کعنان
محفلین
قوموں پر زوال کب اور کیوں آئے
قارئین ! اگر آپ تاریخ عالم پر نظر ڈورائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ قوموں کے زوال کا ایک ہی سبب تھا یعنی اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو جانا اور اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلانا۔ اللہ نے کسی قوم کو یک دم زوال پذیر نہیں کیا اور نہ ہی اچانک ہلاک کیا بلکہ پہلے ان کے پاس اپنے بندوں کو بھیجا تاکہ وہ اس قوم کی اصلاح کر سکیں اور ان کو نصیحت کر سکیں لیکن جب انہوں نے اس نصیحت کو ٹکرایا اور اپنی من چاہی زندگی بسر کرنے لگے تو اللہ نے ان کو مختلف طریقو ں سے ہلاک کیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں اب تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسول بھیجے ہیں۔ جس کے ذریعے سے انسانیت کو اس بنیادی حقیقت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک محدود مدت کے لیے آیا ہے جہاں اسے آزمایا جائے گا اور اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہے، جس میں انہیں ہمیشہ قیام کرنا ہے۔ روز قیامت اس دنیا کے سزا و جزا کے فیصلے کا دن ہے۔ قیامت کے دن ہر ذی روح کو اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ اور دنیا میں ان کے جو اعمال تھے چاہے وہ نیک یا بد اس کے مطابق مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔ قرآن میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْ تَ وَ الْحَیٰو ۃَ لِیَبْلُوَ کُمْ اَ یُّکُمْ اَ حْسَنُ عَمَلًا ط وَ ھُوَ الْعَزِ یْزُ الْغَفُوْرُ ہ
جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے ۔
(سورۃ الملک)
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب نبی کریم ﷺ تک تمام انبیاء نے اپنی قوم کو بھلائی کا راستہ دکھایا اور برے اعمال سے دور رہنے کی تلقین کی۔ جن لوگوں نے اپنے نبی کے حکم کی اطاعت کی وہ لوگ کامیاب ہوئے اور اللہ کی رحمتوں سے فیض یاب ہوئے اور جن لوگوں نے اپنے نبی کی باتوں کو جھٹلایا اور گمراہی میں مبتلا ہوئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو دنیا والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔
قومِ نوح :
قوم نوح اللہ کے سوا (سواع ، یغوث اور یسر) نامی بتوں کو پوجتے تھے ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا اور حضرت نوح علیہ السلام مسلسل انہیں دین کی طرف دعوت دیتے تھے پر وہ باز نہ آئے اور عبادت میں شرک کرنے لگے۔ ایک دن وہ حضرت نوح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ: اے نوح! اگر تم سچے ہو جس عذاب سے تم ڈراتے ہو تو وہ ہم پر نازل کر دو، جس کا ذکر رب تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا:
قَا لُوْ ا یٰنُوْ حُ قَدْ جٰدَ لْتَنَا فَاَ کْثَرْتَ جِدَ الَنَا فَاْ تِنَا بِمَا تَعِدُ نَآ اِنْ کُنْتَ مِنََ الصّٰدِ قِیْنَ ہ
ترجمہ: ’’(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اورخوب بحث کر لی اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے‘‘
(سورۃ ھود)
تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر بارش اور طوفان کے ذریعے انہیں ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ تو اللہ نے ان پر اس زور سے بارش برسائی کہ سمندروں میں طغیانی آ گئی اور وہ اس میں غرق ہو گئے۔
قومِ عاد:
قوم عاد کو اپنی طاقت، اپنی صحت اور اپنے جسم پر بڑا غرور تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جیسی طاقتور قوم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ وہ بڑے بڑے عظیم الجثہ انسان تھے جو پہاڑوں کو تراش کر مکان بناتے تھے جنہیں اپنی صحت اور طاقت پر غرور تھا ، جو درختوں کو جڑ سے اکھاڑ اکھاڑ کرپھینکتے تھے ، وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے جس کی وجہ سے وہ بتوں کو پوجتے تھے ، شرک کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت ھود علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کو سمجھائیں ، ایک اللہ کی عبادت کریں اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں۔ حضرت ھود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
’’اے میری قوم ایک اللہ کی اطاعت کرو ، اگر تم اپنے رب کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ تم پر نازل فرمائیں گے۔‘‘
انہوں نے حضرت ھود علیہ السلام کو جھٹلایا اور تکبر کرنے لگی تو اللہ نے ان کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لیا تو وہ تنکے کی مانند ہواؤں میں اڑنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود علیہ السلام اور وہ جو ان پر ایمان لائے تھے ان کے سوا قوم کے تمام افراد کو نشان عبرت بنا دیا ۔
قوم سبا:
قوم سبا بنی اسرائیل کی ایک قوم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ پر وہ اللہ کے ناشکر گزار تھے۔ اور ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے بھیجے۔ اور وہ انہیں تلقین کرتے رہے ہیں۔ پر وہ اللہ کی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری کرنے لگے۔ تو اللہ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا ۔ وہ باغات جس میں مختلف انواع و اقسام کی نعمتیں تھیں وہ جھاڑیوں میں تبدیل ہو گئیں۔ جس کا ذکر رب ذوالجلال نے قرآن میں یوں فرمایا:
فَاَ عْرَ ضُوْ ا فَاَ رْ سَلْنَا عَلَیْہِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّ لْنٰہُمْ بِجَنَّتَیْہِمْ جَنَّتَیْنِ زَ وَ ا تَیْ اُ کُلٍ خَمْطٍ وَّ اَ ثْلٍ وَّ شَیْ ئٍ مِّنْ سِدْ رٍ قَلِیْلٍٍ
’’لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب ( کا پانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے ہرے بھرے باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیئے جو بد مزہ میوؤں والے اور (بکثرت) جھائو اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔ ‘‘
(سورۃ سبا)
اسباب ہلاکت قوم سبا:
یہ سزا ان کو اللہ کی نعمت کی ناشکری کی وجہ سے ملی۔ جس کا ذکر رب ذوالجلال نے قرآن میں یوں فرمایا:
ذٰ لِکَ جَذَ یْنٰہُمْ بِمَا کَفَرُ وْ ا ط وَ ھَلْ نُجٰزِیْٓ اِ لَّا الْکَفُوْرَ ہ
’’ہم نے ان کی نا شکری کا بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے نا شکروں کوو ہی دیتے ہیں‘‘
(سو رۃ سبا)
قوم شعیب ؑ:
اہل مدین کاروباری معاملات کے ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے ۔ اچھا مال دکھاکر ناقص مال دیتے تھے اور کاروباری معاملات میں چوری کیا کرتے تھے اور زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور عبادت میں شرک کیا کرتے تھے۔ تو ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دی اور انہیں ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا اور معاملات میں مابین انصاف کرنے کا حکم فرمایا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا:
وَ یٰقَوْمِ اَوْ فُوا الْمِکْیَا لَ وَا لْمِیْزَا نَ بِا لْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُو االنّاسَ اَشْیَآ ئَ ھُمْ وَلَا تَعْثَوْ ا فِی الْاَ رْضِ مُفْسِدِ یْنَ ہ
’’اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچائو۔‘‘
(سورۃ ھود)
پر ان کی قوم نے ان کی باتوں کو ماننے کے بجائے جھٹلا دیا سوائے ان چند آدمیوں کے جو حضرت شعیب علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ تو اللہ نے ان پر چیخ کا عذاب نازل فرمایا۔ جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ جس کا ذکر اللہ قرآن میں یوں فرمایا:
وَ لَمَّا جَآ ئَ اَ مْرُ نَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِ یْنَ اٰ مَنُوْا مَعَہٗ بِرَ حْمَۃٍ مِّنَّا وَ اَ خَذَ تِِ الَّذِ یْنَ ظَلَمُو ا الصَّیْحَۃُ فَاَ صْبَحُوْ ا فِیْ دِ یَا رِ ھِمْ جٰثِمِیْنَ ہ
’’جب ہمارا حکم ( عذاب) آ پہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ ( تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا (۱) جس سے وہ اپنے گھر وں میں اوندھے پڑے ہوئے ہو گئے۔‘‘
(سورۃ ھود)
کَاَ نْ لَّمْ یَغْنَوْ ا فِیْھَا ط اَ لَا بُعْدً ا لِّمَدْ یَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْ دُ ہ
’’گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے ، آگاہ رہو مدین کے لئے بھی ویسی ہی دوری ہو جیسی دوری ثمود کو ہوئی۔‘‘
(سورۃ ھود)
پچھلی انبیاء کی قوموں پر جتنے بھی عذاب آئے وہ سب ان کی نافرمانی کی وجہ سے آئے۔ چاہے وہ نافرمانی کاروباری معاملات کی صورت میں ہو یا آپس میں تعلقات کی صورت میں ہو یا عبادات کی صورت میں ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی ان نافرمانیوں کی وجہ سے قیامت تک کے لئے آنے والی انسانیت کے لیے انہیں نشان عبرت بنا دیا۔ آج بھی دنیا میں ایسے کئی مقامات موجود ہیں جہاں ان کے آثار نمایاں ہیں۔ اور ان عذابات کا اقرار جدید سائنس بھی اپنی ریسرچ میں کر چکی ہے۔ جن باتوں کی وجہ سے وہ عذاب خداوندی کی لپیٹ میں آئے وہی باتیں آج ہمارے معاشرے میں بھی نمایاں ہیں۔ جناب نبی کریم ﷺ نے اللہ سے اپنی امت کے حق میں دعا کی۔ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے اور ان کو پچھلی دیگر قوموں کے عذاب سے محفوظ فرما۔ جناب نبی کریم رحمۃ اللعالمین ﷺ کی اس دعا مبارک سے آج ہم پچھلی دیگر قوموں کے عذاب سے محفوظ ہیں۔
آج کے اس معاشرے میں ہماری ان گنت معاشرتی اور کاروباری برائیوں کی وجہ سے مہنگائی کا بڑھنا ، قتل و غارت کا پھیلنا ، جھوٹ، غیبت ، چوری ، مکاری اور خود غرضی کا پھیلنا یہ سب قرآن اور اس کے احکام سے دوری کی وجہ سے ہے۔ آج ہم نے قرآن کے احکام پرعمل کرنا چھوڑ دیا اور جناب سرور کونین ﷺ کے فرامین مبارکہ کے دامن سے ہم دور ہو گئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب مسلم قوم معاشرتی اور کاروباری معاملات میں قرآن و سنت کی روشنی میں عمل پیرا تھی اور خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔ اور غیر مسلم اقوام ان کی اس خوشحال زندگی پر رشک کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے تہذیب و تمدن پر فخر کیا کرتے تھے ، اگر آج ہم قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنالیں تو انشاء اللہ یہ مسلم قوم پھر سے ایک خوشحال زندگی کی موڑ پر ہو گی۔
(مفتی ریحان الدین فیضی)