اگر آپ کو نہیں معلوم تو گوگل کر لیجیے، اگر آپ کو معلوم ہے تو پھر سوال کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور اگر آپ کا اشارہ کسی اور طرف ہے تو پھر کھل کر اپنا مدعا بیان کیجیے۔
دعوی: دنیا میں کوئی سٹیٹ غیر جانبدار نہیں
دلیل: ہر سٹیٹ اپنے آئین کے لیے جانبدار ہوتی ہے۔
خواہ وہ رائٹ ونگ والی حکومت ہو یا لیفٹ ونگ والی۔
اپنے اپنے ونگ کے لیے جانبدار ہی ہوتی ہے اور غیر ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے
آپ پھر وہی بات دہرا رہے ہیں جس کا میں پہلے اظہار کر چکا ہوں۔ حکومت سٹیٹ نہیں ہے اس لیے چاہے وہ رائٹ ونگ ہو، لیفٹ ونگ ہو، پیپلز پارٹی ہو، نون لیگ ہو یا تحریک انصاف ہر کسی کا اپنا منشور ہے، اپنا نظریہ ہے جو خود سٹیٹ کو ڈیفائن نہیں کرتا۔ میں ذرا واضح الفاظ میں اس کی وضاحت پیش کرتا ہوں۔
آئین بنیادی طور پر وہ پیس آف پیپر ہے جس نے بادشاہت/آمریت و رعیت کے تعلق کو سٹیٹ و شہریت کے تعلق سے ریپلیس کیا۔ پہلے بادشاہ خود آئین ہوتا تھا اور ورچوئلی ابسلوٹ اختیارات رکھتا تھا وہ اپنی رعایا کو جیسے مرضی ٹریٹ کرے یہ اس کا ذاتی اختیار ہوتا تھا، شہریوں کے بنیادی حقوق اس کے مرہون منت تھے، جو اس کا مذہب ہوتا تھا وہ اسی کی سپانسرشپ کرتا تھا۔ آئین نے اس بادشاہت اور اس کے ورچوئلی ابسلوٹ اختیارات کے تصور کو ختم کر کے سٹیٹ و شہریت کے تعلق کا تصور دیا۔ اس کے مطابق نہ کوئی بادشاہ ہے اور نہ کوئی رعایا۔ اب صرف سٹیٹ ہے اور تمام اس کے شہری جو بنیادی طور پر رنگ، نسل، مذہب، ذات، برادری سے ماوراء برابر ہیں اور ایک جیسے حقوق رکھتے ہیں اور سٹیٹ کا نمائندہ وہ حقوق دینے کا پابند ہے۔ اب سٹیٹ ورچوئلی غیر جانبدار ہے اور شہری بادشاہ کی بجائے آئین کی پابند ہے۔ سٹیٹ کے امور چلانے کے لیے شہری اپنا جو نمائندہ منتخب کرتے ہیں وہ خود اسی آئین کے تابع ہے۔ اب وہ سٹیٹ پریمئر خود چاہے رائٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہو، لیفٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہو، اس کا اپنا چاہے کوئی بھی نظریہ ہو وہ آئین سے ماوراء نہیں ہو سکتا اور وہ خود سٹیٹ نہیں ہے بلکہ سٹیٹ ریپریزنٹیٹیو ہے۔ آئین ہر حال میں غیر جانبدار رہے گا حکومتیں چاہے جتنی بدلتی رہیں۔ اب آئین خود اگر پارٹی بن جائے تو پھر شہریت کی برابری کا اصول ہی ختم ہو جاتا ہے۔