لاہور ٹیکنالوجی کی راہ پر گامزن

عبیر خان

محفلین
large.php
لاہور میں گزشتہ 10 سال سے ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔لاہور میں ٹیکنالوجی کا استعمال
اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ لاہور ٹیکنالوجی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔لاہور میں اگر گاڑی کا تیل بدلوانا ہو۔ بیڑی تبدیل کروانی ہو یا گاڑی کی کوئی اور خرابی دور کروانا ہو تو میکنک کی دکانوں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہ سروس آپ کے دروازے پر دستیاب ہو سکتی ہے۔شائستہ ذوالفقار ایک ورکنگ ویمن ہیں جو گذشتہ چھ ماہ سے ویب سائٹ پر بکنگ کروا کے گاڑی کی مرمت گھر پر ہی کروا رہی ہیں۔شائستہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’بہت آسانی ہوگئی ہے۔ پہلے تو فکر رہتی تھی کہ میکنک گاڑی کے پرزے ہی نہ نکال لے۔ اب گھر بیٹھے بیٹھے میں نے آن لائن بکنگ کروائی۔ میکنیک آیا میری آنکھوں کے سامنے کام کر کے چلا بھی گیا۔ میں تو بہت مطمئن ہوں۔‘یہ سروس ’آٹو جینی‘ نامی کمپنی کی جانب سے شروع کی گئی۔ آٹو جینی لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے سابق طلبہ کی ایک کمپنی ہے۔ جو ویب سائٹ اور اپنے فیس بک پیج پر آرڈر لے کر گھروں اور دفاتر میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتی ہے۔ کمپنی کے سی ای او حسن سمی کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آٹو انڈسٹری گذشتہ برس پاکستان میں 33 فیصد بڑھی ہے۔ تو ہماری مارکیٹ بھی بڑھ رہی ہے۔ ہم نے دس ماہ پہلے کام شروع کیا تھا۔ اور ابتدا میں عام صارفین پر توجہ دی لیکن اب ہم کمپنیوں سے رابطے میں ہیں۔ ایک کمپنی سے اوسطاً 50 سے 60 گاڑیوں کے دیکھ بھال کا کام ہمیں مل سکتا ہے۔‘آٹو جینی لاہور کے بعد کراچی اور اسلام آباد میں اپنی سروس شروع کر رہی ہے اور اپنی موبائل فون ایپ بھی بنا رہے ہیں۔پاکستان میں تھری جی اور فور جی کی آمد کے بعد یہ دنیا بھر میں آئی ٹی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مارکیٹ کے طور پر ابھرا ہے۔گذشتہ برس ملک میں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کام کرنے والی 29 نئی کمپنیوں یا سٹارٹ اپس میں تین کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ان میں سے 24 کمپنیاں لاہور کی ہیں۔پاکستان میں نوکریوں کے حصول کا سب سے بڑا ویب پورٹل روزی ڈاٹ پی کے گاڑیوں کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی ویب سائٹ پاک ویلز اور جائیداد کی آن لائن خرید و فروخت کا سب سے بڑا ویب پورٹل زمین ڈاٹ کام بھی لاہور سے ہی چلائے جارہے ہیں۔زمین ڈاٹ کام میں گذشتہ نوے لاکھ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی جس کے بعد اس کی مزید توسیع کی جا رہی ہے۔ذیشان علی خان زمین ڈاٹ کام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ برطانیہ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں آن لائن پراپرٹی کا کاروبار تقریباً دس سال پہلے شروع کیا تھا۔ یہ جب سے لاہور میں ہی قیام پذیر ہیں۔ذیشان علی کا کہنا ہے کہ ’ویسے کاروباری مواقع کے حساب سے کراچی کو ملک کا سب سے اہم شہر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ بہت سی بین الاقوامی آئی ٹی کمپنیاں لاہور میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہاں سیکورٹی کی بہتر صورتحال ہے۔ جب باہر سے سرمایہ کار آتے ہیں تو وہ ذہن میں ایسا خیال لے کر آتے ہیں کہ ایک پسماندہ جگہ جا رہے ہیں۔ لیکن لاہور میں آئی ٹی کا جو انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے وہ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اور اس کا موازنہ جنوبی امریکہ اور میکسیکو جیسے ملکوں سے کرتے ہیں۔‘لاہور میں آٹی ٹی کے شعبے میں ہونے والی اس تیز ترقی کی وجہ یہاں موجود پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ’پلان ایکس‘ اور لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے’سینٹر آف انٹرپرنئیرشپ‘ جیسے ’ٹیک انکوبیٹر‘ یا ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے ادارے ہیں۔ان ’انکوبیٹرز‘ میں ٹیکنالوجی سے متعلق کاروباری آئیڈیاز رکھنے والے نوجوانوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ انھیں تکنیکی اور مالی مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ خبر کا حوالہ
 

باباجی

محفلین
زبردست ۔
ٹیکنالوجی بنتی ہی فائدہ اٹھانے کے لیئے ہے
اور یہ واقعی ایسا کام جس سے لوگوں کے گھر بیٹھے کام کروانے کی سہولت کے ساتھ بہت سے لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا
 
اچھی خبر ہے لیکن ترقی صرف ان آئیڈیاز سے نہیں آتی اس کے لیے عوام الناس کو شعور دینے کی ضرورت ہے
آپ کے خیال میں کتنے لوگ آن لائن مکینک یاں زمین ڈاٹ کوم سے استفادہ حاصل کر رہئے ہیں شاید 500 میں سے ایک بندہ ہی ان چیزوں سے مستفید ہو رہا ہے
 

باباجی

محفلین
اچھی خبر ہے لیکن ترقی صرف ان آئیڈیاز سے نہیں آتی اس کے لیے عوام الناس کو شعور دینے کی ضرورت ہے
آپ کے خیال میں کتنے لوگ آن لائن مکینک یاں زمین ڈاٹ کوم سے استفادہ حاصل کر رہئے ہیں شاید 500 میں سے ایک بندہ ہی ان چیزوں سے مستفید ہو رہا ہے
عبیر خان
نے بھی یہی کوشش کی ہے کہ یہاں موجود اراکین کے ساتھ اسے ڈسکس کیا جائے
ہوسکتا ہے کوئی رکن اس کا فائدہ حاصل کرے ۔۔۔
اور اب پاکستان میں واقعی ٹیکنالوجی کے حوالے سے شعور پڑھ رہا ہے
پرانے انداز کو نئے سے بدلا جا رہا ہے
 
عبیر خان
نے بھی یہی کوشش کی ہے کہ یہاں موجود اراکین کے ساتھ اسے ڈسکس کیا جائے
ہوسکتا ہے کوئی رکن اس کا فائدہ حاصل کرے ۔۔۔
اور اب پاکستان میں واقعی ٹیکنالوجی کے حوالے سے شعور پڑھ رہا ہے
پرانے انداز کو نئے سے بدلا جا رہا ہے
آپ کے خیال میں آنلائن مکینک یا زمین ڈاٹ کوم والے اپنا فائدہ نہیں نکال رہے فراز بھائی یہ سب بزنس ٹریکس ہیں آپ اس چیز کو ترقی نہیں گردان سکتے ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوتی...
اگر عوام تعلیم یافتہ ہی نہیں ہیں تو وہ ان چیزوں سے کیسے استفادہ حاصل کر سکتی ہے
 

باباجی

محفلین
آپ کے خیال میں آنلائن مکینک یا زمین ڈاٹ کوم والے اپنا فائدہ نہیں نکال رہے فراز بھائی یہ سب بزنس ٹریکس ہیں آپ اس چیز کو ترقی نہیں گردان سکتے ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوتی...
اگر عوام تعلیم یافتہ ہی نہیں ہیں تو وہ ان چیزوں سے کیسے استفادہ حاصل کر سکتی ہے
فائدہ سب ہی نکال رہے ہیں ۔۔ کوئی بھی بلا فائدہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن لوگوں تک پہنچ میں اضافہ ہورہا ہے
روزگار بڑھ رہا ہے ۔۔ پیسے کو سہولت کے لیئے دراصل اسی طرح استعمال کیا جانا چاہیئے ۔۔ ورنہ کیا فائدہ ایسے پیسے کا جس سے سہولت حاصل نا ہو
المیہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نا خواندہ کو تعلیم کا شعور نہیں دیتا بلکہ اسے حقیر جاننا اس کا حق بن جاتا ہے ۔۔
 

عبیر خان

محفلین
اچھی خبر ہے لیکن ترقی صرف ان آئیڈیاز سے نہیں آتی اس کے لیے عوام الناس کو شعور دینے کی ضرورت ہے
آپ کے خیال میں کتنے لوگ آن لائن مکینک یاں زمین ڈاٹ کوم سے استفادہ حاصل کر رہئے ہیں شاید 500 میں سے ایک بندہ ہی ان چیزوں سے مستفید ہو رہا ہے
جی آپ نے بلکل ٹھیک کہا۔ اس کے لیے لوگو کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔
 

یاز

محفلین
عہدِ حاضر میں ایسی (یعنی انٹرنیٹ یا ٹیلیفون کے ذریعے) سہولیات اور خدمات کا تیز تر فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خصوصا" شہروں میں زندگی کی رفتار اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے لیکن اہم کاموں کے لئے وقت نکالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں گھر بیٹھے اگر خدمات میسر آ سکیں تو دونوں فریقین کا بھلا ہے۔
دنیا بھر میں اس کا فروغ اس قدر تیزی سے ہو رہا ہے (بلکہ بہت حد تک ہو چکا ہے) کہ کچھ ہی عرصے میں عام دکانوں یا سٹورز کی نسبت آنلائن سٹورز کا کاروبار کہیں زیادہ ہو جائے گا۔
دیکھا جائے تو اس میں صارفین کے لئے بھی بہت بڑی سہولت ہے۔
مثال اس کی یوں لیجئے کہ جیسے کوئی چیز بازار میں ایک ہزار روپے کی دستیاب ہو، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کو خریدنے جانے کے لئے آپ کو چند سو روپے کا پیٹرول بھی جلانا پڑے اور اچھا خاصا وقت بھی صرف کرنا پڑے۔ پارکنگ کی عدم دستیابی اور چارجز اس پہ مستزاد۔ تو ایسے میں کوئی آنلائن سٹور وہی چیز آپ کو گھر بیٹھے گیارہ سو یا بارہ سو میں مہیا کر دے تو بظاہر مہنگا نظر آتے ہوئے بھی یہ کم خرچ آپشن ہے۔
 
Top