کے بعد مجھے اپنی ناچیز ہستی کو ادائے فرض کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔ میں آج سے بنگال پراونشل خلافت کمیٹی کے تمام کاموں کو اپنے بھائی کی اعانت سے انجام دوں گی۔"

"اُنہوں نے مجھے سے کہا ہے کہ ان کے پُر محبت و احترام سلام کے بعد یہ پیغام آپ کو پہنچا دوں کہ اس وقت دونوں فریق میں سے کسی فریق کی حالت بھی فیصلہ یا صلح کے لیے تیار نہیں ہے۔ نہ گورنمنٹ، نہ ملک اس لیے ہمارے آگے صرف اپنے تئیں تیار کرنے ہی کام درپیش ہے۔ بنگال جس طرح آج سب سے آگے ہے آئندہ منزل میں بھی پیش پیش رہے گا براہ عنایت "بردولی تعلقہ" پر بنگال پراونس کے نام کا بھی اضافہ کر دیجئے اور اگر کوئی وقت فیصلہ کا آئے، تو لوگوں کی رہائی کو اتنی اہمیت نہ دیجئے جتنی آج کل دی گئی ہے رہائی کو بالکل نظر انداز کر کے مقاصد کےلیے شرائط کا فیصلہ کرائیے"۔

******************​
 
Top