جاسم محمد
محفلین
قیدی نمبر 3422 کا شکریہ
زہرہ نعمان
زندگی کے ریلے میں بہتے بہتے دارالحکومت اسلام آباد پہنچی۔ یہاں ایک عالمی نشریاتی ادارے کی بالکنی میں بیٹھ کر اقتدار کی غلام گردشیں دیکھیں۔ مقدر کا ستارہ اب برطانیہ لے آیا ہے۔ کچھ فاصلے پر بیگم کلثوم نواز ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کے شوہر میاں نوازشریف اور بیٹی مریم نواز ان کے سرہانے موجود تھیں۔ پاکستان کی عدالتوں نے انہیں مجرم قرار دے دیاگیا۔ ان ”مجرموں “ نے بیگم کلثوم نواز کو اللہ کے حوالے کرکے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے برطانیہ سے واپس پاکستان کا سفر کرتے دیکھا تھا کچھ وقت کے لیے اپنی زندگی کے اس عرصے پر نگاہ ڈالی جو پاکستان میں گزرا۔ کچھ بے ربط خیالات دماغ میں مچل رہے ہیں۔ سوچا کیوں نہ قلم بند کردوں۔
میری سیاسی تعلیم کا پہلی درس گاہ میرے نانا کی حویلی ہے۔ جہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جاتے تھے۔ 7 اگست 1988 کو جب ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا تو ابا حضور فوج میں افسر تھے۔ تو آج تک یہ سمجھنے میں دشواری رہی کہ جہاز حادثے والے دن نانا کی حویلی امیر المومنین ضیا الحق کے غم میں سوگوار تھی یا جنرل ضیا الحق کے غم میں۔ والد کی افسری دیکھتی ہوں تو لگتا ہے یہ سوگ آمر ضیا الحق کا نہیں تھا۔ مگر جب دیکھتی ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ایم ایم اے کے امیدوار کو دیا تھا تو لگتا ہے کچھ وجہ امیرالمومنی بھی رہی ہوگی۔
ایم ایم اے کوپہلا ووٹ دینے کی وجہ بھی یہ رہی کہ میرے گھر میں میرے ووٹ کا فیصلہ کرنے والے سمجھتے تھے کہ اگر ایم ایم اے کو ووٹ نہ دیا تو اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ دوسری دفعہ الیکشن میں میرا ووٹ میری برادری کے ایک شخص کو پڑا، میں آج بھی نہیں جانتی کہ ان صاحب کے سیاسی نظریات کیا ہیں، مگرآج برطانیہ سے مڑکردیکھتی ہوں تو یہ بات یقین سے لکھ پارہی ہوں کہ ان دونوں دفعہ میں تاریخ کی غلط سمت میں کھڑی تھی۔ تب نہیں پتہ تھا مگر اب علم ہورہا ہے تو اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں بہت اطمینان محسوس کررہی ہوں۔
میرے فطری تجسس نے سوال کرنا شروع کیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ منظر میں دھندلاہٹ کم ہونا شروع ہوگئی۔ مجھے عاصمہ جہانگیر کے دوپٹے اور سگرٹ سے زیادہ ان کا ہر مظلوم کا ساتھ دینا صحیح لگنے لگا، مجھے فوج کا سیاست میں کسی بھی قسم کا کردار بالکل غیر ضروری محسوس ہونے لگا، مجھے بی بی شہید اور نواز شریف کی سیاست میں کسی ان دیکھی طاقت کی مداخلت کھٹکنے لگی، اور تو اور مجھے میثاق جمہوریت امید کی ایک کرن محسوس ہوئی۔ میرے سیاسی نظریات اپنے خاندان سے مختلف ہو رہے تھے۔ میں فوج کے ولولہ انگیز نغمے سنتی بڑی ہوئی تھی مگر میں والد صاحب کے ساتھ فوج کے کردار پر سوال اٹھاتی رہی۔ ان کی دلیلوں میں آخری دلیل ہمیشہ یہی رہی کہ جب سب سیاستدان ہی ایسے ہیں، فوج کی گود میں پلے ہیں تو فوج مداخلت کیوں نہ کرے۔
میثاق جمہوریت کے بعد میری بدلتی سیاسی سوچ میں مزید پختگی آتی ہے کہ اس ملک کی آخری امید سیاستدان ہیں اور جمہوری تبدیلی ہی آخری اور واحد حل ہے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں جو بی بی شہید کو واضح مزاحمتی طاقت کے طور پر ابھرتا دیکھ رہے تھیں، برداشت نہ کرسکیں۔ بی بی کی شہادت اور اس قربانی کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔ ورائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے مگرحکومتیں اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنتے ہیں اورہمیں ایک بدلا ہوا نواز شریف نظر آتا ہے۔ جو ہولی مناتا ہے، احمدیوں کے قتل نا حق پے آواز اٹھاتا ہے، ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کے علمی مقام کے مطابق اعزاز دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اداروں کے ان کی آئینی حدود میں رہنے کو ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے ارد گرد جمہوریت کو مقدم رکھنے والی سوچ کے مالک اپنی وفا اور نظریے دونوں کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور قربانی بھی دیتے ہیں۔ اب ہتھیار کے طور پر عمران خان کے دھرنے اور خادم رضوی کے گالم گلوچ سے بھرپور نظریے کو مقدس نام دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے۔
نواز شریف ابھی برطانیہ سے چلے نہیں تھے تومیں سوچ رہی تھی کہ نواز شریف تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پر یا وہ لیڈر و رہبر بن کر تاریخ میں امر ہوجائے گا یا پھر ایک سیاستدان بن کرتاریخ میں دفن ہو جائے گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کی بیٹی نواز شریف کو حوصلہ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ڈٹ جائیں، بہت دفعہ حکومت کر لی، اب کچھ پاکستان کے لیے کریں۔ وزات عظمیٰ کی غلام گردشوں میں بہت بھٹک لیا، اس ملک میں 70 سالوں میں کسی وزیر اعظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا، آیندہ بھی نہیں کرنے دیا جائے گا، اگر آج نہ کھڑے ہوئے۔ نواز شریف ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور مریم اپنے باپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ نا صرف عملی میدان میں اترتی ہے، بلکہ دور جدید کے سب سے طاقتور ہتھیار ” سوشل میڈیا ” کو بھی بخوبی استعمال کرتی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ گونج اٹھتا ہے۔ مریم باپ کے ساتھ 100 سے زیادہ پیشیاں بھگت چکی ہے، پھر شدید علیل والدہ کی عیادت کے لیے جاتی ہے، تو جو طاقتیں عدالت اور میڈیا میں فیصلہ سنایا کرتی ہیں، وہ سزا کا فیصلہ سنا دیتی ہیں۔ مریم پھر اپنے باپ کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ کسی کو امید اور توقع نہیں تھی، خود نون لیگ کے رہنما اب اس بیانیہ کے وجہ سے تذبذب کا شکار تھے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ واپس آتے ہیں، گرفتار ہوتے ہیں اور راتوں رات اڈیالہ جیل پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مریم قیدی نمبر 3422 بنتی ہے اور اس کا جیل سے پہلا تحریری بیان آتا ہے کہ وہ جیل میں کلاس کی تبدیلی کی درخواست نہیں دے گی۔ نواز شریف دو ہزاراٹھارہ کا الیکشن ہار چکے مگر میں بہت واضح طور پر یہ محسوس کر رہی ہوں کہ یہ جنگ نواز شریف جیت گئے ہیں۔
میں اب یہاں سے اس لڑکی کو دیکھتا ہوں جو پاکستان میں بھٹک رہی تھی اور اس کی سوچ فریب کے پردوں سے نکل کر اب ماحول کی دھندلکوں سے بھی نکل کرنکھر رہی ہے، تو استاد محترم وجاہت مسعود اور قیدی نمبر 3422 کا شکریہ ادا کرنے کا جی چاہ رہا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے اسباق میں نے کچھ سالوں پہلے وجاہت مسعود کی تحریروں میں پڑھنا شروع کیا۔ اس سبق کو قیدی نمبر 3422 کی عملی سیاست میں پختہ ہوتے دیکھا۔ ایک صحافی کے لیے سیاسی طور پر جانبدار ہونے کو معیوب سمجھاجاتا ہے۔ مگر میں اس سمت میں کھڑی ہونا چاہ رہی ہوں جس سمت میں نواز شریف کھڑے ہیں۔ میں آنے والی نسل کو فخر سے بتانا چاہتی ہوں کہ فیصلہ کن جنگ میں میں قیدیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ کیونکہ قیدی ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔
زہرہ نعمان
زندگی کے ریلے میں بہتے بہتے دارالحکومت اسلام آباد پہنچی۔ یہاں ایک عالمی نشریاتی ادارے کی بالکنی میں بیٹھ کر اقتدار کی غلام گردشیں دیکھیں۔ مقدر کا ستارہ اب برطانیہ لے آیا ہے۔ کچھ فاصلے پر بیگم کلثوم نواز ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کے شوہر میاں نوازشریف اور بیٹی مریم نواز ان کے سرہانے موجود تھیں۔ پاکستان کی عدالتوں نے انہیں مجرم قرار دے دیاگیا۔ ان ”مجرموں “ نے بیگم کلثوم نواز کو اللہ کے حوالے کرکے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے برطانیہ سے واپس پاکستان کا سفر کرتے دیکھا تھا کچھ وقت کے لیے اپنی زندگی کے اس عرصے پر نگاہ ڈالی جو پاکستان میں گزرا۔ کچھ بے ربط خیالات دماغ میں مچل رہے ہیں۔ سوچا کیوں نہ قلم بند کردوں۔
میری سیاسی تعلیم کا پہلی درس گاہ میرے نانا کی حویلی ہے۔ جہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جاتے تھے۔ 7 اگست 1988 کو جب ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا تو ابا حضور فوج میں افسر تھے۔ تو آج تک یہ سمجھنے میں دشواری رہی کہ جہاز حادثے والے دن نانا کی حویلی امیر المومنین ضیا الحق کے غم میں سوگوار تھی یا جنرل ضیا الحق کے غم میں۔ والد کی افسری دیکھتی ہوں تو لگتا ہے یہ سوگ آمر ضیا الحق کا نہیں تھا۔ مگر جب دیکھتی ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ایم ایم اے کے امیدوار کو دیا تھا تو لگتا ہے کچھ وجہ امیرالمومنی بھی رہی ہوگی۔
ایم ایم اے کوپہلا ووٹ دینے کی وجہ بھی یہ رہی کہ میرے گھر میں میرے ووٹ کا فیصلہ کرنے والے سمجھتے تھے کہ اگر ایم ایم اے کو ووٹ نہ دیا تو اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ دوسری دفعہ الیکشن میں میرا ووٹ میری برادری کے ایک شخص کو پڑا، میں آج بھی نہیں جانتی کہ ان صاحب کے سیاسی نظریات کیا ہیں، مگرآج برطانیہ سے مڑکردیکھتی ہوں تو یہ بات یقین سے لکھ پارہی ہوں کہ ان دونوں دفعہ میں تاریخ کی غلط سمت میں کھڑی تھی۔ تب نہیں پتہ تھا مگر اب علم ہورہا ہے تو اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں بہت اطمینان محسوس کررہی ہوں۔
میرے فطری تجسس نے سوال کرنا شروع کیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ منظر میں دھندلاہٹ کم ہونا شروع ہوگئی۔ مجھے عاصمہ جہانگیر کے دوپٹے اور سگرٹ سے زیادہ ان کا ہر مظلوم کا ساتھ دینا صحیح لگنے لگا، مجھے فوج کا سیاست میں کسی بھی قسم کا کردار بالکل غیر ضروری محسوس ہونے لگا، مجھے بی بی شہید اور نواز شریف کی سیاست میں کسی ان دیکھی طاقت کی مداخلت کھٹکنے لگی، اور تو اور مجھے میثاق جمہوریت امید کی ایک کرن محسوس ہوئی۔ میرے سیاسی نظریات اپنے خاندان سے مختلف ہو رہے تھے۔ میں فوج کے ولولہ انگیز نغمے سنتی بڑی ہوئی تھی مگر میں والد صاحب کے ساتھ فوج کے کردار پر سوال اٹھاتی رہی۔ ان کی دلیلوں میں آخری دلیل ہمیشہ یہی رہی کہ جب سب سیاستدان ہی ایسے ہیں، فوج کی گود میں پلے ہیں تو فوج مداخلت کیوں نہ کرے۔
میثاق جمہوریت کے بعد میری بدلتی سیاسی سوچ میں مزید پختگی آتی ہے کہ اس ملک کی آخری امید سیاستدان ہیں اور جمہوری تبدیلی ہی آخری اور واحد حل ہے۔ دوسری طرف وہ طاقتیں جو بی بی شہید کو واضح مزاحمتی طاقت کے طور پر ابھرتا دیکھ رہے تھیں، برداشت نہ کرسکیں۔ بی بی کی شہادت اور اس قربانی کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔ ورائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے مگرحکومتیں اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنتے ہیں اورہمیں ایک بدلا ہوا نواز شریف نظر آتا ہے۔ جو ہولی مناتا ہے، احمدیوں کے قتل نا حق پے آواز اٹھاتا ہے، ڈاکٹر عبدالسلام کو ان کے علمی مقام کے مطابق اعزاز دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اداروں کے ان کی آئینی حدود میں رہنے کو ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے ارد گرد جمہوریت کو مقدم رکھنے والی سوچ کے مالک اپنی وفا اور نظریے دونوں کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور قربانی بھی دیتے ہیں۔ اب ہتھیار کے طور پر عمران خان کے دھرنے اور خادم رضوی کے گالم گلوچ سے بھرپور نظریے کو مقدس نام دے کر میدان میں اتارا جاتا ہے۔
نواز شریف ابھی برطانیہ سے چلے نہیں تھے تومیں سوچ رہی تھی کہ نواز شریف تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پر یا وہ لیڈر و رہبر بن کر تاریخ میں امر ہوجائے گا یا پھر ایک سیاستدان بن کرتاریخ میں دفن ہو جائے گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کی بیٹی نواز شریف کو حوصلہ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ڈٹ جائیں، بہت دفعہ حکومت کر لی، اب کچھ پاکستان کے لیے کریں۔ وزات عظمیٰ کی غلام گردشوں میں بہت بھٹک لیا، اس ملک میں 70 سالوں میں کسی وزیر اعظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا، آیندہ بھی نہیں کرنے دیا جائے گا، اگر آج نہ کھڑے ہوئے۔ نواز شریف ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور مریم اپنے باپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ نا صرف عملی میدان میں اترتی ہے، بلکہ دور جدید کے سب سے طاقتور ہتھیار ” سوشل میڈیا ” کو بھی بخوبی استعمال کرتی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ گونج اٹھتا ہے۔ مریم باپ کے ساتھ 100 سے زیادہ پیشیاں بھگت چکی ہے، پھر شدید علیل والدہ کی عیادت کے لیے جاتی ہے، تو جو طاقتیں عدالت اور میڈیا میں فیصلہ سنایا کرتی ہیں، وہ سزا کا فیصلہ سنا دیتی ہیں۔ مریم پھر اپنے باپ کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ کسی کو امید اور توقع نہیں تھی، خود نون لیگ کے رہنما اب اس بیانیہ کے وجہ سے تذبذب کا شکار تھے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ واپس آتے ہیں، گرفتار ہوتے ہیں اور راتوں رات اڈیالہ جیل پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مریم قیدی نمبر 3422 بنتی ہے اور اس کا جیل سے پہلا تحریری بیان آتا ہے کہ وہ جیل میں کلاس کی تبدیلی کی درخواست نہیں دے گی۔ نواز شریف دو ہزاراٹھارہ کا الیکشن ہار چکے مگر میں بہت واضح طور پر یہ محسوس کر رہی ہوں کہ یہ جنگ نواز شریف جیت گئے ہیں۔
میں اب یہاں سے اس لڑکی کو دیکھتا ہوں جو پاکستان میں بھٹک رہی تھی اور اس کی سوچ فریب کے پردوں سے نکل کر اب ماحول کی دھندلکوں سے بھی نکل کرنکھر رہی ہے، تو استاد محترم وجاہت مسعود اور قیدی نمبر 3422 کا شکریہ ادا کرنے کا جی چاہ رہا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے اسباق میں نے کچھ سالوں پہلے وجاہت مسعود کی تحریروں میں پڑھنا شروع کیا۔ اس سبق کو قیدی نمبر 3422 کی عملی سیاست میں پختہ ہوتے دیکھا۔ ایک صحافی کے لیے سیاسی طور پر جانبدار ہونے کو معیوب سمجھاجاتا ہے۔ مگر میں اس سمت میں کھڑی ہونا چاہ رہی ہوں جس سمت میں نواز شریف کھڑے ہیں۔ میں آنے والی نسل کو فخر سے بتانا چاہتی ہوں کہ فیصلہ کن جنگ میں میں قیدیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ کیونکہ قیدی ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔