محب علوی
مدیر
حالیہ انتخابات میں مشرف اور اس کی قاتل لیگ کو لال مسجد کے واقعہ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اس ظلم کا بدلا لوگوں نے کسی حد تک الیکشن میں ووٹ قاتل لیگ اور ایم ایم اے کے خلاف ڈال کر لیا۔ جاوید ہاشمی نے شیخ رشید کے خلاف مہم میں بنیادی نعرہ بھی یہی لگایا کہ لال حویلی یا لال مسجد۔ سرحد میں مذہبی جماعتوں کی لال مسجد والے واقعہ پر مجرمانہ خاموشی نے ان کی بساط لپیٹ دی۔ پنجاب میں ق لیگ کے ایک دو ارکان نے ٹکٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اس پر لال مسجد کا خون لگا ہے ( وجہ چاہے کچھ اور ہو مگر عوامی جذبات کو وجہ بنا کر یہ بہانہ بنایا گیا ( ۔ اس واقعہ کے اثرات کو شجاعت حسین ، مشاہد حسین اور شیخ رشید نے ٹی وی پر تسلیم کیا اور کسی نی کسی طریقے سے اپنی براءت کا اظہا ربھی کیا۔
نو جوان کشمیری صحافی اور راشٹریہ سہارا کے جموں و کشمیر میں نامہ نگار صریر خالد نے لال مسجد آپریشن کے ”اختتام“پر (لال مسجد....جیتاجنرل پِٹا پاکستان!) کے عنوان سے ایک تجزیاتی مضمون لکھا تھا جس میں اُن حالات کی قبل از وقت پیش گوئی کی گئی تھی کہ جو اس آپریشن کے بعد پیش آرہے ہیں۔ یہ تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس بدترین سانحہ کے اثرات بھی بتاتا ہے۔
صریر خالد
لال مسجد کی بنیاد دہائیوں پہلے پڑی تھی لیکن اس کے نام کا مفہوم جیسے اب واضح ہو رہا ہے۔جیسے اس کی بنیاد رکھنے والے کو غیب سے یہ عندیہ ملا تھا کہ ایک روز اس مسجد کے درو دیوار اور اسکا فرش خونِ مسلم سے لال ہوگااور اس مسجد کی بے حرمتی ایک ایسے سلسلے کی بنیاد بنے گی کہ جو نہ جانے کیا کیا ”گُل“کھلائے گی۔
حکومتِ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی مانیںتو لال مسجد آپریشن ختم ہو چکا ہے ،مُش، بُش کو خونِ مسلم کا نذ رانہ چڑھا کر اپنی آمریت کو مزیدکچھ وقت کے لئے دوام بخشنے میں کامیاب دکائی دے رہا ہے لیکن زمینی صورتحال کو دیکھیں تو پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ آپریشن اب شروع ہوا ہے۔
کب تک چلے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا طے ہے کہ نتیجہ پاکستان کی تباہی و رسوائی کے سواکچھ نہیں ہو گا۔کیا ہوا کہ مشرف سرکار اس آپریشن کی ”کامیابی “پر بغلیں بجا رہی ہے،مگر اندر ہی اندر مشرف کو بھی معلوم ہے کہ اس ”کامیابی“نام کے جو بیج اُس نے بوئے ہیںاُن سے خوشبو دار پھولوں کی کونپلیں نہیں پھوٹیں گی ،بلکہ ایک ایسی زہریلی گیس خارج کرنے والی جھاڑیاں اُگیں گی کہ جو پوری قوم کو موت کی نیند نا بھی سلائے ،دماغی طور بانجھ ضرور بناسکتی ہے۔
مسجد کو میدانِ جنگ بنانے کے بنانے سے کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ،اس بات کا پوری طرح ثابت ہوجانا ابھی باقی ہے البتہ اس معاملے کو لیکر اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کو قبولنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ وقتی طور اگر کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ مشرف کا ہوا ہے۔
اوراب جس طرح کی باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے ان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ تاریخ ِ پاکستان میں بدترین الفاظ میں درج ہوئے لال مسجد کے واقع کی بساط خود حکمرانوں نے ہی بچھائی تھی۔
لال مسجد کی تاریخی دیواروں پر جتنی گولیاںلگی ہیں اتنے ہی سوالات ابھر کے سامنے آگئے ہیں جن کا مگر پاکستانی حکمرانون کے پاس کوئی ٹھوس اور عقل کے قابلِ قبول جواب نہیں ہے۔اگر خوحکومت کی ہی مان لیتے ہیں کہ لال مسجد میں محسور افراد کے پاس بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود موجود تھا تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہ ہتھیار کہاں سے آیا؟
جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے لال مسجد کے جغرافیہ کے مطابق بتایا ہے،کہ یہ مسجد پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)کے ہیڈ کوارٹر کے بغل میں واقع ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ کسی ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کا جہاں صدر مقام ہوگا وہ جگہ انتہائی حساس ہوگی اور اس علاقے پر سرکاری اداروں بلکہ بذاتِ خود متعلقہ خفیہ ادارے کی زبردست نظر ہوگی۔
پھر آئی ایس آئی کا جہاں تک تعلق ہے تو”قابلیت“میں اس کا دوسرے مما لک کی ایجنسیوں کے مقابلے میں زیادہ نام لیا جاتا رہا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب لال مسجد میں جنگی نوعیت کا اسلحہ جمع کیا جا رہا تھا تو آئی ایس آئی والے کہاں تھے؟آخر اس بات کو غفلت کیسے مانا جا سکتا ہے کہ ایک ایٹمی صلاحیت والے ملک کی خفیہ ایجنسی کے صدر مقام کے قریب ملی ٹینٹوں کا بیس کیمپ بن رہا ہو اور اسے(ایجنسی کو)خبر بھی نہ ہو جائے!۔
افسوس ہے کہ آپریشن سائلنس،جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی،سے اٹھنے والی گرد نے اُ ن بے شمار سوالوں کو مغلوب کر دیا ہے کہ جو اس آپریشن کی ”کامیابی“پر جشن منانے اور اس کا کریڈٹ لینے والوں کو شک کے دائرے میں لاتے ہیں۔
اگر لال مسجد واقعہ کی شروعات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جنرل کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ایک ایسے ملک میں، کہ جو اسلام کے نام پر بنا ہو ،مساجد کا انہدام عمل میں آئے تو اس پر رد عمل ہونا لازمی امر ہے۔حکومت کی یہ دلیل مان بھی لی جائے کہ مذکورہ مساجد ”غیر قانونی“طور بنائی گئی ہیں لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ یہ مساجد برس ہا برس سے یہاں قائم تھیں۔
آخر حکومت کو انکی اچانک مسماری کی کیا ضرورت تھی؟وہ بھی تب کہ جب مشرف نے پنٹاگون کے علاوہ امریکہ کے سبھی این جی اوز کو ملک پر راج کرنے اور یہاں اسلامی اقدار کو ختم کرکے ماڈرنائزیشن کے نام پر طوفانِ بد تمیزی مچانے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔زانیوں اور بدکاروں سے متعلق قانون کو بدل کر انکی حوصلہ افزائی کی جارہی ہو اور سکولوں کا نصاب بدلا جا رہا ہو۔پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی شناخت کچھ بھی ہواور انہیںکتنا ہی ”جنونی“نہ کہا جائے لیکن یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے فوجی حکمران کے ساتھ نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے کے باوجود بھی کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا اور تشدد پر نہیں اتر آئے بلکہ وہ پُر امن طور اور جمہوری طریقوں سے مزاحمت کرتے رہے۔یہاں تک کہ پرویز مشرف نے کشمیرپر پاکستان کی دعویداری چھوڈ دی توبھی وہاں کی کسی مذہبی جماعت نے اخباری بیانات سے بڑھکر کچھ بھی نہ کیا جس پر انہیں بزدل اور نہ جانے کیا کیا ہونے کے طعنے بھی دئے گئے۔
ا لبتہ مغرب پرستی کا معاملہ حد سے آگے نکل جائے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والا ملک عملاََ بد کاری کے ایک بڑے اڈے میں تبدیل ہو جائے تو پھر لال مسجد کے مولویوں کی طرح کئی لوگوں کے پیمانہ¿ صبرکا لبریز ہو جانا غیر فطری نہیں ہے۔حالانکہ لال مسجد میں جو کچھ بھی ہوا اس کے حوالے سے مولویوں کو کلین چٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا اسے ان کی نادانی اور بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔آخر مٹھی بھر لوگ یوں چند لوگوں کو اغوا کر لین اور پھر یہ سمجھ لیں کہ وہ پورے ملک کا نظام بدل سکیں گے تو اسے نادانی یا بیوقوفی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
بہر حال نادان مولویون کی بات ایک طرف البتہ حکومت نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتی ہے لہٰذا اسکے کسی غلط قدم کو نادانی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
مولوی حضرات نے مسجد میں جس طرح کا ماحول پیدا کیا اس کی اصل ذمہ داری انہی پر ڈالی جا سکتی ہے لیکن حکومت شک کے دائرے سے باہر نہیں ہے،بلکہ بعض مبصرین کا یہ ماننا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اصل میں پرویز کے پروردہ ہی لال مسجد کی بال میں ہوا بھر تے رہے۔
حکومت کے پاس ایسا کرنے یا کروانے کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔چناچہ لال مسجد کا تنازعہ ایک ایسے موقعہ پر شروع ہوا اور شہرت حاصل کر گیا کہ جب پاکستان میں جسٹس افتخار چودھری کی بر طرفی کے نام پر مشرف کے خلاف ایک موثر ،مستحکم اور مظبوط تحریک چل رہی ہے۔یہ پہلی تحریک ہے کہ جس نے نہ صرف خود پرویز مشرف کو بوکھلا کے رکھ دیا ہے بلکہ اس نے امریکہ کو بھی مشرف کے متبادل کی تلاش شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔چناچہ گزشتہ کئی ماہ کے دوران امریکہ نے سابق وزیر اعطم پاکستان بے نظیر بٹھو کو مشرف کے مقابلے میں کہیں زیادہ Liftدی اور مشرف کے تئیں بے رخی کا یا یوں کہیں کہ ایسے رویہ کا اظہار کیا کہ جیسے امریکہ بہادر کا مشرف سے دل بھر گیا ہو۔
بات الگ ہے کہ جسٹس چودھری کی بحالی کے نام پر مشرف مخالف یہ مہم تھم نہ سکی ہے البتہ ایک عرصہ تک اس مہم سے متعلق خبریں لال مسجد کی خبروںکے تلے دبی رہیں۔پھر مشرف کو ، وقتی طور ہی سہی، یہ فائدہ ضرور ملا کہ اُس نے امریکہ کو یہ سمجھنے پر آمادہ کرلیا کہ پاکستان میں اسے(امریکہ کو)اس (مشرف)سے زیادہ کوئی اور سفاک سپاہی نہیں مل سکتا ہے کہ جسے معصوم لڑکیوں ،بے قصور نمازیوں،طالبان علمِ دین اور عام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے پسینہ نہیں آئے گا۔
دوسری بات جو لال مسجد کے واقعہ کے ذریعہ مشرف امریکہ کو باور کرانا چاہتا تھا اور باور کرا گیا وہ یہ کہ” پاکستان میں ابھی دہشت گردی کا صفایا نہیں ہوا ہے اور اس سمت میںابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جو صرف آپ لوگ مجھ سے کرا سکتے ہیں“۔
اس سلسلے میں پرویز مشرف کا وہ خطاب اہم ہے کہ جو انہوںنے لال مسجد پر قبضہ کرنے کے بعد پی ٹی وی کے ذریعے کیا۔انہوںنے خود کہا کہ پاکستان میں ابھی دہشت گردی باقی ہے۔چناچہ مشرف کو اس وفاداری کا صلہ مل گیا۔امریکی صدر جارج بش کے سلامتی کے مشیر سٹیفن ہیڈلے نے گزشتہ اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔مشرف کو اس سے زیادہ کیا چاہئے کہ پاکستان کے اصل حکمران امریکہ کا اس پر ہاتھ رہے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو ،سینکڑوں انسانی جانوں کی قیمت پر ہی سہی،مشرف کو لال مسجدکے واقعہ سے بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ملی ہے۔البتہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اسکے نصیب میں ایک ایسی ہار آئی ہے کہ جو اسے نہ جانے کب تک ہار کا احساس کراتی رہے گی۔
ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ لال مسجد کو ہتھیاروں کا گودام بنانے والون کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔بلکہ استدلال یہ ہے کہ ایسے حالات ہی پیدا نہیں ہونے دئے جانے چاہئے تھے۔حکومت اگر چاہتی تو اس ہنگامہ آرائی، جس کا خمیازہ مدتوں پاکستان کو ہی اٹھانا پڑے گا،سے بخوبی بچا جا سکتا تھا۔لیکن جب حکمران خود ہنگامہ آرائی کرانا چاہتے ہوں تو کیا کیجئے گا۔بظاہر فوجی حکمرانوں نے غازی برادران کو” منانے“کی بہت کوششیں کی جو ناکام ہو گئیں مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا تشدد ہی وحد راستہ بچا تھا؟۔
جیسا کہ آپریشن سائلنس میں زندہ بچ نکلنے والی کئی طالبات نے کہا کہ دو ایک دن بعد ہی انکا راشن ختم ہوا تھا اور انہوں نے درختوں کے پتوں پر گزارہ کیا۔پانی اور بجلی کی سپلائی کاٹے جانے سے ان کی زندگی مشکل ہو چکی تھی۔ظاہر ہے کہ اگر حکمران چاہتے تو وہ تحمل سے کام لے کر کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر ہی معاملے کو اپنے حق میں کر لیتے۔
آخر بجلی ،پانی،راشن اور اسلحہ کے بغیر کوئی ،چاہے وہ کتنا ہی سخت جان کیوں نہ ہو،کب تک مزاحمت کر سکتا ہے یا جی سکتا ہے۔ مگر وردی والوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوںنے اس عبرتناک انداز میں مسجد پر یلغار کی کہ جیسے کسی دشمن کے آخری قلعے کو فتح کر نا ہو۔دلچسپ بات ہے کہ مشرف اینڈ کمپنی نے آخری معرکہ تب ”لڑا“کہ جب انکے مخالفین لندن میںایک جھٹ ہو کر ان (مشرف)سے نجات پانے کی راہیں تلاش کرنے کے لئے سر جوڑکر بیٹھے تھے۔
حالانکہ لال مسجد کے واقعہ کو لیکر پہلے پہل کسی حد تک مشرف کو عوامی حمایت بھی حاصل رہی اور اسکی اپنی وجوہات ہیں لیکن جوں جوں عام لوگ اس واقعہ کے نفع نقصان کا حساب لگائیں گے،وہ نہ صرف اصل معاملہ سمجھیں گے بلکہ وہ مشرف کومحض اقتدار کی لالچ میں کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ایک سفاک آمر کی طرح ہی دیکھیں گے۔
مشرف کے آپریشن سائلنس کی گونج نے پاکستان کو جو دیگر زخم دئے اُنکی فہرست لمبی ہے۔یہ اسی ”کامیابی“کا نتیجہ ہے کہ جن ”الزامات“کو وہ آج تک رد کرتے رہے اُنکی از خود تصدیق ہو گئی۔اس سلسلے میں بی جے پی کی اس پریس کانفرنس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس میں راج ناتھ سنگھ نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدرسوں کی شبیہ بری طرح متاثر ہو گئی،صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی مدارس شک کے دائرے میں آگئے اور اسلام دشمنوں کو پروپگنڈے کا جو موقع مل گیا وہ الگ سے۔آپریشن کو ”ختم “ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن پاکستان کو آپریشن کے جس ردعمل کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
قبائلیوں نے حکومت کے ساتھ جنگبندی کامعاہدہ توڑ دیا ہے،القاعدہ نے مشرف کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور فوج پر ہوئے حملوں میں ابھی تک قریب ایک سو افراد مارے گئے۔یہ سلسلہ کہاں اور کب رکے گا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
صدر مشرف نے بھلے ہی لال مسجد کے خطیب مولوی عبدلعزیز کو برقعہ پہن کر پی ٹی وی پر لاکر انکی تذلیل کی ہو اور انکے بھائی غازی رشید کو ایک بڑے دہشت گردکے بطور پیش کیا ہو لیکن، پاکستان سے لیکر افغانستان تک اور عراق سے لیکر ان تمام ممالک تک کہ جہاں القاعدہ جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں،ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے کہ جو انہیں (غازی کو)اپنا ہیرو مانتے ہیں۔جہاں تک غازی رشیدکا تعلق ہے انکا شدت پسند لائن اختیار کرنا ایک دلچسپ افسانے کی طرح ہے۔
اپنے والد اور لال مسجد کے بانی خطیب مرحوم عبد اللہ صاحب کی مرضی کے مخالف غازی اس مدرسے سے بھاگ کر یونیورسٹی میں پڑے ہیں کہ جہاں اپنے والد نے انہیں دینی تعلیم کے حصول کے لئے بھرتی کیا تھا۔صرف و نحو ،حدیث و تفسیر اور اس طرح کے دیگر دینی علوم کی جگہ بین الاقوامی تعلقات کی جدید تعلیم پانے والے عبد الرشید غازی نے یہیں تک اپنے والد کی نافرمانی نہیں کی بلکہ خاندانی روایات سے ہٹ کر انہوں نے یو این او کے پاکستان میں دفتر کی ملازمت کی ایک آزاد خیال خاتون کے ساتھ شادی رچائی اور سر پر ٹوپی اور منھ پر چہرے پر رکھنے کے ساتھ ساتھ مدرسے کی ”خدمت“کرنے کی دیگر سبھی روایات کی بغاوت کی۔یہاں تک کہ اپنے والد نے انہیں مدرسے اور مسجد وغیرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ اپنی ساری وراثت سے بھی بے دخل کر دیا۔
غازی کے والد مولانا عبداللہ کو 1998ءمیں کسی نے لال مسجد کے صحن میں گولی مار کر جاں بحق کر دیا تو غازی کی زندگی میں بہت حدبدل گئی۔وہ لال مسجد جانے لگے اور اچانک ہی انکے چہرے پر داڑھی نمودار ہوگئی۔انکے بھائی عبد العزیز نے بعد ازاں انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مولویت پڑھے بغیر ہی مولانا ہو گئے۔
پاکستان نے طالبان سے منھ موڑ کر ان پر حملے کئے تو اس صورتحال میں مولانا عبد الرشید غازی پہلی بار اپنی شدت پسند امیج لیکر ابھرے۔چناچہ طالبان کے حق میں اور حکومتِ پاکستان کے خلاف جو ہنگامہ ہوا اس میں مولانا کا کلیدی کردار نبھایا اور پھر جب حکومت نے ان پر دہشت گردی کی کارروایﺅں میں ملوث ہو نے کا الزام لگا کر انکی گاڑی سے بھاری مقدار میں اسلحہ بر آمد کئے جانے کا دعویٰ کیا تو اُنکی شناخت اور بھی زیادہ شدت پسند کے بطور ہوئی۔حالانکہ حکومت نے بعد ازاں مولانا پر لگائے گئے الزامات واپس لئے،مگرحکومت کے ساتھ انکی چپقلش بنی رہی۔
2003ءمیں پاکستانی افواج نے قبائلی علاقہ وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں پر بمباری کی تو مولانا نے یہاں مارے جانے والے پاک فوجیوں کو ہلاک اور حملوں مقامی قبایلیوں کو شہید کہنے کا فتویٰ جاری کر کے حکومت کو ایک جذباتی صورتحال سے دوچار کر دیا۔
غازی کی ہلاکت یا شہادت سے پاکستان میں کتنے لوگوں کی زندگی میں یوںافسانوی طرز پر تبدیلی آئے گی ،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا البتہ یہ کہنے میں کوئی شک و تردد نہیں ہے کہ لال مسجد کی لالی آسانی سے آسمانِ پاکستان سے نہیں جا ئے گی۔
نو جوان کشمیری صحافی اور راشٹریہ سہارا کے جموں و کشمیر میں نامہ نگار صریر خالد نے لال مسجد آپریشن کے ”اختتام“پر (لال مسجد....جیتاجنرل پِٹا پاکستان!) کے عنوان سے ایک تجزیاتی مضمون لکھا تھا جس میں اُن حالات کی قبل از وقت پیش گوئی کی گئی تھی کہ جو اس آپریشن کے بعد پیش آرہے ہیں۔ یہ تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اس بدترین سانحہ کے اثرات بھی بتاتا ہے۔
صریر خالد
لال مسجد کی بنیاد دہائیوں پہلے پڑی تھی لیکن اس کے نام کا مفہوم جیسے اب واضح ہو رہا ہے۔جیسے اس کی بنیاد رکھنے والے کو غیب سے یہ عندیہ ملا تھا کہ ایک روز اس مسجد کے درو دیوار اور اسکا فرش خونِ مسلم سے لال ہوگااور اس مسجد کی بے حرمتی ایک ایسے سلسلے کی بنیاد بنے گی کہ جو نہ جانے کیا کیا ”گُل“کھلائے گی۔
حکومتِ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی مانیںتو لال مسجد آپریشن ختم ہو چکا ہے ،مُش، بُش کو خونِ مسلم کا نذ رانہ چڑھا کر اپنی آمریت کو مزیدکچھ وقت کے لئے دوام بخشنے میں کامیاب دکائی دے رہا ہے لیکن زمینی صورتحال کو دیکھیں تو پھر ایسا لگتا ہے کہ یہ آپریشن اب شروع ہوا ہے۔
کب تک چلے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن اتنا طے ہے کہ نتیجہ پاکستان کی تباہی و رسوائی کے سواکچھ نہیں ہو گا۔کیا ہوا کہ مشرف سرکار اس آپریشن کی ”کامیابی “پر بغلیں بجا رہی ہے،مگر اندر ہی اندر مشرف کو بھی معلوم ہے کہ اس ”کامیابی“نام کے جو بیج اُس نے بوئے ہیںاُن سے خوشبو دار پھولوں کی کونپلیں نہیں پھوٹیں گی ،بلکہ ایک ایسی زہریلی گیس خارج کرنے والی جھاڑیاں اُگیں گی کہ جو پوری قوم کو موت کی نیند نا بھی سلائے ،دماغی طور بانجھ ضرور بناسکتی ہے۔
مسجد کو میدانِ جنگ بنانے کے بنانے سے کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ،اس بات کا پوری طرح ثابت ہوجانا ابھی باقی ہے البتہ اس معاملے کو لیکر اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کو قبولنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ وقتی طور اگر کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ مشرف کا ہوا ہے۔
اوراب جس طرح کی باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے ان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ تاریخ ِ پاکستان میں بدترین الفاظ میں درج ہوئے لال مسجد کے واقع کی بساط خود حکمرانوں نے ہی بچھائی تھی۔
لال مسجد کی تاریخی دیواروں پر جتنی گولیاںلگی ہیں اتنے ہی سوالات ابھر کے سامنے آگئے ہیں جن کا مگر پاکستانی حکمرانون کے پاس کوئی ٹھوس اور عقل کے قابلِ قبول جواب نہیں ہے۔اگر خوحکومت کی ہی مان لیتے ہیں کہ لال مسجد میں محسور افراد کے پاس بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود موجود تھا تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہ ہتھیار کہاں سے آیا؟
جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے لال مسجد کے جغرافیہ کے مطابق بتایا ہے،کہ یہ مسجد پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)کے ہیڈ کوارٹر کے بغل میں واقع ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ کسی ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کا جہاں صدر مقام ہوگا وہ جگہ انتہائی حساس ہوگی اور اس علاقے پر سرکاری اداروں بلکہ بذاتِ خود متعلقہ خفیہ ادارے کی زبردست نظر ہوگی۔
پھر آئی ایس آئی کا جہاں تک تعلق ہے تو”قابلیت“میں اس کا دوسرے مما لک کی ایجنسیوں کے مقابلے میں زیادہ نام لیا جاتا رہا ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب لال مسجد میں جنگی نوعیت کا اسلحہ جمع کیا جا رہا تھا تو آئی ایس آئی والے کہاں تھے؟آخر اس بات کو غفلت کیسے مانا جا سکتا ہے کہ ایک ایٹمی صلاحیت والے ملک کی خفیہ ایجنسی کے صدر مقام کے قریب ملی ٹینٹوں کا بیس کیمپ بن رہا ہو اور اسے(ایجنسی کو)خبر بھی نہ ہو جائے!۔
افسوس ہے کہ آپریشن سائلنس،جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی،سے اٹھنے والی گرد نے اُ ن بے شمار سوالوں کو مغلوب کر دیا ہے کہ جو اس آپریشن کی ”کامیابی“پر جشن منانے اور اس کا کریڈٹ لینے والوں کو شک کے دائرے میں لاتے ہیں۔
اگر لال مسجد واقعہ کی شروعات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جنرل کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ایک ایسے ملک میں، کہ جو اسلام کے نام پر بنا ہو ،مساجد کا انہدام عمل میں آئے تو اس پر رد عمل ہونا لازمی امر ہے۔حکومت کی یہ دلیل مان بھی لی جائے کہ مذکورہ مساجد ”غیر قانونی“طور بنائی گئی ہیں لیکن کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ یہ مساجد برس ہا برس سے یہاں قائم تھیں۔
آخر حکومت کو انکی اچانک مسماری کی کیا ضرورت تھی؟وہ بھی تب کہ جب مشرف نے پنٹاگون کے علاوہ امریکہ کے سبھی این جی اوز کو ملک پر راج کرنے اور یہاں اسلامی اقدار کو ختم کرکے ماڈرنائزیشن کے نام پر طوفانِ بد تمیزی مچانے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔زانیوں اور بدکاروں سے متعلق قانون کو بدل کر انکی حوصلہ افزائی کی جارہی ہو اور سکولوں کا نصاب بدلا جا رہا ہو۔پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی شناخت کچھ بھی ہواور انہیںکتنا ہی ”جنونی“نہ کہا جائے لیکن یہ بات صاف ہے کہ انہوں نے فوجی حکمران کے ساتھ نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے کے باوجود بھی کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا اور تشدد پر نہیں اتر آئے بلکہ وہ پُر امن طور اور جمہوری طریقوں سے مزاحمت کرتے رہے۔یہاں تک کہ پرویز مشرف نے کشمیرپر پاکستان کی دعویداری چھوڈ دی توبھی وہاں کی کسی مذہبی جماعت نے اخباری بیانات سے بڑھکر کچھ بھی نہ کیا جس پر انہیں بزدل اور نہ جانے کیا کیا ہونے کے طعنے بھی دئے گئے۔
ا لبتہ مغرب پرستی کا معاملہ حد سے آگے نکل جائے ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والا ملک عملاََ بد کاری کے ایک بڑے اڈے میں تبدیل ہو جائے تو پھر لال مسجد کے مولویوں کی طرح کئی لوگوں کے پیمانہ¿ صبرکا لبریز ہو جانا غیر فطری نہیں ہے۔حالانکہ لال مسجد میں جو کچھ بھی ہوا اس کے حوالے سے مولویوں کو کلین چٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔انہوں نے جو کچھ بھی کیا اسے ان کی نادانی اور بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔آخر مٹھی بھر لوگ یوں چند لوگوں کو اغوا کر لین اور پھر یہ سمجھ لیں کہ وہ پورے ملک کا نظام بدل سکیں گے تو اسے نادانی یا بیوقوفی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
بہر حال نادان مولویون کی بات ایک طرف البتہ حکومت نہ صرف ذمہ دار ہے بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتی ہے لہٰذا اسکے کسی غلط قدم کو نادانی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
مولوی حضرات نے مسجد میں جس طرح کا ماحول پیدا کیا اس کی اصل ذمہ داری انہی پر ڈالی جا سکتی ہے لیکن حکومت شک کے دائرے سے باہر نہیں ہے،بلکہ بعض مبصرین کا یہ ماننا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اصل میں پرویز کے پروردہ ہی لال مسجد کی بال میں ہوا بھر تے رہے۔
حکومت کے پاس ایسا کرنے یا کروانے کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔چناچہ لال مسجد کا تنازعہ ایک ایسے موقعہ پر شروع ہوا اور شہرت حاصل کر گیا کہ جب پاکستان میں جسٹس افتخار چودھری کی بر طرفی کے نام پر مشرف کے خلاف ایک موثر ،مستحکم اور مظبوط تحریک چل رہی ہے۔یہ پہلی تحریک ہے کہ جس نے نہ صرف خود پرویز مشرف کو بوکھلا کے رکھ دیا ہے بلکہ اس نے امریکہ کو بھی مشرف کے متبادل کی تلاش شروع کرنے پر مجبور کر دیا۔چناچہ گزشتہ کئی ماہ کے دوران امریکہ نے سابق وزیر اعطم پاکستان بے نظیر بٹھو کو مشرف کے مقابلے میں کہیں زیادہ Liftدی اور مشرف کے تئیں بے رخی کا یا یوں کہیں کہ ایسے رویہ کا اظہار کیا کہ جیسے امریکہ بہادر کا مشرف سے دل بھر گیا ہو۔
بات الگ ہے کہ جسٹس چودھری کی بحالی کے نام پر مشرف مخالف یہ مہم تھم نہ سکی ہے البتہ ایک عرصہ تک اس مہم سے متعلق خبریں لال مسجد کی خبروںکے تلے دبی رہیں۔پھر مشرف کو ، وقتی طور ہی سہی، یہ فائدہ ضرور ملا کہ اُس نے امریکہ کو یہ سمجھنے پر آمادہ کرلیا کہ پاکستان میں اسے(امریکہ کو)اس (مشرف)سے زیادہ کوئی اور سفاک سپاہی نہیں مل سکتا ہے کہ جسے معصوم لڑکیوں ،بے قصور نمازیوں،طالبان علمِ دین اور عام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے پسینہ نہیں آئے گا۔
دوسری بات جو لال مسجد کے واقعہ کے ذریعہ مشرف امریکہ کو باور کرانا چاہتا تھا اور باور کرا گیا وہ یہ کہ” پاکستان میں ابھی دہشت گردی کا صفایا نہیں ہوا ہے اور اس سمت میںابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جو صرف آپ لوگ مجھ سے کرا سکتے ہیں“۔
اس سلسلے میں پرویز مشرف کا وہ خطاب اہم ہے کہ جو انہوںنے لال مسجد پر قبضہ کرنے کے بعد پی ٹی وی کے ذریعے کیا۔انہوںنے خود کہا کہ پاکستان میں ابھی دہشت گردی باقی ہے۔چناچہ مشرف کو اس وفاداری کا صلہ مل گیا۔امریکی صدر جارج بش کے سلامتی کے مشیر سٹیفن ہیڈلے نے گزشتہ اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔مشرف کو اس سے زیادہ کیا چاہئے کہ پاکستان کے اصل حکمران امریکہ کا اس پر ہاتھ رہے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو ،سینکڑوں انسانی جانوں کی قیمت پر ہی سہی،مشرف کو لال مسجدکے واقعہ سے بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ملی ہے۔البتہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اسکے نصیب میں ایک ایسی ہار آئی ہے کہ جو اسے نہ جانے کب تک ہار کا احساس کراتی رہے گی۔
ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ لال مسجد کو ہتھیاروں کا گودام بنانے والون کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔بلکہ استدلال یہ ہے کہ ایسے حالات ہی پیدا نہیں ہونے دئے جانے چاہئے تھے۔حکومت اگر چاہتی تو اس ہنگامہ آرائی، جس کا خمیازہ مدتوں پاکستان کو ہی اٹھانا پڑے گا،سے بخوبی بچا جا سکتا تھا۔لیکن جب حکمران خود ہنگامہ آرائی کرانا چاہتے ہوں تو کیا کیجئے گا۔بظاہر فوجی حکمرانوں نے غازی برادران کو” منانے“کی بہت کوششیں کی جو ناکام ہو گئیں مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا تشدد ہی وحد راستہ بچا تھا؟۔
جیسا کہ آپریشن سائلنس میں زندہ بچ نکلنے والی کئی طالبات نے کہا کہ دو ایک دن بعد ہی انکا راشن ختم ہوا تھا اور انہوں نے درختوں کے پتوں پر گزارہ کیا۔پانی اور بجلی کی سپلائی کاٹے جانے سے ان کی زندگی مشکل ہو چکی تھی۔ظاہر ہے کہ اگر حکمران چاہتے تو وہ تحمل سے کام لے کر کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر ہی معاملے کو اپنے حق میں کر لیتے۔
آخر بجلی ،پانی،راشن اور اسلحہ کے بغیر کوئی ،چاہے وہ کتنا ہی سخت جان کیوں نہ ہو،کب تک مزاحمت کر سکتا ہے یا جی سکتا ہے۔ مگر وردی والوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوںنے اس عبرتناک انداز میں مسجد پر یلغار کی کہ جیسے کسی دشمن کے آخری قلعے کو فتح کر نا ہو۔دلچسپ بات ہے کہ مشرف اینڈ کمپنی نے آخری معرکہ تب ”لڑا“کہ جب انکے مخالفین لندن میںایک جھٹ ہو کر ان (مشرف)سے نجات پانے کی راہیں تلاش کرنے کے لئے سر جوڑکر بیٹھے تھے۔
حالانکہ لال مسجد کے واقعہ کو لیکر پہلے پہل کسی حد تک مشرف کو عوامی حمایت بھی حاصل رہی اور اسکی اپنی وجوہات ہیں لیکن جوں جوں عام لوگ اس واقعہ کے نفع نقصان کا حساب لگائیں گے،وہ نہ صرف اصل معاملہ سمجھیں گے بلکہ وہ مشرف کومحض اقتدار کی لالچ میں کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ ایک سفاک آمر کی طرح ہی دیکھیں گے۔
مشرف کے آپریشن سائلنس کی گونج نے پاکستان کو جو دیگر زخم دئے اُنکی فہرست لمبی ہے۔یہ اسی ”کامیابی“کا نتیجہ ہے کہ جن ”الزامات“کو وہ آج تک رد کرتے رہے اُنکی از خود تصدیق ہو گئی۔اس سلسلے میں بی جے پی کی اس پریس کانفرنس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ جس میں راج ناتھ سنگھ نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدرسوں کی شبیہ بری طرح متاثر ہو گئی،صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی مدارس شک کے دائرے میں آگئے اور اسلام دشمنوں کو پروپگنڈے کا جو موقع مل گیا وہ الگ سے۔آپریشن کو ”ختم “ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن پاکستان کو آپریشن کے جس ردعمل کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
قبائلیوں نے حکومت کے ساتھ جنگبندی کامعاہدہ توڑ دیا ہے،القاعدہ نے مشرف کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور فوج پر ہوئے حملوں میں ابھی تک قریب ایک سو افراد مارے گئے۔یہ سلسلہ کہاں اور کب رکے گا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
صدر مشرف نے بھلے ہی لال مسجد کے خطیب مولوی عبدلعزیز کو برقعہ پہن کر پی ٹی وی پر لاکر انکی تذلیل کی ہو اور انکے بھائی غازی رشید کو ایک بڑے دہشت گردکے بطور پیش کیا ہو لیکن، پاکستان سے لیکر افغانستان تک اور عراق سے لیکر ان تمام ممالک تک کہ جہاں القاعدہ جیسی تنظیمیں سرگرم ہیں،ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے کہ جو انہیں (غازی کو)اپنا ہیرو مانتے ہیں۔جہاں تک غازی رشیدکا تعلق ہے انکا شدت پسند لائن اختیار کرنا ایک دلچسپ افسانے کی طرح ہے۔
اپنے والد اور لال مسجد کے بانی خطیب مرحوم عبد اللہ صاحب کی مرضی کے مخالف غازی اس مدرسے سے بھاگ کر یونیورسٹی میں پڑے ہیں کہ جہاں اپنے والد نے انہیں دینی تعلیم کے حصول کے لئے بھرتی کیا تھا۔صرف و نحو ،حدیث و تفسیر اور اس طرح کے دیگر دینی علوم کی جگہ بین الاقوامی تعلقات کی جدید تعلیم پانے والے عبد الرشید غازی نے یہیں تک اپنے والد کی نافرمانی نہیں کی بلکہ خاندانی روایات سے ہٹ کر انہوں نے یو این او کے پاکستان میں دفتر کی ملازمت کی ایک آزاد خیال خاتون کے ساتھ شادی رچائی اور سر پر ٹوپی اور منھ پر چہرے پر رکھنے کے ساتھ ساتھ مدرسے کی ”خدمت“کرنے کی دیگر سبھی روایات کی بغاوت کی۔یہاں تک کہ اپنے والد نے انہیں مدرسے اور مسجد وغیرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ اپنی ساری وراثت سے بھی بے دخل کر دیا۔
غازی کے والد مولانا عبداللہ کو 1998ءمیں کسی نے لال مسجد کے صحن میں گولی مار کر جاں بحق کر دیا تو غازی کی زندگی میں بہت حدبدل گئی۔وہ لال مسجد جانے لگے اور اچانک ہی انکے چہرے پر داڑھی نمودار ہوگئی۔انکے بھائی عبد العزیز نے بعد ازاں انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مولویت پڑھے بغیر ہی مولانا ہو گئے۔
پاکستان نے طالبان سے منھ موڑ کر ان پر حملے کئے تو اس صورتحال میں مولانا عبد الرشید غازی پہلی بار اپنی شدت پسند امیج لیکر ابھرے۔چناچہ طالبان کے حق میں اور حکومتِ پاکستان کے خلاف جو ہنگامہ ہوا اس میں مولانا کا کلیدی کردار نبھایا اور پھر جب حکومت نے ان پر دہشت گردی کی کارروایﺅں میں ملوث ہو نے کا الزام لگا کر انکی گاڑی سے بھاری مقدار میں اسلحہ بر آمد کئے جانے کا دعویٰ کیا تو اُنکی شناخت اور بھی زیادہ شدت پسند کے بطور ہوئی۔حالانکہ حکومت نے بعد ازاں مولانا پر لگائے گئے الزامات واپس لئے،مگرحکومت کے ساتھ انکی چپقلش بنی رہی۔
2003ءمیں پاکستانی افواج نے قبائلی علاقہ وزیرستان میں اپنے ہی لوگوں پر بمباری کی تو مولانا نے یہاں مارے جانے والے پاک فوجیوں کو ہلاک اور حملوں مقامی قبایلیوں کو شہید کہنے کا فتویٰ جاری کر کے حکومت کو ایک جذباتی صورتحال سے دوچار کر دیا۔
غازی کی ہلاکت یا شہادت سے پاکستان میں کتنے لوگوں کی زندگی میں یوںافسانوی طرز پر تبدیلی آئے گی ،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا البتہ یہ کہنے میں کوئی شک و تردد نہیں ہے کہ لال مسجد کی لالی آسانی سے آسمانِ پاکستان سے نہیں جا ئے گی۔