محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کو عمار علی جان کی گرفتاری سے روک دیا
ویب ڈیسک | رانا بلالاپ ڈیٹ 01 دسمبر 2020
وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا —تصویر: رانا بلال
لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کو سماجی کارکن عمار علی جان کو گرفتار کرنے سے روک دیا اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ان کی گرفتاری کے حکم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
گزشتہ ہفتے عمار علی جان اس وقت گرفتاری سے بال بال بچنے میں کامیاب رہے تھے جب وہ لاہور کے چیئرنگ کراس پر طلبہ کے احتجاج میں شریک تھے جو پاکستان میں طلبہ کو درپیش مسائل کا اجاگر کرنے کے لیے ہوا تھا۔
ان کی گرفتاری کا حکم لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے جمعرات کو امن و عامہ سے متعلق قانون کے سیکشن 3 کے تحت جاری کیا تھا۔
احکامات میں عمار علی جان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ ‘امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں اور شہر میں امن برقرار رکھنے کے لیے انہیں گرفتار کرنا ضروری ہے، الزامات کے تحت انہیں 30 روز تک حراست میں رکھا جائے گا’۔
بعدازاں عمار علی جانب اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک کار میں احتجاج کے مقام سے روانہ ہوگئے تھے جس کا ان کے مطابق پولیس نے پیچھا بھی کیا۔
سماجی کارکن کی گاڑی کو قانون نافذ کرنے والے حکام نے گلبرگ مین بولیورڈ پر روکا اور عمار کو اتار کر پولیس چوکی پر لے گئے۔
پولیس اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد عمار اور ان کے دوستوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی کہ وہ 2 گھنٹوں میں سول لائنز پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر کے سامنے پیش ہوں گے۔
چنانچہ آج ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے پنجاب حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 17 دسمبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔
ان کی وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کا حکم دیا جو ایک پروفیسر ہیں اور ایف سی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
عمار علی جان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ایک استاد، لکھاری اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ قانون پر عملدرآمد کرنے والے محب وطن پاکستانی ہیں جنہیں غیر قانونی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وہ پہلے ہی 2 مقدمات میں نامزد ہیں جس میں انہوں نے ضمانت حاصل کررکھی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا عمار علی جان کا کوئی کرمنل ریکارڈ ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے روشنی میں کہا گیا کہ 'کسی بھی شخص کو اس کے خلاف صرف مقدمے کے اندراج پر حراست میں نہیں رکھا جاسکتا'۔
جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ (اگر اس کی اجازت دے دی گئی تو) پاکستان میں جو لوگ طاقتور ہیں وہ اپنے مخالفین کو کہیں نکلنے ہی نہیں دیں گے۔
بعدازاں فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
ویب ڈیسک | رانا بلالاپ ڈیٹ 01 دسمبر 2020
وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا —تصویر: رانا بلال
لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کو سماجی کارکن عمار علی جان کو گرفتار کرنے سے روک دیا اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ان کی گرفتاری کے حکم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
گزشتہ ہفتے عمار علی جان اس وقت گرفتاری سے بال بال بچنے میں کامیاب رہے تھے جب وہ لاہور کے چیئرنگ کراس پر طلبہ کے احتجاج میں شریک تھے جو پاکستان میں طلبہ کو درپیش مسائل کا اجاگر کرنے کے لیے ہوا تھا۔
ان کی گرفتاری کا حکم لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے جمعرات کو امن و عامہ سے متعلق قانون کے سیکشن 3 کے تحت جاری کیا تھا۔
احکامات میں عمار علی جان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ ‘امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں اور شہر میں امن برقرار رکھنے کے لیے انہیں گرفتار کرنا ضروری ہے، الزامات کے تحت انہیں 30 روز تک حراست میں رکھا جائے گا’۔
بعدازاں عمار علی جانب اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک کار میں احتجاج کے مقام سے روانہ ہوگئے تھے جس کا ان کے مطابق پولیس نے پیچھا بھی کیا۔
سماجی کارکن کی گاڑی کو قانون نافذ کرنے والے حکام نے گلبرگ مین بولیورڈ پر روکا اور عمار کو اتار کر پولیس چوکی پر لے گئے۔
پولیس اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد عمار اور ان کے دوستوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی کہ وہ 2 گھنٹوں میں سول لائنز پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس افسر کے سامنے پیش ہوں گے۔
چنانچہ آج ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے پنجاب حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 17 دسمبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔
ان کی وکیل حنا جیلانی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمار علی جان کی گرفتاری کا حکم دیا جو ایک پروفیسر ہیں اور ایف سی کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
عمار علی جان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ایک استاد، لکھاری اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ قانون پر عملدرآمد کرنے والے محب وطن پاکستانی ہیں جنہیں غیر قانونی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وہ پہلے ہی 2 مقدمات میں نامزد ہیں جس میں انہوں نے ضمانت حاصل کررکھی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا عمار علی جان کا کوئی کرمنل ریکارڈ ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کے روشنی میں کہا گیا کہ 'کسی بھی شخص کو اس کے خلاف صرف مقدمے کے اندراج پر حراست میں نہیں رکھا جاسکتا'۔
جسٹس قاسم علی خان نے ریمارکس دیے کہ (اگر اس کی اجازت دے دی گئی تو) پاکستان میں جو لوگ طاقتور ہیں وہ اپنے مخالفین کو کہیں نکلنے ہی نہیں دیں گے۔
بعدازاں فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
آخری تدوین: