آپ نے بالکل بجا ارشاد فرمایا ۔۔۔ ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔
ہے کوئی اس بات سے انکار کرنے والا ؟؟؟؟
تو پھر آج ہمیں کیا ہو گیا ہے
جی اس بات سے انکار کرنے والے اعلیٰ حضرت ہیں، اور انہوں نے بہت سخت لہجے میں اختلاف کیا ہے۔۔ ہے کوئی اس بات سے انکار کرنے والا؟
۔حضرت شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی ۔سے کسی نے پوچھا کہ مسجد میں ہندوؤں سے منبر پر لیکچر دلوائے گئے اور کہا گیا کہ مسجد نبوی میں وفود کفار قیام کرتے تھے اور اپنے طریقہ سے عبادت بھی کرتے تھے اور کفار کا داخلہ مخصوص بمسجد حرام ایک خاص وقت کے واسطے منع تھا.. اس کے جواب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ کہنا کہ وفود کفار مسجد نبوی میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے، محض جھوٹ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے جائز رکھنے کا اشعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر افترائے فجار، حاشا کہ اللہ کا رسول گو بار بار فرمائے کہ کسی مسجد، نہ کہ خاص مسجد مدینہ کریمہ میں، نہ کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بتوں یا مسیح کی عبادت کی جائے..، جانتے ہو کہ اس سے ان کا مقصود کیا ہے یہ کہ مسلمان تو اسی قدر پر ناراض ہوئے ہیں کہ مشرک کو مسجد میں مسلمانوں سے اونچا کھڑا کرکے ان کا واعظ بنایا وہ تو اس تہیہ میں ہیں کہ ہندوؤں کو حق دیں کہ مسجد میں بت نصب کر کے ان کی ڈنڈوت کریں، گھنٹے بجائیں، سنگھ پھونکیں، کیونکہ ان مفتریوں کے نزدیک خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں خود حضور کے سامنے کفار اپنے طریقہ کی عبادت کرتے تھے:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسجد کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی.. جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا، کسی کافر کی حاضری معاذاللہ بطور استیلا و استعلاء نہ تھی، بلکہ ذلیل و خوار ہو کر یا اسلام لانے کے لیے یا تبلیغ اسلام سننے کے واسطے.. کہاں یہ اور کہاں وہ جو بدخواہان اسلام نے کیا، کہ مشرک کو بدرجہ تعظیم مسجد میں لے گئے، اسے مسلمانوں سے اونچا کھڑا کیا، اسے مسلمانوں کا واعظ و ہادی بنایا، اس میں مسجد کی توہین ہوئی اور توہین مسجد حرام، مسلمانوں کی تذلیل ہوئی اور تذلیل مسلمین حرام، مشرک کی تعظیم ہوئی اور تعظیم مشرک حرام، بدخواہی مسلمین ہوئی بلکہ بدخواہی اسلام، پھر اسے اسی پر قیاس کرنا کیسی سخت ضلالت و گمراہی ہے، طرفہ یہ کہ زبانی کہتے جاتے ہیں کہ مشرک کا بطور استعلاء مسجد میں آنا ضرور حرام ہے اور نہیں دیکھتے کہ یہ آنا بطور استعلاء ہی تھا:
"فانھا لا تعمی الابصار و لکن تعمی القلوب التی فی الصدور"
"پس بے شک آنکھیں اندھی نہیں اور لیکن دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں"
اس نا بینائی کی بنا پر یہ مسلمان کو دھوکا دینے والے یہاں حنفیہ و شافعیہ کا اختلافی مسئلہ کہ مسجد میں دخول کافر حرام ہے یا نہیں، محض دھوکا دینے کو پیش کرتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ اس مسئلہ میں تحقیق کیا ہے:
اولا: خود کتب معتمدہ حنفیہ سے ممانعت پیدا ہے...
ثانیا: خود محرر مذہب سیدنا امام محمد کے ارشاد سے منع ہویدا ہے...
ثالثا: علما و صلحا کا ادب کیا رہا ہے؟ اختلاف احوال زمانہ و عادات قوم ہمیشہ مسائل تعظیم و توہین میں دخل رکھتا ہے...
رابعا: غیر اسلامی سلطنت اور نا مسلموں کی کثرت میں اسکی اجازت کی اشا عت اور مساجد کو پامالی کفار کے لیے وقف کرنا کس قدر بہی خواہی اسلام ہے؟؟
خامسا: وہ نجس قوم کہ بہ نص قطعی قرآن اس پر حکم نجاست ہے اور وہ مسلمانوں کو ملیچھ کہے، بھنگی کی مثل سمجھے، سودا بیچے تو دور سے ہاتھ میں رکھدے، اسکے نجس بدن ناپاک پاؤں کے لیے تم اپنی مساجد کو وقف کرو، یہ کس قدر مصلحت اسلام کے گہرے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ان سب سے قطع نظر ان حرکات شنیعہ کا اس سے کیا علاج ہو سکتا ہے...
او گماں بردہ کہ من کردم چو او
فرق را کے بیند آں استیزہ چو
صحیح بخاری شریف میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"قال کانت الکلاب تقبل و تدبر فی المسجد فی زمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" "
"کہا زمانہ رسالت میں مسجد شریف میں کتے آتے جاتے تھے"
اب تم کتے خود اپنی مسجدوں اور مسجد الحرام شریف یا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لے جاؤ اور جمعہ کے دن امام کے داہنے بائیں منبر پر دو کتے بٹھاؤ.. تمہارے استدلال کی نظیر تو یہیں تک ہو گی، کہہ دینا کہ زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں نہ آتے جاتے تھے؟ ہم لے گئے اور منبر پر انہیں بٹھایا تو کیا ہوا؟؟ اور وہ جو آنے جانے اور یوں لے جانے اور منبر پر بٹھانے کا فرق ہے اس سے آنکھ بند کر لینا جیسے یہاں بند کر لی، کون سی آنکھ دل کی کہ
"تعمی القلوب التی فی الصدور"
بلکہ خدا تمہیں عقل و انصاف دے تو یہ بھی تمہارے فعل کی نظیر نہیں، تم خطیب کے آس پاس منبر پر کتے بٹھاؤ، اس سے وہ کتے خطیب نہ ہو جائیں گے اور تم نے مشرکین کو خطیب مسلمین بنایا لہذا اگر قدرے اپنے فعل سے تقریب چاہو تو ان کتوں کو سدھاؤ کہ جب امام پہلا خطبہ پڑھ کر بیٹھے، وہ نہایت بلند آواز سے بھونکنا اور رونا شروع کریں کہ باہر تک کے سب لوگوں کو خبر ہو جائے کہ جلسہ و دعا کا وقت ہے، یوں ہی نماز کے وقت آٹھ آٹھ دس دس صفوں کے فاصلے سے چار چار کتے صف میں کھٹرے کرو کہ تکبیر انتقال کے وقت چیخیں اور مکبروں سے زیادہ تبلیغ کا کام دیں اور یہی حدیث بخاری حجت میں پیش کر دینا کہ دیکھو زمانہ اقدس میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے، بلکہ ان کے آنے سے کوئی فائدہ نہ تھا اور ہم کتے اس نفع دینی کے لیے لے گئے تو بدرجہ اولی یہ جائز ہوا.. وہاں تک تو قیاس تھا یہ دلالتہ النص ہوئی اور اس میں جو تمارے استدلال کی خباثت ہے نہ دیکھنا، کیونکہ ٹھہر گئ ہے کہ:
"تعمی القلوب التی فی الصدور"
دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہے...
(فتاوی رضویہ جلد ۶صفحہ ۸۵۰۸۴)۰
مزید عرض ہے کہ حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب ضروری نوٹ کا عنوان قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ا
س وفد میں مسجد نبوی شریف میں اپنی عبادت اس وقت شروع کردی جب مسلمان نماز عصر پڑھ رہے تھے.. مسلمانوں نے بعد نماز انکو انکی عبادت سے نہ روکا.. اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب ہم مشرکوں کو اپنی مسجدوں میں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دیں.. ان کو نہ روکنا ایسا تھا جیسے ایک بدوی نے مسجد نبوی شریف میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے نہ روکو.. اس سے مسجدوں میں پیشاب پاخانہ کی اجازت نہ ہوگی... ( تفسیر نور العرفان صفحہ ۷۸).