ممنون ہوں
جی۔
آپ نے نشاندہی کی تو پتا چلا کہ یہ کچھ نیا ہوا ہے۔
ظہیراحمدظہیر بھائی نے بھی اس پر کلام نہیں کیا۔
اس کا متبادل تو شاید ہو سکتا کہ "آسودہ دلی" لے آئیں۔کیا فرماتے ہیں؟
عاطف صاحب ، سلام عرض ہے!
مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میری جسارت کو بخوشی برداشت کیا . شکریہ!
’آسودۂِ دِل‘ پر ظہیر صاحب نے اپنی راۓ تفصیل سے اور امثال كے ساتھ بیان کی ہے جس كے لئے وہ شکریہ كے مستحق ہیں . لیکن جناب اعلیٰ، بات بنی نہیں .
میں حسب صلاحیت وجہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں .
میں نے جب بھی لفظ ’آسودہ‘ دیکھا ہے، یا تو تنہا دیکھا ہے جیسے:
آسودہ کیونکے ہوں میں کہ مانندِ گرد باد
آوارگی تمام ہے میری سرشت میں (مؔیر)
یا آسودگی كے سبب كے ساتھ دیکھا ہے جیسے:
لذتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے (شان الحق حؔقّی)
ظہیر صاحب کی عنایت کردہ ساری مثالوں میں سبب موجود ہے جیسے ساحل، جاں اور اقرار . اب سوچئے کہ دِل کا (سینے میں) وجود آسودگی کا سبب کیسے ہو سکتا ہے؟ جان یا زندگی کی بات الگ ہے . جان جب تک ہے، ہمیں اتمینان رہتا ہے کہ سب کام ہو جائینگے . لیکن دِل؟ اگر یہ مان بھی لیں کہ’آسودۂِ دِل‘ ایک قابل قبول مرکب ہے تو ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ كے شعر میں آسودگی کا سبب احسان ہے یا دل؟
امید ہے میرا موقف واضح ہو گیا ہو گا . مجھے تو ذاتی طور پر آپ کی تجویز کردہ متبادل شکل (ایسی آسودہ دلی ہے ترے احسانوں سے) بہتر لگی . یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ’ایسا آسودہ ہوا ہے ترے احسانوں سے .‘ بہرحال، یہ تو میری ادنیٰ رائے ہے . شعر آپ کا ہے سو آپ اسے جو شکل دینا چاہیں، دے سکتے ہیں .
بہت بہتر۔میں دوبارہ غور کر لیتا ہوں۔
لیکن اگر آپ مناسب سمجھیں تو بتا دیجیے کہ کس پہلو سے نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔
آپ نے اپنی رائے دی،بہت اچھا لگا۔
ہم تو جو تھوڑا بہت الٹا سیدھا لکھ لیتے ہیں،اس میں سارا کمال محفل کے اساتذہ کی رہنمائی ہی کا ہے۔ورنہ ہم کہاں اور شعر گوئی کہاں!
اس لیے بلاتردد کہیے۔خفا ہونے والوں میں سے ہم نہ ہوں گے۔
والسلام
پہلے مصرعے کی بنت میں مجھے دو دقّتیں پیش آئیں . اول تو یہ کہ آپ نے ’خلّاق جہاں كے‘ (صیغہ جمع) کہا ہے . عام عقیدہ تو یہ ہے کہ جہاں کا خالق ایک ہے، یعنی اللہ . اور اگر کوئی بِگ بینگ تھیوری میں یقین رکھتا ہے تو اس كے لیے خالق کوئی نہیں .
آپ كے مطابق جہاں كے ایک سے زیادہ خالق ہیں . یہ بات قرین قیاس نہیں ہے . دوم یہ کہ لفظ ’بھی‘ کا مقام الجھن پیدا کر رہا ہے . آپ شاید ’خود بھی‘ کہنا چاہ رہے تھے، لیکن ’بھی‘ ’خود‘ سے اتنا دور ہو گیا ہے کہ لگتا ہے’جہاں کے وفادار‘ کی بات ہو رہی ہے یا جہاں كے خلّاق كے علاوہ کسی اور چیز كے خلّاق بھی ذکر میں ملحوظ خاطر ہیں . تَعْقِید حالانکہ افضل نہیں ، لیکن قابل قبول ہے بشرطیکہ وہ معنی میں الجھاؤ نہ پیدا کرے .
اب معنی کا ذکر آیا ہے تو عرض ہے کہ اللہ کی وفا پر شک میں احتیاط لازمی ہے . مذہبی نظریے کی بجائے صرف اَدَبی نظریے سے بھی دیکھیں تو خالق کی وفا کی تعریف کیا ہے اور کس پیمانے پر اسے بےوفا کہا جا سکتا ہے؟ خالق كے وعدے ضروری نہیں کہ اسی زندگی میں وفا ہو جا ئیں، پِھر ابھی سے ہَم کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ وفا دار نہیں؟ دَر اصل خالق کا تصور بہت وسیع اور انسان کی عقل سے بالاتر ہے لہٰذا اس پر انسانی پیمانوں کا اطلاق نہیں ہوتا .
خط نہ چاہتے ہوئے بھی طویل ہو گیا . امید ہے میں نے آپ کو بور نہیں کیا .
اب اجازت چاہونگا .
نیازمند ،
عرفان عؔابد