راشد اشرف
محفلین
مقبول جہانگیر میرے شروع سے ہی پسندیدہ مصنف رہے تھے۔ لیکن جب سے میں نے ان کی ترجمہ شدہ کتب کو انگریزی کے اصل متن میں پڑھنا شروع کیا ہے، تب سے دل بہت اچاٹ ہو گیا ہے۔ مرحوم نے نہ صرف حقائق، واقعات بلکہ کرداروں کو بھی توڑ موڑ کر اور کئی جگہ منفی بنا کر پیش کیا
اس کی ایک مثال آپ کیننتھ اینڈرسن کے دوست بیرا پجاری کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں
اس کے علاوہ پیپلن کا فرار بھی اسی طرح ترجمے سے کافی مختلف ہے
جم کاربٹ کی کتب بھی ایک طرح سے عجیب انداز میں ترجمہ کی گئی ہیں
قریب ایک برس ہوا جب آپ کا ہیرا پجاری سے متعلق بیان پڑھا تھا، پھر آپ کا کیا ہوا ترجمہ بھی دیکھا۔
مقبول جہانگیر کے طبعزاد کاموں میں جیسا میں نے عرض کیا یاران نجد نہایت عمدہ خاکوں کی کتاب ہے۔ یاد شاہد اچھی مرتب کی تھی۔ خوفناک کہانیوں کو ابھی بھی کبھی کبھی دوبارہ پڑھ لیتا ہوں۔ آپ نے ترجمے والی بات یقینا درست کہی ہے، آپ اصل تحریر سے واقف ہیں لہذا بہتر تجزیہ کرسکتے ہیں۔ خاکسار کے پاس کرسٹینا بیکر کی کتاب
From MTV to Mecca
ترجمے کے لیے آئی تھی۔ لندن سے ایک صاحب نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا کہ کسی پیشہ ور مترجم کی تلاش میں تھے۔ ان کا رابطہ ایک صاحب سے کروایا لیکن 500 صفحات پر مشتمل کتاب کا مجھے بھیجا گیے پہلے باب (کل 15 صفحات) کا ترجمہ یونہی شوق ہی شوق میں کرنا شروع کیا اور کرتا چلا گیا۔ اس وادی پرخار میں زمانہ طالب علمی کے دوران برسوں پہلے ایک قدم رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن زیادہ دور نہ چل سکا تھا۔ خیر صاحب ہوا یہ کہ ان صاحب کو ترجمہ پسند آگیا بلکہ بہت پسند آیا۔ اب بات آئی معاوضے کی۔ پروفیسشل مترجم کا نرخ بہت زیادہ تھا جیسا کہ اس میدان میں کہا جاتا ہے کہ معاوضوں کی شرح انتہائی بلند ہے۔
لندن والے صاحب اس کوشش میں تھے کہ یہ کام کم پیسوں میں ہم کردیں۔ ایک صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں سخت لہجے جھاڑ پلائی کہ اب تک رفاع عامہ کے کام کرتے آئے ہو بلکہ الٹا اپنے پلے ہی سے خرچ کرتے ہو لہذا اس معاملے میں ریاعت نہ برتنا۔ ادھر میں تذبذب کا شکار۔ پھر ان صاحب نے کہا کہ کمپوزنگ کا کیا ہوگا، اگر وہ معاوضہ بھی اس میں شامل کرلو تو سیدھے سیدھے 50 ہزار کا مزید اضافہ ہوتا ہے کہ فی صفحہ فلاں فلاں ریٹ ہے۔
اب لندن والے صاحب 18 تاریخ کو فون کریں گے۔
آپ جانتے ہوں گے کہ کرسٹینا بیکر ایم ٹی وی جرمنی کی وی جے رہی ہے اور عمران خان کے زیر اثر (ِ؟) اسلام قبول کرچکی ہے۔
باب اول میں ایک جگہ اس نے عمران کی محبت میں گرفتار ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر ترجمہ کرانے والے لوگ کتاب پر مترجم کا نام نہیں دیتے، ادھر مترجم کی معاشی مجبوریاں اسے سر نہیں اٹھانے دیتیں سو وہ راضی ہوجاتا ہے۔ ایک حالیہ مثال بابا صاحب امبیدکر کی حال ہی میں کراچی سے شائع ہونے والی سوانح کی شکل میں سامنے آئی ہے جس میں کراچی کے ایک ادیب و افسانہ نگار نے 80 ہزار کے عوض ترجمہ کیا جبکہ کتاب پر ان کا نام سرے سے ناپید تھا اور وہ اس راضی تھے۔
اس تمام لاف گزاف کا مقصد یہی ہے کہ مترجم پر بہرحال ایک ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ اصل مندرجات کو چھیڑے بغیر ترجمہ کرتا چلا جائے۔ تحریف یا ترمیم کی صورت میں ایک پیشہ ورانہ بددیانتی کی صورت لاگو ہوتی ہے۔