طارق شاہ
محفلین
غزل
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و آداب تھک گئے
قائم ہیں سطحِ آب پہ وہ نقش، جن کی سب!
کوشِش میں زیرِآب کی، گرداب تھک گئے
تھی پُر اذیّتوں سے مُسافت نہ پُوچھیے!
ہم کیا سفر کے سارے ہی اسباب تھک گئے
جب اور ظلم کرنے کی طاقت رہی نہ کُچھ!
سب میں اُڑائی میرے تب و تاب تھک گئے
بھرتا کہِیں ہے پیٹ تسلّی سے بھی کوئی!
دے دے کے شہر و دہر کے ارباب تھک گئے
یک مُشت خاتمہ کا، تب آیا اُنھیں خیال
کر کر کے جب سِتَم مِرے احباب تھک گئے
آنکھیں بھی اب وہ دوست خلشؔ مانتی نہیں
جِن میں سجا کے روز نئے خواب تھک گئے
شفیق خلشؔ