لال مسجد کا قضیہ ختم ہوا ۔ لال مسجد کے ذمہ داروں نے اپنے مطالبات کو راہِ حق پر سمجھتے ہوئے ہتھیار ڈالے بغیر اپنی جانیں قربان کردیں ۔ حکومت نے بھی قانون اور ملک کی سالمیت کو اہم قرار دیتے ہوئے ایک فوجی ایکشن کے ذریعے چھ سات ماہ سے جاری اس تناؤ کو ختم کر ڈالا ۔ بات ختم ہوگئی ۔ آج ، کل اور شاید کچھ دنوں تک ہم سب اس حادثے پر اپنی مختلف آراء کے ساتھ اپنے جذبات اور حساسات کا اظہار کرتے رہیں گے ۔ جس میں ایک فریق حکومت کو الزام دیگا اور دوسرا فریق غازی عبدالرشید اور ان کے حواریوں کو حق پر سمجھے گا ۔ اور کچھ دنوں بعد یہ ردِ عمل کسی اور لال مسجد کے سانحے کے انتظار میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا ۔ پھر زندگی کا وہی ڈھب ہوگا ۔ روز مرہ کے وہی اصول ہونگے جو کہ ایک عام زندگی کے لیئے مختص ہوتے ہیں ۔ وہی سکوت ہوگا جو کسی جنگل میں خونخوار جانوروں کے اپنے شکار کو زیرِ دام میں لانے کے بعد ان کی چیڑ پھاڑ اور شکم پُری کے بعد ہوتا ہے ۔
یہاں تک یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارے جذبات اور احساسات صرف ایک معینہ مدت تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔ کسی حادثے یا سانحے کے بعد ہمارا جو ردِ عمل ہوتا ہے ، وہ صرف وقتی ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہماری سوچ صرف ہمارے جذباتی پن کی ہی ترجمانی کرتی ہے ۔ ہماری عقل و شعور کی نہیں ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ہم اس جذباتی رو میں ان سوالوں کو بھی اٹھاتے جس کی بناء پر یہ سانحہ رُونما ہوا ۔ ان محرکات کا بھی جائزہ لیتے ۔ جسکی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے کہ پاکستان اور اسلام کا امیج پوری دنیا میں متاثر ہوا ۔ غازی برادرن کو اس مقام پر لانے والوں کے چہرے بے نقاب کرنے پر زور دیتے ۔ حکومت کی سست روی اور پھر اچانک اس جارحانہ اقدام کی اتار چڑھاؤ کا موازانہ کرتے ۔ ان عوامل پر بھی غور کرتے کہ غازی عبدالرشید کو اپنی جان تک سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ۔ سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی پُراسرار خاموشی اور جانبداری کا سبب بھی جاننے کی کوشش کرتے ۔ جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کا اپنے دینی پیشواؤں سے اسقدر عقیدت اور لگاؤ کی نوعیت کو بھی سمجھتے جس کے دائرہِ کار میں آکر انہوں نے نہ صرف اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں بلکہ بہت سوں نے اپنی جانیں خالقِ حقیقی کے سپرد بھی کردیں ۔ مذاکرات میں مسلسل پیچ وخم کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔اور ایک عرصے تک جامعہ میں اسلحوں کی مسلسل ترسیل پر ملک کے حساس اداروں کی خاموشی کا راز دریافت کرنے کی جستجو بھی کرتے ۔
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جس سے ہمیں شاید ہی کسی قسم کا سروکار ہو ۔ کیونکہ ہم نے اپنا حق یا تو لال مسجد کے ذمہ داروں کی حمایت میں ادا کردیا ہے یا پھر حکومت کی مخالفت میں ہم نے صیح سمت میں حرکت کی ہے ۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسے سوالات اور حقائق کو جاننے کی کوشش کی تو ہوسکتا ہے کہ ہماری زندگی پھر سے پرانے معمولات کا شکار ہوجائے گی اور لال مسجد جیسے واقعات شاید پھر رُونما نہیں ہوں - کیا ہماری دوڑ یہیں تک تھی ۔ ؟ اگر نہیں تو ہمیں اس سانحے پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے اور ماتم کرنے کے بجائے ان محرکات کی وجوہات تلاش کرنا چاہیئے جس کی باعث یہ سانحہ وجود میں آیا ۔ اختلافات سیاسی ، فقہی یا ذاتی ہو ۔ مگر نقصان اس میں پوری قوم کا ہے ۔یاد رکھیئے آج لال مسجد والوںکی باری تھی کل کسی اور کی آجائے گی ۔ مگر کیوں ؟ ۔۔۔ یہی سوچنا ہے ۔ اس سے بچنے کے لیئے کوئی دیرپا و اثرپا حکمتِ عملی مرتب کی جائے ۔ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں ۔ ؟ اگر کرسکتے ہیں تو آیئے ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے لیئے کوئی ایسا لائحہ عمل سوچتے ہیں جس سے ہمار ے اندر خود کو ایکبار پھر سے زندہ رکھنے کی تحریک شروع ہو -
یہاں تک یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمارے جذبات اور احساسات صرف ایک معینہ مدت تک ہی محدود ہوتے ہیں ۔ کسی حادثے یا سانحے کے بعد ہمارا جو ردِ عمل ہوتا ہے ، وہ صرف وقتی ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہماری سوچ صرف ہمارے جذباتی پن کی ہی ترجمانی کرتی ہے ۔ ہماری عقل و شعور کی نہیں ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ہم اس جذباتی رو میں ان سوالوں کو بھی اٹھاتے جس کی بناء پر یہ سانحہ رُونما ہوا ۔ ان محرکات کا بھی جائزہ لیتے ۔ جسکی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے کہ پاکستان اور اسلام کا امیج پوری دنیا میں متاثر ہوا ۔ غازی برادرن کو اس مقام پر لانے والوں کے چہرے بے نقاب کرنے پر زور دیتے ۔ حکومت کی سست روی اور پھر اچانک اس جارحانہ اقدام کی اتار چڑھاؤ کا موازانہ کرتے ۔ ان عوامل پر بھی غور کرتے کہ غازی عبدالرشید کو اپنی جان تک سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ۔ سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی پُراسرار خاموشی اور جانبداری کا سبب بھی جاننے کی کوشش کرتے ۔ جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کا اپنے دینی پیشواؤں سے اسقدر عقیدت اور لگاؤ کی نوعیت کو بھی سمجھتے جس کے دائرہِ کار میں آکر انہوں نے نہ صرف اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں بلکہ بہت سوں نے اپنی جانیں خالقِ حقیقی کے سپرد بھی کردیں ۔ مذاکرات میں مسلسل پیچ وخم کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔اور ایک عرصے تک جامعہ میں اسلحوں کی مسلسل ترسیل پر ملک کے حساس اداروں کی خاموشی کا راز دریافت کرنے کی جستجو بھی کرتے ۔
یہ ایسے سوالات ہیں کہ جس سے ہمیں شاید ہی کسی قسم کا سروکار ہو ۔ کیونکہ ہم نے اپنا حق یا تو لال مسجد کے ذمہ داروں کی حمایت میں ادا کردیا ہے یا پھر حکومت کی مخالفت میں ہم نے صیح سمت میں حرکت کی ہے ۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسے سوالات اور حقائق کو جاننے کی کوشش کی تو ہوسکتا ہے کہ ہماری زندگی پھر سے پرانے معمولات کا شکار ہوجائے گی اور لال مسجد جیسے واقعات شاید پھر رُونما نہیں ہوں - کیا ہماری دوڑ یہیں تک تھی ۔ ؟ اگر نہیں تو ہمیں اس سانحے پر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے اور ماتم کرنے کے بجائے ان محرکات کی وجوہات تلاش کرنا چاہیئے جس کی باعث یہ سانحہ وجود میں آیا ۔ اختلافات سیاسی ، فقہی یا ذاتی ہو ۔ مگر نقصان اس میں پوری قوم کا ہے ۔یاد رکھیئے آج لال مسجد والوںکی باری تھی کل کسی اور کی آجائے گی ۔ مگر کیوں ؟ ۔۔۔ یہی سوچنا ہے ۔ اس سے بچنے کے لیئے کوئی دیرپا و اثرپا حکمتِ عملی مرتب کی جائے ۔ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں ۔ ؟ اگر کرسکتے ہیں تو آیئے ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے لیئے کوئی ایسا لائحہ عمل سوچتے ہیں جس سے ہمار ے اندر خود کو ایکبار پھر سے زندہ رکھنے کی تحریک شروع ہو -