راشد احمد
محفلین
میرا آفس بوائے چھٹی لے کر شناختی کارڈ بنوانے شناختی کارڈ کے دفتر گیا۔دوسرے دن دفتر آیا تو میں نے پوچھا کہ تمہارا شناختی کارڈ بن گیا ہے۔ کہنے لگا نہیں۔ کچھ توقف کے بعد اس نے وہاں کی صورتحال سنائی جو آپ کی نذر کرتا ہوں۔
وہاں بہت زیادہ رش تھا۔ میں صبح 8 بجے وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بہت بڑی قطار لگی ہوئی ہے۔ 9 بجے دفتر کھلتا ہے لیکن ٹوکن والا صاحب نہیںآیا تھا۔ 11 بجے وہ آیا لیکن لائن پھر بھی آگے نہیں جارہی تھی۔ کچھ لوگ آتے تھے، وہ یا تو لمبی لائن دیکھ کر گھبرا کر واپس چلے جاتے تھے یا پھر وہ 1000 روپیہ رشوت دیکر ٹوکن حاصل کرلیتے تھے۔ 1 بجے ٹوکن دینے والے صاحب کا لنچ کا وقت ہوجاتا تھا آدھا گھنٹہ اسی میںلگ جاتا تھا۔ اپنی ڈیوٹی کے دوران وہ کبھی اپنے ساتھیوں سے خوش گپیوں میںمصروف ہوجاتے تو کبھی چائے پینے میں۔ ڈھائی بجے ٹوکن والے صاحب کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لئے ڈھائی سے تین بجے تک کاؤنٹر بند کردیتے ہیں۔ اس کے بعد تین بجے دوسرے صاحب آتے ہیں وہ بھی پہلے 1000 روپے دینے والوں کو ترجیح دیتے ہیں پھر وہ کبھی اپنی سیٹ سےاٹھ کر چائے پینے چلے جاتے ہیں اور گپیں مارنے۔ رات کو دس بجے نادرا کا دفتر بند ہوجاتا ہے لیکن ابھی میرا پانچواں نمبر تھا کہ دفتر بند ہوگیا میں 13 گھنٹے کھڑا ہوا لیکن باری نہیں آئی۔
میں نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟ کہنے لگا کہ آپ کی نادرا میں کوئی واقفیت ہے میں نے کہا نہیں۔ وہ مایوسی سے کہنے لگا کہ میں 1000 روپیہ رشوت تو نہیںدے سکتا۔بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی ہے لیکن کوشش کروں گا کہ صبح اذان ہوتے ہی اٹھ کر نادرا کے دفتر چلا جاؤں تاکہ مجھے ٹوکن مل سکے۔ میں نے پوچھا کہ ٹوکن حاصل کرنے کے بعدشناختی کارڈ کتنے دنوں کے بعد حاصل ہوگا تو وہ کہنے لگا کہ پندرہ دن لگیں گے۔ لیکن پھر دوبارہ شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے لائن میں لگنا پڑے گا۔
اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ جب یہ آیا تھا تو اس وقت اس نے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی تو دی تھی۔ میں نے پوچھا کہ تمہارا شناختی کارڈ تو پہلے سے موجود ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں وہ تو اب بھی ہے لیکن ایکسپائر ہوگیا ہے۔ اس کی بات سن کر میںنے جیب سے اپنا شناختی نکالا تو پتہ چلا کہ میرا شناختی کارڈ بھی ایکسپائر ہونے والا ہے یا یوں کہنئے کہ میری پاکستان کی شہریت بھی منسوخ ہونے والی ہے۔میں نے سوچا کہ کیوں نہ میںبھی شناختی کارڈ کی تجدید کرالوں۔ کچھ دن بعد میں بھی شناختی کارڈ کے دفتر پہنچا کہ تودیکھا کہ چار لائنیں لگی ہوئی ہے۔ ایک لائن خواتین کی جو شناختی کارڈ بنوانے یا تجدید کرانے آئی تھی۔ دوسری لائن مردحضرات کی جو شناختی کارڈ بنوانے کے لئے آئے تھے۔ تیسری لائن خواتین کی جو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آئی تھیں اسی طرح چوتھی لائن مردحضرات کی جو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آئے تھے۔ یہ منظر میرے لئے انتہائی ڈراؤنا تھا کہ خواتین وحضرات سخت گرمی اور سخت دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میںلگے ہوئے تھے اور اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔خیر میں بھی چند گھنٹے لائن میں کھڑا ہوگیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا لیکن لائن تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی اور اوپر سے گرمی اتنی کہ خدا کی پناہ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی چھاؤں والی جگہ پر سستا لیا جائے۔ میں لائن سے نکلا تو نادرا کے دفتر کے دروازے پر دیکھا جس پر ایک نوٹس لگا ہوا تھا کہ
یہ نوٹس میرے لئے چونکا دینے والا تھا۔ کہ نادرا کے اہلکاران کھلے عام رشوت طلب کررہے ہیں۔ میںنے وہاں ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی گارڈ سے استفسار کیا تو وہ کہنے لگا کہ یہاں رش بہت ہوتا ہے۔ ہر شخص بے صبری سے اپنی باری کے انتظار میں رہتا ہے۔اور یہاں اکثر لڑائی جھگڑا رہتا ہے اس لئے نادرا کو یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد آرام کرنے کے بعد واپس لائن میں اپنی جگہ پر لگنے لگا تو میرے پیچھے کھڑے لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا کہ تم ابھی آئے ہو اور لائن میں گھس رہے ہو۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ بھائی میں یہاں پہلے سے موجود تھا، تھک گیا تھا اس لئے کچھ دیر آرام کرنے سامنے والے درخت کے نیچے بیٹھ گیا تھا۔ چند لوگوں نے میرے حق میں گواہی بھی دیدی۔ شام پانچ بجے تک لائن تھوڑی سی آگے ہوئی تو میں نے سوچا کہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، چلتے ہیں گھر کو۔
قارئین کرام ! یہ ہمارے ملک کے صرف ایک ادارے نادرا کی صورت حال ہے۔ نادرا کا یہ دفتر بٹ چوک، ٹاؤن شب لاہور میں واقع ہے۔ یہ دفتر آس پاس کے تمام علاقوں جن میں فیصل ٹاؤن، ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، واپڈا ٹاؤن، کوٹ لکھپت، چونگی امرسدھو، گارڈن ٹاؤن اور دیگر علاقوں کو بھگتاتا ہے۔ یہ لاہور کے اہم علاقے ہیں جہاں آبادی لاکھوں میں ہے۔لیکن نادرا کا سنٹر صرف ایک ہے۔ میں نےدفتر واپس آکر نادرا کے ہیڈ آفس آکر شکایت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے ایک دوست سے جو نجی ٹی وی میںملازم ہے فون پر رابطہ کیا اور ساری صورت حال سمجھانے کے بعد درخواست کی کہ وہ اس خبر کو میڈیا پر چلا دے۔ تو وہ قہقہے لگانے لگا اور کہنے لگا کہ کوئی نجی ٹی وی چینل یہ خبر نہیںچلائے گا۔ وہ سب تو بڑے بڑے لوگوں کی خبریں چلاتے ہیں
اوباما، زرداری، نوازشریف، گورڈن براؤن۔ غریب لوگوں کی خبر چلا کر انہیںکیا ملے گا۔ اس کی بات درست تھی۔ ہمارے میڈیا کو ٹاک شوز، تجزیوں، تبصروں، حکومت کی خبروں سے فرصت ملے تو ان لوگوں کے بارے میں سوچے۔ دوسری طرف حکومت ہے جو یہ دعوٰی کرتی ہے کہ وہ عوام دوست پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ حکومت چاہے تو نادرا کے مزید سنٹرز بنوا سکتی ہے تاکہ لوگوں کو سہولت مل جائے ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو، کسی مزدور کی دیہاڑی نہ ٹوٹے لیکن لائن میں لگائے رکھنا حکومت کی عادت بن چکی ہے کبھی عوام بلوں کے لئے لائن میں لگتی ہے، کبھیآٹے ، کبھی پاسپورٹ، کبھی شناختی کارڈ کے لئے۔ حکومت اس بات پر غور نہیںکرتی کہ اتنی لمبی قطاریںسیکیورٹی کا مسئلہ بھی بن سکتی ہیں۔
وزیر اعلٰی پنجاب جنہیں خادم اعلٰی پنجاب کا لقب دے دیا گیا ہے میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیسی خدمت ہے کہ عوام لائنوں میں لگا کرکونسی خدمت کی جارہی ہے۔ دو روپے کی روٹی کردینے سے کوئی خادم نہیں بن جاتا۔ روٹی بندہ تب خریدے جب بندے کے پاس پیسے ہوں، پیسوں کے لئے ضروری ہے کہ محنت مزدوری کی جائے۔ اس طرح لائن میں لگنے سے انسان محنت مزدوری سے رہ جاتا ہے۔ عوام ٹیکس دیتی ہے، وہ آپ کی عیاشیوں کے لئے نہیںدیتی بلکہ اس لئے دیتی ہے کہ آپ ان کو سہولتیں اور بہتر زندگی کے مواقع دے سکیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں سب سے معزز شہری وہ شمار کیا جاتا ہے جو ٹیکس دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں سسٹم ہی الٹ ہے سب سے حقیر وہ شخص ہے جو ٹیکس دیتا ہے۔ اس کی کوئی عزت نہیں۔قوم کو لائنوں میں لگانے سے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
اگر آپ چاہتے ہیںکہ ملک سوات نہ بنے تو انصاف اور قانون کی بالادستی قائم کریں۔ عوام کو بہتر سہولتیں دیں۔ اگر عوام آپ کو ٹیکس دیتی ہے تو عوام کو سہولیات بھی دے دیں۔ عوام سو روپے کی کوئی چیز خریدتی ہے تو اس پر پندرہ روپے ٹیکس لیتی ہے۔ ورنہ دنیا میں جن حکمرانوں نے عوام پر ظلم کیا، ناانصافی، لاقانونیت کو فروغ دیا وہ عبرت بن گئے ہیں اور کوئی انہیںاچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا لیکن جن حکمرانوں نے عوام کی خدمت کی ہے وہ لوگ آج بھی ان کی عوام کے دلوں میںزندہ ہیں۔ ملک یا صوبے پر نہیں لوگوں کے دلوں پر حکومت کریں۔
وہاں بہت زیادہ رش تھا۔ میں صبح 8 بجے وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بہت بڑی قطار لگی ہوئی ہے۔ 9 بجے دفتر کھلتا ہے لیکن ٹوکن والا صاحب نہیںآیا تھا۔ 11 بجے وہ آیا لیکن لائن پھر بھی آگے نہیں جارہی تھی۔ کچھ لوگ آتے تھے، وہ یا تو لمبی لائن دیکھ کر گھبرا کر واپس چلے جاتے تھے یا پھر وہ 1000 روپیہ رشوت دیکر ٹوکن حاصل کرلیتے تھے۔ 1 بجے ٹوکن دینے والے صاحب کا لنچ کا وقت ہوجاتا تھا آدھا گھنٹہ اسی میںلگ جاتا تھا۔ اپنی ڈیوٹی کے دوران وہ کبھی اپنے ساتھیوں سے خوش گپیوں میںمصروف ہوجاتے تو کبھی چائے پینے میں۔ ڈھائی بجے ٹوکن والے صاحب کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لئے ڈھائی سے تین بجے تک کاؤنٹر بند کردیتے ہیں۔ اس کے بعد تین بجے دوسرے صاحب آتے ہیں وہ بھی پہلے 1000 روپے دینے والوں کو ترجیح دیتے ہیں پھر وہ کبھی اپنی سیٹ سےاٹھ کر چائے پینے چلے جاتے ہیں اور گپیں مارنے۔ رات کو دس بجے نادرا کا دفتر بند ہوجاتا ہے لیکن ابھی میرا پانچواں نمبر تھا کہ دفتر بند ہوگیا میں 13 گھنٹے کھڑا ہوا لیکن باری نہیں آئی۔
میں نے پوچھا کہ اب تمہارا کیا پروگرام ہے؟ کہنے لگا کہ آپ کی نادرا میں کوئی واقفیت ہے میں نے کہا نہیں۔ وہ مایوسی سے کہنے لگا کہ میں 1000 روپیہ رشوت تو نہیںدے سکتا۔بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی ہے لیکن کوشش کروں گا کہ صبح اذان ہوتے ہی اٹھ کر نادرا کے دفتر چلا جاؤں تاکہ مجھے ٹوکن مل سکے۔ میں نے پوچھا کہ ٹوکن حاصل کرنے کے بعدشناختی کارڈ کتنے دنوں کے بعد حاصل ہوگا تو وہ کہنے لگا کہ پندرہ دن لگیں گے۔ لیکن پھر دوبارہ شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لئے لائن میں لگنا پڑے گا۔
اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ جب یہ آیا تھا تو اس وقت اس نے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی تو دی تھی۔ میں نے پوچھا کہ تمہارا شناختی کارڈ تو پہلے سے موجود ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں وہ تو اب بھی ہے لیکن ایکسپائر ہوگیا ہے۔ اس کی بات سن کر میںنے جیب سے اپنا شناختی نکالا تو پتہ چلا کہ میرا شناختی کارڈ بھی ایکسپائر ہونے والا ہے یا یوں کہنئے کہ میری پاکستان کی شہریت بھی منسوخ ہونے والی ہے۔میں نے سوچا کہ کیوں نہ میںبھی شناختی کارڈ کی تجدید کرالوں۔ کچھ دن بعد میں بھی شناختی کارڈ کے دفتر پہنچا کہ تودیکھا کہ چار لائنیں لگی ہوئی ہے۔ ایک لائن خواتین کی جو شناختی کارڈ بنوانے یا تجدید کرانے آئی تھی۔ دوسری لائن مردحضرات کی جو شناختی کارڈ بنوانے کے لئے آئے تھے۔ تیسری لائن خواتین کی جو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آئی تھیں اسی طرح چوتھی لائن مردحضرات کی جو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے آئے تھے۔ یہ منظر میرے لئے انتہائی ڈراؤنا تھا کہ خواتین وحضرات سخت گرمی اور سخت دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میںلگے ہوئے تھے اور اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔خیر میں بھی چند گھنٹے لائن میں کھڑا ہوگیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا لیکن لائن تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی اور اوپر سے گرمی اتنی کہ خدا کی پناہ۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی چھاؤں والی جگہ پر سستا لیا جائے۔ میں لائن سے نکلا تو نادرا کے دفتر کے دروازے پر دیکھا جس پر ایک نوٹس لگا ہوا تھا کہ
نادرا کی طرف سے خصوصی سہولت: جو خواتین وحضرات لمبی لائنوں سے بچنا چاہتے ہیں نادرا نے ان کے لئے ایگزیگیٹو سروس شروع کی ہے۔ شناختی کارڈ کے ٹوکن کی ایگزیکٹیو فیس 1000 روپیہ ہے جبکہ ب فارم کی پانچ سو روپے ہے۔
نادرا
یہ نوٹس میرے لئے چونکا دینے والا تھا۔ کہ نادرا کے اہلکاران کھلے عام رشوت طلب کررہے ہیں۔ میںنے وہاں ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی گارڈ سے استفسار کیا تو وہ کہنے لگا کہ یہاں رش بہت ہوتا ہے۔ ہر شخص بے صبری سے اپنی باری کے انتظار میں رہتا ہے۔اور یہاں اکثر لڑائی جھگڑا رہتا ہے اس لئے نادرا کو یہ اقدام اٹھانا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد آرام کرنے کے بعد واپس لائن میں اپنی جگہ پر لگنے لگا تو میرے پیچھے کھڑے لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا کہ تم ابھی آئے ہو اور لائن میں گھس رہے ہو۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ بھائی میں یہاں پہلے سے موجود تھا، تھک گیا تھا اس لئے کچھ دیر آرام کرنے سامنے والے درخت کے نیچے بیٹھ گیا تھا۔ چند لوگوں نے میرے حق میں گواہی بھی دیدی۔ شام پانچ بجے تک لائن تھوڑی سی آگے ہوئی تو میں نے سوچا کہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، چلتے ہیں گھر کو۔
قارئین کرام ! یہ ہمارے ملک کے صرف ایک ادارے نادرا کی صورت حال ہے۔ نادرا کا یہ دفتر بٹ چوک، ٹاؤن شب لاہور میں واقع ہے۔ یہ دفتر آس پاس کے تمام علاقوں جن میں فیصل ٹاؤن، ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، واپڈا ٹاؤن، کوٹ لکھپت، چونگی امرسدھو، گارڈن ٹاؤن اور دیگر علاقوں کو بھگتاتا ہے۔ یہ لاہور کے اہم علاقے ہیں جہاں آبادی لاکھوں میں ہے۔لیکن نادرا کا سنٹر صرف ایک ہے۔ میں نےدفتر واپس آکر نادرا کے ہیڈ آفس آکر شکایت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن رابطہ نہیں ہوسکا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے ایک دوست سے جو نجی ٹی وی میںملازم ہے فون پر رابطہ کیا اور ساری صورت حال سمجھانے کے بعد درخواست کی کہ وہ اس خبر کو میڈیا پر چلا دے۔ تو وہ قہقہے لگانے لگا اور کہنے لگا کہ کوئی نجی ٹی وی چینل یہ خبر نہیںچلائے گا۔ وہ سب تو بڑے بڑے لوگوں کی خبریں چلاتے ہیں
اوباما، زرداری، نوازشریف، گورڈن براؤن۔ غریب لوگوں کی خبر چلا کر انہیںکیا ملے گا۔ اس کی بات درست تھی۔ ہمارے میڈیا کو ٹاک شوز، تجزیوں، تبصروں، حکومت کی خبروں سے فرصت ملے تو ان لوگوں کے بارے میں سوچے۔ دوسری طرف حکومت ہے جو یہ دعوٰی کرتی ہے کہ وہ عوام دوست پالیسیاں اپنا رہی ہے۔ حکومت چاہے تو نادرا کے مزید سنٹرز بنوا سکتی ہے تاکہ لوگوں کو سہولت مل جائے ان کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو، کسی مزدور کی دیہاڑی نہ ٹوٹے لیکن لائن میں لگائے رکھنا حکومت کی عادت بن چکی ہے کبھی عوام بلوں کے لئے لائن میں لگتی ہے، کبھیآٹے ، کبھی پاسپورٹ، کبھی شناختی کارڈ کے لئے۔ حکومت اس بات پر غور نہیںکرتی کہ اتنی لمبی قطاریںسیکیورٹی کا مسئلہ بھی بن سکتی ہیں۔
وزیر اعلٰی پنجاب جنہیں خادم اعلٰی پنجاب کا لقب دے دیا گیا ہے میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیسی خدمت ہے کہ عوام لائنوں میں لگا کرکونسی خدمت کی جارہی ہے۔ دو روپے کی روٹی کردینے سے کوئی خادم نہیں بن جاتا۔ روٹی بندہ تب خریدے جب بندے کے پاس پیسے ہوں، پیسوں کے لئے ضروری ہے کہ محنت مزدوری کی جائے۔ اس طرح لائن میں لگنے سے انسان محنت مزدوری سے رہ جاتا ہے۔ عوام ٹیکس دیتی ہے، وہ آپ کی عیاشیوں کے لئے نہیںدیتی بلکہ اس لئے دیتی ہے کہ آپ ان کو سہولتیں اور بہتر زندگی کے مواقع دے سکیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک میں سب سے معزز شہری وہ شمار کیا جاتا ہے جو ٹیکس دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں سسٹم ہی الٹ ہے سب سے حقیر وہ شخص ہے جو ٹیکس دیتا ہے۔ اس کی کوئی عزت نہیں۔قوم کو لائنوں میں لگانے سے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
اگر آپ چاہتے ہیںکہ ملک سوات نہ بنے تو انصاف اور قانون کی بالادستی قائم کریں۔ عوام کو بہتر سہولتیں دیں۔ اگر عوام آپ کو ٹیکس دیتی ہے تو عوام کو سہولیات بھی دے دیں۔ عوام سو روپے کی کوئی چیز خریدتی ہے تو اس پر پندرہ روپے ٹیکس لیتی ہے۔ ورنہ دنیا میں جن حکمرانوں نے عوام پر ظلم کیا، ناانصافی، لاقانونیت کو فروغ دیا وہ عبرت بن گئے ہیں اور کوئی انہیںاچھے لفظوں میں یاد نہیں کرتا لیکن جن حکمرانوں نے عوام کی خدمت کی ہے وہ لوگ آج بھی ان کی عوام کے دلوں میںزندہ ہیں۔ ملک یا صوبے پر نہیں لوگوں کے دلوں پر حکومت کریں۔