دبیر قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے (مکمل مرثیہ) - مرزا دبیر

حسان خان

لائبریرین
قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے
دخترِ فاطمہ غیرت سے موئی جاتی ہے
روح قالب میں، وہ زندان میں گھبراتی ہے
بے حواسی سے ہر اک بار یہ چلاتی ہے
آسماں دور، زمیں سخت کدھر جاؤں میں
بیبیو مل کے دعا مانگو کہ مر جاؤں میں
آمدِ ہند کا غل عترتِ شبیر میں ہے
شورِ ماتم، حرمِ صاحبِ تطہیر میں ہے
دخترِ فاطمہ، روپوشی کی تدبیر میں ہے
کہتی ہے جاؤں کہاں، پاؤں تو زنجیر میں ہے
کس غضب کی یہ خجالت ہے دہائی لوگو
ہند آ پہنچی مجھے موت نہ آئی لوگو
جا کے دربانوں کو قسمیں دو کہ بہرِ سبحاں
کوئی کھلوائے نہ تم کھولیو قفلِ زنداں
رات کا وقت ہے بچے ہیں ہمارے ناداں
گر نکل جائیں گے تو ہم انہیں ڈھونڈیں گے کہاں
حاکمِ شام کا کل تم پہ عتاب آئے گا
اور ہمارا تو گلا پہلے ہی کٹ جائے گا
کیا کروں، کیا نہ کروں، جلد بتاؤ لوگو
صدقہ اکبر کا، حقارت سے بچاؤ لوگو
اوٹ کر کے ہو کھڑے، مجھ کو چھپاؤ لوگو
یا کسی کونے میں لے جا کے بٹھاؤ لوگو
سر کھلے ہوں، کسی حجرے میں مجھے بند کرو
یہ بھی ممکن نہ ہو تو خاک کا پیوند کرو
سلطنت پر ہے وہ نازاں، میں اسیر و مجبور
منہ بھی بالوں سے چھپاؤں گی تو سمجھے گی غرور
آمدِ حرف میں کہہ بیٹھے گی یہ ہند ضرور
بی بی دربار میں تو جاتی تھی مردوں کے حضور
ایسی غیرت تھی تو بلوے میں نہ آئی ہوتی
حلق پر اپنے چھری آپ پھرائی ہوتی
شرم بازار میں کل تم کو نہ آئی بی بی
واں تو گرد اونٹوں کے تھی ساری خدائی بی بی
شمر کے خوف سے گردن نہ جھکائی بی بی
دیکھ کر مجھ کو عبث شکل چھپائی بی بی
ہند جو چاہے گی بڑھ کر مجھے کہہ جائے گی
دخترِ فاطمہ منہ دیکھ کے رہ جائے گی
اور جو پہچان کے مجھ سے کیا خُلق و احساں
لونڈیاں ہند کی گھبرا کے کریں گی یہ بیاں
بی بی کچھ خیر ہے زینب کہاں زندان کہاں
باپ تو عقدہ کشا بیٹی اسیرِ زنداں
بے ردائی ہے تباہی ہے پریشانی ہے
توبہ توبہ یہ نبی زادی ہے سیدانی ہے
کس طرح ہند کے آنے سے نہ گھبراؤں میں
بنتِ حیدر ہوں نہ کیوں قید میں شرماؤں میں
کوئی دیوار جو شق ہو تو مفر پاؤں میں
سیدھی ماں جائے کے مقتل کو چلی جاؤں میں
کربلا میں نہ یہ ذلت ہے نہ رسوائی ہے
بے ردا میں ہوں تو بے گور مرا بھائی ہے
لے کے لاشے کی بلائیں کہوں حالِ زنداں
ہند واں آئی تھی بھیا میں چلی آئی یہاں
تھا یہی خوف کہ گھبرا کے کرے گی وہ بیاں
اے پیمبر کی نواسی تو اسیروں میں کہاں
قابلِ طوق ہوئی لائقِ زنجیر ہوئی
کیا گنہ تجھ سے ہوا کون سی تقصیر ہوئی
سب ستم دیکھے یہ اندوہ اٹھائے نہ گئے
ہند کو خاک بھرے بال دکھائے نہ گئے
قید میں نام بزرگوں کے بتائے نہ گئے
در بدر پھرنے کے احوال سنائے نہ گئے
ملتی کیا ہند سے میں خاکِ عزا تھی سر پر
نہ تو تم تھے مرے سر پر، نہ ردا تھی سر پر
کربلا کا جو سنا نام سکینہ نے آہ
یک بیک ہو کے کھڑی کہنے لگی بسم اللہ
اچھی میری پھوپھی اماں مجھے لینا ہمراہ
واں ملے گی مجھے ظالم کے طمانچوں سے پناہ
ضبط اب رونے کا زنہار نہ ہو گا مجھ سے
ننگے سر روز کا دربار نہ ہو گا مجھ سے
آہ بھر کر کہا زینب نے میں تم پر قرباں
کربلا شاہِ شہیداں کی کہاں اور میں کہاں
طوق گردن میں ہے اور پاؤں میں زنجیرِ گراں
میں ہوں زندان کے قابل مرے قابل زنداں
بیٹھو صدقے گئی بیٹھو میں کدھر جاؤں گی
بیڑیاں پہنے کسی دن یہیں مر جاؤں گی
میں ہوں بیخود مرے کہنے پہ نہ جاؤ واری
آنے جانے کا کہیں ذکر نہ لاؤ واری
پھوپھی کہہ کہہ کے نہ اب شور مچاؤ واری
ہند آتی ہے مری گود میں آؤ واری
غیر ملنے کو جو آتا ہے تو چپ رہتے ہیں
پھوپھی کو ایسی جگہ کنبہ موئی کہتے ہیں
رو کے وہ بولی کہ اچھا پھوپھی صاحب اچھا
میں بھی اکبر کی بہن ہوں مجھے غیرت نہیں کیا
جان فاقے سے نکل جائے تو مانگوں نہ غذا
اپنے سقے کے لیے روتی ہوں، پانی کیسا
پانی اُس سے نہیں میں تشنہ جگر مانگوں گی
لاش بابا کی ہے بے گور، کفن مانگوں گی
میں نہیں لینے کی میوے وہ اگر لائے گی
خاک سمجھوں گی اگر خلعت و زر لائے گی
کان دکھلاؤں گی زخمی جو گہر لائے گی
پر دعا دوں گی جو حاجت مری بر لائے گی
پوچھا زینب نے کہ کیا، رو کے کہا کہہ دوں گی
بابا صاحب کا جو سر دے گی تو میں لے لوں گی
ناگہاں فضّہ نے دی اہلِ حرم کو یہ خبر
ہند آتی ہے بڑے جاہ و تجمل سے ادھر
بیرقیں، نقرہ و زر کی ہیں جِلو کے اندر
پر کنیزیں تو ردا اوڑھے ہیں وہ ننگے سر
ہر قدم ہوتی ہے بیہوش وہ شیدائے حسین
ہائے زینب کبھی کہتی ہے کبھی ہائے حسین
کہتی ہے قیدیوں کی شور و بکا نے مارا
مجھ کو اس ہائے حُسینا کی صدا نے مارا
ان کے سردار کو کس فوجِ جفا نے مارا
کیا وہ سید تھا جسے اہلِ وغا نے مارا
ایک بجلی سی کلیجے پہ مرے گرتی ہے
ننگے سر فاطمہ آنکھوں کے تلے پھرتی ہے
مر گیا کونسا یہ خاصۂ باری لوگو
انس و جن حور و ملک کرتے ہیں زاری لوگو
لے چلو سوئے نجف میری سواری لوگو
ہو گی مشکل وہیں آسان ہماری لوگو
خیر سے ہیں مرے آقا تو وہ سوتے ہونگے
ورنہ مرقد میں علی بیٹے کو روتے ہونگے
درِ زنداں پہ ہوا اتنے میں انبوہِ کمال
بولے درباں کہ بڑھے دولت و عمر و اقبال
قیدیو اٹّھو دعا دے کے کرو استقبال
زنِ حاکم کا ہے زنداں میں نزولِ اجلال
تم کھلے سر تھے حضور اب تمہیں چادر دیں گی
رحم دل ہیں ابھی زنداں سے رہا کر دیں گی
مہرباں ہوں گی تو خلعت ابھی پہنا دیں گی
صبح کو بیڑیاں بھی پاؤں کی کٹوا دیں گی
عذر حاکم نہ کرے گا جو یہ سمجھا دیں گی
نام جس شہر کا لو گے وہیں پہنچا دیں گی
قصرِ شاہی سے جو تشریف یہاں لائی ہیں
پرورش کرنے کو تم سب کی حضور آئی ہیں
دم بخود رہ گئیں سیدانیاں سن کر یہ صدا
ہو گئی قطع زباں تیغِ حیا سے گویا
دم نہ تھا جان نہ تھی ہوش نہ تھا صبر نہ تھا
تھرتھرانے لگے بچے بھی کہ، کیا قہر ہوا
یوں حرم لوٹتے تھے جکڑے ہوئے آہن میں
ذبح ہو کر شہِ دیں تڑپے تھے جیسے رن میں
درِ زنداں پہ قدم ہند نے رکھّا ناگاہ
اور باہر سے نقیبوں نے کہا بسم اللہ
لونڈیاں آگے بڑھیں کہتی ہوئیں پیش نگاہ
پیچھے دامن لیے ہاتھوں میں خواتیں ہمراہ
سر پہ رکھے کوئی کرسیِ زبرجد آئی
کوئی بغلوں میں لیے تکیہ و مسند آئی
زنِ حاکم کی یہ حشمت یہ لباسِ پُرزر
اور بانوئے حسین ابنِ علی ننگے سر
نہ مدائن نہ مدینہ نہ پدر نے شوہر
دونو سرکاریں لُٹیں رہنے کو پایا یہ گھر
خون اکبر کا لگائے ہوئے پیشانی پر
روتی تھی اپنی گرفتاری و حیرانی پر
لونڈیاں تھیں زنِ حاکم کے جِلو میں جو رواں
دیکھتی کیا ہیں کہ اک شیر ہے آہن میں نہاں
لاغر و خستہ تن و فاقہ کش و تشنہ دہاں
منہ پہ سیلی کے نشاں پشت پہ دُرّوں کا نشاں
ساقِ پا، فاقے سے زنجیر میں تھراتی ہے
استخوانوں سے لرزنے کی صدا آتی ہے
سب نے مڑ کر طرفِ ہند یہ کی نوحہ گری
دیکھئے شام کے زنداں میں چراغِ سحری
کیوں مسلسل کیا یہ تو ہے عدم کا سفری
یادِ حق سے ہے خبر، خلق سے ہے بے خبری
کس نے دم بند کیا طوقِ جفا سے اِن کا
سلسلہ ملتا نہ ہو شیرِ خدا سے اِن کا
خشکیِ لب سے عیاں ہے کہ مہینوں کے ہے پیاس
تپ سے بیہوش ہے پر شکرِ خدا کا ہے حواس
نہ بچھونا ہے نہ تکیہ نہ عمامہ نہ لباس
سر کو زانو پہ جھکائے ہوئے بیٹھا ہے اداس
لنگرِ طوق سے سیدھا نہیں ہو سکتا ہے
نہ تو سو سکتا ہے بیمار نہ رو سکتا ہے
بیچ میں زانوؤں کے سر کی ہے کیا شوکت و شاں
نور کی رحل پہ گویا کہ دھرا ہے قرآں
کیا بھووں کے تلے آنکھوں سے تجلی ہے عیاں
کعبے کے طاق میں روشن ہے چراغِ ایماں
قلمِ قدرتِ حق بینیِ نورانی ہے
لوحِ محفوظ کی اثبات کو پیشانی ہے
سورۂ نور جو پڑھنا ہو تو چہرا دیکھو
لیلۃ القدر ہے کاکل سے ہویدا دیکھو
شجرِ طور کے بدلے قدِ زیبا دیکھو
یدِ بیضا کے عوض آبلۂ پا دیکھو
کیوں نہ یاں صلِ علی منہ سے ہمارے نکلے
صدقے ان پاؤں کے جن سے یہ ستارے نکلے
ہتھکڑی میں ہے یہ پتلی سی کلائی روشن
یا ہلالِ شبِ اول کے ہے چوگرد گہن
دیکھنا بی بی گلے میں ہے یہ طوقِ آہن
یا کہ ہالے میں ہے خورشیدِ فلک جلوہ فگن
بی بی قربان ترے اس کی رہائی کر دے
ہاتھ ہم باندھتے ہیں عقدہ کشائی کر دے
ہند نے دیکھ کے رانڈوں کی طرف دی یہ صدا
خاک پر دُرِّ نجف ہائے پڑا ہے کس کا
کس کا یوسف ہے یہ زنداں میں گرفتارِ بلا
کیسے بے قدر ہو تم قدر نہیں اس کی ذرا
کام آخر ہوا اک دم میں یہ دم توڑتا ہے
ایسے بیمار کو تنہا بھی کوئی چھوڑتا ہے
گرد عابد کے پھری پھر وہ بحالِ تغئیر
رکھ دیا پاؤں پہ سر اپنا ہٹا کر زنجیر
بولے وہ کون یہ چلّائی کنیزِ شبیر
السلام اے رسن و طوق و سلاسل کے اسیر
ہے وصیّت کا محل مرنے پہ تیار ہے تو
کچھ کفن کے لیے رکھتا ہے کہ نادار ہے تو
غم نہ کھا گور و کفن میں تجھے دوں گی واللہ
ننگے سر تیرے جنازے کے چلوں گی ہمراہ
مرنے والے ترا کیا نام ہے اور کیوں ہے تباہ
بولے مولا ابھی چالیس برس جینا ہے آہ
نام بیکس بھی ہے قیدی بھی ہے نادار بھی ہے
حال یہ ہے کہ اسیری بھی ہے آزار بھی ہے
ہند نے پوچھا مرض کیا ہے کہا بے پدری
رو کے وہ بولی دوا کیا ہے؟ کہا نوحہ گری
گھر جو دریافت کیا کہنے لگے در بدری
بولی لیتا ہے خبر کون کہا بے خبری
آہ کرنے کا سبب پوچھا تو شرمانے لگے
تازیانوں کے نشاں پشت پہ دکھلانے لگے
بولی وہ کون سی عصیاں پہ ملی یہ تعزیر
رو کے فرمایا گنہ کچھ بھی نہیں، بے تقصیر
اُس نے منہ پیٹ لیا اور کہا کب سے ہو اسیر
بولے دسویں تھی محرم کی جو پہنی زنجیر
کچھ کفن کے لیے ہمراہ نہیں لایا ہوں
باپ کو چھوڑ کے بے گور و کفن آیا ہوں
بولی وہ کوئی ترے سر پہ ہے اے خاک نشیں
سر اٹھایا سوئے گردوں کہ خداوندِ زمیں
ہاتھ بیووں کی طرف کر کے پکارا وہ حزیں
یہ ہمارے لیے، ہم ان کے لیے ہیں غمگیں
بابا صاحب کے گلے پر جو نہ خنجر پھرتا
اِن کے سر کھلتے نہ میں کانٹوں پہ در در پھرتا
سن کے عابد کے کلام اُس نے خواصوں سے کہا
صاف کعبے کے فصیحوں کا ہے لہجہ بخدا
مل گیا حیدرِ کرار کی باتوں کا مزا
اب چلو رانڈوں سے پوچھیں نہ اسے دیں ایذا
پاس بیووں کے جو وہ صاحبِ حشمت آئی
اور خاتونِ قیامت پہ قیامت آئی
شانِ زینب پہ نظر کر کے کہا یا داور
خلد سے فاطمہ زندان میں آئیں کیونکر
دیکھا بانو کو تو یہ کہنے لگی وہ ششدر
ہائے ایران کی شہزادی ہے کیوں ننگے سر
قدرتِ خالقِ قیوم نظر آتی ہے
کوئی زینب کوئی کلثوم نظر آتی ہے
بولی زینب کے نہ لے زینب و کلثوم کا نام
وہ نبی زادیاں ہیں قید میں اُن کا کیا کام
ہے غضب فاطمہ کی آل کے حق میں یہ کلام
توبہ کر ہوش میں آ، بی بی زباں اپنی تھام
بلوے میں عترتِ محبوبِ الٰہی آئے
اور جہاں میں نہ قیامت نہ تباہی آئے
دن کو جس بی بی کا مردہ بھی نہ نکلا باہر
شام میں پھرنے لگیں بیٹیاں اُس کی در در
جن کی تعریف کی منبر پہ نبی نے اکثر
اُن کو لوٹیں گے مسلماں تمہیں آیا باور
جن کو اللہ و نبی حرمت و عزت دیں گے
چادریں اُن کی بھلا صاحبِ ایماں لیں گے
ہند بولی کہ بری ہوتی ہے حرصِ دنیا
انبیا پر نہیں کیا کیا ستم امت نے کیا
مصطفی کون سے راضی گئے امت سے بھلا
مرتے دم تک رہیں نالاں مری بی بی زہرا
زخم بازو پہ لگا وہ کہ پھر اچھا نہ ہوا
ہاتھ مخدومۂ کونین کا سیدھا نہ ہوا
شاہِ مرداں کو رسن میں کیا امت نے اسیر
زہر شبر کو مخالف نے دیا بے تقصیر
اب فقط پنجتنِ پاک میں ہے اک شبیر
ان کی بھی جان کے دشمن ہیں ہزاروں بے پیر
چین دل کو مرے اس رنج سے سینے میں نہیں
کوئی کہتا تھا کہ شبیر مدینے میں نہیں
ظلم گذرے ہیں جو آگے وہ ہیں ایک ایک کو یاد
کربلا میں کوئی گھر تازہ ہوا ہے برباد
لائی ہے مال و اثاثہ سپہِ ابنِ زیاد
یا الٰہی رہے سرکارِ حسینی آباد
کل مجھے لُوٹ کا اسباب جو دکھلایا تھا
اک پھٹے جامے پہ حاکم کو بھی غش آیا تھا
اک عَلَم ہے اُسی اسباب میں خورشید نشاں
مشک پنجے میں بندھی خوں میں پھرہرا افشاں
ایک گہوارے کی خوشبو سے یہ ہوتا ہے عیاں
کہ ابھی اٹھ کے سدھارا ہے کوئی غنچہ دہاں
بیچ میں تکیوں کے ننہا سا شلوکا دیکھا
دودھ اُگلا ہوا اور داغ لہو کا دیکھا
چادریں بھی کئی میلی سی ہیں بوسیدہ کمال
آشکار اُن سے ہے سیدانیوں کے فقر کا حال
ٹوپیاں، ہنسلیاں، رومالیاں، بُندے، خلخال
سر کہیں تن ہیں کہیں تیغوں کے پھل خون میں لال
اسی غارت میں کچھ اسباب نیا بیاہ کا ہے
نتھ ہے اک بنڑی کی سہرا کسی نوشاہ کا ہے
اک انگوٹھی اُسی اسباب میں نکلی ناگاہ
لال تھا اُس کا نگیں خون سے مالک کے آہ
میں نے جھک جھک کے جو کی اُس کے نگینے پہ نگاہ
دیکھتی کیا ہوں کہ مرقوم ہے ماشاء اللہ
جب اُسے سونگھتی ہوں جان نکل جاتی ہے
صاف خوشبوئے حسین ابنِ علی آتی ہے
اُس نے اسباب کی تفصیل جونہی بتلائی
تھا یہ نزدیک کہ زینب کہے ہے ہے بھائی
کہا کبرا نے کہ شادی نہ مجھے راس آئی
دولھا کے مردے پہ تقدیر نے نتھ بڑھوائی
جھولے والے کے تصور میں پکاری بانو
ترے صدقے ترے گہوارے کے واری بانو
ہند ایک ایک کے قدموں پہ گری گھبرا کر
اور دوہائی دی کہ اب چپ نہ رہو شرما کر
ذبح کر ڈالو مجھے ایک چھری منگوا کر
کس مصیبت میں پڑی آہ محل سے آ کر
ذکر شبیر کا کرتی ہوں تو رو دیتی ہوں
نام جب پوچھتی ہوں سر کو جھکا لیتی ہوں
کہا زینب نے نہ اس بات پہ ہو دامن گیر
نام وارث کا ہمارے بھی ہے بیکس شبیر
مال و اسباب ہمارا بھی لُٹا بے تقصیر
پیٹ کر اُس نے کہا ہائے لگا دل پر تیر
یہ گذارش مری زہرا کے لیے مانو تم
اُس انگھوٹی کو میں منگواتی ہوں پہچانو تم
کہہ کے یہ خاتمِ شاہِ شہدا منگوائی
ایک لونڈی گئی دوڑی ہوئی اور لے آئی
ہند سب رانڈوں کے آگے وہ انگھوٹی لائی
بہرِ تعظیم اٹھی شیرِ خدا کی جائی
غل ہوا شاہِ شہیداں کی نشانی آئی
لوگو زہرا کے سلیماں کی نشانی آئی
آئی اُس غُل میں یہ آوازِ بتولِ غمگیں
اے اسیرو یہ مرے لال کا ہے سرخ نگیں
کاٹ کر لاش کی انگلی کو لے آئے ہیں لعیں
روئیں سیدانیاں سر پیٹ کے ہے ہے شہِ دیں
کہا تُتلا کے سکینہ نے میں پہچان گئی
یہ انگھوٹی مرے بابا کی ہے قربان گئی
سونگھتے سونگھتے انگشتریِ شاہِ زمن
ہو کے بیہوش گری بنتِ شہِ قلعہ شکن
کہا فضّہ نے کہ ہے ہے مری محبوسِ رسن
پڑ گیا غل کہ تصدق ہوئی بھائی پہ بہن
بولو اے مریمِ ثانی مری صاحبزادی
میری بی بی کی نشانی مری صاحبزادی
ہول آتا ہے مجھے ہوش میں آؤ بی بی
سہمی جاتی ہے سکینہ نہ رلاؤ بی بی
ہند دیتی ہے قسم نام بتاؤ بی بی
بچے سب روتے ہیں آواز سناؤ بی بی
اٹھو تعظیم کو زہرا کا پسر آیا ہے
دیکھو دیوار پہ شبیر کا سر آیا ہے
نیم وا چشم سے کی زینبِ بیکس نے نگاہ
ہند نے رو کے کہا آہ نبی زادی آہ
میں نہ کہتی تھی کہ گھر ہو گیا زہرا کا تباہ
یہ حسین اور نہیں، ابنِ علی ہے واللہ
نورِ حق خاک میں پوشیدہ و پنہاں کب ہو
میں تو پہلے ہی یہ سمجھی تھی کہ تم زینب ہو
بخشئے میری خطا بہرِ جنابِ شبیر
میں رہی پردے میں اور تم پھریں بلوے میں اسیر
کہا زینب نے کہ پھر اس میں تری کیا تقصیر
اسی قابل تھی حسین ابنِ علی کی ہمشیر
خوب حاکم ترا بی بی حق و باطل سمجھا
پسرِ فاطمہ کو ذبح کے قابل سمجھا
ناگہاں نورِ خدا سے ہوا زنداں روشن
سرِ دیوار ہوا شاہ کا سر جلوہ فگن
چشم ہر سو نگراں، غرق بخوں، خشک دہن
لبِ اعجاز سے جاری تھا ہر اک دم یہ سخن
دیکھ اے ہند بہن بھائی کی تقدیر یہ ہے
سرِ شبیر میں ہوں خواہرِ شبیر یہ ہے
نذر دینے لگی زینب کو ردا وہ غمخوار
آئی زہرا کی صدا بیٹی نہ لینا زنہار
بے کفن ہے ابھی جنگل میں ہمارا دلدار
دھوپ میں لاش پڑی ہے نہ کفن ہے نہ مزار
دیکھوں کب دفن مرا لختِ جگرا ہوتا ہے
لاش پر شیرِ خدا آتا ہے اور روتا ہے
سن کے یہ بیبیوں کے ساتھ کیے ہند نے بین
اور کہا کون ہے بانوئے امامِ کونین
بانو چلّائی کہو بولی وہ با شیون و شین
سنتی ہوں آپ کا معصوم ہے ہمشکلِ حسین
جان قربانِ جمالِ شہِ ابرار کروں
دو مری گود میں اصغر کو تو میں پیار کروں
گود خالی اسے دکھلا کے یہ بانو نے کہا
بی بی اصغر کہاں، اصغر ہوئے بابا پہ فدا
تین دن تک مرے ششماہے کو پانی نہ ملا
چھد گیا ہائے غضب تیر سے ننھا سا گلا
دودھ اُگلتے ہوئے جنت کو سدھارے اصغر
نام لے کر مرا ہے ہے نہ پکارے اصغر
بس دبیر اب نہیں تصنیف کا یارا باقی
گو کہ مضمون نئے ہیں، ابھی کیا کیا باقی
یا الٰہی رہے جب تک کہ یہ دنیا باقی
تعزیہ دار رہیں شاہ کے ہر جا باقی
جو غلامانِ علی ابنِ ابی طالب ہوں
غالبِ کُل کے مخالف پہ سدا غالب ہوں
(مرزا دبیر)
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ

سورۂ نور جو پڑھنا ہو تو چہرا دیکھو
لیلۃ القدر ہے کاکل سے ہویدا دیکھو
شجرِ طور کے بدلے قدِ زیبا دیکھو
یدِ بیضا کے عوض آبلۂ پا دیکھو
کیوں نہ یاں صلِ علی منہ سے ہمارے نکلے
صدقے ان پاؤں کے جن سے یہ ستارے نکلے
جزاک اللہ
 
Top