قوم اور ملک کے مسائل

تفسیر

محفلین
.
.

آپ کے خیال میں “ ایک ملک اور قوم“ کی حثیت سے پاکستان کے کیا مسائل ہیں؟

1 ۔کوئ مسلہ نہیں ہے۔
2 ۔ بیرونی ممالک کا دباؤ
3 ۔ کمزور حکومتیں
4 ۔ وسائل کی کمی
5 ۔ فرقہ پرستی
6 ۔ جہالت (تعلیمٍ کی کمی)
7 . فرسودہ رسم و رواج
fundamentalism . 8
9 ۔ صوبائیت
10 . یا اور دوسر ی وجاہیں جو یہاں درج نہیں۔


فرض کریں کے ملک میں ایسے لیڈر موجود ہیں جو تبدیلیاں لاسکتے ہیں
اور ان کو آپ کے صلاح و مشورہ کی ضرورت ہے۔ آپ ان کو کیا صلاح و مشورہ دیں گے۔

نوٹ:
مہربانی کر کے اپنے ہر پیغام کو 20 سطر سے کم رکھیں۔ پیغام جو 20 سطر سے زیادہ ہوجائے اس کو دو یا زیادہ حصوں میں تقسیم کردیں۔ تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو۔
.
.
 

تفسیر

محفلین
.
راہنماوں۔

آپ کے بیان کردہ مسائل مختلف مسائل نہیں ہیں بلکہ اُن کی جڑ ایک ہے۔ جس طرح ایک بیماری مختلف صورتوں میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح ایک قوم کی بیماری کی علامات بھی بہت ہوتی ہیں لیکن اگر ان کو ایک کے بعد ایک خورد بین کے نیچے لایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ہی مرض ہے اور اسکا علاج بھی ایک ہی ہے۔

بنیادی طور پر تمام انسان ایک ہیں۔ لیکن وہ مختلف گروہ بندی کا حصہ ہیں۔ یہ گروہ بندی، رنگ ، علاقہ، صوبہ ، مذہب، ملک ، جنس اور بہت سی دوسری بناء پر ہیں۔اور ان کو مٹانا تقریباً ناممکن ہے۔ دنیا میں صرف ایک چیز ایسی ہیں تو ان گروہ بندی کا امتیاز رکھتے ہوئے ان کی حدود پار کرلیتی ہے۔

وہ کیا چیز ہے، جو انسان کوخود مختار کرتی ہے؟ جس کے بل بوتے پر وہ اپنے آپ کو رستم محسوس کرتاہے ؟ اوراگر یہ چیز ان لوگوں میں پیدا ہوجائے جو مختلف گروہ میں ممبر ہیں تو اِس کی وجہ سے وہ اپنی انفرادیت محفوظ رکھتے ہوئے ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز یہ جز، جز بندی کرتا ہے۔

یہ جز وہ ہے جو انسان کو آپنے آپ پراختیاردیتا ہے اور یہ جز ایک قوم کی صحت کے لیےتمام لوگوں کے پاس ایک بنیادی مقدار میں موجود ہونا ضروری ہے۔ ورنہ جزا نہیں۔

پاکستان میں یہ جز 62 فی صد لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سویزر لینڈ میں یہ 100 فی صد لوگوں کے پاس ہے۔ میرے راہ بروں اس جز کو پانی کی طرح پانچ آب میں بہاؤ۔ اسے ایک دوسرے کودو۔ اور اللہ تمہارا نگہبان ہوگا

سید تفسیر احمد
.
 

محسن حجازی

محفلین
تعلیم۔۔۔ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور دوسری بات یہ کہ بڑے بڑے اداروں سے بھی جاہل ہی نکل رہے ہیں صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ روانی سے اردو انگریزی پڑھ لکھ لیتے ہیں اور بس!
الیکٹرانکس کے طالب علموں میں آج تک مجھے کوئی باصلاحیت نوجوان نظر‌ ‌‌آیا جس کو شوق ہو۔ بس ابا جان کی خواہش ہے بیٹا انجنیر بنے سو لگے ہوئے ہیں رحجان کے خلاف۔ یہی حال طب، قانون اور دیگر شعبوں کا ہے۔
کمپیوٹر سائنس میں بھی یہی حال ہے اس قدر ارزانی ہے کہ 3 ہزار روپے ماہوار پہ ایم سی ایس بندہ دستیاب ہے۔۔۔ وجہ وہی۔۔۔ کسی کو کچھ آتا جاتا ہی نہیں۔۔۔

دوسرا مسئلہ جو کہ شامل فہرست نہیں، بد عنوانی۔۔۔ اتنے کرپٹ لوگ! توبہ! بڑی بڑی سیٹوں پر چھوٹے قد کے لوگ براجمان ہیں۔۔۔

وسائل کی کمی: سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! بہت وسائل ہیں بہت زیادہ! تیل یورینیم لوہا کوئلہ زمینیں پہاڑ سمندر سب کچھ! مجھے مکینکس کے طالب علم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جی وسائل نہیں ہیں تحقیق کہاں سے ہو۔۔۔ یہی الیکٹرانکس والے کہتے ہیں۔۔۔ بابا کمپیوٹر کا دور ہے آٹو کیڈ سیکھو ڈیزائن بناؤ مشینوں کے بنی بنائی مشینیں ماڈل کرو اس پر اور نہیں اپنی ذاتی موٹر سائیکل کو کھول کر اس کے تمام پرزوں کے نقشے تیار کرنا سیکھو اس میں کتنے پیسے لگتے ہیں؟ ایک معمولی کمپیوٹر؟ بس؟ یہی الیکٹرانکس والوں کے لیے ہے کہ بھائی سمیولیٹرز موجود ہیں سرکٹ بناؤ اور چلا کر دیکھ لو کہ کیا ہوگا؟ بازار سے کسی بھی ٹی وی کی سرکٹ ڈایا گرام لے آؤ اور اسے چاٹنا شروع کر دو۔۔۔ سگنل اینڈ سسٹمز کا کورس اور سرکٹ اینالیسس کے کورس پڑھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔۔۔

بات یہ ہے کہ جب طے کر لیا ہو کہ کام ہی نہیں کرنا شوق ہی نہیں تو حجت ہزار۔۔۔
 

تفسیر

محفلین
.
.

راہنماوں۔

دسمبر میں لاس انجیلس کے انٹرنیشل مشاعرے میں میری ملاقات ہندوستان کی ایک شاعرہ سے ہوئ ۔ شاعری اور ادب کے موضوع پر کافی دیر بات ہوئ اور پھرگفتگو شاعری سے ہٹ کر تفصیلات پر آگی۔ ’ تفسیر صاحب آپ میرے اور میری شاعری کے مطالق اتنا جانتے ہیں۔ آپ انڈیا میں کہاں سے ہیں؟ ‘
میں نے مسکرا کر کہا۔’ جی میں کراچی سے ہوں ‘۔
پہلے توگڑبڑائیں۔ پھر ہنس کر بولیں۔’ آپ نے یہ مشہور کہنا تو سنا ہوگا۔ میں نے اپنےدشمن کو دیکھا ہے اور وہ میں خود ہوں ۔ اب دیکھیں میں کبھی ملک سے باہر نہیں نکلی ۔آپ پہلے پاکستانی ہیں جس سے میں نےکھل کر بات کی ہے۔ اور آپ تو بلکل میری طرح ہیں۔ اگر ہم میں مذہب ، ملک اور رسم و رواج کو ذریعہ اختلاف نہ بنائیں تو ہزاروں چیزیں اور ہیں جو ہم کو ایک بناتی ہیں‘۔۔۔۔

میری شاعرہ سچ کہتی ہے۔

اگر تعلیم ہمیں تعصب سے آذاد کرتی ہے تو ملاپ ہم کو یکجا کرتا ہے۔ جب آپ ایک انجانے کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے ہیں تو دشمن دوست نظر آتا ہے۔ یہ تو بلکل میرے ہی جیسا ہے۔

میرے راہ بروں ، راستے کھول دو۔ ہرگاوں کو پختہ راستوں سے ایک دوسرے گاوں سے ملادو۔ ہرگاوں کو شہر سے ملادو۔ شہر کو دوسرے شہر سے ملادو۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کو پبلک ٹرانس پورٹیشن کے ذریعہ ایک کردو۔ پبلک ٹرانس پورٹیشن کو عام کردو۔ راستے عوام الناس کے لیے کھولو ۔ کاروں کےلیے نہیں۔ اس سے تجارت میں فروغ ہوگا۔ اور ملتان کی ایک چائے گھر میں ایک عام پٹھان، ایک عام بلوچی، ایک عام سندھی اور ایک عام مہاجر آپس میں تجارتی لین دین کی باتیں کرتے ہوے کہیں گے ’ میں نےآج اپنے دشمن کو دیکھا ہے اور وہ میں خود ہوں‘۔

سید تفسیر احمد
.
.
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تفسیر نے کہا:
.دسمبر میں لاس انجیلس کے انٹرنیشل مشاعرے میں میری ملاقات ہندوستان کی ایک شاعرہ سے ہوئ ۔ شاعری اور ادب کے موضوع پر کافی دیر بات ہوئ اور پھرگفتگو شاعری سے ہٹ کر تفصیلات پر آگی۔ ’ تفسیر صاحب آپ میرے اور میری شاعری کے مطالق اتنا جانتے ہیں۔ آپ انڈیا میں کہاں سے ہیں؟ ‘
میں نے مسکرا کر کہا۔’ جی میں کراچی سے ہوں ‘۔
پہلے توگڑبڑائیں۔ پھر ہنس کر بولیں۔’ آپ نے یہ مشہور کہنا تو سنا ہوگا۔ میں نے اپنےدشمن کو دیکھا ہے اور وہ میں خود ہوں ۔ اب دیکھیں میں کبھی ملک سے باہر نہیں نکلی ۔آپ پہلے پاکستانی ہیں جس سے میں نےکھل کر بات کی ہے۔ اور آپ تو بلکل میری طرح ہیں۔ اگر ہم میں مذہب ، ملک اور رسم و رواج کو ذریعہ اختلاف نہ بنائیں تو ہزاروں چیزیں اور ہیں جو ہم کو ایک بناتی ہیں‘۔۔۔۔

میری شاعرہ سچ کہتی ہے۔

اگر تعلیم ہمیں تعصب سے آذاد کرتی ہے تو ملاپ ہم کو یکجا کرتا ہے۔ جب آپ ایک انجانے کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھتے ہیں تو دشمن دوست نظر آتا ہے۔ یہ تو بلکل میرے ہی جیسا ہے۔

سید تفسیر احمد
.
.[/size]

کیا بین السطور دو قومی نظریہ کو ایشو کی حیثیت حاصل ہے یا دی جائے گی؟

ایسی صورت میں پھر اس دھاگے کا موجودہ عنوان کس لئے ؟؟؟
 

تفسیر

محفلین
.
.
شگفتہ
السلام علیکم

میرے حل میں یہ حصہ پاکستان کے گاوں اور شہروں کے اندورنی mass transist ( سڑکوں ) اور ان کی ضرورت سے متعلق ہے۔

پہلا حصہ بنیادی اور ضروری تعلیم تھا -
دوسرا حصہ ذرائع سفراوران کی افادعت پر ہے۔

آپ بھی اس تھرڈ میں حصہ لیے کر پاکستان کے راہ نماؤں کو اپنے حل پیش کریں؟ ۔مجھے ان کا بہت بے چینی سے انتظار رہےگا۔

ہمارے ملک کا مستقبل آپ ہی نوجوان خواتین و حضرات کے ہاتھ میں ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کی اپنی سوچ کیا ہے؟

ولسلام

منتظر

تفسیر

.
.
 

تفسیر

محفلین
رہنماؤں

قوموں کی کامیابی کا راز

1 ۔ بنیادی اور ضروری تعلیم
2 ۔ ذرائع سفراوران کی افادعت
3 ۔ قوم کا کردار - تقویٰ

کہاجاتا کہ ایک زنجیر کی مضبوطی کا راز اسکی ہر ایک کڑی میں پنہاں ہے۔ زنجیرمیں ایک کمزور کڑی اور زنجیر ٹوٹ جائےگی۔ اسی طرح ایک قوم کی کامیاب کا راز اس کے افراد کی سیرت میں ہوتا۔ سیرت میں ایک نقص یا عیب اور قوم بکھر جاتی ہے۔ وہ کیا ایک ایسی انوکھی خصلت ہے وہ ہرانسان کو انسان بناتی ہے اور ہرقوم کو کامیابی کے دروازے پر لا کھڑا کرتی ہے؟ کیا تمام خوصیات انسانی میں ایک ایسا جوہر ہے جو کامیابی کی فول پروف کنجی ہے؟۔۔۔


جاری۔۔۔
.
 

تفسیر

محفلین
.


اقتباس نمبرا ۔۔۔تقویٰ

شام سہانی تھی۔ اماں جان اور سعدیہ دونوں سوئمنگ پُول کے قریب آرام دہ کرسیوں پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھاہوا تھا۔ اباجان حسب معمول کتب خانہ میں تھے۔ تمام رشتے داراور احباب جاچکے تھے۔
میں نے ماں سے پوچھا۔ ”اچھائی کیا ہوتی ہیں؟“
” تم کیوں پوچھتے ہو؟ کیا ابو کی باتیں کافی نہیں؟ “ ماں نے کہا۔
” ہاں ابو نے ہمیں اچھائی کو سمجھنے میں مدد دی۔ مگر میں آپ کا خیال بھی جاننا چاہتا ہوں“۔
ماں نے جھک کرسعدیہ کا ماتھا چوما۔ اور کہا۔” میرے خیال میں محبت انسان کی سب سے بڑی اچھائی ہے۔ جو تمام اچھائیوں کواپنے اندر سمالیتی ہے“۔
” محبت، اباجان نے تو اس کا ذکر ہم سے نہیں کیا؟ "میں نے حیرت سے کہا۔
ماں نے کہا۔ ” انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں اور تمارے ابو تمہیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں اس لیے تم سقراط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو “۔
” لیکن محبت میں نے اور تمہارے ابو نے تم اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کی تھی “۔
” مگر امی محبت تمام اچھائیوں کو کسے سما سکتی ہے؟ محبت کیا ہے؟" سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔
ماں نے کہا۔” اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ، رشتہ اورتعلق، شفقت ، بےقراری اور پرواہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی یکجہتی سے پیدا ہوتاہے “۔
” امی ، امی “۔ سعدیہ چلائ”۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا “۔
ماں مسکرائیں۔” اچھا، اچھا “۔
” میں تم سےمحبت کرتی ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سچ ہے “؟
” امی یہ کیسا سوال ہے؟ “ سادیہ نے ماں کی ناک موڑتے ہوے کہا”۔میں تو سارے جہاں سے زیادہ آپ سے محبت کرتی ہوں”۔
” مجھ سے بھی زیادہ “۔میں نے ہنس کر کہا۔
” بھول جائیے بھائ جان۔ آپ کا نمبر تیسرا ہے“۔ سعدیہ نے اماں کو آنکھ مار کر کہا۔
” محبت کرنا ایک گہرا جذبہ ہے “۔ ماں نے کہا۔
” تم مجھ سے کیوں محبت کرتی ہو ؟ "
”آپ میری امی ہیں “۔ سعدیہ نےماں کے گال چوم کرکہا۔
ماں نے کہا۔ ”رشتہ اور تعلق “
” کیا تم کو یاد ہے، تم نے اس ننھی سی بلی کو اپنے کمرے میں، اپنے بستر میں پناہ دی تھی“۔
” امی وہ بچاری تو بھوکی، بارش میں سردی سے مررہی تھی”۔ سادیہ نے شکایت کی۔
اور جب ہمارے شہر کا میونسپل بورڈ اوکھ کا سو سال پرانا درخت کاٹنا چاہتاتھا ۔ہم سب لوگ درخت کے چاروں طرف گھیرا ڈال کربیٹھے تھے تا کہ درخت کو کٹنے سے بچائیں تم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اور جب پولیس نے ہم کو جانے کو کہا اور ہم نہیں گئے ۔تب پولیس نے ہم سب کی آنکھوں میں لال مرچ ڈال دی ۔ تم روئیں مگر تم نے کہا۔ ماں ہم نہیں ہٹیں گے۔ یہ درخت ہم سب سے پہلے یہاں تھا جب ہم یہاں نہیں تھے۔ یہ ہمارے ایکو سسٹم میں برابر کا شریک ہے۔
جب سادیہ کو یاد آیا کہ تمام کوششوں باوجوددرخت کاٹاگیا۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
” اس کو ہم عصر کی پروا ہ کرنا کہتے ہیں“۔ اماں جان نے کہا۔
” اللہ کی تمام مخلوق ہماری ہم عصر ہے“۔
” اور جب کبھی تمہارے بھیا کالج سے وقت پر واپس نہیں آتے۔ توکون با ر بار پوچھتا ہے، امی ، بھائ جان نے کال کیا؟“ ۔
” وہ تو میں اس لئے پوچھتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ہیں کہ میں وقت پر واپس آؤں گا۔ میں انکی پروا تھوڑی کرتی ہوں“۔ سعدیہ نے شرارت سے کہا۔
ماں نے کہا۔” اس کو بے قراری کہتے ہیں“۔
اور جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس حملے کے خلاف کون سب لوگوں کے ساتھ شام کو موم بتیاں لے کر شاپنگ مال کے سامنے احتجاج کرنے کھڑا ہوتا ہے۔
سعدیہ مستی سے بولی۔ " بھائ جان “۔
ماں نے کہا۔" یہ دوسرے انسانوں کی پروا ہ کرنا ہے“۔
اللہ نےاس کائنات میں ایک بنیادی یکجہتی بنائی ہے اور ایک مقناطیسی لگاؤ ہر چیز کی بناوٹ میں ملا دیا ہے۔ اس یکجاپن اور مقناطیسی لگاؤ کو ہم اخلاقی محبت کہتے ہیں۔اب یہ انسان کا کام کہ وہ اس اچھائی کو ۔۔۔


جاری۔۔۔
.
 

تفسیر

محفلین
.

اقتباس نمبر2 ۔۔۔تقویٰ

۔۔۔ میں نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو انسان کہنے کے لیے آدمی کے پاس نہ صرف تقویٰ ہو بلکہ وہ اس تقویٰ کی اخلاقی استعمال کی ذمہ دار ی بھی لے ۔ایسا کرنے سے انسان ، انسانیت کی تکمیل پر پہنچے گا۔
" اس لیے تقویٰ علم حیات اور تہذیب کی نشوونما کا ملن ہے۔ تقویٰ، انسان کو انسانیت سیکھاتاہے”۔
سمل بولی”۔ اسلام بھی تو ہمیں پرہیزگاری اور اچھائیاں دیتا ہے”۔
اباجان نے اپنا سر اسطرح ہلایا جسے انکواس سوال کا انتظار تھا۔ تم نے “ایووروئیز“ کا نام سنا ہے؟ ہم سب نے یکجا ہو کر کہا۔کس کا؟
اباجان نے مُسکرا کر کہا۔ دہ شخص جو کہ سائنس کا شہزادہ ، علم فقہ ، ریاضی، طب اور فلسفہ کا ماہرتھا۔ہم سب نے یکجا ہو کر کہا، کون؟
محمد ابن رشد، بارویں صدی کا مسلم فلاسفر تھا ۔ جس کی کتابوں تخلیص ، جَامی، تفسیر نے۔ازمینہ وسطیٰ یورپ کی جدید ترقیوں کے ابتدا کے بیج بوئے۔ ابن رشد نے ٣٨ کتابیں فلسفہ پر لکھیں۔ بہت سی کتابیں علم ہیئیت ، علم موسیقی، علم شاعری اورعلم انشاء پر لکھیں۔اس کے علاوہ 8 جلدوں کا مجمع العلوم انسا ئیکلوپیڈیا، جس میں علم تشریع، تشخیص مرض ، علم الادویہ ، علم الامراض ، علم عضویات ، عملی اور دفاع مرض کو مفصل بیان کیا۔ اسکا ترجمہ اطالوی زبان میں ہوا۔ دنیا مسلم میں ابن رشد تَہَفُت التَہَفُت ، الفلسفہ اور مابادی الفلسفہ ، ان دو کتابوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
"واقعی ابن رشد علم کا شہزادہ تھا”۔ عمران نے کہا۔
اباجان نے گفتگو کو جاری رکھا”۔ ابن رشد اور ارسطو دونوں اس بات پراتفاق رکھتے ہیں کہ گہری سچائ کو معلوم کرنا بہت اہم ہے اور تجزیہ ، دلیل اورفلسفہ کی مدد سے انسان مکمل اوردائمی سچائ پر پہنچ سکتا ہے۔
ابن رشد ' شریعت ' پر یقین کرتا ہے۔ وہ قران پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اُس کو اس بات پر اعتماد ہے کہ فلسفہ ، مذہب کی منافقت نہیں بلکہ تصدیق کرتا ہے۔وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ کی تخلیق کو سمجھنا فلسفہ کا ایمان ہے۔۔۔


لنک ۔۔۔تقویٰ

ولسلام
سید تفسیر احمد
.
 
Top