ام اویس
محفلین
لؤلؤ القرآن :
آسان درسی تفسیر، عم پارہ
ترتیب۔ نزہت وسیم
آسان درسی تفسیر، عم پارہ
ترتیب۔ نزہت وسیم
ابتدائی معلومات
علم التفسیر کی تعریف:
لغوی معنی: کھولنا
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں علم التفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی بیان کیے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔
آیت کی تعریف:
لغوی معنی: نشانی
اصطلاحی معنی : آیت اس کی نشانی ہے کہ یہ ایک بات ہے یا جملہ ہے اور اس کی اپنی ابتداء اور انتہا ہوتی ہے اس لیے اس کو آیت کہتے ہیں۔ آیت کی جمع آیات اور آیٌ ہے
سورة کی تعریف:
لغوی معنی: بلندی یا فصیل ، بلند دیوار
اصطلاحی معنی : قرآن مجید کی آیات کے مجموعے کو سورة کہتے ہیں۔ جس طرح فصیل یا دیوار ایک جگہ کو دوسری سے الگ کرتی ہے اسی طرح سورة، آیات کے مجموعے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔
صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔ سورة قرآن پاک کی آیات کا وہ حصہ ہے جس کی ابتدا اور انتہا ہوتی ہے۔
رکوع: لغوی معنی: جھکنا
اصطلاحی معنی: نمازی، نماز کے اندر، قرآن مجید کی اتنی مقدار پڑھ کر رکوع میں چلا جاتا ہے اس لیے اس کو رکوع کہتے ہیں۔
مکی اور مدنی سورتیں۔
نزول کے اعتبار سے سورتیں دو طرح کی ہیں۔ مکی اور مدنی
مکی اور مدنی کی تعریف میں دو قول ہیں:
۱- مکی وہ سورة ہے جو مکہ اور اس کے اردگرد موجود علاقے میں نازل ہوئی اور مدنی وہ سورة ہے جو مدینہ اور اس کے اردگر کے علاقے میں نازل ہوئی۔
۲- مکی سورت وہ ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی اور مدنی سورت وہ ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔
لغوی معنی: کھولنا
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں علم التفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی بیان کیے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔
آیت کی تعریف:
لغوی معنی: نشانی
اصطلاحی معنی : آیت اس کی نشانی ہے کہ یہ ایک بات ہے یا جملہ ہے اور اس کی اپنی ابتداء اور انتہا ہوتی ہے اس لیے اس کو آیت کہتے ہیں۔ آیت کی جمع آیات اور آیٌ ہے
سورة کی تعریف:
لغوی معنی: بلندی یا فصیل ، بلند دیوار
اصطلاحی معنی : قرآن مجید کی آیات کے مجموعے کو سورة کہتے ہیں۔ جس طرح فصیل یا دیوار ایک جگہ کو دوسری سے الگ کرتی ہے اسی طرح سورة، آیات کے مجموعے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔
صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔ سورة قرآن پاک کی آیات کا وہ حصہ ہے جس کی ابتدا اور انتہا ہوتی ہے۔
رکوع: لغوی معنی: جھکنا
اصطلاحی معنی: نمازی، نماز کے اندر، قرآن مجید کی اتنی مقدار پڑھ کر رکوع میں چلا جاتا ہے اس لیے اس کو رکوع کہتے ہیں۔
مکی اور مدنی سورتیں۔
نزول کے اعتبار سے سورتیں دو طرح کی ہیں۔ مکی اور مدنی
مکی اور مدنی کی تعریف میں دو قول ہیں:
۱- مکی وہ سورة ہے جو مکہ اور اس کے اردگرد موجود علاقے میں نازل ہوئی اور مدنی وہ سورة ہے جو مدینہ اور اس کے اردگر کے علاقے میں نازل ہوئی۔
۲- مکی سورت وہ ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی اور مدنی سورت وہ ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔
تعوذ اور تسمیہ
تعوذ کا معنی ہے: پناہ لینا، پناہ میں آنا
تعوّذ پڑھنے کے معنی ہیں :
اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔۔۔ پڑھنا ۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے ۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ۔
یعنی جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود کے شر سے الله تعالٰی کی پناہ مانگو۔
اس بات پر سب متفق ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے تعوّذ پڑھنا سنت ہے، خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا باہر۔ تعوذ پڑھنا قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ مخصوص ہے اور احادیث سے اعوذ بالله من الشیطان الرجیم کے علاوہ دوسرے الفاظ میں تعوذ پڑھنا بھی ثابت ہے۔ تلاوت کے علاوہ دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم الله پڑھی جائے گی ۔ تعوذ پڑھنا سنت نہیں۔
فائدہ:
تعوّذ پڑھنے کے معنی ہیں :
اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔۔۔ پڑھنا ۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے ۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ۔
یعنی جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود کے شر سے الله تعالٰی کی پناہ مانگو۔
اس بات پر سب متفق ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے تعوّذ پڑھنا سنت ہے، خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا باہر۔ تعوذ پڑھنا قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ مخصوص ہے اور احادیث سے اعوذ بالله من الشیطان الرجیم کے علاوہ دوسرے الفاظ میں تعوذ پڑھنا بھی ثابت ہے۔ تلاوت کے علاوہ دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم الله پڑھی جائے گی ۔ تعوذ پڑھنا سنت نہیں۔
فائدہ:
- جب قران مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اس وقت اعوذ بالله اور بسم الله دونوں پڑھی جائیں۔
- قرآن مجید کی تلاوت کے دوران جب ایک سورۃ مکمل ہو جائے اور دوسری سورۃ شروع ہو تو سورۃ توبہ کے علاوہ ہر سورۃ کے شروع میں دوبارہ بسم الله پڑھی جائے۔
- اگر قرآن مجید کی تلاوت سورۃ توبہ ہی سے شروع کر رہے ہوں تو اس کے شروع میں اعوذ بالله اور بسم الله پڑھنی چاہیے۔
تسمیہ: بسم الله الرحمٰن الرحیم
شروع الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان ، نہایت رحیم ہے۔
۔۔۔۔
ہر سورة شروع کرنے سے پہلے ”بسم الله الرحمن الرحیم “ پڑھتے ہیں اس آیة کو تسمیہ کہتے ہیں۔ جب بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر کوئی سورة نازل ہوتی تو اس سے پہلے تسمیہ نازل ہوتی تھی جس سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو علم ہو جاتا کہ پہلی سورة ختم ہو گئی ہے اور نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔
تسمیہ کی تفسیر
بسم الله ، یہ کلمہ تین لفظوں سے مل کر بنا ہے۔
۱- حرفِ ”با“ : عربی زبان میں ”با“ حرف جر ہے اور بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوتی ہے ، یہاں تین معانی مناسب ہیں اور ان میں سے ہر ایک معنی اس جگہ لیا جا سکتا ہے ۔
۱- مصاحبت : یعنی کسی چیز کا دوسری چیز سے متصل یا ملا ہوا ہونا۔ الله کے نام کے ساتھ
۲- استعانت: یعنی مدد کے لیے۔ الله کے نام کی مدد سے
۳- تبرک : یعنی برکت کے لیے۔ الله کے نام کی برکت سے
۲- اسم :
اردو میں اس کا ترجمہ نام سے کیا جاتا ہے۔
۳- الله:
الله تعالی کے ناموں میں سے سب سے بڑا اور جامع نام ہے، بعض علماء نے اسے اسم اعظم کہا ہے صرف الله کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ نام الله کے سوا کسی دوسرے کا نہیں ہو سکتا، اور نہ کسی دوسرے کو اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ، کیونکہ الله واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔
تسمیہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں۔
اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔
۱- اَللهُ ۔ یہ الله کا ذاتی نام ہے۔
الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ زمین ، آسمان، دریا ، پہاڑ، پیڑ پودے، ستارے، چاند، سورج غرض ہر چیز الله تعالی نے پیدا کی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ اُسی کے حکم سے پرندے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کا اناج اُگاتا ہے ۔
۲- رَحْمٰنٌ ۔۔۔۔ ( بہت مہربان ) یہ الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے دنیا کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ یہ اسکی عام رحمت کا اظہار ہے یعنی وہ سب پر ایک جیسا مہربان ہے۔ ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور اس کی بے شمار مہربانیاں انسان اورجانور ، نیک اور بد ، کافر و مسلمان سب کے لیے ہیں ۔ اور وہ بغیر مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔
۳- رَحِیْمٌ ۔۔۔۔ ( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وہ خاص طور پر اپنے بندوں سے مہربانی کرتا ہے۔ ایک نیکی کے بدلے میں ستّر بلند درجے عطا کرتا ہے ۔
رحمٰن اور رحیم میں فرق:
مفسرین کرام کے اس میں چند قول ہیں ۔
۱۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ کوئی فرق نہیں ۔
۲۔ رحمٰن میں زیادہ مبالغہ ہے، رحمٰن کا مطلب ایسی رحمت کرنے والی ذات کے ہیں کہ اس جیسی رحمت کوئی اور نہیں کر سکتا اور یہ صرف الله سبحانہ وتعالی کے لیے خاص ہے اور رحیم کا معنی مطلق رحم کرنے والا یعنی مہربان ہے، خواہ اس کی طرح کوئی اور رحم کرسکے یا نہ کر سکے۔
۳- رحمان عام ہے خواہ دنیا میں ہویا آخرت میں اور رحیم آخرت میں مؤمنوں کے لیے خاص ہے۔
بسم الله پڑھنے کی ہدایت و حکمت:
ہر کام کرنے سے پہلے بسم الله پڑھنے کی ہدایت اس لیے کی گئی ہے کہ کفار جب کوئی کام شروع کرتے تو اپنے بتوں کا نام لیتے تھے، بسم اللات والعزی کہتے تھے، اس بری رسم کو مٹانے کے لیے بسم الله سے ابتدا کرنے کا حکم دیا گیا۔
بسم الله پڑھنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ اس میں انسان کی زندگی کا رُخ پورا کا پورا الله سبحانہ وتعالی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے کہ میرا دل بالکل پاک ہے، میری نیت میں پورا خلوص ہے،میرا مقصد اعلٰی ہے، میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے، ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے ۔ اسی لئے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہیں ہو گی اور اس سے دل کو اطمینان نہیں ملے گا۔
فضیلت:
قرآن مجید میں بار بار ہدایت کی گئی کہ ہر کام کو الله کے نام سے شروع کیا جائے۔
١۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر جب یہ آیت یعنی تسمیہ نازل ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے سوائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کسی نبی پر یہ آیت نازل نہیں ہوئی۔
٢- ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔
۳- ایک حدیث میں فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم الله کہو، چراغ بجھاؤ تو بسم الله کہو، برتن ڈھکو تو بسم الله کہو، کھانا کھانے، پانی پینے، وضو کرنے، سواری پر چڑھتے اور اترتے وقت بسم الله پڑھنے کی ہدایات قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہیں۔
۴- حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جہنم کے انیس دروغوں سے بچنا چاہتا ہے وہ بسم الله الرحمن الرحیم پڑھا کرے، کیونکہ اس کے بھی انیس حروف ہیں۔ ہر حرف ایک دروغہ سے بچائے گا۔
بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کا حکم :-
تسمیہ قرآن مجید میں سورۃ نمل کی آیۃ کا حصہ ہے، اور دو سورتوں کے درمیان ایک مستقل آیۃ ہے ۔ اس لئے اسکا احترام کرنا قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے ۔ اسکو وضوکے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں ۔
البتہ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے مثلا کھانے پینے سے پہلے بطورِ دُعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے
۔۔۔۔۔
شروع الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان ، نہایت رحیم ہے۔
۔۔۔۔
ہر سورة شروع کرنے سے پہلے ”بسم الله الرحمن الرحیم “ پڑھتے ہیں اس آیة کو تسمیہ کہتے ہیں۔ جب بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر کوئی سورة نازل ہوتی تو اس سے پہلے تسمیہ نازل ہوتی تھی جس سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو علم ہو جاتا کہ پہلی سورة ختم ہو گئی ہے اور نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔
تسمیہ کی تفسیر
بسم الله ، یہ کلمہ تین لفظوں سے مل کر بنا ہے۔
۱- حرفِ ”با“ : عربی زبان میں ”با“ حرف جر ہے اور بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوتی ہے ، یہاں تین معانی مناسب ہیں اور ان میں سے ہر ایک معنی اس جگہ لیا جا سکتا ہے ۔
۱- مصاحبت : یعنی کسی چیز کا دوسری چیز سے متصل یا ملا ہوا ہونا۔ الله کے نام کے ساتھ
۲- استعانت: یعنی مدد کے لیے۔ الله کے نام کی مدد سے
۳- تبرک : یعنی برکت کے لیے۔ الله کے نام کی برکت سے
۲- اسم :
اردو میں اس کا ترجمہ نام سے کیا جاتا ہے۔
۳- الله:
الله تعالی کے ناموں میں سے سب سے بڑا اور جامع نام ہے، بعض علماء نے اسے اسم اعظم کہا ہے صرف الله کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ نام الله کے سوا کسی دوسرے کا نہیں ہو سکتا، اور نہ کسی دوسرے کو اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ، کیونکہ الله واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔
تسمیہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں۔
اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔
۱- اَللهُ ۔ یہ الله کا ذاتی نام ہے۔
الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ زمین ، آسمان، دریا ، پہاڑ، پیڑ پودے، ستارے، چاند، سورج غرض ہر چیز الله تعالی نے پیدا کی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔ اُسی کے حکم سے پرندے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کا اناج اُگاتا ہے ۔
۲- رَحْمٰنٌ ۔۔۔۔ ( بہت مہربان ) یہ الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے دنیا کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔ یہ اسکی عام رحمت کا اظہار ہے یعنی وہ سب پر ایک جیسا مہربان ہے۔ ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور اس کی بے شمار مہربانیاں انسان اورجانور ، نیک اور بد ، کافر و مسلمان سب کے لیے ہیں ۔ اور وہ بغیر مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔
۳- رَحِیْمٌ ۔۔۔۔ ( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وہ خاص طور پر اپنے بندوں سے مہربانی کرتا ہے۔ ایک نیکی کے بدلے میں ستّر بلند درجے عطا کرتا ہے ۔
رحمٰن اور رحیم میں فرق:
مفسرین کرام کے اس میں چند قول ہیں ۔
۱۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ کوئی فرق نہیں ۔
۲۔ رحمٰن میں زیادہ مبالغہ ہے، رحمٰن کا مطلب ایسی رحمت کرنے والی ذات کے ہیں کہ اس جیسی رحمت کوئی اور نہیں کر سکتا اور یہ صرف الله سبحانہ وتعالی کے لیے خاص ہے اور رحیم کا معنی مطلق رحم کرنے والا یعنی مہربان ہے، خواہ اس کی طرح کوئی اور رحم کرسکے یا نہ کر سکے۔
۳- رحمان عام ہے خواہ دنیا میں ہویا آخرت میں اور رحیم آخرت میں مؤمنوں کے لیے خاص ہے۔
بسم الله پڑھنے کی ہدایت و حکمت:
ہر کام کرنے سے پہلے بسم الله پڑھنے کی ہدایت اس لیے کی گئی ہے کہ کفار جب کوئی کام شروع کرتے تو اپنے بتوں کا نام لیتے تھے، بسم اللات والعزی کہتے تھے، اس بری رسم کو مٹانے کے لیے بسم الله سے ابتدا کرنے کا حکم دیا گیا۔
بسم الله پڑھنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ اس میں انسان کی زندگی کا رُخ پورا کا پورا الله سبحانہ وتعالی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے کہ میرا دل بالکل پاک ہے، میری نیت میں پورا خلوص ہے،میرا مقصد اعلٰی ہے، میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔
جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے، ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے ۔ اسی لئے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہیں ہو گی اور اس سے دل کو اطمینان نہیں ملے گا۔
فضیلت:
قرآن مجید میں بار بار ہدایت کی گئی کہ ہر کام کو الله کے نام سے شروع کیا جائے۔
١۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر جب یہ آیت یعنی تسمیہ نازل ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے سوائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کسی نبی پر یہ آیت نازل نہیں ہوئی۔
٢- ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔
۳- ایک حدیث میں فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم الله کہو، چراغ بجھاؤ تو بسم الله کہو، برتن ڈھکو تو بسم الله کہو، کھانا کھانے، پانی پینے، وضو کرنے، سواری پر چڑھتے اور اترتے وقت بسم الله پڑھنے کی ہدایات قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہیں۔
۴- حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جہنم کے انیس دروغوں سے بچنا چاہتا ہے وہ بسم الله الرحمن الرحیم پڑھا کرے، کیونکہ اس کے بھی انیس حروف ہیں۔ ہر حرف ایک دروغہ سے بچائے گا۔
بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کا حکم :-
تسمیہ قرآن مجید میں سورۃ نمل کی آیۃ کا حصہ ہے، اور دو سورتوں کے درمیان ایک مستقل آیۃ ہے ۔ اس لئے اسکا احترام کرنا قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے ۔ اسکو وضوکے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔ حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں ۔
البتہ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے مثلا کھانے پینے سے پہلے بطورِ دُعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے
۔۔۔۔۔