Rashid Ashraf
محفلین
غلام رسول بلڈنگ لاہور مال روڈ میں واقع کتابوں کی ایک معروف دکان فیروز سنز بدھ 30 مئی 2012 کو آگ لگنے سے تباہ ہوگئی۔ دکان کے مینیجر کے مطابق آگ سے کوئی ایک کتاب بھی محفوظ نہ رہ سکی۔
فیروز سنز نامی ادارہ 1894 میں مولوی فیروز الدین نے قائم کیا تھا۔
فیروز سنز کے ڈائرکٹر مارکٹنگ دانیال سلام کے مطابق اس حادثے میں آٹھ لاکھ کتابیں جل کر خاکستر ہوگئیں، ان میں دکان کے ساتھ ساتھ بیسمنٹ میں واقع گودام میں رکھی کتابیں بھی شامل تھیں۔ دو لاکھ کتابیں وہ تھیں جو آگ سے بچ گئیں لیکن آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران پانی سے تباہ ہوگئیں۔
دانیال اسلام کے مطابق دس سے پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
لاہور میں واقع فیروز سنز محض ایک کتابوں کی دکان نہیں تھی بلکہ اسے شہر کی اہم لائبریری ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ جو کتاب پورے ملک میں نہیں ملتی تھی، یہاں سے مل جاتی تھی۔ تفصیلات کے مطابق فیروز سنز میں تقسیم ہند سے قبل کی بھی کئی کتابیں موجود تھیں، معروف شاعروں اور ادیبوں کے ہاتھ کی لکھی کئی نایاب تحاریر اس پر مستزاد! ادارے کے ایم ڈی اسپین کے اعزازی کونسل جنرل بھی ہیں اور ان کا دفتر بھی اسی عمارت میں واقع تھا۔
یہ ادارہ مولوی فیروز الدین نے 1894 میں قائم کیا تھا۔ مولوی صاحب کی اہم خودنوشت "جہاد زندگانی" 1959 میں ان کے اپنے ادارے سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا سرورق یہاں دیکھا جاسکتا ہے:
http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...lvi-feroz-uddin-ahmed-feroz-sons-lhr-1959.jpg
یہ وہی مولوی فیروز الدین ہیں جن کے پوتے عبدالوحید کی بیٹی ناصرہ (جسٹس ناصر اقبال) سے علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کی شادی ہوئی ہے ۔
ایک تازہ اخباری اطلاع کے مطابق فیروز سنز جو کتابیں نمونے کے طور پر بیرون ممالک بھیجتا تھا، صرف اس کی مالیت ہی سال میں دو کروڑ سے زیادہ تھی۔ ادارے کے مینیجر کے مطابق گودام میں ایک ایک کتاب کے پانچ ہزار ٹائٹل جڑے ہوئے پڑے تھے۔
یہ واقعہ بدھ کے روز ساڑھے دس اور گیارہ کے درمیان پیش آیا۔ آگ بیسمنٹ میں واقع اسٹور میں لگی جہاں سرے سے بجلی کا کنکشن موجود ہی نہیں تھا۔ آگ کا شور سنتے ہی جب مینیجر موقع پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ آگ کا شعلہ سیڑھی پر بھڑک رہا ہے جہاں بقول اس کے آگ لگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ یہ جگہ ایسی تھی کے دکان کے 50 ملازمین میں سے شاذ و نادر ہی کوئی وہاں جاتا تھا۔ مالکان نے تخریب کاری کا شبہ ظاہر کیا ہے۔
فیروز سنز نامی ادارہ 1894 میں مولوی فیروز الدین نے قائم کیا تھا۔
فیروز سنز کے ڈائرکٹر مارکٹنگ دانیال سلام کے مطابق اس حادثے میں آٹھ لاکھ کتابیں جل کر خاکستر ہوگئیں، ان میں دکان کے ساتھ ساتھ بیسمنٹ میں واقع گودام میں رکھی کتابیں بھی شامل تھیں۔ دو لاکھ کتابیں وہ تھیں جو آگ سے بچ گئیں لیکن آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران پانی سے تباہ ہوگئیں۔
دانیال اسلام کے مطابق دس سے پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
لاہور میں واقع فیروز سنز محض ایک کتابوں کی دکان نہیں تھی بلکہ اسے شہر کی اہم لائبریری ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ جو کتاب پورے ملک میں نہیں ملتی تھی، یہاں سے مل جاتی تھی۔ تفصیلات کے مطابق فیروز سنز میں تقسیم ہند سے قبل کی بھی کئی کتابیں موجود تھیں، معروف شاعروں اور ادیبوں کے ہاتھ کی لکھی کئی نایاب تحاریر اس پر مستزاد! ادارے کے ایم ڈی اسپین کے اعزازی کونسل جنرل بھی ہیں اور ان کا دفتر بھی اسی عمارت میں واقع تھا۔
یہ ادارہ مولوی فیروز الدین نے 1894 میں قائم کیا تھا۔ مولوی صاحب کی اہم خودنوشت "جہاد زندگانی" 1959 میں ان کے اپنے ادارے سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا سرورق یہاں دیکھا جاسکتا ہے:
http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...lvi-feroz-uddin-ahmed-feroz-sons-lhr-1959.jpg
یہ وہی مولوی فیروز الدین ہیں جن کے پوتے عبدالوحید کی بیٹی ناصرہ (جسٹس ناصر اقبال) سے علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال کی شادی ہوئی ہے ۔
ایک تازہ اخباری اطلاع کے مطابق فیروز سنز جو کتابیں نمونے کے طور پر بیرون ممالک بھیجتا تھا، صرف اس کی مالیت ہی سال میں دو کروڑ سے زیادہ تھی۔ ادارے کے مینیجر کے مطابق گودام میں ایک ایک کتاب کے پانچ ہزار ٹائٹل جڑے ہوئے پڑے تھے۔
یہ واقعہ بدھ کے روز ساڑھے دس اور گیارہ کے درمیان پیش آیا۔ آگ بیسمنٹ میں واقع اسٹور میں لگی جہاں سرے سے بجلی کا کنکشن موجود ہی نہیں تھا۔ آگ کا شور سنتے ہی جب مینیجر موقع پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ آگ کا شعلہ سیڑھی پر بھڑک رہا ہے جہاں بقول اس کے آگ لگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ یہ جگہ ایسی تھی کے دکان کے 50 ملازمین میں سے شاذ و نادر ہی کوئی وہاں جاتا تھا۔ مالکان نے تخریب کاری کا شبہ ظاہر کیا ہے۔