لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں آتشزدگی

عاطف بٹ

محفلین
لاہور کے علاقے بند روڈ میں جوتے بنانے کی فیکٹری میں آتشزدگی سے 25 افراد جھلس کر جاں بحق جبکہ درجن سے زائد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق آگ فیکٹری کا جنریٹر پھٹنے سے لگی۔ اس وقت فیکٹری میں 35 سے 40 افراد کام کر رہے تھے۔ کیمیکل اور پلاسٹک دانے کے باعث آگ تیزی سے پھیلتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری کی دو منزلہ عمارت کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ریسکیو ٹیمیں اور فائربریگیڈ کی دس گاڑیاں فوری طور پر جائے وقوعہ پہنچ گئیں، تاہم تنگ گلیوں کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید آگ کے باعث فیکٹری میں پھنسے افراد کو فیکٹری کی دیواریں اور شیشے توڑ کر زخمیوں کو نکالا گیا۔ امدادی کارروائیوں کے دوران دو ریسکیو اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونیوالوں میں فیکٹری کا مالک رجب بھی شامل ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جاں بحق ہونیوالوں کیلئے تین تین لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ انکوائری کیلئے کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے باعث 7 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ریسکیو کارروائیاں تاحال جاری ہیں۔ فیکٹری میں مزدور خواتین بھی پھنسی ہوئی ہیں۔ فیکٹری میں موجود افراد اپنی جان بچانے کیلئے ریسکیو ٹیم کو ٹارچ کی روشنی سے اپنی نشاندہی کررہے ہیں جبکہ اسنارکل کے ذریعے فیکٹری کی چھتوں سے پھنسے لوگوں کواتارا جارہا ہے۔ فائر بریگیڈ نے آگ پر قابو پانے کے لئے تمام گاڑیوں کو موقع پر طلب کرلیا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
افسوسناک خبریں ہیں ۔
اللہ تعالی جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے آمین
 

مہ جبین

محفلین
اللہ پاک ناگہانی آفات و حادثات سے سب کو محفوظ و مامون رکھے

پتہ نہیں ایسی جگہوں پر بروقت حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے
ایسے کتنے ہی حادثات ہوچکے ہیں اور کتنی ہی قیمتی جانیں اسمیں ضائع ہو جاتی ہیں یا کچھ لوگ ہمیشہ کے لئے معذور ہوجاتے ہیں
اور اعلیٰ حکام غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں
کب جاگیں گے یہ لوگ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان کے شہر کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں منگل کو آگ لگنے سے خواتین سمیت کم سے کم ستاون افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، گورنر سندھ کا شہر میں یوم سوگ کا اعلان۔
کراچی میں نامہ نگار ارمان صابر کا کہنا ہے کہ متاثرہ فیکٹری حب ریور روڈ پر واقع ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے افراد کے مطابق فیکٹری میں چار سو سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں تاہم پانچ بجے زیادہ تر افراد فیکٹری سے جا چکے تھے اور فیکٹری میں ایک سو کے لگ بھگ افراد کام میں مصروف تھے۔
فائر بریگیڈ کے مطابق یہ آگ فیکٹری کی تین منزلہ عمارت کی بالائی منزل پر منگل کی شام کو لگی جس نے بعد میں پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فائر چیف احتشام الدین نے صحافیوں کو بتایا کہ آگ لگنے کی وجہ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
ان کے بقول آگ پر قابو پانے کے لیے کام جاری ہے اور سنارکل سمیت بارہ فائر ٹینڈرز آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ آگ اتنی شدید ہے کہ ابھی اسے بجھانے میں مزید تین سے چار گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
ان کے بقول فائر ٹینڈرز کو پانی لینے جانے کے لیے کافی فاصلہ طے کرنا پڑ رہا تھا جس کے باعث آگ پر قابو پانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات اعلٰی حکومتی اہلکاروں کے علم میں آنے کے بعد ہنگامی طور پر نجی ٹینکر مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹینکروں میں پانی لے کر جائے حادثہ پر پہنچیں تاکہ آگ پر جلد از جلد قابو پایا جا سکے۔
وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس غربی کو اس واقعہ کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے جبکہ صوبائی وزیر صنعت رؤف صدیقی نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے محکمے کی جانب سے انکوائری کی ہدایت کی ہے۔
ربط
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
اللہ تعالی جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین
آج ہی میں ڈان میں اس کی تفصیلات پڑھ رہی تھی ، بہت افسوسناک خبر ہے ۔
 

یوسف-2

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ مرھومین کی مغفرت فرمائے اور سوگواران کو صبر جمیل عطا کرے آمین۔ فیکٹری مالکان کا بھی فرض ہے کہ وہ ہلاک شدگان کے ورثا اور زخمیوں کی مالی معاونت کرکے ان کے دکھوں پر مرحم رکھنے کی کوشش کریں۔ کاش فیکٹری مالکان حفاظتی اقدامات پر بھی کچھ خرچ کرلیا کریں۔ چند برس قبل کراچی کے ایک کثیر القومی پینٹ فیکٹری میں بھی اسی طرح شدید آگ لگی تھی۔ مگر وہاں علامی معیار کے حفاظتی اقدامات موجود تھے۔ چنانچہ ایک دو منٹ کے اندر اندر سارری افرادی قوت فیکٹری گیٹ سے باہر بحفاظت موجود تھی۔ جبکہ کیمیکلز میں لگی شدید آگ کو بجھانے میں دس بارہ گھنٹوں سے بھی زائد کا وقت لگا تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
9-12-2012_120358_1.gif



9-12-2012_120357_1.gif
 

عاطف بٹ

محفلین
اطلاعات کے مطابق کراچی کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 270 ہوگئی ہے۔
اب ہمارے قومی و صوبائی حکمران ٹی وی پر آ کر اسے قومی سانحہ قرار دیں گے، کہیں گے ہم لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا جائے گا اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے دعوے بھی ہوں گے۔۔۔ یہ سب کچھ تو ہوگا مگر آئندہ ایسا سانحات سے بچاؤ کے لئے نہ تو کوئی لائحہ عمل بنایا جائے گا اور نہ ہی ان حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی عملی اقدام کیا جائے گا۔
اس ملک میں بسنے والی 19 کروڑ بھیڑ بکریاں اسی قابل ہیں کہ انہیں کوئی اہمیت نہ دی جائے۔
 
کراچی میں نامہ نگار ارمان صابر کا کہنا ہے کہ متاثرہ فیکٹری حب ریور روڈ پر واقع ہے۔ فیکٹری میں کام کرنے والے افراد کے مطابق فیکٹری میں چار سو سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں تاہم پانچ بجے زیادہ تر افراد فیکٹری سے جا چکے تھے اور فیکٹری میں ایک سو کے لگ بھگ افراد کام میں مصروف تھے۔
ربط
فیکٹری میں لگنے والی آگ کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 270 ہوگئی ہے۔


صحافت کا یہ معیار رہ گیا ہے ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون​
اللہ تعالٰی آتشزدگی اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے​
اللہ کریم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور آفات وبلایات سے بچائے
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

صبح کی خبروں میں 105 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر تھی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
کمشنر کراچی روشن علی شیخ نے کہا ہے کہ فیکٹری میں لگنے والی آگ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 289 ہوگئی ہے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ابھی موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیکٹری مالکان فرارہیں اور ان گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ تین دن میں مکمل کرلی جائے گی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
وزیرداخلہ عبدالرحمٰن ملک نے کہا ہے کہ لاہور اور کراچی میں آتشزدگی کے واقعات کی ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے کہ کہیں ان میں دہشت گردی کا عنصر تو موجود نہیں۔
 


اللہ اللہ
یہ لوگ مسلط ہوگئے ہیں ہم پر نہ انسانی جان کی پرواہ نہ قانون کا خیال۔
ذرا اس موٹن کا بیان ملاحظہ ہو۔ کہہ رہا ہے ہے کہ بنیادی سہولیات کے بغیر کوئی ارڈر نہیں ملتا۔ یہ لوگ غیرملکی ارڈر لینے کے لیے تو ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں مگر ملک کے قانون کی کوئی پرواہ نہیں۔ سیفٹی کے قوانین کی کوئی فکر نہیں۔ فیکڑی کو بند ڈربہ بناکر رکھا ہوا تھا ہر طرف سے بند۔
یہ فیکٹری کے مالکان انسانی خون اور گوشت سے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ ان کے کارخانوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طریوں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ انسان ہی۔ یہ ہم پر مسلط ہین
یہ کمشنر یہ وزرا اور یہ گورنرز۔ کیا یہ انسان ہیں؟ یہ اپنے اپنے فائدے کے لیے انسان کا گلا کاٹنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ۔ کیا یہ انسان ہیں۔ یہ ہم پر مسلط ہیں
یہ سرکار ی ملازم۔ پیسے لے کر ہر قانون کی دھجییاں اڑادیتے ہیں۔ کیا یہ انسان ہیں؟ یہ قاتل ہیں۔ یہ ہم پر مسلط ہیں
کراچی والوں خدارا ان درندوں سے جان چھڑاو ۔ ورنہ ائے دن یہ غارت گری معمول نہ بن جائے خدا نہ خواستہ
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جو کہہ رہا ہے ناں کہ جو چیزیں سامنے آئی ہیں، ان پر تعجب ہے، تو ان چیزوں پر دستخط کرنے والا یہ خود ہی ہو گا۔
 
Top