صوبائی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت
سانپ کو اُس وقت کچل دینا چاہیے جب وہ سنپولیا ہو۔ اُسوقت نہیں جب اُسی سنپولیے کو خود دودھ پلا پلا کر اژدر بنا دیا گیا ہو۔
قرآنی پیغام شروع دن سے ہمارے لیے واضح تھا کہ فتنہ کو جہاں پاؤ اسے مارو یہاں تک کہ یہ فتنہ مکمل طور پر نیست و نابود ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے توبہ تائب کر لے۔
علی ابن ابی طالب نے اسی قرآنی حکم کی عملا تفسیر ہمارے سامنے کی جب باقی سب کچھ چھوڑ کر سب سے پہلے خارجی فتنے کو نیست و نابود کیا۔
کیوں؟
کیوں کہ اگر آپ ایسے فتن پر رحم کھاتے رہیں گے اور انکے خلاف کچھ نہیں کریں گے تو اسکا سب سے زیادہ خمیازہ آپکی نہتی معصوم عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ آج ان سینکڑوں انتہا پسندوں کو قتل کر دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ کل آپکے لاکھوں کی تعداد میں معصوم نہتی عوام خاک و خون کا نشانہ نہیں بنے گی اور نہ ہی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گی۔ اور اگر آپ آج ان پر رحم کھانے کی غلطی کرتے ہیں تو کل آپکا پچاس گنا زیادہ نقصان ہو کر رہنا ہے۔
علی ابن ابی طالب کے بعد ہزاروں علماء نے اس دور فتن پر مکمل ریسرچ کی اور احادیث رسول ص جمع کیں اور بتلایا کہ جب بھی کوئی چھوٹا گروہ اصلاح امت کے نام پر اسلحہ اٹھائے گا تو پھر مسلم خون کا بہنا یقینی ہو جائے گا۔ افسوس کہ ہم اپنی اس تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھ سکے۔
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ پاکستان میں ایک خلا ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور وہ خلا مذہبی طبقے کی طرف سے ہے۔
سعودی عرب میں علماء نے القاعدہ کو خارجی فتنہ قرار دے کی قوم کو مسلسل پیغام دیا جا رہا ہے کہ اس خارجی فتنے کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہونا ہے اور انکا خون حلال ہے کہ ورنہ یہ پچاس گنا زیادہ معصوموں کا خون بہا ڈالیں گے۔
افسوس کہ پاکستان میں ابھی تک مذہبی نقطہ نظر سے اس طالبانی فتنے کے خلاف مؤثر معلومات عوام کو بہم فراہم نہیں کی گئیں، اور نہ اسلامی نقطہ نظر سے واضح کیا گیا کہ کہ طالبانی فتنے اُسی خارجی فتنے کی تصویر ہے جو صدیوں پہلے ہم دیکھ چکے ہیں اور آج سعودی مفتی حضرات سعودیہ میں القاعدہ کو تو خارجی فتنہ قرار دے رہے ہیں، مگر پاکستان میں طالبان کے خلاف کوئی فتوی کھل کر سامنے نہیں آتا۔
جب تک یہ خلا باقی رہے گا، اُسوقت تک مشکل ہے کہ قوم اس طالبانی فتنے کے خلاف مکمل طور پر متحد ہو سکے۔ آج منور حسن صاحب کھل کر طالبانی حکومت کو بہترین حکومت کو خون کے دریا بہا دینے کے باوجود بہترین حکومت قرار دے رہے ہیں اور انکے نزدیک خلافت راشدہ کے بعد طالبان نے بہترین اسلامی حکومتی ماڈل قائم کیا ہے۔
اب بتلائیے ایسے حالات میں قوم ذہنی انتشار کا شکار پھر کیوں نہ ہو؟ ایک طرف جماعت اسلامی ہے جو طالبان کو ہیرو بنائے، دوسری طرف سعودی حکومت و مفتی حضرات ہیں جو القاعدہ کو تو خارجی فتنہ قرار دیں، مگر پاکستان و طالبان کے مسئلے پر انکی طرف سے کوئی فتوے نہ آئیں، اور پاکستان کے اپنے مذہبی طبقات تو جماعت اسلامی کی طرح طالبان کی حمایت میں ابھی تک متحرک ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں ایک بہت بڑا خلا آیا ہوا ہے اور قوم ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ کاش قوم کو یہ بات بتلانے والا کوئی مذہبی لیڈر خود انہی میں سے پیدا ہو جو ان کو حقائق بتلائے۔ افسوس آج اُن تمام ماضی کے علماء کی کاوشیں برباد ہو گئیں جنہوں نے ان اصلاح امت کے نام پر اٹھنے والے گروہوں کے فتن پر ہزاروں کتب لکھیں تاکہ مستقبل میں امت کو ایسے فتن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
میں آپ سے سو فیصد اتّفاق کرتا ہوں اس بات پرسانپ کو اُس وقت کچل دینا چاہیے جب وہ سنپولیا ہو۔ اُسوقت نہیں جب اُسی سنپولیے کو خود دودھ پلا پلا کر اژدر بنا دیا گیا ہو۔
قرآنی پیغام شروع دن سے ہمارے لیے واضح تھا کہ فتنہ کو جہاں پاؤ اسے مارو یہاں تک کہ یہ فتنہ مکمل طور پر نیست و نابود ہو جائے یا پھر اپنے فتنے سے توبہ تائب کر لے۔
علی ابن ابی طالب نے اسی قرآنی حکم کی عملا تفسیر ہمارے سامنے کی جب باقی سب کچھ چھوڑ کر سب سے پہلے خارجی فتنے کو نیست و نابود کیا۔
کیوں؟
کیوں کہ اگر آپ ایسے فتن پر رحم کھاتے رہیں گے اور انکے خلاف کچھ نہیں کریں گے تو اسکا سب سے زیادہ خمیازہ آپکی نہتی معصوم عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ آج ان سینکڑوں انتہا پسندوں کو قتل کر دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ کل آپکے لاکھوں کی تعداد میں معصوم نہتی عوام خاک و خون کا نشانہ نہیں بنے گی اور نہ ہی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گی۔ اور اگر آپ آج ان پر رحم کھانے کی غلطی کرتے ہیں تو کل آپکا پچاس گنا زیادہ نقصان ہو کر رہنا ہے۔
علی ابن ابی طالب کے بعد ہزاروں علماء نے اس دور فتن پر مکمل ریسرچ کی اور احادیث رسول ص جمع کیں اور بتلایا کہ جب بھی کوئی چھوٹا گروہ اصلاح امت کے نام پر اسلحہ اٹھائے گا تو پھر مسلم خون کا بہنا یقینی ہو جائے گا۔ افسوس کہ ہم اپنی اس تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھ سکے۔
اور میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ پاکستان میں ایک خلا ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور وہ خلا مذہبی طبقے کی طرف سے ہے۔
سعودی عرب میں علماء نے القاعدہ کو خارجی فتنہ قرار دے کی قوم کو مسلسل پیغام دیا جا رہا ہے کہ اس خارجی فتنے کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہونا ہے اور انکا خون حلال ہے کہ ورنہ یہ پچاس گنا زیادہ معصوموں کا خون بہا ڈالیں گے۔
افسوس کہ پاکستان میں ابھی تک مذہبی نقطہ نظر سے اس طالبانی فتنے کے خلاف مؤثر معلومات عوام کو بہم فراہم نہیں کی گئیں، اور نہ اسلامی نقطہ نظر سے واضح کیا گیا کہ کہ طالبانی فتنے اُسی خارجی فتنے کی تصویر ہے جو صدیوں پہلے ہم دیکھ چکے ہیں اور آج سعودی مفتی حضرات سعودیہ میں القاعدہ کو تو خارجی فتنہ قرار دے رہے ہیں، مگر پاکستان میں طالبان کے خلاف کوئی فتوی کھل کر سامنے نہیں آتا۔
جب تک یہ خلا باقی رہے گا، اُسوقت تک مشکل ہے کہ قوم اس طالبانی فتنے کے خلاف مکمل طور پر متحد ہو سکے۔ آج منور حسن صاحب کھل کر طالبانی حکومت کو بہترین حکومت کو خون کے دریا بہا دینے کے باوجود بہترین حکومت قرار دے رہے ہیں اور انکے نزدیک خلافت راشدہ کے بعد طالبان نے بہترین اسلامی حکومتی ماڈل قائم کیا ہے۔
اب بتلائیے ایسے حالات میں قوم ذہنی انتشار کا شکار پھر کیوں نہ ہو؟ ایک طرف جماعت اسلامی ہے جو طالبان کو ہیرو بنائے، دوسری طرف سعودی حکومت و مفتی حضرات ہیں جو القاعدہ کو تو خارجی فتنہ قرار دیں، مگر پاکستان و طالبان کے مسئلے پر انکی طرف سے کوئی فتوے نہ آئیں، اور پاکستان کے اپنے مذہبی طبقات تو جماعت اسلامی کی طرح طالبان کی حمایت میں ابھی تک متحرک ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں ایک بہت بڑا خلا آیا ہوا ہے اور قوم ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ کاش قوم کو یہ بات بتلانے والا کوئی مذہبی لیڈر خود انہی میں سے پیدا ہو جو ان کو حقائق بتلائے۔ افسوس آج اُن تمام ماضی کے علماء کی کاوشیں برباد ہو گئیں جنہوں نے ان اصلاح امت کے نام پر اٹھنے والے گروہوں کے فتن پر ہزاروں کتب لکھیں تاکہ مستقبل میں امت کو ایسے فتن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔