عموماً ایسی کتابیں جن کی اشاعت اول یا تصنیف کو ساٹھ برس نہ گزرے ہوں، محفوظ ہوتی ہیں۔جملہ حقوق کا کیسے علم ہوگا؟
عموماً ایسی کتابیں جن کی اشاعت اول یا تصنیف کو ساٹھ برس نہ گزرے ہوں، محفوظ ہوتی ہیں۔جملہ حقوق کا کیسے علم ہوگا؟
اچھا خیال ہے، بچوں کا ادب ضرور ڈیجیٹائز ہونا چاہیے، چاہے کسی میگزین سے ہی کیوں نہ ہوبچوں کے ادب میں یہی مسئلہ ہے کہ زیادہ تر کے حقوق آزاد نہیں ہوئے۔ اور جو آزاد ہیں وہ شاید اتنے پرانے ہیں کہ آج کل کی نسل کے بچوں کی پسند شاید نہ ہوں۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ میگزین کے کاپی رائیٹ کی کیا صورت حال ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق یو کے میں تو 25 سال بعد میگزین کے لے آوٹ حقوق آزاد ہو جاتے ہیں یعنی سکین کیا جا سکتا ہے لیکن ٹائپ کر کے دوبارہ پبلش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پاکستان میں بھی ایسی صورت حال ہے تو کم از کم پرانے بچوں کےرسائل کو ریختہ کی طرز پر ڈیجیٹائز کیا جا سکتا ہے۔
غالباََ پاکستان میں مصنف کی وفات کے پچاس سال بعد کتاب کے حقوق محفوظ نہیں رہتے، ہندوستان میں شاید یہ مدت 60 سال ہے۔عموماً ایسی کتابیں جن کی اشاعت اول یا تصنیف کو ساٹھ برس نہ گزرے ہوں، محفوظ ہوتی ہیں۔
یہ ٹائپنگ ماسٹر کون ہیں؟کتابوں کی ٹائپنگ چل رہی ہے اور ٹائپنگ ماسٹر غائب ہیں۔ حیرت کی بات ہے۔
لیکن یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آئے گا۔اگر ناولز کو بھی اردو ادب میں شامل سمجھا جائے تو مابدولت آدم جی ایوارڈ یافتہ ناول خدا کی بستی از شوکت صدیقی کی سفارش کریں گے ۔
یہ ناول 1957ء میں شائع ہوا تھا۔ شاید اس کے کاپی رائٹ ختم ہو چکے ہیں۔لیکن یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آئے گا۔
یہ ناول کافی پرانا ہے ، برادرم شمشاد ۔لیکن یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آئے گا۔
شکریہ برادرم شمشاد ۔1957 میں شاید پہلی بار شائع ہوا تھا، اس کے بعد کتنی دفعہ شائع ہو چکا ہے، یہ نہیں معلوم۔
منتظمین تسلی کر لیں تو یہ ایک بہترین اضافہ ہو گا۔
لیکن یہ کاپی رائیٹ کے زمرے میں آئے گا۔
قانون شاید مصنف کی وفات کے پچاس سال بعد کا ہے نہ کہ پہلی بار شائع ہونے کی تاریخ سےیہ ناول 1957ء میں شائع ہوا تھا۔ شاید اس کے کاپی رائٹ ختم ہو چکے ہیں۔
نہیں شمشاد بھیا مجھے یہ نام پسند آیا۔لگتا ہے عینی آپی نے جادۂ تسخیر پڑھ رکھی ہے۔