لوگ الفاظ کو اپنے اپنے انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس میں بسا اوقات غلطی فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ بہتر ہے جس کی بات پر اعتراض ہو اسی سے وضاحت طلب کی جائے۔
ہم پروپیگنڈے کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کا سچ بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی خبر پر ردعمل یک طرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر کہیں مرد اور خاتون کی درمیان خاص طور پر مشرقی ماحول میں کوئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو سارا الزام مرد کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ اور خاتون کو مظلوم گردانا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مرد و عورت کی برابری کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے جب ایک خاص طبقہ جو عورت اور مرد کی برابری کے حقوق کی بات کرتا ہے وہی عورت کی مظلومیت اور صنف نازکی کی بنیاد پر اس کو ایک علیحدہ مخلوق بنا کر پیش کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ایسے میں ایک خاص ایجنڈے پر کام کرنے والے لوگ اپنا منجن بیچنا شروع کردیتے ہیں اور پہلے مشرق یا مشرقی روایات کو نشانا بناتے ہیں پھر گھوم پھر کر اسلام کے بارے میں زبان درازی شروع کردیتے ہیں۔
کوئی شخص اگر مشرق میں رہتے ہوئے مغربی روایات اور طرز زندگی کو اختیار کرتا ہے تو اس کے نتائج پر مشرق کو برا کہنے کا کیا جواز ہے؟ ذاتی تلخ تجربات کی بنیاد پر پورے معاشرے پر انگلی اٹھانا کہاں کا انصاف ہے؟ اس خبر یا اس خاتون کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد بھی کوئی یہ کہے کہ مشرقی معاشرے کا قصور ہے یا فقط مرد کی غلطی ہے اور خاتون معصوم ہے تو میرے نزدیک وہ مناسب رائے نہیں۔ مرد نے جو کچھ کیا وہ انتہائی سنگین ہے اس کی سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے لیکن ہم اکثر نتائج کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں جبکہ اس کی وجوہات کی طرف دھیان نہیں جاتا اور نہ ہی ان کا سدباب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وجوہات کو ختم نہیں کیا جاتا تو واقعات بار بار ہوتے ہیں اور مزید سنگین ہوتے ہیں۔
اللہ پاک سب کی جان مال عزت آبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔