تمام احباب کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
اگرچہ میرے مراسلوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اس لئے اس کے بعد تعارف لڑی بنانا عجیب سے لگتا ہے۔ مگر پہلے کبھی یہ لڑی بنائی نہیں تھی اور باتوں باتوں میں ایک تحریر میں ، میں نے اس کا ذکر کر دیا تو برادرم
عبدالقیوم چوہدری نے ترغیب دلائی کہ اب بھی یہ دھاگہ بنایا جا سکتا ہے۔
ویسے گاہے بگاہے میری مختلف موضوعات پر رائے پڑھنے والے احباب کو اب تعارف کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ میں تو الحمدللہ سالگرہ کی مبارکباد کی محبتیں بھی سمیٹ چکا ہوں۔ لیکن ان ساڑھے چار ہزار سے زائد مراسلوں میں کچھ مواقع ایسے آئے کہ مجھے یوں لگا کہ میرے بارے میں کچھ احباب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تعارف کے بہانے میں کچھ اعترافات اور کچھ وضاحتیں پیش کردوں۔
1- میرا پورا نام لئیق احمد قادری ہے ۔ قادری سے مراد میں غو ث اعظم شیخ عبدالقادری گیلانی کے مریدین میں شامل ہوں۔
2- لیکن طاہرالقادری صاحب کی جماعت میں کبھی شامل نہیں رہا البتہ ان کی ایک لائبریر ی کا رکن بلکہ ذمہ دار رہ چکا ہوں۔ اور ادارہ منہاج القرآن کے بہت سے موجودہ اور سابقہ کارکنوں اور ہمدردوں سے قریبی واقفیت رکھتا ہوں۔
3- اردو محفل میں ، میں کچھ سیکھنے کے لئے شامل نہیں ہوا تھا ، بلکہ ایک موضوع پر اظہار خیال کرنے کے لئے آیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو محفل کے ماحول سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور اب محفلین ہونے پر خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہوں۔
4- میں سنی العقیدہ ہوں اور حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔ اور عقائد میں امام ماتریدی کی تعلیمات سے متاثر ہوں۔ لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالی، اور اس کے رسول ﷺ ، اور کوئی بھی مسلمان فرقہ واریت کو پسند نہیں کرتا۔ میں بھی نہیں کرتا ۔ لیکن میرے چاہنے نا چاہنے سے یہ فرقے ختم نہیں ہونگے میں یہ کرسکتا ہوں کہ اس فرقہ ورانہ فساد کو بڑھنے میں مدد نا کروں اور اگر بس چلے تو اسے روکنے کی کوشش کروں۔ سب سے آسان طریقہ ہے کہ اپنا چھوڑو مت اور دوسرے کو چھیڑو مت۔ اسی لئے میں کوشش کرتا ہوں فرقہ ورانہ بحث سے بچوں ۔
5- میں ن لیگ کا ووٹر ہوں جس کی مختلف وجوہات ہیں لیکن میں نواز یا شہباز کو اپنا لیڈر نہیں سمجھتا میرے پسندیدہ لیڈر قائداعظم اور لیاقت علی خان تھے۔
6- میں مشرف کا سخت مخالف ہوں (یہ کونسی چھپی ہوئی بات ہے
) لیکن اس مخالفت کا نواز کا ووٹر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسکی وجوہات اور ہیں۔ ان میں سر فہرست مشرف کی ملک میں روشن خیالی پھیلانے کے نام پر بے حیائی پھیلانے کی سرکاری تحریک تھی۔ اور اس پر بظاہر یہ غلاف چڑھایا گیا تھا کہ اس سے مغرب میں پاکستان کے بارے میں سافٹ امیج پیدا ہوگا کہ پاکستانی لوگ بنیاد پرست اور انتہا پسند نہیں ہیں۔ بلکہ۔۔۔۔ ہیں۔ پاکستان میں عیاش حکمران تو پہلے بھی گزرے ہیں جیسے سکندر مرزا اور یحی خان لیکن ملک میں بے حیائی اور اسلام مخالف طریقے نافذ کرنے کی ایسی پالیسی پہلے کبھی نہیں چلائی گئی۔ لاہور کی مخلوط دوڑ اور حقوق نسواں بل اس کی موٹی مثالیں ہیں۔
7- سیاسی مباحثوں کا میں شوقین تو ہوں لیکن مذہبی مسائل پر بحث کا ہر گز نہیں۔ مذہبی مسائل ایسے چیز نہیں کہ جن پر عوامی سطح پر بحث کی جائے۔ مذہبی مسائل کی بحث علماء کا کام ہے۔ عوام کا کام سیکھنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ چونکہ عوام کا مذہبی معاملات پر علم کم ہوتا ہے اور دلائل سے واقفیت کم ہوتی ہے اس لئے بات ایسا رخ اختیار کرسکتی ہے جو شاید کسی کے لئے بھی مناسب نا ہو اور قابل برداشت بھی نا ہو۔ اسی لئے علماء مذہبی معاملات پر عوام سے کبھی بحث نہیں کرتے صرف عوام کو تبلیغ کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔
یہاں محفل میں بھی میں نے عالم دین
ڈاکٹر مشاہد رضوی کو کبھی عوام سے بحث کرتے نہیں دیکھا۔
ہاں دین کی اچھی باتیں شریک کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے لوگ استفادہ کریں۔
اگر احباب مزید کچھ باتوں کی وضاحت چاہیں تو بندہ حاضر ہے۔