لائل پور سے فیصل آباد ۔ 1

ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔​
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔​
تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

اب جیسے لاہور کے باہر راوی اور دلی کے باہر جمنا پہرہ دیتی ہے، ویسے ہی ٹائیبر کا دریا، روم کی راکھی کرتا ہے۔ تاریخ کی کہانی، ریل کی طرح پٹڑیوں کی محتاج تو ہے نہیں، سو بھٹکتی بھٹکتی ٹائیبر پہ جا رکتی ہے۔
بات سترہ سو سال پرانی ہے مگر بار بار دہرائے جانے کے سبب ، لاشعور میں دو کے پہاڑے کی مانند بیٹھی ہے۔ یہ 312 عیسوی کا اکتوبر تھا۔ دریائے ٹائیبر کے ایک طرف شہنشاہ میکسنٹیئس کی فوج کھڑی تھی اور دوسری طرف سپہ سالار کانسٹینٹین کے سپاہی صف آراء تھے۔ کانسٹنٹین اپنی کم تعداد کے باعث عدم اعتماد کا شکار تھا۔ اس کی فوج میں کچھ عیسائی سپاہی تو تھے مگر وقت ان کے حق میں نہیں تھا اور یہ بھی ہماری اقلیتوں کی طرح شناخت چھپاتے اور عبادت گاہیں بچاتے پھرتے تھے۔ روم کے قیصر بار بار ان کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی کوششیں کرتے مگر ہر بار کچھ نہ کچھ لوگ بچ جاتے تھے۔​
جنگ سے پہلے، سپہ سالار نے فوج کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا۔ لشکر میں چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں۔ گھوڑے پہ سوار کانسٹنٹین نے تلوار آسمان کی طرف بلند کر کے اعلان کیا کہ اسے ایک صلیب نظر آئی ہے اور حکم ملا ہے کہ یہ جنگ عیسائیت کی بقا کی جنگ ہے۔ اگلی صبح، معرکہ شروع ہوا تو شام سے پہلے پہلے شاہی فوج گر چکی تھی اور آج روم عیسائیت کا مرکز ہے۔​
کہنے کو تو یہ جنگ کئی صدیاں پرانی ہے مگر مذہب کے نام پہ لڑی جانے والی یہ پہلی جنگ تھی۔ حکم دینے والے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عقیدے کی بنیاد پہ عقیدت مندوں کا قتل ابن آدم کو کہاں تک لے جائے گا۔ اب جب کہ میرا یہ سارا شہر ہی مسلمان ہوا پھرتا ہے، دیکھنے والی نظر، بس روم تک ہی جا سکی۔​
انیسویں صدی کے آخر میں جب انگریز نے حکومت اور ملکہ کی محبت میں سماج سدھار کا فیصلہ کیا تو نہریں کھود کر پنجاب کے کھیتوں کو پانی پہنچایا گیا۔ زمینوں کے اس دان میں وفاداریوں کا بھی ہاتھ تھا سو جو سرکار کے جتنا قریب تھا اس کی زمین بھی نہر کے اتنا ہی قریب تھی۔ پہلے پہل، بار کی اس بستی کو چناب کالونی کا نام دیا گیا۔ شہر کی بنیاد رکھنے والے انگریز تھے سو اب بھی کچھ سکولوں میں سفید چوغے پہنے شفیق بوڑھے، بوڑھیاں گیان دیتے نظر آتے ہیں۔​
کیپٹن ینگ نے جو آٹھ لکیریں کھنچیں تھیں ، اب وہاں گھنٹہ گھر کھڑا ہے اور یونین جیک کی یاد تازہ کرتا ہے۔ چناب کلب کے جن کھلے برآمدوں میں برطانوی افسر سستایا کرتے تھے وہاں اب بھی جب دھوپ پڑتی ہے تو راج کی خوشبو آتی ہے۔​
زمینوں کی اسی تقسیم میں ماسٹر سندر سنگھ کے بڑے بوڑھے بھی جالندھر سے اٹھ آئے اور نئی بستی کے شوق میں اپنے نام کے ساتھ لائلپوری لگانا شروع کر دیا۔ ماسٹر سندر سنگھ صرف سکندر حیات اور گیانی کرتار سنگھ کے استاد نہیں تھے بلکہ جگت ماسٹر تھے۔ ان کے کارناموں میں اکالی دل جیسی قومی تحریک، پنجابی کا پہلا اخبار اور پنجاب کے کونوں کھدروں میں کھلے خالصہ سکول آتے ہیں۔ عبداللہ پور کی نہر کے کنارے پہ لائل پور سنگھ سبھا کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ماسٹر جی نے اس عمارت کو خالصہ سکول میں تبدیل کیا۔ بڑھتے بڑھتے سکول کالج بن گیا اور خالصہ کالج، لائل پور کی پہچان۔​

فوٹو – حسن معراج –.

جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا تو اگلے دن پولیس نے ماسٹر صاحب کو بھی گرفتار کر لیا۔ قتل کا مقدمہ لڑتے لڑتے پنڈت مالویہ ماسٹر جی کو پھانسی کے پھندے سے کالا پانی کے ڈیڑھ سال تک تو لے آئے، مگر جرمانہ ادا کرتے کرتے آباد کاری والی زمینیں ضرور بک گئی۔​
کالا پانی سے واپسی پہ ماسٹر صاحب نے اکالی اخبار نکالا جو آگے چل کر آزادی کی آواز بنا۔ یہ آواز اتنی بلند ہو گئی کہ انگریزوں کو ماسٹر صاحب کو دوبارہ پس زندان کرنا پڑا۔ بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے یہ اخبار اردو میں بھی نکلنا شروع ہو گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد پنڈت مالویہ کے کہنے پہ ماسٹر صاحب نے امریکہ میں مقیم سکھوں کی مالی معاونت سے ہندوستان ٹائیمز کے نام سے انگریزی اخبار بھی نکالنا شروع کر دیا۔​
سرکاری پابندیوں اور معاشی مجبوریوں کے سبب اخبار زیادہ دن چل نہیں سکا اور جلد ہی پنڈت مالویہ سے ہوتے ہوئے گھنشیام داس برلا کے پاس چلا گیا۔ تمام عمر کھدر پہننے والے ماسٹر لائل پوری ایسے کانگریسی تھے جو مکمل آزادی پہ بھی یقین رکھتے تھے اور ساتھ ساتھ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی آواز اٹھاتے تھے۔​
تقسیم سے پہلے لائل پور میں سکھ جاٹ، مسلم شیخ ، ہندو تاجر اور کچھ اینگلو انڈین آباد تھے جو اپنے اپنے رنگوں سے ایک خوبصورت دھنک بنتے تھے۔ جاٹ زمینیں سنبھالتے، شیخ اور ہندو آڑھت دیکھتے اور اینگلو انڈین، سکول ، کلب اور دفتر کی تکون گول کرنے میں مصروف رہتے۔​
دن میں گنیش مل کی سیٹیاں سنائی دیتیں اور شام میں گنڈا سنگھ اپنے سالم تانگے پہ شہر کا چکر لگاتا۔ تھوڑا آگے خوشی رام بہاری لال مل تھی جو دو بھائیوں نے کھڑی کی تھی اور لال مل کے نام سے جانی جاتی تھی۔​
شہر کی وجہء شہرت آٹھ بازار تھے جو گھنٹہ گھر کے نکتہء اتصال سے آٹھ سمتوں کو نکلتے تھے۔ باہر کی طرف جاتے ہوئے یہ آٹھوں بازار، دائروں کی صورت، وقفے وقفے سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ کوئی وقت تھا کہ ان 8 بازاروں کی اندروں گلیوں میں دوکانوں کی بجائے لوگ آباد تھے۔​
ایک بازار میں فتح علی خان اور مبارک علی خان ریاض کیا کرتے تھے۔ کومل اور تیور کی یہ دنیا ابھی نصرت فتح علی خان اور راحت فتح علی خان سے ایک پیڑھی کے فاصلے پہ تھی۔ کچھ دور، دوسرے بازار میں آہنگ کا ایک اور سلسلہ چلتا تھا۔ بیرسٹر کھجن سنگھ کے ہاں، ان کی تیکھے نین نقش والی لڑکی، تیجی، اپنی ماں کے ساتھ کیرتن کیا کرتی تھی۔​

ہندی فلموں کے مشہور اداکار امیتابھ بچن کی والدہ تیجی کور بچن

بات شبد سے نکلی اور شیکسپئر تک جا پہنچی۔ تیجی، لاہور کے ایک کالج میں پڑھاتی تھی جب اس کی ملاقات ہرونش رائے سے ہوئی جو شاعر بھی تھے اور استاد بھی۔ 1941 میں دونوں کی شادی ہو گئی اور اگلے سال دونوں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ آزادی کی تحریک زوروں پہ تھی سو بیٹے کا نام “انقلاب” رکھا گیا مگر پھر سمترا نندن پنٹ کے کہنے پہ نام بدل کر امیتابھ بچن رکھ دیا گیا۔ کمپنی باغ کے سامنے سے ٹھنڈی سڑک گزرا کرتی جس کے ایک سرے پہ جیل اور زرعی کالج تھا اور دوسرے سرے پہ چناب کلب۔ شہر سے باہر بھگت سنگھ اور داروغہ بشیسور ناتھ کے لڑکے کی کہانیاں تھیں جو ریل کے ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔​
اور پھر سن سینتالیس آ گیا۔ ۔ ۔​
(جاری ہے)​
محمد حسن معراج​
بہ شکریہ ڈان اردو
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ۔
تمام لائلپوریوں، یا زندگی کے کسی حصے میں بھی اس سوہنے، دیسی شہر لائلپورسے تعلق رکھنے والوں کے دل کے تاروں کو چھو کر' ناسٹیلجیا'کے دریا میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا ہے آپ نے۔ دوسرا حصہ جلد پوسٹ کر کے دعائیں لیں۔
 
بہت عمدہ۔
تمام لائلپوریوں، یا زندگی کے کسی حصے میں بھی اس سوہنے، دیسی شہر لائلپورسے تعلق رکھنے والوں کے دل کے تاروں کو چھو کر' ناسٹیلجیا'کے دریا میں ہاتھ پاؤں مارنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا ہے آپ نے۔ دوسرا حصہ جلد پوسٹ کر کے دعائیں لیں۔
پسندیدگی کا شکریہ انکل:love:
ابھی تو یہی پہلا حصہ موجود ہے سائٹ پر:)
جب دوسرا حصہ آئے گا انشاللہ پوسٹ کو دوں گا:)
 
Top