زیک
مسافر
کتنی بیویاں تھیں کہ نام بھولنے کی نوبت آئی؟صابا، مجھے اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہے، ابھی گھر جاتا ہوں تو پوچھ کر آتا ہوں
کتنی بیویاں تھیں کہ نام بھولنے کی نوبت آئی؟صابا، مجھے اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہے، ابھی گھر جاتا ہوں تو پوچھ کر آتا ہوں
ایک ہی تھی، لیکن سر پر چوٹ لگنے اور کافی عرصے کومے میں رہنے کی وجہ سے اس کی یادداشت پر برا اثر ہوا تھا کہ جہاں بہت کچھ یاد رہتا وہاں بہت کچھ بھول بھی جاتا۔کتنی بیویاں تھیں کہ نام بھولنے کی نوبت آئی؟
واہ جی واہ چھا گیا لال زادہ تو ۔۔۔جس شاہراہ پر کام چل رہا تھا اس کا بڑا حصہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں آتا تھا جہاں سے وزیراعظم نواز شریف صاحب انتخابات جیتے تھے، اور انھوں نے یہ سیٹ رکھ لی تھی۔ اس وقت طالبانی عفریت بھی اس طرح سر عام نہیں دندناتی تھی اور سیکوریٹی کے بے تحاشہ مسائل بھی نہیں تھے۔ نواز شریف صاحب اکثر مری، ایوبیہ اور نتھیا گلی وغیرہ آتے رہتے اورکبھی کبھار بغیر کسی پروٹوکول کے ان علاقوں کی سیر کو بھی نکل پڑتے تھے۔
کمپنی نے پشاور یونیورسٹی کا کیمپس ( بیرکس نما عمارتیں) جو باڑہ گلی میں تھا، کا کچھ حصہ معمولی کرائے پر لے رکھا تھا اور شدید برفباری والے موسم کے دنوں میں باڑہ گلی کی خیمہ بستی سمیٹ لی جاتی اور مسقتل قیام والی لیبر کو وہاں منتقل کر دیا جاتا۔ کبھی کبھار میں بھی بمعہ دو ساتھیوں کے اپنے ایک روزہ ہائیکنگ ٹورز کے دوران وہاں رات کو قیام کر لیا کرتا تھا۔
ایسے ہی کچھ ٹورز میں لال زادہ بھی شامل ہوجاتا تھا۔ وہ پہاڑوں وغیرہ پر تو نہ چڑھتا لیکن اردگرد گھومنے کے لیے نکل جاتا۔ ایک صبح ہم تینوں ہائیکرز تیاری کر کے کیمپ سے باہر نکلے تو لال زادہ سڑک کے ساتھ بنی ایک چھوٹی سی پارکنگ سپیس میں کنسٹرکشن مشینری کے چار پانچ آپریٹرز کے ساتھ بیٹھا لکڑیاں جلائے آگ سینک رہا تھا۔ ہم بھی اسی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایک سفید کار نتھیا گلی والی طرف سے آ کر سڑک پر رک گئی۔ اس میں سے نواز شریف صاحب اور ان کے دو ساتھی اتر ے اور دھیرے دھیرے آپریٹرز کی طرف بڑھنے لگے، وہ سارے ایک دم اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ان سے ہتھ پنجا کرنے لگ گئے۔ ہم اچانک اپنے سامنے وزیر اعظم کو دیکھ کر حیران اور سُن ہوئے پڑے کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ نواز شریف صاحب باری باری سب سے حال احوال پوچھتے جا رہے تھے، جب لال زادہ کی طرف ہاتھ کیا تو وہ پشتو لہجے میں پنجابی الفاظ ادا کرتا ہوا یوں گویا ہوا 'صابا، ہتھ وی ملاساں پر میں چھاتی لانی' نوازشریف صاحب نے مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ وا کر دئیے اور لال زادہ کو چھاتی لگا لیا۔
سب سے ملنے کے بعد پھر شاہراہ کے بارے میں بات کرنے لگے کہ کہاں تک پہنچے ہو بھئی؟ آپریٹرز نے مختلف سائیٹس کے نام لیے اور بتایا کہ وہاں اتنا کام ہو گیا اور فلاں جگہ اتنا۔ وزیراعظم سر ہلاتے رہے، پھر کہا کہ یہاں آپ لوگوں کو کیا کچھ مشکلات ہیں؟ ابھی میں اور ایک اور ہائیکر ساتھی جواب دینے کے لیے الفاظ کا چناؤ ہی کر رہے تھے کہ لال زادہ اپنے پشتو لہجے اور پنجابی الفاظ کے ساتھ ایک بار پھر بول پڑا۔ 'صابا، آپ تے اسلام آباد بیٹھے آ او، اسی ایتھے سردی نال مر گئے آں' اے ویکھو لکڑاں بال بال کے سردی پئے لانے آں'۔
لال زادہ کی باتیں سن کر نواز شریف صاحب نے ساتھ کھڑے آدمی سے کچھ بات چیت کی جو مجھے سمجھ نہیں آئی۔ پھر ہم سب سے پوچھا کہ یہاں کوئی انچارج وغیرہ ہے؟تو ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ کوئی ایگزیکٹو پوسٹ والا بندہ نہیں ہے تو پھر ساتھ کھڑے آدمی سے ذرا بلند آواز میں کہا کہ اس سڑک کے پی سی ون میں ترمیم کرائیں اور ان کام کرنے والے لوگوں کو مٹی کا تیل اور چولہے مہیا کروائیں۔ اس کے اخراجات حکومت دے گی۔ پھر ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا، کچھ اور ؟
لال زادہ پھر بول پڑا، 'صابا، ایتھے ٹھنڈ بڑی لگدی اے کج کھان نوں وی دیو'۔ نواز شریف صاحب ہنس پڑے، اور پھر مزاح میں کہا، گرما گرم حلوہ کیسا رہے گا ؟ لال زادہ نے فوراً سر ہلایا اور بولا 'ٹھیک اے صابا، پر دیسی گھی اچ پکیا ہووے تے سواد آ جائے'۔
نواز شریف صاحب نے سر ہلایا اور ہمیں اللہ حافظ کہتے ہوئے دوبارہ گاڑی میں جا بیٹھے۔ یہ سارا قصہ شام سے پہلے پہلے پوری کمپنی میں پھیل چکا تھا اور اگلے دن ہی مٹی کا تیل، چولہے، سوجی و دیگر لوازمات ہر خیمہ بستی کے میس کے لیے لازمی قرار دئیے جا چکے تھے بمعہ مکھن کے۔ اس کے بعد شاید پوری سردیاں لال زادہ جس طرف بھی نکلتا، فضا 'لال زادہ زندہ باد' کے نعروں سے گونج اٹھتی۔
بلاشبہ۔واہ جی واہ چھا گیا لال زادہ تو ۔۔۔
نوازشبہت دلچسپ!
جی ضرور ضرور انتظار رہے گادو تین اور بھی اچھوتے واقعات ذہن میں ہیں وقت ملا تو وہ بھی شئیر کرتا جاؤں گا۔
اس کے ہاتھ میں ان چوڑیوں کے ٹکڑے تھے جو سلپ ہوتے ہوئے ریما کے کلائی سے ٹوٹی تھیں۔ ریما اور بابر علی زور زور سے ہنسنے لگے کہ اس زاویے سے انھیں ہی نظر آ رہا تھا۔ پھر بابر علی نے وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں ہم سب کو دکھائیں۔ ہم بھی ہنس پڑے۔ بابر علی نے کہا، ریما تم نے بڑے بڑے عاشق دیکھے ہوں گے لیکن اس سے بڑھ کر نہیں۔ لال زادہ نے ضد کی کہ میری بازو پر ان ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نوک سے اپنا آٹو گراف دو اور کافی بحث مباحثے کے بعد ریما کو ایسا کرنا ہی پڑا۔
ہن بندہ کی کہوے انج دیا نوں ۔اپنے ساتھ بیتی بڑھا چڑھا کر سنائی تھی
یعنی ہر روز باکسر بھائی ایک دو کوایسے اور اس سے ملتے جلتے واقعات کیونکہ ہر دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے تھے
مزہ آیا پڑھ کر بہت خوب
لال زادہ کے لئے
تکبر اور نخوت کے مارے لوگہن بندہ کی کہوے انج دیا نوں ۔
صرف باکسر صاحب نہیں، بیک وقت پانچ چھ سائیٹس پر کام ہو رہا ہوتا تھا تو روزانہ ہی کسی نا کسی طرف کچھ نہ کچھ ایسا ویسا ہوتا رہتا تھا۔یعنی ہر روز باکسر بھائی ایک دو کو
فکرمندی اس وقت ہوتی تھی جب کسی دن کہیں سے بھی ایسی کوئی اطلاع نہ آتی تھی
پھر انکوائری کا کیا بنا؟جس راستے پر ٹریفک بھی رواں دواں ہو اور کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہو، وہاں تعمیرات کا کام کرنا کافی مشکل ہوتا ہے اور پھر یہ سڑک توتھی ہی مکمل پہاڑی علاقے میں۔ پہلی اور دوسری بیس ڈالتے وقت سڑک کو معمولی سے وقت کے لیے بند کر دیا جاتا اور جب اس پر ہیوی رولر ایک چکر لگا جاتا تو پھر ٹریفک کو گزرنے دیا جاتا اور یہ کام نہایت سرعت سے ہوتا تاکہ ٹریفک جام نہ ہو۔ لیکن جب اس بیس پر اسفالٹ ڈالنے کا کام کرنا ہوتا تو سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک طرف سے ٹریفک روک دی جاتی تھی۔ پھر دس سے پندرہ منٹ کے وقفوں میں دونوں اطراف سے ٹریفک روکی اور چلائی جاتی۔ اس طرح ٹریفک بھی تھوڑی بہت تکلیف کے ساتھ رواں رہتی اور اسفالٹ ڈالنے کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوتا جاتا۔
ایسے ہی اسفالٹ کے کسی کام کے دوران پندرہ منٹ کی روانی کے بعد ایک طرف سے ٹریفک روکی گئی تو کچھ دیر میں ایک کار والے صاحب جو رکی ہوئی ٹریفک میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر کھڑے تھے، نے آ کر ضد شروع کر دی کہ اس طرف کا راستہ کھولو، مجھے جلدی ہے۔ جس مزدور کے ذمے ٹریفک روکنے کی ڈیوٹی تھی اس نے بتایا کہ جناب ابھی دس منٹ اس طرف سے ٹریفک رکی رہے گی اور پھر ہم یہ والی سائیڈ کھول دیں گے آپ دس منٹ صبر کریں۔ لیکن بندہ بھی کوئی ڈھیٹ تھا اس نے مزدور سے بحث مباحثہ شروع کر دیا اور بات تلخی تک بڑھ گئی۔ مزدور نے جب دیکھا کہ گفتگو میرے بس سے باہر ہو رہی ہے تو اس نے آدمی کو وہیں چھوڑا اور اپنے انچارج کے پاس چلا گیا۔ انچارج آیا اور ان صاحب کو سمجھانے لگا کہ جناب دس منٹ رہ گئے ہیں اب انتظار کریں اور ان مزدوروں سے بحث نہ کریں۔ وہ آدمی بڑبڑاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھ گیا اور جیسے ہی کار کے پاس پہنچا تو ایک زوردار گالی نکال دی جو انچارج کے کانوں تک پہنچ گئی۔ انچارج صاحب کافی صحتمند اور سابقہ پروفیشنل باکسر تھے، اور تارکول
کا سپرے کرواتے کرواتے اس طرف آئے تھے۔ گالی سنتے ہی ان کا پارہ جو پہلے ہی گرم گرم تارکول اور اس کی بدبو سے کافی ہائی ہوا پڑا تھا، مزید بلند ہو گیا۔ انھوں نے ایک جست بھری اور کار کا دروازہ کھولتے تقریباً اندر گھسے بندے کو گھیسٹ کر باہر نکال لیا اور ایک ڈیڈھ منٹ میں ہی اس کی درگت بنا دی۔ کار میں موصوف کی بیگم بھی بیٹھی تھیں، شوہر کو پٹتا دیکھ کر انھوں نے چیخ پکار شروع کر دی، اسی اثنا میں باقی کھڑی گاڑیوں والوں نے فوراً باہر نکل کر اس بندے کو باکسر صاحب سے بچایا۔ باقی بچے پانچ چھ منٹ وہ بندہ چپ کر کے گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ٹریفک کھلی اور گاڑیاں چل پڑیں اور کچھ دیر میں بات آئی گئی ہو گئی۔
ایسے اور اس سے ملتے جلتے واقعات کیونکہ ہر دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے تھے، اس لیے اسے بھی معمول کا واقعہ سمجھا گیا۔ لیکن اگلے دن صبح صبح ہی عسکریوں کی پانچ چھ گاڑیوں کوکمپنی کے دفاتر کے باہر لائین اپ دیکھا تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ سن گن لی تو پتہ لگا کہ کل گالی نکالنے اور پھر مار کھانے والا بندہ سابقہ COAS جنرل کاکڑ کا داماد ہے اور رات گئے پنڈی پہنچ کر اس نے سسر جی کو اپنے ساتھ بیتی بڑھا چڑھا کر سنائی تھی اور اگلی صبح ہی عسکریوں نے ایک انکوائری ٹیم بھیج دی ہے۔
دو ہفتے کے قریب انکوائری چلی۔ عسکریوں کے مختلف صیغوں کے لوگ وقوعے والے روز سائیٹ پر موجود لوگوں کے بیانات وغیرہ قلمبند کرتے رہے۔ انکوائری اپنے اختتامی مراحل میں تھی کہ خبر ملی کہ انکوائری ٹیم کا سربراہ جو ایک میجر جنرل ہے کل کمپنی دفاتر کا وزٹ کرے گا۔ کمپنی انتظامیہ کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ یہ عسکری پروٹوکول وغیرہ کے عادی ہوتے ہیں تو ایک آدمی کی ڈیوٹی اس بیرئیر پر لگائی جائے جہاں دفاتر کی پارکنگ ہے اور وہ آدمی جنرل کی گاڑی کو کسی ٹریفک پولیس والے کی طرح گائیڈ کر کے اندر پارکنگ میں لائے۔
اب جناب یہ ڈیوٹی لال زادہ کے ذمہ لگ گئی کہ اس سے زیادہ فارغ بندہ کمپنی میں کوئی نہیں تھا۔ اگلے روز لال زادہ کو سمجھا کر بیرئیر کے پاس بیٹھا دیا گیا کہ ایسے ایسے دس بجے ایک جنرل آئے گا اور آپ نے بیرئیر کو اٹھانا ہے اور اس کی گاڑی کو پارکنگ تک گائیڈ کرنا ہے۔ لال زادہ اپنی ڈیوٹی پر بیٹھ گیا۔ دس، سوا دس، ساڑھے دس بج گئے لیکن جنرل کی کوئی خیر خبر نہیں۔ مینجر آپریشنز نے جب دیکھا کہ کافی وقت ہو گیا تو دفتر سے باہر آئے اور چلتے چلتے پارکنگ میں پہنچ گئے۔ بیرئیر نیچے بندھا ہوا اور لال زادہ غائب۔ ایک دو بندے آگے پیچھے دوڑائے کہ پتہ کرو لال زادہ کدھر ہے؟ کچھ دیر میں لال زادہ کسی طرف سے آ نکلا۔
مینجر آپریشن : تمھاری یہاں ڈیوٹی لگائی تھی، تم کدھر غائب ہو گئے تھے ؟
لال زادہ : صابا، چائے پینے گیا تھا۔
مینجر آپریشن کو غصہ آ گیا، پہلے تو لال زادہ کو کچھ نرم گرم سنا ئیں پھر پوچھا، جنرل صاحب نہیں آئے ؟
لال زادہ : آیا تھا، لیکن میں نے بیرئیر نہیں اٹھایا۔
مینجر آپریشن کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں پھر غصے سے بولے، او کیوں نہیں اٹھایا ؟
لال زادہ : صابا آپ نے بولا تھا کہ جنرل صاحب دس بجے آئے گا، میں نے دس بجنےکے بعد پندرہ منٹ انتظار کیا، لیکن کوئی نہیں آیا پھر ایک سبز جیپ آئی اور یہاں رکی اس میں خاکی وردی والے فوجی بیٹھے تھے۔ ڈرائیور نے میرے کو بولا کہ بیرئیر اٹھاؤ تو میں نے اسے کہا کہ نہیں اٹھاتا اور تمھیں اندر نہیں جانے دوں گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو دوسری سیٹ پر بیٹھے بندے نے مجھے اپنی طرف بلایا اور پوچھا کہ بھئی اندر کیوں نہیں جانے دو گے ؟ تو میں نے کہا کہ میں بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ فوجی وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں، اور پھر فوج کا جنرل تو وقت کا بہت ہی پابند ہوتا ہے۔ جس جنرل نے آنا تھا اس کا وقت دس بجے تھا، وہ دس بجے نہیں پہنچا اورآپ وہ نہیں ہو جس نے دس بجے پہنچنا تھا۔ بیرئیر نہیں کھلے گا۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلایا لیکن بولا کچھ نہیں اور وہ گاڑی لیکر کر اس طرف کو نکل گئے ہیں اور میں چائے پینے چلا گیا۔
مینجر آپریشن بیچارے کے چہرے پر ایک رنگ آئے اور ایک جائے۔ اتنی دیر میں ایک نائب قاصد بھاگتا ہوا آیا اور مینجر آپریشنز کو بتایا کہ نہایت ضروری کال ہے فوراً دفتر آئیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھاگتے بھاگتے دفتر گئے۔ جنرل کے پی اے کی کال تھی اور اس نے بتایا کہ جنرل صاحب دس نہیں گیارہ بجے پہنچیں گے۔ گیارہ بجنے میں کچھ ہی وقت تھا مینجر صاحب خود بیرئیر پر جا کھڑے ہوئے اور جنرل کو ٹھیک گیارہ بجے ریسو کیا۔ جنرل نے اترتے ہی مینجر صاحب سے کہا کہ جو بندہ پہلے یہاں کھڑا تھا اسے بلائیں۔ مینجر آپریشن صاحب تقریباً گھگیاتے ہوئے معذرت کرنے لگے، پھر بولے سر وہ بیوقوف سا آدمی ہے، اسے معاف کر دیں۔ لیکن جنرل نے کہا معذرت کی کوئی بات نہیں آپ بس اس بندے کو بلائیں۔ دو تین منٹ میں لال زادہ حاضر ہو گیا۔ جنرل نے پہلے تو لال زادہ کا شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے ایک بھولا ہوا سبق یاد کروایا ہے اور پھر جیب سےکچھ روپے (شاید دو یا تین سو) نکال کر انعام بھی دیا۔
پھر انکوائری کا کیا بنا؟
نہیںکیا کاکڑ کے داماد کا فوج سے تعلق تھا؟
ہاںکیا آپ کی کمپنی کا فوج سے تعلق تھا؟
شاہراہ کی تعمیر کا اصل معاہدہ فوج کے ایک ذیلی ادارے کے ساتھ تھاپھر فوج کو تحقیقات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
کیا میجر جنرل کے پاس بہت فارغ وقت تھا؟
اچھا عبدالقیوم بھائی اس کے بعد لال زادہ کے کیا تاثرات تھے ؟ اگر آپ کو معلوم ہوتووہ بھی بتائیں ۔جنرل نے اترتے ہی مینجر صاحب سے کہا کہ جو بندہ پہلے یہاں کھڑا تھا اسے بلائیں۔ مینجر آپریشن صاحب تقریباً گھگیاتے ہوئے معذرت کرنے لگے، پھر بولے سر وہ بیوقوف سا آدمی ہے، اسے معاف کر دیں۔ لیکن جنرل نے کہا معذرت کی کوئی بات نہیں آپ بس اس بندے کو بلائیں۔ دو تین منٹ میں لال زادہ حاضر ہو گیا۔ جنرل نے پہلے تو لال زادہ کا شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے ایک بھولا ہوا سبق یاد کروایا ہے اور پھر جیب سےکچھ روپے (شاید دو یا تین سو) نکال کر انعام بھی دیا۔
اس کا لال سرخ چہرہ مزید سرخ ہو گیا تھا اور بہت عرصے تک لال زادہ نے وہ نوٹ سنبھال کر رکھےلال زادہ کی بقیا باتیں ؟
اچھا عبدالقیوم بھائی اس کے بعد لال زادہ کے کیا تاثرات تھے ؟ اگر آپ کو معلوم ہوتووہ بھی بتائیں ۔