علیرضا شاکری
محفلین
لاک ڈاون کے دوران کیا کریں؟
از علی رضاشاکری
کورونا وائرس یا کوِڈ 19سے ہر طبقہ متاثر ہوا ہے امیر ہو یا غریب عالم ہو یا جاہل مرد ہو کہ خواتین . سب اس سے متاثر ہو ا ہے اسی وجہ سے اس وقت گھروں بازاروں خبروں اور اخباروں میں غرض کہ ہر جگہ ہر طقبے کے لوگ ہر مکتب و مسلک کے لوگ مسلم وکافر امیر و غریب . مر د اور خواتین بچے سب کے لبوں پر صرف اسی کے بارے میں گفتگو جاری و ساری ہے.
کورونا اس وقت ایسا وردر بن چکا کہ دن رات پوری دینا اسے یاد کررہی ہے یا کم از کم چوبیس گھنٹے میں ایک بار توضرور یاد کرتی ہے کچھ لوگ ایک دوسرے سے اس کی علامتوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس سے بچنے کی احتیاطی تدابییر کے بارے میں . کچھ لوگ ڈاکٹروں کی طرف سے دے گیے مشوروں تایید کرتے ہوئے نہ صرف اپنے گھر والوں کو اس پر عمل پیرا کرانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ پڑوسیوں . بزرگووں اورباقی عوام الناس کو احتیاطی تدابییر کی بھی تلقین کر رہے ہیں کچھ حکومت کی طرف سے لگائی گئی لاک ڈاون کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ اس کی بھر پور مخالفت
کچھ لوگ لاک ڈاون کے بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو کچھ اس کے ختم کرنے کی
کچھ لوگ ہر گھنٹے کی نیوز اس لیے یہ سنتے ہیں گویا کوئی کرکٹ میچ ہو رہا ہو اور بالکل شایقین کرکٹ کے ہر اوور کے بڑھتے ہوئےا سکور معلوم کر نےکی طرح کورونا وائرس سے متاثرہ افراد. کورونا کے مشکوک افراد .صحت یاب افراد یا اس جنگ سے لڑتے ہوئے جان کے بازی ہارنے والوں کے شمار میں کرنے میں لگے ہوئے ہیں کسی کو کوئی اندازہ نہیں کہ کل کا دن کیا ہوگا البتہ ہمارے محترم جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کی تعداد اگر صورتحال اسی طرح رہے یعنی لاک ڈاون کی صورت میں تو 25000 نہیں تو50000 تک جاسکتا ہے
ایک طرف ایسے لوگ ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو اصلاً کورونا کے بارے میں صرف خبریں نہیں سنتے بلکہ انہیں کورونا کے لفظ سنتے ہی غصہ آجاتےہیں . اب تھک گئے ہیں کورونا سُن سُن کے اور کچھ ایسے بھی جو اس دوران بالکل مطمئن اور پُر اُمید ہیں اور اس مشکلات سے نہ صرف خود نکلنےکی کوشش کررہے ہیں بلکہ دوسروں کو اس سے نکالنےکی کوشش کر ہے ہیں اسی زمرے میں وہ تمام لوگ آتے جو مختلف فلاحی اداروں کے تحت کام کر رہے رہے ہیں جو ایک قابل تحسین اور قابل تقلید عمل ہے.ایسے لوگوں کی تعریف علامہ اقبال نے بھی کی ہے .
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
بہر حال چونکہ ہر انسان کا انداز فکر ایک نہیں ہوتا ہے اس لیے ہر ایک الگ الگ طر ح کا سوچتا ہے اور اسی کے مطابق باتیں کرتا ہے
ان تما م میں سےہر اُن افراد کاعمل قابلِ عمل ہیں جو اس کٹھن اور مشکل حالات سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اوراسی میں بھی وہ ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو ان کی زندگی کو کورونا جیسی وبا بھی متاثر نہیں کر سکتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالی پے کامل ایمان او توکل رکھنے والے ہوتے ہیں . یہ قرآن کریم میں دی گئی اللہ کے وعدہ کہ ” انّ مع العسر یسرا “ پے مکمل بھروسہ کرتے ہیں .
جب بھی انہیں کسی مشکل کا سامنا ہو تو ا ن کاکہنا ہے کہ رکاوٹوں اور مشکلات کے لیے پریشان مت ہوں ان کے پچھے بہت حکمتیں ہوتی ہیں راستہ نہیں روکتی بلکہ بہترین راستے پہ لے جانے کےلئے آتی ہے . اسی لیے
ان کا کہنا ہے موجودہ صو رت حال میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہے . یہ بھی کسی خیر چیز کے لیے ہیں یہ خوف نہیں کھاتے بلکہ پر امید ہوتے ہیں اور اس دن کا انتظا کرتے ہیں کہ آخر کار وہ دن بھی بہت جلد آئے گا جس دن یہ روئے زمین میں کسی فرد کو بھی کورونا نہیں ہو گا .
کورونا اللہ کی طرف سے یا خود ساختہ ہے اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے ہیں
تاہم ” ایک مستند عالم دین کسی پروگروام میں موجودہ حالت پر جو تجزیہ کر رہے تھے مجھے اچھا لگا آ پ بھی کو بتاتا ہو ں ان کا کہنا تھا کہ
اس وقت کی جو حالت ہے اس کے بارے میں تما م لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے آج پوری دنیا ہار گئی ہے جو انسان ترقی کے نام مریخ پر جانے کے لیے منصوبے بنا رہے تھے آج اس کو اپنی اوقات کا اندازہ ہوا کہ ایک معمولی وائرس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا اللہ کی طرف سے آفت ہیں آزمائش ہیں یا نعمت ہم انسان بالکل نہیں جانتے ہیں کیونکہ اگر اس کا تعلق دوسری بیماروں کی طرح ہوتا تو یقیناً اسکا علاج ا ب تک متعارف ہو تا لیکن ایسا نہیں ہوا آج سائنسدان بھی حیران پریشان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق علم غیب سے اور اس بارے میں اللہ جانتا ہے “
ہم علم غیب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا البتہ مذکورہ بالا بیان کردہ تین صورتوں میں سے مجھے لگتا ہے کہ شاید کورونا اللہ کی طرف سے نعمت ہے آپ آفت یا آزمائش کو بھی اختیا ر کر سکتے ہیں
ہم سمجتھے ہیں کہ اس موجودہ صورت حال میں بھی رب ذوالجلال نے اپنی نعمتوں سے نوازنے میں کمی نہیں کی ہےبھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ خدا جو سو ماووں سے زیادہ پیار و محبت کرنے والا ہو وہ اپنے بندوں کو صرف مشکلات میں ڈھکیل دے .لیکن اس بارے میں صرف صاحبان عقل وشعور ہی درک کرتا ہے
اللہ تعالی کی دوسری نعمتوں کی طرح فرصت بھی ایک عظیم نعمت ہے .فرصت کے لمحےزندگی میں بہت آتیں ہیں جس کی ضایع کے بارے دین اسلام بھی شدت سے منع کرتی ہے خودحدیث نبوی ص تاکید کی گئی ہیں کہ
ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ” رواه الحاكم وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير (رقم 1077)
ہمارے پیارے رسول اکرم ص نے فرمایا:-
کہ
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے
فرصت اور فراغت ایک عام نعمت ہے
اور یہ انسانی معاشر ے میں یکساں طور پر امیر ,غریب عالم و جاہل سب کو ملتی ہے خصوصا اس وقت اگرچہ سارے کورونا کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم مشکلات میں ہیں تاہم اس میں بھی ایک نعمت کا ملنا فرصت کا یہ بھی حق سبحانہ کی طرف سے کرم نوازی ہے
البتہ انسان ہمیشہ کی طرح کفران نعمت کرتےہیں
آپ جو وقت کی کمی کے شاکی تھے
کہ بہ قول ظفر اقبال کے
اس کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہ تھی مجھے
مصروف تھا میں کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود
؎
آج آپ کےپاس وقت ہی وقت ہیں فرصت ہی فرصت ہیں آج آپ اپنے بچوں کو وقت دے سکتا ہے ماں باپ کی خوب خاطر مدارت کرسکتے ہیں آپ اپنے رشتہ داروں کی خبر لے سکتے ہیں کہ وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں
آپ اپنے ان دوستوں کو فل ٹائم دے سکتا ہے جن کو آپ صرف وقت کی تنگی کی وجہ سے نہیں مل پاتے تھے حتی کہ
آپ اپنے کاموں کوبھی جاری رکھ سکتے ہیں .کاروباری حضرات اگر بازار جا کر تجارت نہ کر سکے تو اس فرصت کے موقعے پر اپنے کاروبار کے بارے میں جانچ پڑتال کر سکتے ہیں کہ آمدنی میں اضافہ ہوا یا کم ہوا .؟ اگر خسارے میں ہو تو اس سے کس طرح آسانی سے نکل سکتے ہیں اور اگر فائدے میں ہیں تو مزید اس میں بہتری کس طر ح سے کیا جاسکتاہے
دفاتر میں کے بارے میں ملازمیں سوچ سکتے ہیں کہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیسے کرسکتے ہیں .
ایجوکیشن سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے لیے یہ سب سے عظیم تحفہ ہے کہ وہ اس فرصت کے موقعے کا بھر استفادہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے بارے میں یا اپنےمتعقلہ سکولوں .کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے بارے میں اس کی بہتری کےلیے لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں
اسکے علاوہ کوئی بھی ہو اور خواہ وہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے شعبےکی بہتر ی کے
اقدامات کابندوبست آسانی سے کر سکتے ہیں .اور سب سے اہم کام جو ہم سب کو اس کرنی چاہیے وہ یہ ہیں کہ آپ اس فرصت کے وقت میں محاسبہ کر سکتے ہیں
جس کی تاکید دین اسلام میں بھی کی گئی ہیں حدیث شریف میں ہے
”” لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “
” جو شخص ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ھے.
خود احستابی کے زریعے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں ؟ کہاں جارہے ہیں ؟
شاعر نے کہا تھا
ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کا
میں کیا ہو ں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں
؎
آج آپ کے پاس صرف شام نہیں پورے چوبیس گھنٹے ہیں آپ اس میں سوچ سکتے ہیں کہ آج تک میں نے زندگی میں کیا پایا؟؟ اور کیا کھویا ؟؟..
آپ سوچ سکتے ہیں کہ میرا خواب کیا تھا ؟کیا پورا ہوا ہے ؟ نہیں تو کیسے میں اس کو پورا کرسکتا ہوں؟؟
ایک مسلمان ہونے کے ناطے میری ذمہ داری کیا ہے ؟؟کیامیں ان ذمہ داروں کو انجام دے رہا ہوں یا نہیں یعنی دین کے لیے کیا کیا ؟؟؟
معاشرہ اورسماج کے حوالے سے میراانفرادی کیا کردار رہا ؟؟؟
مملکت خداداد کے لیے کیا کیامیں نے ؟؟
اس کے علاوہ آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ میرے اندر کون کون سی خامیاں ہیں اور کون کون خوبیاں .. اب تک میں نے ذندگی کیسےگزاری ؟؟ آپ ان تمام باتوں کو ایک صفحہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے میں خوبیاں اور دوسرے میں خامیاں لکھیے اور پھر زندگی بہتر سےبہتر گزارنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیا ر کریں یقین منائے آپ کی زندگی میں تبدیلی ضرور آئے گی .
آخر میں اس بات سے قلم اٹھا تا ہو کہ ہم
فرصت کے اس عظیم نعمت کا شکر اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے ذریعے کر سکتے ہیں.اگر خدا نخواستہ اس فرصت کے موقعے کو بھی ہم ایسے ہی جانے دیے اور اس نعمت کی قدر نہ کرے تو ایک کرونا چھوڑے لاکھوں کورونوں کا سامنا ہو سکتے ہیں ...
از علی رضاشاکری
کورونا وائرس یا کوِڈ 19سے ہر طبقہ متاثر ہوا ہے امیر ہو یا غریب عالم ہو یا جاہل مرد ہو کہ خواتین . سب اس سے متاثر ہو ا ہے اسی وجہ سے اس وقت گھروں بازاروں خبروں اور اخباروں میں غرض کہ ہر جگہ ہر طقبے کے لوگ ہر مکتب و مسلک کے لوگ مسلم وکافر امیر و غریب . مر د اور خواتین بچے سب کے لبوں پر صرف اسی کے بارے میں گفتگو جاری و ساری ہے.
کورونا اس وقت ایسا وردر بن چکا کہ دن رات پوری دینا اسے یاد کررہی ہے یا کم از کم چوبیس گھنٹے میں ایک بار توضرور یاد کرتی ہے کچھ لوگ ایک دوسرے سے اس کی علامتوں کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس سے بچنے کی احتیاطی تدابییر کے بارے میں . کچھ لوگ ڈاکٹروں کی طرف سے دے گیے مشوروں تایید کرتے ہوئے نہ صرف اپنے گھر والوں کو اس پر عمل پیرا کرانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ پڑوسیوں . بزرگووں اورباقی عوام الناس کو احتیاطی تدابییر کی بھی تلقین کر رہے ہیں کچھ حکومت کی طرف سے لگائی گئی لاک ڈاون کی حمایت کرتے ہیں تو کچھ اس کی بھر پور مخالفت
کچھ لوگ لاک ڈاون کے بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو کچھ اس کے ختم کرنے کی
کچھ لوگ ہر گھنٹے کی نیوز اس لیے یہ سنتے ہیں گویا کوئی کرکٹ میچ ہو رہا ہو اور بالکل شایقین کرکٹ کے ہر اوور کے بڑھتے ہوئےا سکور معلوم کر نےکی طرح کورونا وائرس سے متاثرہ افراد. کورونا کے مشکوک افراد .صحت یاب افراد یا اس جنگ سے لڑتے ہوئے جان کے بازی ہارنے والوں کے شمار میں کرنے میں لگے ہوئے ہیں کسی کو کوئی اندازہ نہیں کہ کل کا دن کیا ہوگا البتہ ہمارے محترم جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کی تعداد اگر صورتحال اسی طرح رہے یعنی لاک ڈاون کی صورت میں تو 25000 نہیں تو50000 تک جاسکتا ہے
ایک طرف ایسے لوگ ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو اصلاً کورونا کے بارے میں صرف خبریں نہیں سنتے بلکہ انہیں کورونا کے لفظ سنتے ہی غصہ آجاتےہیں . اب تھک گئے ہیں کورونا سُن سُن کے اور کچھ ایسے بھی جو اس دوران بالکل مطمئن اور پُر اُمید ہیں اور اس مشکلات سے نہ صرف خود نکلنےکی کوشش کررہے ہیں بلکہ دوسروں کو اس سے نکالنےکی کوشش کر ہے ہیں اسی زمرے میں وہ تمام لوگ آتے جو مختلف فلاحی اداروں کے تحت کام کر رہے رہے ہیں جو ایک قابل تحسین اور قابل تقلید عمل ہے.ایسے لوگوں کی تعریف علامہ اقبال نے بھی کی ہے .
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
بہر حال چونکہ ہر انسان کا انداز فکر ایک نہیں ہوتا ہے اس لیے ہر ایک الگ الگ طر ح کا سوچتا ہے اور اسی کے مطابق باتیں کرتا ہے
ان تما م میں سےہر اُن افراد کاعمل قابلِ عمل ہیں جو اس کٹھن اور مشکل حالات سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اوراسی میں بھی وہ ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو ان کی زندگی کو کورونا جیسی وبا بھی متاثر نہیں کر سکتے ہیں ایسے لوگ اللہ تعالی پے کامل ایمان او توکل رکھنے والے ہوتے ہیں . یہ قرآن کریم میں دی گئی اللہ کے وعدہ کہ ” انّ مع العسر یسرا “ پے مکمل بھروسہ کرتے ہیں .
جب بھی انہیں کسی مشکل کا سامنا ہو تو ا ن کاکہنا ہے کہ رکاوٹوں اور مشکلات کے لیے پریشان مت ہوں ان کے پچھے بہت حکمتیں ہوتی ہیں راستہ نہیں روکتی بلکہ بہترین راستے پہ لے جانے کےلئے آتی ہے . اسی لیے
ان کا کہنا ہے موجودہ صو رت حال میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہے . یہ بھی کسی خیر چیز کے لیے ہیں یہ خوف نہیں کھاتے بلکہ پر امید ہوتے ہیں اور اس دن کا انتظا کرتے ہیں کہ آخر کار وہ دن بھی بہت جلد آئے گا جس دن یہ روئے زمین میں کسی فرد کو بھی کورونا نہیں ہو گا .
کورونا اللہ کی طرف سے یا خود ساختہ ہے اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے ہیں
تاہم ” ایک مستند عالم دین کسی پروگروام میں موجودہ حالت پر جو تجزیہ کر رہے تھے مجھے اچھا لگا آ پ بھی کو بتاتا ہو ں ان کا کہنا تھا کہ
اس وقت کی جو حالت ہے اس کے بارے میں تما م لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے آج پوری دنیا ہار گئی ہے جو انسان ترقی کے نام مریخ پر جانے کے لیے منصوبے بنا رہے تھے آج اس کو اپنی اوقات کا اندازہ ہوا کہ ایک معمولی وائرس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا اللہ کی طرف سے آفت ہیں آزمائش ہیں یا نعمت ہم انسان بالکل نہیں جانتے ہیں کیونکہ اگر اس کا تعلق دوسری بیماروں کی طرح ہوتا تو یقیناً اسکا علاج ا ب تک متعارف ہو تا لیکن ایسا نہیں ہوا آج سائنسدان بھی حیران پریشان ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق علم غیب سے اور اس بارے میں اللہ جانتا ہے “
ہم علم غیب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا البتہ مذکورہ بالا بیان کردہ تین صورتوں میں سے مجھے لگتا ہے کہ شاید کورونا اللہ کی طرف سے نعمت ہے آپ آفت یا آزمائش کو بھی اختیا ر کر سکتے ہیں
ہم سمجتھے ہیں کہ اس موجودہ صورت حال میں بھی رب ذوالجلال نے اپنی نعمتوں سے نوازنے میں کمی نہیں کی ہےبھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ خدا جو سو ماووں سے زیادہ پیار و محبت کرنے والا ہو وہ اپنے بندوں کو صرف مشکلات میں ڈھکیل دے .لیکن اس بارے میں صرف صاحبان عقل وشعور ہی درک کرتا ہے
اللہ تعالی کی دوسری نعمتوں کی طرح فرصت بھی ایک عظیم نعمت ہے .فرصت کے لمحےزندگی میں بہت آتیں ہیں جس کی ضایع کے بارے دین اسلام بھی شدت سے منع کرتی ہے خودحدیث نبوی ص تاکید کی گئی ہیں کہ
ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ ” رواه الحاكم وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير (رقم 1077)
ہمارے پیارے رسول اکرم ص نے فرمایا:-
کہ
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے
فرصت اور فراغت ایک عام نعمت ہے
اور یہ انسانی معاشر ے میں یکساں طور پر امیر ,غریب عالم و جاہل سب کو ملتی ہے خصوصا اس وقت اگرچہ سارے کورونا کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم مشکلات میں ہیں تاہم اس میں بھی ایک نعمت کا ملنا فرصت کا یہ بھی حق سبحانہ کی طرف سے کرم نوازی ہے
البتہ انسان ہمیشہ کی طرح کفران نعمت کرتےہیں
آپ جو وقت کی کمی کے شاکی تھے
کہ بہ قول ظفر اقبال کے
اس کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہ تھی مجھے
مصروف تھا میں کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود
؎
آج آپ کےپاس وقت ہی وقت ہیں فرصت ہی فرصت ہیں آج آپ اپنے بچوں کو وقت دے سکتا ہے ماں باپ کی خوب خاطر مدارت کرسکتے ہیں آپ اپنے رشتہ داروں کی خبر لے سکتے ہیں کہ وہ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں
آپ اپنے ان دوستوں کو فل ٹائم دے سکتا ہے جن کو آپ صرف وقت کی تنگی کی وجہ سے نہیں مل پاتے تھے حتی کہ
آپ اپنے کاموں کوبھی جاری رکھ سکتے ہیں .کاروباری حضرات اگر بازار جا کر تجارت نہ کر سکے تو اس فرصت کے موقعے پر اپنے کاروبار کے بارے میں جانچ پڑتال کر سکتے ہیں کہ آمدنی میں اضافہ ہوا یا کم ہوا .؟ اگر خسارے میں ہو تو اس سے کس طرح آسانی سے نکل سکتے ہیں اور اگر فائدے میں ہیں تو مزید اس میں بہتری کس طر ح سے کیا جاسکتاہے
دفاتر میں کے بارے میں ملازمیں سوچ سکتے ہیں کہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیسے کرسکتے ہیں .
ایجوکیشن سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے لیے یہ سب سے عظیم تحفہ ہے کہ وہ اس فرصت کے موقعے کا بھر استفادہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے بارے میں یا اپنےمتعقلہ سکولوں .کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے بارے میں اس کی بہتری کےلیے لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں
اسکے علاوہ کوئی بھی ہو اور خواہ وہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے شعبےکی بہتر ی کے
اقدامات کابندوبست آسانی سے کر سکتے ہیں .اور سب سے اہم کام جو ہم سب کو اس کرنی چاہیے وہ یہ ہیں کہ آپ اس فرصت کے وقت میں محاسبہ کر سکتے ہیں
جس کی تاکید دین اسلام میں بھی کی گئی ہیں حدیث شریف میں ہے
”” لیس منا من لم یحاسب نفسه کل یوم “
” جو شخص ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ھے.
خود احستابی کے زریعے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں ؟ کہاں جارہے ہیں ؟
شاعر نے کہا تھا
ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کا
میں کیا ہو ں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں
؎
آج آپ کے پاس صرف شام نہیں پورے چوبیس گھنٹے ہیں آپ اس میں سوچ سکتے ہیں کہ آج تک میں نے زندگی میں کیا پایا؟؟ اور کیا کھویا ؟؟..
آپ سوچ سکتے ہیں کہ میرا خواب کیا تھا ؟کیا پورا ہوا ہے ؟ نہیں تو کیسے میں اس کو پورا کرسکتا ہوں؟؟
ایک مسلمان ہونے کے ناطے میری ذمہ داری کیا ہے ؟؟کیامیں ان ذمہ داروں کو انجام دے رہا ہوں یا نہیں یعنی دین کے لیے کیا کیا ؟؟؟
معاشرہ اورسماج کے حوالے سے میراانفرادی کیا کردار رہا ؟؟؟
مملکت خداداد کے لیے کیا کیامیں نے ؟؟
اس کے علاوہ آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ میرے اندر کون کون سی خامیاں ہیں اور کون کون خوبیاں .. اب تک میں نے ذندگی کیسےگزاری ؟؟ آپ ان تمام باتوں کو ایک صفحہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے میں خوبیاں اور دوسرے میں خامیاں لکھیے اور پھر زندگی بہتر سےبہتر گزارنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیا ر کریں یقین منائے آپ کی زندگی میں تبدیلی ضرور آئے گی .
آخر میں اس بات سے قلم اٹھا تا ہو کہ ہم
فرصت کے اس عظیم نعمت کا شکر اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے ذریعے کر سکتے ہیں.اگر خدا نخواستہ اس فرصت کے موقعے کو بھی ہم ایسے ہی جانے دیے اور اس نعمت کی قدر نہ کرے تو ایک کرونا چھوڑے لاکھوں کورونوں کا سامنا ہو سکتے ہیں ...