قیامت کے دن میزان اور پل صراط کی کیفیت۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
میزان پر ہی سوال و حساب کا مدار ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جنت عرش کے داہنی جانب اور جہنم اس کے بائیں جانب رکھی جائے گی۔ اس کے بعد میزان لائی جائے گی اور نیکیوں کے پلڑے کو جنت کے مقابل اور بدیوں کے پلڑے کو جہنم کے مقابل رکھا جائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب چاہیں گے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے تو ندا ہو گی، کہاں ہیں محمد علیہ السلام اور ان کی امت۔۔۔اس وقت میں کھڑا ہوں گا اور میری امت میری پیروی کرے گی، ان کے اعضاء وضو چمکتے دمکتے ہوں گے۔ہمارے راستے سے دیگر امتوں کو ایک طرف کیا جائے گا اور جب لوگ اس امت کے درجہ و فضیلت کو دیکھیں گے تو وہ تعجب سے کہیں گے کہ قریب ہے کہ یہ امت ساری کی ساری نبی ہو جاتی۔
یہ بات پایہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ پہلے جس چیز کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خون کے قضیئے اور مقدمے ہوں گے (رواہ البخاری)۔ اور یہ بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہو گا۔ ان دونوں حدیثوں میں اولیت کی تطبیق اس طرح ہے کہ عبادات میں اول پرسش نماز کی ہوگی اور معاملات میں پہلی پرسش خون کی ہو گی۔ قرطبی فرماتے ہیں کہ صراط پر سے کوئی بندہ اس وقت تک نہ گزر پائے گا جب تک کہ اس سے سات مرحلہ میں سوال نہ پوچھ لیے جائیں۔ پہلے مرحلہ پر کلمہ شہادت ، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ، پر ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اگر وہ اخلاص کے ساتھ ایمان لایا ہے تو گزر جائے گا۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے پر نماز کے بارے میں سوال ہو گا، اگر اس نے اہتمام کے ساتھ ادا کی ہے توگزر جائے گا، تیسرے مرحلے پر ماہ رمضان کے روزے، چوتھے مرحلے پر زکوٰۃ ، پانچویں پر حج وعمرہ، چھٹے پر غسل و وضو یعنی طہارت اور ساتویں مرحلے پر لوگوں پر ظلم و زیادتی یعنی حقوق العباد سے سوال کیا جائے گا، یہ مرحلہ دشوار اور سخت تر ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ بالفرض اگر اس کے پاس ستر نبیوں کے برابر اجر و ثواب ہے اور اس پر نصف دانہ کے برابر حق العباد ہے تو وہ اس وقت تک نہ گزرے گا جب تک کہ حق والے کو راضی نہ کر لے۔
سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ بندہ کا آخری کلام کلمہ طیبہ ہو جیسا کہ حضرت معاذ کی حدیث میں آیا ہے کہ فرمایا کہ جس کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، جو شخص کسی بھائی کی حاجت و ضرورت کو پورا کرے میں روز قیامت اس کے میزان پر کھڑا ہوں گا، اگر نیکیاں غالب رہیں تو فبہا، ورنہ اس کی شفاعت کروں گا۔
مشائخ عظام کی خبروں میں ہے کہ کسی نے کسی سے خواب میں پوچھا کہ حق تعالٰی نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا ، اس نے کہا میرے اعمال تولے گئے تو نیکیوں پر بدیوں کا پلڑا بھاری رہا، اس وقت یکا یک ایک تھیلی نیکیوں کے پلڑے میں آ پڑی تو وہ بھاری ہو گیا ، پھر میں نے اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں وہ ایک مٹھی خاک تھی جو میں نے ایک مسلمان کی قبر میں ڈالی تھی۔
مواہب لدنیہ میں عجیب و غریب حکایتیں لکھی ہیں کہ ایک بندے کے دونوں پلڑے برابر ہوں گے تو اس سے کہا جائے گا کہ تو نہ جنت کا مستحق ہے نہ جہنم کا۔ پھر ایک فرشتہ ایک کاغذ کا ٹکڑا لائے گا جس پر اُف یعنی باپ کی نافرمانی لکھی ہو گی اس کو پلڑے میں رکھ دے گا اس پر نیکیوں پر بدیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ یہ باپ کی نافرمانی کے کلمہ کی بنا پر ہو گا۔ اس بندے کو جہنم کی جانب لے جانے کا حکم ہو گا تو وہ بندہ درخواست کرے گا کہ مجھے بارگاہ الٰہی میں حاضر کرو، حکم ہو گا لے آؤ۔ پھر حق تعالٰی فرمائے گا، اے باپ کے نافرمان بندے، تو نے دوبارہ میرے پاس حاضر ہونے کی کیوں درخواست کی۔ وہ بندہ عرض کرے گا، خدا وندا، میں اپنے باپ کا نافرمان تھا مگر میں نے دیکھا کہ وہ دوزخ کی جانب میری طرح لے جایا جا رہا ہے، تو میں تجھ سے درخواست کروں گا کہ میرے باپ کو نجات اور رہائی دیدے اور اس کے بدلے میرا عذاب دونا کر دے۔ اس پر حق تعالٰی تبسم فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے اور فرمائے گا: اے بندے، تو نے دنیا میں باپ کی نافرمانی کی اور آخرت میں اس پر مہربانی کرتا ہے تو تو اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور دونوں جنت میں چلے جاؤ۔۔۔(سبحان اللہ وبحمدہ)

(مدارج النبوۃ از شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
 

محمد وارث

لائبریرین
مواہب لدنیہ میں عجیب و غریب حکایتیں لکھی ہیں کہ ایک بندے کے دونوں پلڑے برابر ہوں گے تو اس سے کہا جائے گا کہ تو نہ جنت کا مستحق ہے نہ جہنم کا۔ پھر ایک فرشتہ ایک کاغذ کا ٹکڑا لائے گا جس پر اُف یعنی باپ کی نافرمانی لکھی ہو گی اس کو پلڑے میں رکھ دے گا اس پر نیکیوں پر بدیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ یہ باپ کی نافرمانی کے کلمہ کی بنا پر ہو گا۔ اس بندے کو جہنم کی جانب لے جانے کا حکم ہو گا تو وہ بندہ درخواست کرے گا کہ مجھے بارگاہ الٰہی میں حاضر کرو، حکم ہو گا لے آؤ۔ پھر حق تعالٰی فرمائے گا، اے باپ کے نافرمان بندے، تو نے دوبارہ میرے پاس حاضر ہونے کی کیوں درخواست کی۔ وہ بندہ عرض کرے گا، خدا وندا، میں اپنے باپ کا نافرمان تھا مگر میں نے دیکھا کہ وہ دوزخ کی جانب میری طرح لے جایا جا رہا ہے، تو میں تجھ سے درخواست کروں گا کہ میرے باپ کو نجات اور رہائی دیدے اور اس کے بدلے میرا عذاب دونا کر دے۔ اس پر حق تعالٰی تبسم فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے اور فرمائے گا: اے بندے، تو نے دنیا میں باپ کی نافرمانی کی اور آخرت میں اس پر مہربانی کرتا ہے تو تو اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور دونوں جنت میں چلے جاؤ۔۔۔(سبحان اللہ وبحمدہ)

(مدارج النبوۃ از شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
جب کہ اس طرح کی احادیث بھی ملتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب کے (یعنی رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی تو باپ بیٹے کا کیسا تعلق)۔
 

الشفاء

لائبریرین
(یعنی رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی تو باپ بیٹے کا کیسا تعلق)۔
اچھا سوال ہے۔ دراصل یہ سطور ہم نے مذکورہ کتاب سے بطور اقتباس مطالعہ کتب کے زمرے میں نقل کی تھیں۔ لیکن شاید کسی مدیر نے ان کو اس زمرے (جو تحت ادارت ہے) میں منتقل کر دیا جس کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔۔۔
بہرحال جہاں تک سوال کا تعلق ہے تو حدیث سے ایسا کوئی مفہوم نہیں نکل رہا کہ رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی۔ کیونکہ کئی آیات و احادیث سے واضح ہے کہ رشتوں کی پہچان باقی رہے گی۔ جیسے کہ مشہور احادیث ہیں کہ کم سنی میں وفات پا جانے والے بچے اپنے والدین کی بخشش کروائیں گے، اسی طرح حافظ قرآن کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کا نور سورج کی روشنی کو ماند کرے گا، اور اسی طرح حافظ قرآن اپنے خاندان کے متعدد ایسے افراد کو اپنی شفاعت سے جنت میں لے جائے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔ اسی طرح کئی قرآنی آیات میں بھی اس طرح کا مضمون ہے کہ بھائی بھائی سے بھاگے گا اور اولاد و والدین ایک دوسرے بھاگیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ پہچان کے ساتھ ہی ہو گا اور بھاگنے کی وجہ یہ ہو گی کہ وہ اپنے کسی حق کا مطالبہ نہ کر لیں۔ اس وقت جو آیت ہمارے ذہن میں آرہی ہے بطور برکت نقل کر دیتے ہیں، امید ہے کہ نافع ہو گی۔۔۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ۔
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور اُن کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی۔ (سورۃ الطور، آیت نمبر 21)

تفسیر طراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی جس اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اس اولاد کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں ان کے ساتھ ملادیں گے کہ اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں تو ان کی خوشی کے لئے اُن کی اولاد بھی اُن کے ساتھ ملادی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گااور ان والدین کے عمل کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی بلکہ انہیں ان کے اعمال کا پورا ثواب دیا جائے گااور اولاد کے درجے اپنے فضل و کرم سے بلند کئے جائیں گے۔(تفسیر خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۸۷-۱۸۸، ملخصاً)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اچھا سوال ہے۔ دراصل یہ سطور ہم نے مذکورہ کتاب سے بطور اقتباس مطالعہ کتب کے زمرے میں نقل کی تھیں۔ لیکن شاید کسی مدیر نے ان کو اس زمرے (جو تحت ادارت ہے) میں منتقل کر دیا جس کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔۔۔
بہرحال جہاں تک سوال کا تعلق ہے تو حدیث سے ایسا کوئی مفہوم نہیں نکل رہا کہ رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی۔ کیونکہ کئی آیات و احادیث سے واضح ہے کہ رشتوں کی پہچان باقی رہے گی۔ جیسے کہ مشہور احادیث ہیں کہ کم سنی میں وفات پا جانے والے بچے اپنے والدین کی بخشش کروائیں گے، اسی طرح حافظ قرآن کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کا نور سورج کی روشنی کو ماند کرے گا، اور اسی طرح حافظ قرآن اپنے خاندان کے متعدد ایسے افراد کو اپنی شفاعت سے جنت میں لے جائے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔ اسی طرح کئی قرآنی آیات میں بھی اس طرح کا مضمون ہے کہ بھائی بھائی سے بھاگے گا اور اولاد و والدین ایک دوسرے بھاگیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ پہچان کے ساتھ ہی ہو گا اور بھاگنے کی وجہ یہ ہو گی کہ وہ اپنے کسی حق کا مطالبہ نہ کر لیں۔ اس وقت جو آیت ہمارے ذہن میں آرہی ہے بطور برکت نقل کر دیتے ہیں، امید ہے کہ نافع ہو گی۔۔۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ۔
اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور اُن کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی۔ (سورۃ الطور، آیت نمبر 21)

تفسیر طراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی جس اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی توہم ان کی اس اولاد کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں ان کے ساتھ ملادیں گے کہ اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں تو ان کی خوشی کے لئے اُن کی اولاد بھی اُن کے ساتھ ملادی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گااور ان والدین کے عمل کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی بلکہ انہیں ان کے اعمال کا پورا ثواب دیا جائے گااور اولاد کے درجے اپنے فضل و کرم سے بلند کئے جائیں گے۔(تفسیر خازن، الطور، تحت الآیۃ: ۲۱، ۴ / ۱۸۷-۱۸۸، ملخصاً)
سورہ مومنون کے یہ آیت 101 دیکھیے جس سے صاف مطلب نکل رہا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو کوئی نسب نہیں رہے گا:

فَاِذَا نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان میں نہ رشتہ داریاں رہیں گی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا

اور عام طور پر اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضور پاک کی وہ احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب کے۔ نمونے کے طور پر دو تین تفاسیر کا ربط پیش ہے دیگر آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں:



 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
سورہ مومنون کے یہ آیت 101 دیکھیے جس سے صاف مطلب نکل رہا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو کوئی نسب نہیں رہے گا:

فَاِذَا نُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان میں نہ رشتہ داریاں رہیں گی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا

اور عام طور پر اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضور پاک کی وہ احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب کے۔ نمونے کے طور پر دو تین تفاسیر کا ربط پیش ہے دیگر آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں:




وارث بھائی یہاں دو چیزیں ہیں۔ ایک ہے رشتے قائم رہنا اور دوسری ہے ان کی پہچان قائم رہنا۔ ہماری بحث آخرالذکر کے بارے میں ہے جیسا کہ آپ کا سوال تھا۔
(یعنی رشتہ داروں کی کوئی پہچان ہی نہیں رہے گی تو باپ بیٹے کا کیسا تعلق)۔
آیت کی رو سے رشتے داریاں ختم ہو جائیں گی سوائے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے رشتوں کے۔ لیکن رشتے داروں کی پہچان تو باقی رہے گی، نہ صرف قیامت کے دن بلکہ جنت میں بھی۔ جس کے متعلق آیت ہم نے اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھی ہے۔ اور پہچان تو نہ صرف رشتہ داروں کی رہے گی بلکہ دوست احباب کی بھی رہے گی تبھی تو بری صحبت رکھنے والے ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے کہ تمہاری وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ جیسا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔۔۔
اسی طرح جو ربط آپ نے دیے ہیں ان میں بھی یہی ہے کہ لوگوں کے درمیان کوئی رشتے نہ رہیں گے جن پر وہ دنیا میں فخر کیا کرتے تھے اوران میں آپس کے نسبی تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور رشتے داری کی محبتیں باقی نہ رہیں گی اور یہ حال ہوگا کہ آدمی اپنے بھائیوں ، ماں باپ، بیوی اور بیٹوں سے بھاگے گا اوراس وقت نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گےجیسا کہ دنیا میں پوچھتے تھے کیونکہ ہر ایک اپنے ہی حال میں مبتلا ہوگا۔
تفسیر ابن کثیر کا جو ربط آپ نے دیا ہے اس میں بھی یہی ہے کہ
اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہو گی، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی۔ عجب آپا دھاپی ہو گی۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ» [ 70-المعارج: 10، 11 ] ‏‏‏‏ کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا، جیسے قرآن میں ہے کہ «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ» [ 80-عبس: 34- 37 ] ‏‏‏‏ اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا“سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا

یعنی آپسی تعلقات اور رشتہ داریاں تو ختم ہو جائیں گی لیکن ان کی پہچان بدرجہ اتم موجود ہو گی تبھی تو ان کے درمیان عدل و انصاف کا حکم دیا جائے گا۔ ورنہ اگر آپس کی پہچان ہی باقی نہ رہے تو پھر تو عدل و انصاف کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔۔۔
واللہ ورسولہ اعلم۔۔۔
 
Top