پاکستان کی ساٹھ سالہ سیاسی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس دورانیے میں کس کس نے اور کیسے کیسے حکومتیں کیں ۔ حکومت کے لیئے پاور شئیرنگ دو طبقوں میں بٹی رہی ۔ ایک آرمی اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے جاگیردار ، سرمایہ دار ۔ کوئی تیسرا ان کے درمیان جگہ نہیں بنا سکا ۔ ساٹھ سالوں میں انہی دو گروپوں کے درمیان آنکھ مچولیاں ہوتیں رہیں ۔ عوام ہمیشہ آنکھ بند کر کے انہی کرپٹ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو اقتدار میں لاتی رہی اور پھر ان کے پیٹ بھرکے ڈکار لینے کے بعد آرمی اسٹیبلشمنٹ نے مختلف طریقوں سے اسی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ شخصیت پرستی اور جماعت پرستی بھی کیا چیز ہے ۔ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے ۔ ایک واضع منظر سامنے ہونے کے باوجود لوگ وہ تبدیلیاں لانے چاہتے ہیں جو خود بھی ان کے مفاد میں نہیں ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ انہی لوگوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں ۔ ہماری تاریخ یہ بھی ہے کہ ہم چند سالوں بعد تبدیلی کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور اس مقصد کے لیئے اپنے " مخلص قائدین " کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ اور اب یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہے ۔ تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ کونسا ہے ۔ ؟ ہم لیڈروں پر اپنا خاصا وقت صرف کرتے ہیں کیوں نا ایک نظر خود پر بھی ڈالیں کہ ہم خود سے کیا چاہتے ہیں ۔ میں جب بھی پاکستان گیا ، بڑی شاہراہوں پر بنے ہوئے واضع ٹریکس پر قوم کو ان کے درمیان چلتے ہوئے متوازی نہیں دیکھا ، ہم ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر اس حالت میں کیا کوئی قدم رکھنے کے اہل ہیں ۔ ؟ آپ میں سے کسی کے پاس کوئی جواب ہے ۔ ؟
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ شخصیت پرستی اور جماعت پرستی بھی کیا چیز ہے ۔ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے ۔ ایک واضع منظر سامنے ہونے کے باوجود لوگ وہ تبدیلیاں لانے چاہتے ہیں جو خود بھی ان کے مفاد میں نہیں ۔ مگر پھر بھی یہ لوگ انہی لوگوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں ۔ ہماری تاریخ یہ بھی ہے کہ ہم چند سالوں بعد تبدیلی کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں ۔ اور اس مقصد کے لیئے اپنے " مخلص قائدین " کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ اور اب یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہے ۔ تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ کونسا ہے ۔ ؟ ہم لیڈروں پر اپنا خاصا وقت صرف کرتے ہیں کیوں نا ایک نظر خود پر بھی ڈالیں کہ ہم خود سے کیا چاہتے ہیں ۔ میں جب بھی پاکستان گیا ، بڑی شاہراہوں پر بنے ہوئے واضع ٹریکس پر قوم کو ان کے درمیان چلتے ہوئے متوازی نہیں دیکھا ، ہم ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر اس حالت میں کیا کوئی قدم رکھنے کے اہل ہیں ۔ ؟ آپ میں سے کسی کے پاس کوئی جواب ہے ۔ ؟