اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 280 اور 281)

جیش کی ضرورت ظاہر کی اور کسی نے سارا اور کسی نے آدھا مال بے تامل لا حاضر کیا۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے وقت کے امیر المومنین کہلا کر اپنے ہاتھوں اینٹیں پاتھیں ، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ، نمود و نمائش کے مواقع پر پیدل چلے ، خچروں پر سوار ہوئے۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے احتساباََ اپنی حاجتوں پر دوسروں کر غنی بنایا۔ تم تجاہلِ عارفانہ تو نہیں کرتے ورنہ سیر کی کتابوں میں اس قسم کی ہزاروں باتیں ضرور تمہاری نظر سے گزری ہوں گی۔
ابن الوقت : اتنا میں بھی سمجھتا ہوں کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب اختیار کرنے کے قابل ہے تو وہ اسلام ہے۔ اب تو آپ خوش ہوئے؟
حجتہ الاسلام : قل لا تمنوا علی اسلامکم بل اللہ یمن علیکم ان ھدا کم للایمان ان کنتم صادقین۔
ابن الوقت : خیر اب دنیا کی باتیں کیجئے۔ ہمارے کلکٹر صاحب تک آپ کیوں کر پہنچے ، کیا کیا باتیں ہوئیں؟
حجتہ الاسلام : ایسی لایعنی باتیں کرنے کی مجھ کو فرصت نہیں اب دوسری ملاقات میں۔
ابن الوقت : مجھ کو آپ سے بہت سی ضروری باتوں میں مشورہ لینا ہے۔
حجتہ الاسلام : ایک بار کہہ تو دیا "دوسری ملاقات میں"۔
ابن الوقت : کب؟
حجتہ الاسلام : دیکھو ، کب انشاء اللہ اسی ہفتے کے اندر ہی اندر ، جب موقع ملے۔
ابن الوقت : بھلا اتنا تو فرمائیے صاحب کلکٹر سے میرے ملنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حجتہ الاسلام : ان سے تو ملنے کا نام ہی نہ لینا۔ یہ بھی خدا جانے کیا اتفاق تھا کہ وہ اتنے بھی رو بہ راہ ہوئے بلکہ میں تو تم کو یہی صلاح دوں گا کہ یہ وضع تم کو کیا کسی کو بھی سازگار نہیں۔ اس کو قطعاََ ترک کرو اور ابھی کچھ اور خمیازہ بھگتنا باقی ہو تو اختیار ہے۔

فصل بست و ھشتم
ابن الوقت شہر میں پھوپھی کے گھر جاکر حجتہ الاسلام
سے تیسری بار ملا اور دونوں میں پہلے پولیٹیکل اور پھر
مذہبی گفتگو

صاحب کلکٹر کے ساتھ صفائی کا ہونا تھا کہ ابن الوقت کا بازار پھر گرم ہو چلا۔ نوبل صاحب کے بعد سے ابن الوقت ، اس کا بنگلہ ، اس کی کچہری ، اس کے عملے ، اس کے ذاتی ملازم ، سبھی چیزیں گویا کوارنٹین میں تھیں کہ لوگ ان سے مٹھ بھیڑ کرتے ہوئے ڈرتے تھے ، یا کم پر مسلط ہونے کی خبر کے مشتہر ہوتے ہی بعضے تو بے غیرتی کا جامہ پہن پہن ، اسی شام کو آدھمکے۔ لیکن ابن الوقت کو ایسا جھکولا نہیں لگا تھا کہ اس قدر جلد بھول جاتا اور حجتہ الاسلام کی نصیحت اس کے کانوں میں گونج رہی تھی سو الگ۔ غرض انگریزیت کے ولولے ابن الوقت کے دل سے سلب تو نہیں ہوئے تھے پر ٹھنڈے ضرور پڑ گئے تھے۔ وہ لوگوں سے ملا مگر کچھ لمبے چوڑے تپاک سے نہیں۔ اس پر بھی جن کو ابن الوقت کی دعوتوں کی چاٹیں پڑی ہوئی تھیں ، بے صلاح دیے باز نہ رہے کہ مسٹر شارپ کو بڑا بھاری ڈنر دیا اور اسٹیشن کے تمام انگریزوں کو مدعو کیا جائے۔
حجتہ الاسلام نے ابن الوقت سے ملنے کا وعدہ کیا ہی تھا اور وہ ہفتے کے اندر ہی اندر ملتے پر ملتے ، لیکن ابن الوقت کو صبر کہاں تھا ! ادھر لوگ اس کو ڈنر کے لیے الگ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 278 اور 279)

توقعات کی کچھ حد و غایت نہیں اور منہ سے کہنے کو :
کیا بھروسا ہے زندگانی کا​
آدمی بلبلا ہے پانی کا​

ہم تو ایسے اذعان کے قائل ہیں نہیں۔ قولاََ اقرار ، عملاََ انکار۔ ہاں اذعان ہے ریل کے مسافر کو جس کا ایک خاص مقام پر اترنا ہے۔ اول تو وہ سرے سے اسباب زیادہ کھولتا پھیلاتا ہی نہیں اور جو بہ مجبوری نکالا ہے تو دو دو تین تین اسٹیشن پہلے سے گری پڑی چیز کو جمع کرتا ہے۔ شاید اخیر شب ہے اور نیند کے جھونکے پر جھونکے چلے آتے ہیں مگر نہیں سوتا۔ ٹکٹ معلوم ہے کہ ہے مگر بہ نظر مزید احتیاط پھر اس کو دیکھ کو سنبھال کر جیب میں رکھتا ہے کہ وقت پر ڈھونڈنا نہ پڑے۔ ابھی ریل کی رفتار مدہم نہیں ہوئی اور بیگ ہاتھ میں لے مسافروں پر سے کود پھاند کھڑکی سے آ لگا۔ صریحاََ دیکھ رہا ہے کہ صاحب ہم بھی اسی اسٹیشن پر اتریں گے۔ کسی ایک غریب ، مصیبت مند آدمی کی نسبت بھی تم ایسا خیال کرسکتے ہو کہ دفعتہََ تو بھلا خیر ، اب سے شام تک کی اس کو مہلت دی جائے کہ نماز مغرب کے بعد تم کو مثلاًََ ضرور امریکہ چلنا ہوگا اور وہاں تمہارے لیے ہر طرح کی آسائش کا سامان مہیا ہے اور وہ وقت پر چل کھڑا ہو۔ بھلا پھر سفر موت تو دوسری ہی طرح کا سفر ہے۔ اس کے لیے تو ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں ، نہ آج نہ کل ، نہ برس بعد ، نہ دس برس بعد۔
ابن الوقت : بس وہی رہبانیت ! رہبانیت تو آپ کے کلام کا ترجیع بند ہے کہ دو چار باتیں کیں اور پھر
ما مقیمان کوئے دل داریم​

حجتہ الاسلام : میں ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے ملنے نہیں آیا ، نہ ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے باتیں کررہا ہوں۔ ساتھ کھیلا ہوں ، ساتھ پڑھا ہوں ، عمر میں ، رشتے میں ، تم سے بڑا ہوں۔ برا نہ ماننا۔ ارے احمق ! اتنا تو سمجھ کہ میں نے ایک بات نہیں کہی جس کا حوالا قرآن سے نہ دیا ہو اور نہ دیا ہو تو اب دینے کو موجود ہوں اور دین کا یہ حال ہے "خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین بلونہم" اگر قرآن کی تعلم کا نتیجہ رہبانیت ہوتا تو پیغمبر صاحب علیہ الصٰوۃ والسّلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس قدر تھوڑے عرصے میں ، جس کی نظیر کسی ملک کی تاریخ میں پائی نہیں جاتی ، اسلام کی اتنی بڑی وسیع اور زبردست سلطنت قائم نہ کرسکتے اور اس وقت کے اہل اسلام نہ صرف سلطنت کی وجہ سے اقوام روزگار میں ممتاز تھے بلکہ ان کے زمانے میں جتنے ہنر تھے ، سب میں اپنے اقران پر سبقت لے گئے تھے۔ پس اگر تعلیم قرآن کا نتیجہ رہبانیت ہوتا تو بزرگان دین دنیا کو اور دنیا بھی ایسی دنیا ، اس خوبی عمدگی اور شائستگی کے ساتھ سنبھال نہ سکتے۔

ابن الوقت : صاحب ، آپ برا مانئے ، یا بھلا مانئے ، میری سمجھ میں تو آپ کی دو رخی بات بالکل نہیں آتی۔ ایک طرف تو آپ دنیا سے نفرت دلاتے ہیں اور دوسری طرف رہبانیت کے نام سے بھناتے ہیں۔ جن کو آپ بزرگان دین کہتے ہیں ، ان کے دنیاوی عروج کی نسبت تو کوئی کلام کر نہیں سکتا۔ ان کی ملک گیریاں ، ان کی فتوحات ، ان کے انتظام ، ان کے ارادے ، ان کی شجاعتیں ، چار دانگ عالم میں مشہور ہیں۔ مگر جس طرح کی دین داری آپ مجھ کو تعلیم کرتے ہیں ، کوئی شخص اپنی ارادت سے جو چاہے فرض کر لے مگر تاوقتیکہ ان کے ظاہر حالات میں اس کے شواہد نہ ہوں ، دوسرا آدمی کیوں ماننے لگا۔

حجتہ الاسلام : ان کے ظاہر حالات میں ان کی اسی طرح کی دین داری کے شواہد موجود تھے اور بہ افراط موجود تھے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد کا حال تو "مشتے تمونہ از خروارے" میں تم سے خوشی کے بیان میں کہہ چکا ہوں۔ قریب قریب یہ حال اکثر اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا تھا۔ عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ! واقعات تاریخی بھی سب بھلا ڈالے؟ یا زمان طالب العلمی میں تاریخ دانی کا وہ زور و شور تھا کہ سارا کالج لوہا مانتا تھا۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں وطن چھوڑا ، گھر بار چھوڑا ، مال و متاع چھوڑا ، عزیز و اقارب چھوڑے اور پردیس میں پرائی روٹیوں پر ، اور وہ بھی غیر مقرر ، قناعت اختیار کی۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا جو ہمہ وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جان دینے کو موجود اور صرف موجود ہی نہیں بلکہ خدا کی راہ میں جان کے قربان کردینے کو فوز عظیم سمجھتے تھے۔ ان سے بڑھ کر کوئی کیا زہد کرے گا ، جن پر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم صاحب نے تجہیز
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 272 اور 273)

میں بسر کرنی چاہیے اور اگر ہم موت کے خوف سے جوگیوں کی طرح بھوکے اور ننگے رہ کر مر جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دینا لغو و لاحاصل ہے۔ کیا حال ہو دنیا کا اگر سب لوگ اسی خیال کے ہو جائیں؟

حجتہ الاسلام : میں تم کو دیکھتا ہوں دنیا میں اس درجے منہمک کہ تم کو دین سے کچھ لگاؤ ہی نہیں۔ اگر اسلام کی بہت سی سہولتوں میں سے توبہ نہ ہوتی تو میں تم کو حضرت موسیٰ علیہ سلام کی طرح کفارہ خود کشی کی صلاح دیتا۔ تمہیں تو کیا یاد ہوگا مگر سُورہ بقر میں ہے : "واذ قال موسی لقومہ یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتوبوا الی بارئکم یا قوم انکم ظلمتم انفسکم ذلکم خیر لکم عند بارئکم" ! تاہم فرماؤ میری کس بات سے تم نے سمجھا کہ میں رہبانیت کی تعلیم کرتا ہوں؟ اس سے کہ دنیا کے حالات میں غور کرو یا اس سے کہ خدا کی عظمت کو اپنے ذہن میں بٹھاؤ یا اس سے کہ طبیعت میں انکسار پیدا کرو؟

ابن الوقت : کیا ایسے خیالات رکھ کر آدمی دنیا میں خوش بھی رہ سکتا ہے۔ پھر وہ رہبانیت ہوئی یا کیا ہوئی؟
حجتہ الاسلام : اگر مذاق عقل صحیح ہو تو دین سے بڑھ کر کسی چیز میں خوشی ہو ہی نہیں سکتی۔ دنیا کی فانی ، عارضی ، چندہ روزہ ، بے ثبات خوشیوں کو خوشی سمجھنا غلطی ہے ، جیسے ایک لڑکا کھیل میں اپنا وقت ضائع کرنے سے یا ایک جواری جوا کھیلنے سے یا ایک افیونی افیون کے عمل سے یا ایک نادان بیمار بدپرہیزی سے خوش ہوتا ہے۔ اصلی اور پاکیزہ اور ابدی خوشی وہ تھی جس کے لیے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر اس قدر زحمت اٹھاتے کہ راتوں کو نماز میں کھڑے رہنے سے پاؤں سوج سوج جاتے۔ ساری عمر بے چھٹے جو کی روکھی روٹی کبھی پیٹ بھر کر کھائی ہی نہیں۔ گر سنگی کی ایذا کو دبانے کے لیے ہمیشہ بطن مبارک پر پتھر باندھے رہتے تھے۔اکثر راتیں اہل بیت نبوی پر گزر جاتیں کہ چراغ تک نہیں جلتا تھا۔ کھجور کے کھرے بوریے پر لیٹنے سے پہلوؤں میں اور پیٹھ میں بدھیاں پڑ پڑ جاتی تھیں اور حدیث "وقرتہ عینی فی الصٰلوۃ" میں تو آپ نے فرما بھی دیا کہ میرا جی تو نماز ہی میں خوش ہوتا ہے۔

ابن الوقت : یہ تو وہی آپ عاقبت کی خوشیوں کی پھر لے دوڑے۔ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ دین کے خیالات دنیا کی خوشی کو منغض کر دیتے ہیں۔
حجتہ الاسلام : تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا کی خوشی اور دنیا کا رنج دونوں کا مدار اکثر انسان کا اپنا خیال ہے۔ جس قدر دنیا اور دنیا کے تعلقات کی تم قدر و وقعت کرتے ہو ، اسی قدر تم دنیاوی خوشی اور رنج سے متاثر ہوسکتے ہو۔ دین جس کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے تعلقات سب ہیچ ہیں ، دنیاوی خوشیوں کو منغض نہیں بلکہ دنیاوی رنج اور خوشی دونوں کو انسان کی نظر میں حقیر اور ناچیز کر دیتا ہے۔ جو شخص غصے کو پی جائے ، انتقام نہ لے ، جھوٹ نہ بولے ، غیبت نہ کرے ، حریص و طماع نہ ہو ، جابر و سخت گیر نہ ہو ، ممسک و بخیل نہ ہو ، مغرور و متکبر نہ ہو ، نہ کسی سے لڑے نہ جھگڑے ، نہ کسی کی حسد کرے ، نہ کسی کو دیکھ کر جلے ، عافیت میں شاکر ، مصیبت میں صابر ، ہنس خلق ، بردبار ، متحمل ، متواضع ، منکسر ، مستغنی ، نفس پر ضابط ، قانع ، سیر چشم ، متوکل ، ثواب عاقبت کا امیدوار ، یعنی خلاصہ یہ ہے کہ دین دار ہو ، میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اور کو بھی خوشی ہوسکتی ہے اگرچہ وہ ہفت کلیم کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا شخص آپ سے بھی خوش اور اس سے عزیز قریب دوست آشنا بھی خوش ، رضی اللہ عنہم و رضواعنہ۔ دنیا دار آدمی تبھی خوش رہ سکتا ہے کہ جس جس چیز کو اس کا جی چاہتا جائے فی الوقت مہیا و میسر ہوتی چلی جائے مگر کسی کو ابتدائے دنیا سے آج تک یہ بات نصیب ہوئی ہے ، یا آیندہ تابقائے دنیا کسی کو اس بات کے نصیب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ دوسرا طریقہ خوشی حاصل کرنے کا یہ ہے کہ طبیعت کو روکا ، خواہشوں کو دبایا ، حاجتوں کو کم کیا جائے اور یہی ہے خلاصہ دین کی تعلیم کا جہاں تک اس کو اصلاحِ معاش سے تعلق ہے۔
ابن الوقت : ایسے بھی کوئی ہوں گے جن کی دنیا بوجہ دین داری آرام سے گزرتی ہو گی؟ مجھے تو دین فی حد ذاتہ مصیبت کا ایک پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں سینکڑوں تو مذہب ہیں اور ہر مذہب میں ایک سے ایک عقیل ، ایک سے ایک خدا پرست ، ایک
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عائشہ آپ نے میرے حصے کا کام بھی کر دیا. جزاک اللہ...جیتی رہیں اور بہت سا خوش رہیں...
معذرت کہ میں جلدی ٹائپ نہیں کر پائ..اس ہفتہ بہت مصروفیت ہے.
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
عائشہ آپ نے میرے حصے کا کام بھی کر دیا. جزاک اللہ...جیتی رہیں اور بہت سا خوش رہیں...
معذرت کہ میں جلدی ٹائپ نہیں کر پائ..اس ہفتہ بہت مصروفیت ہے.
پھر کیا ہوا آپ مصروف تھیں میں نے کردیا ۔۔:)
اور پلیز اپیا معذرت نہیں ۔
 
Top